0
Thursday 4 Jan 2024 22:04

کرمان کا خانہ بدوش جرنیل

کرمان کا خانہ بدوش جرنیل
تحریر: سید اسد عباس

"زندگی کے ابتدائی دور میں میرے والد نے انتہائی غربت میں زندگی گزاری، تاہم آہستہ آہستہ وہ مویشیوں کے مالک بنتے گئے۔ ان کے پاس مویشیوں کی تعداد اتنی زیادہ ہوگئی کہ کبھی کبھار ان کو ایک یا دو چرواہے رکھنے پڑتے تھے۔ان کی زندگی کا پہلا ثمرہ سکینہ تھی، جو تین برس کی عمر میں انتقال کر گئی، کچھ عرصے بعد میری بہن ہاجر اور بھائی حسین پیدا ہوئے اور اس کے بعد میں، 1956ء میں پیدا ہوا۔" یہ الفاظ ہیں اس عظیم جرنیل کے، جس نے اس صدی میں مسلم دنیا میں عملی مقاومت کو از سر نو زندہ کیا، جس کی حکمت عملی، جدوجہد اور حسن انتظام سے شام اور عراق اپنی ریاستی خود مختاری نیز سالمیت کو برقرار رکھنے اور اس کا تحفظ کرنے میں کامیاب ہوئے۔

مقاومت اسلامی کا وہ استعارہ، جس نے نہ فقط خود حرم ہائے مقدسہ عراق و شام کی حفاظت کی بلکہ ایسے گروہ تیار کیے، جو ان مقدسات کے تحفظ کے لیے سربکف ہوکر میدان میں اترے۔ ان مقاومتی گروہوں نے تحفظ مقدسات کے ساتھ ساتھ مغرب و مشرق کے طاغوتوں کو ان کے قبیح ارادوں میں ناکام کیا۔داعش جیسے شدت پسند اور تکفیری گروہ کو لگام ڈالی اور ان کو اسی خاک میں دفن کر دیا، جس سے وہ پیدا ہوئے تھے۔ محبت اہل بیت ؑ ، وطن پرستی، مراجع کے فتاویٰ اگرچہ سب اپنی جگہ اہم تھے، تاہم ان جذبات و احکامات کو یکجا کرکے ایک فعال اور عملی قوت کی شکل دینے کا سہرا شہید قاسم اور ان کے ساتھیوں کے سر ہے۔

مجھے اچھی طرح سے یاد ہے کہ جب شام پر مختلف شدت پسند گروہوں کے حملوں کو آغاز ہوا اور ان کا رخ دمشق میں سیدہ زینب سلام اللہ علیھا کے مزار کی جانب تھا تو کچھ عراقی جنگجو میدان عمل میں موجود تھے اور چھوٹی چھوٹی ٹکڑیوں میں دفاع حرم کی ذمہ داریاں سرانجام دے رہے تھے۔ شدت پسند گروہ دمشق کے اطراف میں پھیلے ہوئے تھے اور انھوں نے اعلان کیا تھا کہ ہم اس روضہ کو مسمار کرکے شرک کا منبع ختم کر دیں گے۔ دمشق کی آخری امید یہی عراقی جنگجو تھے، جو اپنے طور پر حرم کی حفاظت کے لیے جانیں ہتھیلی پر رکھے لڑ رہے تھے۔ روزانہ شہادتیں ہوتی تھیں اور روزانہ نئے جانباز شہیدوں کی جگہ لے لیتے تھے۔

عراق کی صورتحال بھی کچھ اچھی نہ تھی، موصل سے اٹھنے والا داعش کا طوفان سامرہ کی دیواروں سے ٹکرا رہا تھا۔ سامرہ میں امام حسن عسکری علیہ السلام اور امام علی نقی علیہ السلام کے مزار کو دھماکے سے اڑایا جا چکا تھا اور داعش کا اعلان تھا کہ وہ جلد ہی کربلا، نجف و کاظمین تک پہنچیں گے اور وہاں موجود مزارات کو بھی تباہ کر دیں گے۔ عراق اور شام کی افواج یا تو ہتھیار پھینک کر فرار کرچکی تھیں یا شدت پسندوں کے ساتھ مل چکی تھیں۔ صحابی امیر المومنین حضرت حجر بن عدی کی قبر کشائی، حضرت عمار کے مزار پر حملہ، رقیہ بنت علی کے مزار پر بمباری ابھی کل کے ہی واقعات ہیں۔ اس موقع پر مرجع شیعان جہان آیت اللہ سید علی حسینی سیستانی نے جہاد کا فتوی دیا، جس سے عراقی رضاکاروں کی ایک بڑی تعداد نے فوجی مراکز کا رخ کیا، تاہم مشکل ان رضاکاروں کی تربیت اور انھیں مسلح کرنا تھا۔

اس موقع پر شہید سلیمانی میدان عمل میں اترے اور انھوں نے عراق میں ایک ایسی رضاکار فورس کی بنیاد رکھی، جس نے چند ماہ میں ہی داعش کا کامیابی سے مقابلہ کرنا شروع کیا۔ آج یہ رضاکار فورس الحشد الشعبی کے نام سے جانی جاتی ہے۔ یہی عمل شام میں بھی دہرایا گیا، دمشق کے اطراف میں لڑی جانے والی جنگ حلب تک پہنچ گئی۔ داعش کس نے اور کیوں بنائی، عراق اور شام پر حملے کیوں کیے گئے، ان سب پر بہت کچھ لکھا گیا ہے، جو اس دور میں لکھی جانے والی تحریروں میں دیکھا جاسکتا ہے۔ اس تاریخ کو محفوظ کرنے کی ضرورت ہے، تاکہ یہ تحریک آئندہ نسلوں کے لیے بھی سرمایہ ہو۔

شہید سلیمانی نے فلسطینیوں اور افغانیوں کو بھی طاقت حاصل کرنے، دشمن سے لڑنے میں مدد کی۔ جہاد فلسطین، حماس متعدد مقامات پر اس بات کا اظہار کرچکے ہیں کہ ان کی کامیابیوں کے پیچے شہید قاسم کا ہی ہاتھ ہے۔یہی وجہ ہے کہ فلسطینیوں نے شہید قاسم کو شہید قدس کا لقب دیا۔ شہید قاسم نے نہ جانے کس زمانے میں اپنی زندگی کے ابتدائی ایام سے متعلق ایک یاداشت تحریر کی، جو کہ فارسی زبان میں "از چیزی نمی ترسیدم" کے عنوان سے شائع ہوچکی ہے، اس کا اردو ترجمہ حال ہی میں شائع ہوا ہے۔ یہ تحریر اگرچہ ایک چھوٹا سا کتابچہ ہے، تاہم شہید کے زندگی کے ابتدائی حالات سے متعلق اس سے بہتر روایت کا ملنا ممکن نہیں۔ اس روایت میں شہید قاسم کے ایک عام خانہ بدوش لڑکے سے عظیم جرنیل بننے کا سفر خود شہید قاسم کے قلم سے بیان ہوا ہے۔ شہید قاسم اپنی خود نوشت میں اپنے خاندان، اپنی زندگی کے ابتدائی حالات، غربت، تنگ دستی اور مشکلات کا تفصیلاً ذکر کرتے ہیں۔

سخت سردی، برف باری، لباس کی کمیابی، جوتوں کے پیوند، سنگلاخ وادیوں میں پیروں کا چھلنی ہونا، گھر کے حالات، دو کمروں پر مشتمل مکان جس میں ایک کمرہ جانوروں کا باڑہ اور سٹور تھا جبکہ دوسرے کمرے میں تمام اہل خانہ رہتے تھے، خوراک کی کمی، حصول تعلیم کی مشکلات اور مراحل، خانہ بدوشوں کی ثقافت، ان کی زندگی کی مشکلات، کرمان کے جنگلات، باغات، جھرنے، کرمان کی بہار، گھر میں مہمانوں کی آمد، قبیلے کی خواتین کی مزارات پر حاضری، بچوں کا نیاز سے لطف اندوز ہونا، مہمان کی آمد پر بچوں کا سیر ہوکر کھانا کھانا، محرم الحرام کے اجتماعات، والدین کی دین دوستی اور احکام شریعت کی پابندی، مہمان نوازی، رحمدلی۔

تیرہ برس کی عمر میں روزگار کے حصول کے لیے کرمان کا سفر، مزدوری، ہوٹل پر ملازمت، پانی کے محکمے میں ملازمت، پہلوانی ، مارشل آرٹس، انقلابی نوجوانوں سے ملاقات، غرضیکہ اس مختصر تحریر میں وہ تمام تفصیلات موجود ہیں، جو شہید سلیمانی کے ماضی سے متعلق جاننے والوں کے لیے اہم ہوسکتی ہیں۔ اس کتابچے کے ایک واقعہ سے ہی اپنی تحریر کا اختتام کرتا ہوں اور چاہوں گا کہ اس کتابچے کا مطالعہ کیا جائے، تاکہ معلوم ہوسکے کہ ایک بڑی  اور کامیاب شخصیت کی تشکیل کے لیے کن کن عوامل کی ضرورت ہے۔

"ہم تینوں ایک میز پر بیٹھ گئے، سید جواد نے پوچھا: کیا آپ نے کبھی ڈاکٹر علی شریعتی کا نام سنا ہے۔؟ میں نے کہا نہیں، وہ کون ہیں۔؟ سید جواد نے کہا کہ وہ ایک استاد ہیں اور انھوں نے شاہ کے خلاف کئی کتابیں لکھی ہیں۔ سید جواد کے دوست حسن نے پوچھا، کیا آپ امام خمینی کو جانتے ہیں۔؟ میں نے کہا نہیں۔ حسن نے کہا تم کس کے مقلد ہو۔؟ میں نے کہا مقلد کیا ہوتا ہے۔؟ ان دونوں نے ایک دوسرے کی جانب دیکھا اور پھر مجھے اس شخص کا تفصیلی تعارف کروایا، جسے وہ امام خمینی کہہ رہے تھے۔ سید حسن نے چاروں جانب دیکھ کر اپنی قمیص کی جیب سے ایک ادھیڑ عمر آدمی کی تصویر نکالی، جس کے نیچے لکھا تھا۔ آیت اللہ العظمیٰ سید روح اللہ خمینی۔"
خبر کا کوڈ : 1107064
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش