محمد ابراہیم خان صاحب کا تعلق پشاور سے ہے، انکا شمار صوبہ کے معروف اور سینیئر صحافیوں و تجزیہ نگاروں میں ہوتا ہے، انہوں نے صحافت اور پولیٹیکل سائنس میں ماسٹرز کی ڈگریاں حاصل کر رکھی ہیں، ملکی و بین الاقوامی حالات پر گہری نظر رکھتے ہیں، خاص طور پر افغانستان کے ایشو پر انکی بہت اچھی گرپ ہے۔ ابراہیم خان صاحب پاکستان یونین آف جرنلسٹس کی مرکزی ذمہ داریوں سمیت متعدد مرتبہ پشاور پریس کلب کے مختلف عہدوں پر بھی فرائض ادا کرچکے ہیں۔ اسلام ٹائمز نے مختلف امور پر محترم ابراہیم خان کیساتھ خصوصی انٹرویو کا اہتمام کیا، جو قارئین کے پیش خدمت ہے۔ادارہ
اسلام ٹائمز: کورونا کی وبا کو کب تک مسلط اور اسکے بعد کی دنیا کو کیسے دیکھ رہے ہیں۔؟
ابراہیم خان: بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔ سب سے پہلے تو آپ کا شکریہ، اس میں کوئی شک نہیں کہ اس وبا نے پوری دنیا کا نظام جام کرکے رکھ دیا، بڑی بڑی طاقتیں بے بس نظر آئیں، دنیا کی معیشت بیٹھ گئی۔ اقتصادی قوتیں کمزور ہوگئیں اور اس کے اثرات کئی سالوں تک دنیا پر موجود رہیں گے۔ جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے تو مجموعی طور پر کورونا پر یہاں کسی حد تک کنٹرول رہا ہے، ہمارے اتنے وسائل نہیں تھے کہ اگر یہ وبا خطرناک طریقہ سے پھیلتی تو ہم اس کو کنٹرول کرسکتے۔ فی الحال تو اس کے بارے میں کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا کہ پاکستان اور پوری دنیا کو اس سے کب چھٹکارہ ملتا ہے۔
تاہم ایک بات خوش آئند ہے کہ پاکستان میں حالات کچھ بہتری کی جانب جاتے نظر آئے ہیں، گو کہ خیبر پختونخوا میں وائرس تیزی سے پھیلا، لیکن مجموعی طور پر کنٹرول کرنے کی کوشش بھی کی گئی، لاک ڈاون میں نرمی آئی اور کسی حد تک معمولات زندگی بھی بحال ہوئے ہیں۔ جہاں تک آپ کے سوال کے دوسرے حصے کا تعلق ہے تو میں یہ کہوں گا کہ کورونا نے دنیا کو تبدیل کرکے رکھا دیا ہے اور یہ وبا بہت دیر تک یاد رکھی جائے گی۔ اس کے اثرات انتہائی دیر تک محسوس کئے جاتے رہیں گے، کبھی ایسا نہیں ہوا کہ کسی بیماری نے ایک ہی وقت میں پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہو۔
اسلام ٹائمز: افغان جنگ کے حوالے سے امریکہ اور طالبان کے مابین تاریخی معاہدہ طے پاتا ہے، لیکن موجودہ صورتحال کوئی تسلی بخش نظر نہیں آرہی، کیا دونوں فریق معاہدے کی پاسداری کر پائیں گے۔؟
ابراہیم خان: اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ معاہدہ اس پورے خطے کیلئے بہت اہمیت کا حامل ہے، تاہم اس کا نتیجہ دنوں فریقوں کے رویہ پر منحصر ہے، آپ نے درست کہا طالبان کا رویہ بھی جارہانہ نظر آرہا ہے اور دوسری طرف افغان حکومت کا کردار یہاں بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ افغانستان میں اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ کی نوک جھونک کیوجہ سے اندرونی سطح پر مسائل اور افراتفری ہے، جو حالات پر اثرانداز ہوسکتی ہے۔ جب تک افغانستان میں اندرونی سطح پر معاملات ٹھیک نہیں ہو جاتے، اس وقت تک کچھ نہیں کہا جاسکتا، البتہ اگر افغان حکومت طالبان قیدیوں کی رہائی کے حوالے سے کوئی بڑا قدم اٹھاتی ہے تو اعمتاد کی فضاء بحال ہوسکتی ہے۔
اسلام ٹائمز: طالبان کیجانب سے امریکہ اور افغان حکومت کا جنگ بندی کا مطالبہ مسترد کرنا حالات کو کس طرف لیجا سکتا ہے۔؟
ابراہیم خان: امریکہ اور اشرف غنی حکومت نے رمضان المبارک کے احترام میں فائر بندی کا مطالبہ کیا تھا، لیکن طالبان نے ان مطالبات کو سختی سے مسترد کر دیا، امریکی افواج نے طے شدہ معاہدے کے مطابق چودہ ماہ میں فوجی انخلا کو یقینی بنایا ہے۔ اگر دونوں جانب سے اعتماد بحال نہ ہوا تو ایسا ممکن ہونا مشکل ہے۔ اب یہ امریکہ پر منحصر ہے کہ وہ افغان حکومت سے متعلقہ شرائط پر کتنی جلدی اور کیسے عمل کرواتا ہے۔
اسلام ٹائمز: آپکے خیال میں پاکستان سمیت خطہ کے ممالک افغانستان کی موجودہ پوزیشن کے حوالے سے کیا سوچ رکھتے ہونگے۔؟
ابراہیم خان: میرے خیال میں پاکستان، چین اور ایران تینوں چاہتے ہیں کہ امریکہ خطہ سے نکل جائے، پاکستان تو طالبان اور امریکہ کے مابین مذاکرات کرانے میں پیش پیش رہا ہے، خطہ کے ممالک افغان جنگ کا پرامن حل چاہتے ہیں، امریکہ کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ ہر جنگ اپنی سرحدوں سے دور رکھے، کوئی بھی ملک اس بات پر خوش نہیں ہوتا کہ جنگ اس کی سرحد کے قریب ہو، لہذا خطہ کے ممالک یہی چاہیں گے کہ افغانستان میں جنگ فوری طور پر ختم ہو، وہاں استحکام اور ترقی ہو۔ اگر افغانستان میں امن ہوگا تو خطہ میں بھی امن ہوگا۔ پرامن افغانستان اور خطہ سے امریکی انخلا پاکستان، چین اور ایران تینوں کو سوٹ کرتا ہے۔
اسلام ٹائمز: عالمی سطح پر تیل کی گرتی ہوئی قیمتوں سے کیا امریکی معیشت کو کوئی فرق پڑیگا۔؟
ابراہیم خان: تیل کی قیمتیں دنیا کی معیشت میں اہم رول ادا کرتی ہیں، اس طریقہ سے عالمی سطح پر تیل کی قیمتوں کا گرنا غیر معمولی بات ہے، امریکی تیل کی قیمت اس قدر گری ہے کہ کوئی مفت لینے کو بھی راضی نہیں، لہذا میں سمجھتا ہوں کہ اس صورتحال کا اثر پوری دنیا کی معیشت پر پڑ رہا ہے، ساتھ ہی ساتھ تیل کی قیمتوں کا گرنا اور کورونا کی وجہ سے امریکی معیشت تباہی کی جانب گامزن ہے۔ یہ صورتحال امریکہ سمیت چند عالمی قوتوں کی رسہ کشی ہے، دیکھتے ہیں کہ کون جیتتا اور کس کا ہاتھ خالی ہوتا ہے۔
اسلام ٹائمز: چین اور امریکہ کے درمیان کورونا کے معاملہ پر لفظی جنگ جاری ہے، اسکا ذمہ دار ہے کون۔؟
ابراہیم خان: اس حوالے سے چین اور امریکہ دونوں ایک دوسرے پر براہ راست الزامات عائد کرچکے ہیں، چین کا کہنا ہے کہ امریکی فوجی یہ وائرس چین لیکر آئے جبکہ امریکہ الٹا چین کو اس کا ذمہ دار قرار دے رہا ہے۔ جو یہ بات ثابت کرتی ہے کہ دال میں کہیں تو کچھ کالا ضرور ہے۔ البتہ صورتحال ابھی واضح نہیں۔ ابھی تو دنیا کے بیشتر ممالک کورونا سے لڑ رہے ہیں، اس لڑائی سے جب دنیا فارغ ہوگی، تب اس طرف توجہ مبذول ہوگی کہ اس وائرس کا ذمہ دار کون تھا۔ تاہم حالات یہ ضرور بتا رہے ہیں کہ وائرس کہیں نہ کہیں سے آیا ضرور ہے۔