0
Wednesday 11 Sep 2024 17:48
سربراہ ایرانی میڈیا کلچرل سنٹر کی اسلام ٹائمز کیساتھ خصوصی گفتگو

اسلامی جمہوریہ ایران کے پاس جعلی صیہونی رژیم کو جواب دینے کی قوت اور اس ارادے کو بروئے کار لانیکی طاقت دونوں موجود ہیں، مہدی شکیبائی

اسلامی جمہوریہ ایران کے پاس جعلی صیہونی رژیم کو جواب دینے کی قوت اور اس ارادے کو بروئے کار لانیکی طاقت دونوں موجود ہیں، مہدی شکیبائی
اسلام ٹائمز۔ ایرانی میڈیا کلچرل سنٹر کے سربراہ اور مزاحمتی میدان میں سرگرم صحافی مہدی شکیبائی نے تہران میں حماس کے سربراہ سیاسی بیورو اسمعیل ہنیہ کی مذموم ٹارگٹ کلنگ کا ذکر کرتے ہوئے تاکید کی ہے کہ اسمعیل ہنیہ ایک بہت ہی مہذب انسان تھے جنہوں نے فلسطینی گروہوں کے درمیان اتحاد پیدا کرنے کے لئے بہت زیادہ کوششیں کیں اور درحقیقت تمام فلسطینی گروہ بھی اپنے وطن و مقصد کے ناطے فلسطینی عوام کے درمیان اتحاد پیدا کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں اور کر رہے ہیں جبکہ قبل ازیں غاصب صیہونی رژیم کے خلاف جدوجہد میں فلسطینی گروہوں کے درمیان اتحاد پیدا کرنے کے لئے حماس دیگر فلسطینی عناصر سے بھی قبل کی کوششیں جاری رکھے ہوئے ہے۔

مہدی شکیبائی نے زور دیتے ہوئے کہا کہ یہ بات کہ ٹارگٹ کلنگ کا یہ اقدام فلسطینیوں کے درمیان مزاحمت کے عمل اور یہاںتک کہ ان کے اتحاد کو بھی نقصان پہنچائے گا؛ تو کم از کم تجربے سے یہ ثابت ہو چکا ہے کہ ایسا نہیں ہو گا کیونکہ کسی بھی فلسطینی مجاہد کے قتل یا شہادت کے ساتھ ہی ایک دوسرا مجاہد مزاحمت و جہاد کا پرچم بلند کرتے ہوئے مزاحمت و جہاد کی راہ پر گامزن ہو جاتا ہے جیسا کہ سال 1948ء سے یعنی فلسطینی سرزمین پر قبضے کے بعد سے ایسا ہی ہوا ہے اور اس کی بہت سی مثالیں دی جا سکتی ہیں مثلا سال 2003ء میں غاصب صیہونی رژیم نے اسی سوچ کے تحت مزاحمتی رہنماؤں کی ٹارگٹ کلنگ کے ذریعے مزاحمت کا راستہ روکنے کی کوشش کی اور حماس کے روحانی پیشوا شیخ احمد یسین کو غزہ کی پٹی میں ہیلی کاپٹر کے ذریعے ہونے والے اپنے ایک ہوائی حملے میں شہید کر دیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ غاصب صہیونیوں کا خیال تھا کہ حماس کی نمبر ون شخصیت کو نشانہ بنا کر وہ اس تحریک کی مزاحمت کا راستہ منحرف کر سکتے ہیں یا کم از کم اس کے عناصر کو روک سکتے ہیں لیکن ہم نے دیکھا کہ سال 2006ء میں حماس کہ جو اپنے روحانی پیشوا کو کھو چکی تھی، ایک ایسے آزاد انتخابی عمل کہ جس کی نگرانی خود یورپی یونین بھی کر رہی تھی، میں فلسطینی کمیونٹی کی بھاری حمایت حاصل کرنے اور وہ انتخابات اپنے دیرینہ حریف، فتح تحریک سے جیتنے میں کامیاب ہوئی کہ جسے یورپیوں سمیت امریکیوں اور خود غاصب صیہونیوں کی حمایت بھی حاصل تھی، یہاںتک کہ اس نے خود حکومت، یعنی فلسطینی اتھارٹی اور قانون ساز اسمبلی کا اختیار بھی حاصل کر لیا!
 
انہوں نے تاکید کرتے ہوئے کہا کہ لہذا کہا جا سکتا ہے کہ مزاحمتی عناصر کی ٹارگٹ کلنگ، اگرچہ ایک ناقابل تلافی نقصان ہے لیکن اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ مزاحمت کی بڑھتی ہوئی تحریک کبھی رُک جائے گی اور ہم نے دیکھا کہ اس کے بعد، حماس نے نہ صرف حکومت و پارلیمنٹ کو اپنے اختیار میں لیا بلکہ اس نے مزاحمت کے عسکری میدان میں بھی انتہائی عظیم پیشرفت حاصل کی حتی کہ وہ فلسطینی سرزمین کے اندر غاصب صیہونی رژیم کے خلاف رعب و دبدبے پر مبنی ایک نئی مساوات قائم کرنے میں بھی کامیاب ہوئی!

سربراہ ایرانی میڈیا کلچرل سنٹر نے تاکید کرتے ہوئے کہا کہ یاد رہے کہ یہ تمام واقعات عین اُس وقت رونما ہوئے تھے کہ جب جعلی صیہونی رژیم نے حماس کے اولین رہنما شیخ احمد یاسین کو قتل کیا تھا لیکن ہم نے دیکھا کہ مذکورہ بالا خدشے جیسا کوئی اتفاق پیش نہ آیا، لہذا جناب اسمعیل ہنیہ کی ٹارگٹ کلنگ بھی بلا شک و شبہ؛ فلسطینی جہادی تحریک اور فلسطینی تنظیموں کی راہ میں کوئی رکاوٹ پیدا نہیں کرے گی جبکہ ہم نے دیکھا ہے کہ اسمعیل ہنیہ کی شہادت کے بعد یحیی السنوار کو حماس کے سیاسی بیورو کا نیا سربراہ منتخب کیا گیا ہے جبکہ خود اسی امر نے بھی غاصب صیہونیوں کے دلوں میں موجود رعب و وحشت میں کئی گنا کا اضافہ کر دیا ہے!

اس بات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہ جناب اسمعیل ہنیہ نے خالد مشعل کے بعد حماس کی تقریباً 13ویں یا 14ویں مدت کی قیادت سنبھالی، مہدی شکیبائی نے زور دیتے ہوئے کہا کہ اس دوران وہ اسلامی ممالک میں حماس کی حیثیت کو بہتر بنانے میں کامیاب رہے اور درحقیقت انہوں نے فلسطین کے اندر حماس کی صلاحیتوں کو بہتر بنانے کی کوشش بھی کی اور بالخصوص عسکری میدان میں حماس کو اس سطح تک پہنچانے کی کوشش کی کہ جہاں وہ فلسطینیوں کے حق میں غاصب صیہونی رژیم کے خلاف طاقت کا ایک توازن قائم کر سکے۔

انہوں نے کہا کہ یہ تمام واقعات درحقیقت جناب اسمعیل ہنیہ کے دور میں وقوع پذیر ہوئے اور اس سے اس تحریک کے سیاسی و عسکری میدان میں اُن کے اہم کردار کا پتہ چلتا ہے جبکہ اس کے ساتھ ساتھ کہ وہ ایک سیاسی شخصیت تھے، ایک مذہبی شخصیت بھی تھے کیونکہ جب ان کے پاس حماس میں کوئی اعلی ذمہ داری نہ تھی تو وہ غزہ کی پٹی میں فلسطینیوں کے امام جماعت و جمعہ تھے جبکہ یہ پہلو بھی فلسطینی مسلمانوں کی توجہ کا مرکز رہا تھا جس کے فلسطینی معاشرے پر انتہائی اہم اثرات ہیں، خاص طور پر طوفان الاقصی کے آغاز کے بعد ہمارے پاس اس حقیقت کے بارے بہت سی خبریں پہنچتی رہیں کہ غاصب صیہونی رژیم کے ہاتھوں ہنیہ خاندان کے بہت سے افراد شہید ہوئے جو کہ بذات خود مسئلہ فلسطین میں ان کے موثر کردار کی جانب اشارہ ہے، یعنی وہ ان لیڈروں میں سے نہ تھے کہ جو کسی ایک کونے میں بیٹھ کر اپنی خیر مناتے اور اپنے بچوں و خاندان والوں کو فلسطین سے باہر نکال لیتے، کیونکہ ہم نے دیکھا کہ وہ منظر عام رہے اور ہم ہر کچھ وقت کے بعد سنتے تھے کہ غزہ کی پٹی میں جاری غاصب صیہونی رژیم کی انسانیت سوز جارحیت میں ان کے خاندان کا کوئی فرد شہید ہوا ہے!

انہوں نے تاکید کی کہ غاصب صیہونیوں کو جان لینا چاہیئے کہ مزاحمت کا راستہ کہ جو سال 1948ء اور اس سے بھی پہلے برطانوی استعمار کے دور میں شروع ہوا تھا، بلا شک و شبہ جاری رہا ہے اور رہے گا!

اسمعیل ہنیہ کی ٹارگٹ کلنگ پر اسلامی جمہوریہ ایران کے ردعمل کے بارے مہدی شکیبائی نے کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران بلاشبہ کسی قسم کا تکلف روا نہیں رکھے گا جبکہ اب جب تہران میں جناب اسمعیل ہنیہ کو ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا گیا ہے، غاصب صیہونیوں کو یہ یاد دلانا ضروری ہے کہ جواب "یقینی" ہے جیسا کہ اسلامی جمہوریہ ایران پہلے بھی، وعدۂ صادق آپریشن میں اپنا مستحکم ارادہ ثابت کر چکا ہے!

اپنی گفتگو کے آخر میں مہدی شکیبائی کا کہنا تھا کہ اسلامی جمہوریہ ایران نے دمشق میں واقع ایرانی قونصلخانے پر غاصب صیہونی رژیم کے جارحانہ حملے کے بعد ثابت کیا کہ اس کے پاس غاصب صیہونی رژیم کو جواب دینے کا ارادہ اور اس ارادے کو بروئے کار لانے کی طاقت؛ دونوں موجود ہیں!!
خبر کا کوڈ : 1159376
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش