0
Wednesday 15 Apr 2020 20:07

موجودہ حکومت کیوجہ سے پاکستان کے خلیجی ممالک کیساتھ تعلقات میں توازن نہیں رہا، چوہدری حامد حمید

موجودہ حکومت کیوجہ سے پاکستان کے خلیجی ممالک کیساتھ تعلقات میں توازن نہیں رہا، چوہدری حامد حمید
پنجاب کا ضلع سرگودہا پاکستان مسلم لیگ نون کا گڑھ سمجھا جاتا ہے، چوہدری حامد حمید پی ایم ایل این کے اہم رہنماء ہیں۔ 80 کی دہائی میں نوجوان لیڈر کے طور پر سیاست میں قدم رکھنے والے لیگی رہنماء، بنیادی طور پر تاجر برادری سے تعلق رکھتے ہیں، پاکستان مسلم لیگ نون کے دیرینہ رکن قومی اسمبلی نے انتخابی سیاست کا آغاز بلدیاتی سیاست سے کیا اور سرگودہا کے کامیاب میئر رہے، بعد ازاں رکن اسمبلی منتخب ہوتے رہے، مسلم لیگ نون کی قیادت کے وفادار ترین سمجھے جانیوالے رکن قومی اسمبلی کا اسلام ٹائمز کیساتھ انٹرویو قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔﴿ادارہ﴾

اسلام ٹائمز: کرونا وائرس ایک مہلک وباء ہے، کیا ان حساس حالات میں حکومتی اقدامات میں مزید بہتری کی گنجائش ہے۔؟
چوہدری حامد حمید:
حققیت یہ ہے کہ حکومت اب بھی کنفیوژن میں مبتلا ہے، اس مسئلے پر قابو پانے کیلئے ضروری حکمت عملی نہ ہونے کی وجہ سے اب یہ وباء کنٹرول سے باہر ہوسکتی ہے، سب سے پہلے یہ ہونا تھا کہ یہ وباء ملک میں آنے سے روکنے کیلئے اقدامات کیے جاتے، جب یہ وائرس ملک میں داخل ہوگیا تو شروع سے ہی یکسوئی کیساتھ کرفیو کی طرز پہ لاک ڈاون کیا جانا چاہیئے تھا، اس کے بعد جب جانیں بچا لی جاتیں تو آہستہ آہستہ ایک ترتیب کیساتھ ایک طریقہ کار بنا کر ضرورت کے مطابق ایک ایک شعبے کو کھولا جاتا۔ لیکن ایسا نہیں کیا گیا بلکہ صوبوں کو بھی کنفوژ کیا جا رہا ہے۔ جہاں تک ممکن ہو کاروبار کو اس شرط کے ساتھ کھولنے کی اجازت دیں کہ احتیاط کی جائے گی، دکان میں رش نہیں ہونے دیا جائے گا۔ میڈیا کے ذریعے لوگوں میں خوب آگاہی پھیلائیں کہ جب گھروں سے نکلیں یا رش والی جگہوں پر جائیں تو ماسک پہن کر جائیں۔

ہر مارکیٹ کے داخلی دروازوں پر اسپرے کرنے والے گیٹ نصب کرنے کے لیے کاروباری طبقہ کو ہدایات جاری کی جائیں۔ مارکیٹس اور شاپنگ پلازوں کے لیے بھی ایس او پیز بنائیں، تاکہ احتیاط کے ساتھ وہ بھی اپنا کاروبار دوبارہ شروع کرسکیں۔ ہمارے پاس اتنا پیسہ نہیں کہ لوگوں کو گھروں میں مہینوں تک بٹھا کر کھانے پینے کی اشیا پہنچا سکیں۔ ہماری معیشت کے حالات پہلے ہی بُرے ہیں جبکہ غربت جو پہلے ہی یہاں بہت تھی، اب تو اتنی بڑھ گئی ہے کہ سوچ کر ڈر لگتا ہے کہ لوگ بیچارے کیسے گزارا کر رہے ہوں گے۔ حکومت نے ایک کروڑ بیس لاکھ خاندانوں کو بارہ بارہ ہزار روپے دینا شروع کیے ہیں، لیکن ایک تو غریب اور ضرورت مند اس سے بہت زیادہ ہیں اور دوسرا بارہ ہزار سے غریب دو ماہ سے زیادہ کہاں گزارا کرسکتا ہے۔

اسلام ٹائمز: کیا حکمت عملی مرتب کرنے میں فوج اور دیگر ریاستی ادارے حکومت کیساتھ نہیں کھڑے؟ اس بارے میں تنہاء حکومت کامیابی سے ہمکنار ہوسکتی ہے۔؟
چوہدری حامد حمید:
ایسی کسی بھی صورتحال کا درست حل نکالنے کیلئے قومی سطح پر مفاہمت کا ہونا ضروری ہے، پاکستان کا ہر ادارہ، ہر شہری، سیاسی جماعتیں، مذہبی طبقہ، تاجر اور مزدور و کسان سب شامل ہوں۔ اس وقت ملک کو سب سے بڑا مسئلہ یہی درپیش ہے کہ موجودہ وزیراعظم سب کچھ کرسکتے ہیں، لیکن ملکی سطح پر مفاہمت اور یکجہتی کیلئے کوئی قدم نہیں اٹھا سکتے۔ اس کا تقاضا یہ ہے کہ تمام ریاستی ادارے اس کا احساس کریں اور ملک و قوم کے مفاد کے پیش نظر تمام طبقات اپنے حصے کا کردار ادا کریں۔ اس میں جو مشکلات آرہی ہیں، ان کے خاتمے کیلئے سب جماعتوں کی جانب سے اب بھی اور اس وباء کے شروع میں بھی حکومت کو مل کر کام کرنیکی پیشکش کی گئی۔

لیکن اندرونی اخلافات کیوجہ سے حکومت نے کوئی رسپانس نہیں دیا۔ اب یہ باتیں کھل کر سامنے آگئی ہیں کہ جو اپوزیشن جماعتوں کو باہمی اختلافات کا طعنہ دیا جا رہا تھا، اس سے زیادہ حکومتی صفوں اور بالخصوص پی ٹی آئی کے اپنے اندر تقسیم اور جھگڑا موجود ہے، اپوزیشن جماعتوں کا کوئی ایسا مفاد نہیں تھا، جس کی وجہ سے کسی اتفاق رائے پہ نہ پہنچ سکیں، لیکن جن لوگوں کے ہاتھ حکومت کی باگ ڈور آگئی ہے، وہ اپنے زیادہ سے زیادہ مفادات کیلئے جنگ میں مصروف ہیں، جس کے اثرات اس وباء اور ایمرجنسی کی کیفیت میں کھل کر سامنے آرہے ہیں۔

اسلام ٹائمز: پاکستان کی معیشت پہلے ہی تباہ حالی کا شکار ہے، اب چین سے بھی امداد کے طور پر صرف ماسک آئینگے، مستقبل کیا ہوگا اور اسکا مقابلہ کیسے کیا جا سکتا ہے۔؟
چوہدری حامد حمید:
اس میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ ہماری معیشت مثالی نہیں تھی، لیکن انہوں نے اقتدار میں آنے کے بعد جو نعرہ دیا کہ باہر سے پیسے آئیں گے، لیکن ان کے پاس تو ٹیم اور مطلوبہ صلاحیت دونوں کا فقدان ہے، پھر ان کی طرف سے صرف گرفتاریوں کا سلسلہ جاری کیا گیا ہے، جو تا حال جاری ہے، انہوں نے ان لوگوں کو سب سے زیادہ نشانہ بنایا ہے، جو ملک کو ٹیکس دے رہے تھے، جس کا نتیجہ یقینی طور پر الٹا نکلنا تھا، معیشت جو چل رہی تھی، وہ بھی رک گئی، نہ کام کرنے والے اور سوچنے والے لوگ ملک میں رہے، نہ کسی نے اپنا سرمایہ کہیں لگایا، اب ہر پاکستان کے ذہن میں یہ بات بیٹھ چکی ہے کہ کچھ بھی موجودہ حکومت سے معیشت کو سنبھالا دینے کی توقع ممکن نہیں۔

پھر رہی سہی کسر کرونا وائرس کی وباء کیوجہ سے نکل گئی۔ اب تو احتساب کے نام پر جو انہوں انتقام کا کام شروع کیا ہوا تھا، وہ بھی سب پر ثابت ہوگیا ہے، بلکہ خود پی ٹی آئی کے کارکن بھی یہی سوچ رہے ہیں کہ ملک تباہی کی طرف جا رہا ہے۔ پاکستان اس ملک کے غیر سنجیدہ ترین لوگوں کے ہاتھوں میں آگیا ہے۔ ان کی اپنی پارٹی ہی ان سے نہیں چل رہی، نہ ہی حکومت۔ انہوں نے معیشت کو نقصان کے نام پہ جو الزامات دوسروں پہ لگائے تھے، اب حکومتی ترجمان خود یہ مان رہے ہیں کہ پی ٹی آئی اور عمران خان کی حکومت کو آٹا اور شوگر مافیا نے اپنی گرفت میں لیا ہوا ہے، خود جہانگیر ترین نے یپہ اعتراف کیا ہے کہ انہوں نے کس طرح مختلف مافیاز کے لوگوں کو اکٹھا کرکے یہ حکومت تشکیل دی تھی۔

اس کے علاوہ بھی بہت سے خطرات ہیں، جو پی ٹی آئی اور عمران خان کی ناسمجھی کی وجہ سے صرف اقتدار کی ہوس کی وجہ سے پاکستان کو لاحق ہیں، اب معیشت کیساتھ ساتھ ملکی سلامتی کو بھی خطرات سے دوچار کر دیا گیا ہے۔ پارٹی اور حکومت کے اندر ایک اور لڑائی مختلف گروپس کی ہے۔ پہلے جہانگیر ترین گروپ غالب تھا اور اب زلفی بخاری اور اسد عمر گروپ غالب آگیا اور غلبے کی اصل وجہ یہ ہوتی ہے کہ جس گروپ کو بنی گالا کی سرپرستی حاصل ہو جاتی ہے، وہی مضبوط ہو جاتا ہے۔ جہانگیر ترین کو ٹھکانے لگانے کے بعد اب تو یہ اندرونی لڑائیاں مزید تیز ہو جائیں گی۔

اسلام ٹائمز: اگر یہ الزامات درست ہیں تو یہ کیا یہ بھی سچ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ عمران خان کو چلتا کرنا چاہتی ہے۔؟
چوہدری حامد حمید:
ہاں کیوں نہیں، جلد یا بدیر یہ حقیقت بھی سامنے آجائیگی کہ عمران خان کی حکومت اور غلظ پالسیوں نے سی پیک اور کشمیر کاز جیسے اہم ترین مسائل کو کس قدر نقصان پہنچایا ہے۔ یہ ایسی مجہول حکومت ہے، جو پاکستان کے دوستوں کیلئے بھی سمجھ سے باہر ہے۔ ہر کسی کو کھلی چھٹی ہے، ایک گروپ ایسا ہے، جو امریکی مفادات کا نگران اور محافظ ہے، جس کی وجہ سے ہم چین جیسا دوست اور سی پیک جیسا منصوبہ خراب کر رہے ہیں، خلیجی ممالک کیساتھ تعلقات میں بھی کوئی توازن نہیں ہے۔ یہ گروپ ملکی مفاد یا کسی اصولی اختلاف کی بنیاد پہ اعتراض نہیں کرتے، بلکہ وزیراعظم کی پالیسیوں کا رخ صرف اپنے سرپرستوں کے مفادات کی خاطر موڑنے کی تگ و دو کر رہے ہوتے ہیں۔ پاکستان کی کوئی مستقل پالیسی اگر تھی بھی تو موجودہ حکومت کی نہیں ہے۔ اسی ماحول کیوجہ سے ہندوستان نے کشمیر اور خود بھارت کے اندر مسلمانوں کیخلاف تمام تر اوچھے ہتھکنڈے استعمال کرتے ہوئے اقدامات کیے ہیں، جن کی پہلے کوئی نظیر نہیں ملتی۔

خود حکومت کو کچھ پتہ نہیں، اس وجہ سے اگر دنیا میں کسی نے ہمارا ساتھ دینا تھا تو انہیں بھی سمجھ نہیں آرہا کہ کیا کریں اور کیا نہ کریں۔ یہ بات یقینی ہے کہ عمران خان مزید اپنی گرفت مضبوط کرسکتے ہیں، اپنے مخالفین کو جیلوں کے اندر ڈال سکتے ہیں، احساس پروگرام اور ٹائیگر فورس جیسے تماشے لگا سکتے ہیں، لیکن اس ملک کو لاحق خطرات اور گورننس کے اس کرائسس سے نہیں نکال سکتے۔ یوں اگر تعصبات، مفادات اور خواہشات کی عینک کو اتار کر صرف خوف خدا اور ملکی مفاد کو مدِنظر رکھ کر سوچا جائے تو اس وقت ملکی بقا کا ایک ہی راستہ نظر آتا ہے اور وہ ہے چند ماہ کیلئے قومی حکومت۔ ایک ایسی قومی حکومت جو سب کرداروں کے اتفاقِ رائے سے بنے۔ جس میں سب کرداروں کے اپنی اپنی ذمہ داری ہو۔

اسلام ٹائمز: ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ کسی وزیراعظم نے اپنی ہی کابینہ اور پارٹی کے سیاستدانوں کیخلاف انکوائری پبلک کروائی ہے، کڑی سزا کا وعدہ بھی کیا ہے، لوگوں کو اطمینان دلانے کیلئے شفافیت ثابت کرنیکا اور کیا انداز ہوسکتا ہے۔؟
چوہدری حامد حمید:
یہی سمجھانے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار کسی وزیراعظم نے شوگر مافیا کے آگے جھکنے سے انکار کر دیا اور دھمکیوں کے باجود رپورٹ جاری کر دی۔ لیکن ہم یہ بھی دیکھ رہے ہیں کہ ابھی یہ بات کہی جا رہی تھی اور ساتھ ہی جہانگیر ترین کو اس عہدے سے ہٹا دیا گیا، جو کبھی انہیں دیا ہی نہیں گیا تھا، کیونکہ سپریم کورٹ سے نااہل ہونے کے باعث وہ کسی عوامی عہدے پر متمکن نہیں ہوسکتے تھے، نہ ہوسکتے ہیں۔ خسرو بختیار کو تو اس سے بھی کہیں سخت سزا دی گئی، ان سے فوڈ سکیورٹی کا قلمدان واپس لیکر اقتصادی امور کا وفاقی وزیر بنا دیا گیا۔ بابر اعوان پارلیمانی امور کے مشیر بنا دیئے گئے جبکہ اعظم سواتی کو نارکوٹکس کنٹرول کا وفاقی وزیر تعینات کر دیا گیا۔ پنجاب کے وزیر خزانہ ہاشم جواں بخت بھی شاید یہ سوچ کر گھبرا رہے ہوں گے کہ انہیں بھی بطور سزا وزیر خزانہ کے منصب سے ہٹا کر وزیراعلیٰ نہ بنا دیا جائے۔

ابھی تو کچھ بھی سامنے نہیں لایا گیا، نہ سزا دی گئی ہے، اس اپنی ہی پیش کی ہوئی رپورٹ پر یو ٹرن بھی آئے گا، ہمارے لیے یہ بات اس لیے انوکھی نہیں ہوگی کہ موجودہ حکومت کے نزدیک اچھے لیڈر کی تعریف ہی یہی ہے کہ وہ بات کرتا ہے اور مکر جاتا ہے، پھر اسی کو یوٹرن کا نام دیا جاتا ہے۔ اگر شوگر مافیا کے خلاف یہ رپورٹ کرنے کا کریڈٹ جناب عمران خان کو جاتا ہے، کیونکہ وہی سربراہ حکومت ہیں تو پھر پاناما جے آئی ٹی رپورٹ جاری کرنے پر اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف بھی داد کے مستحق ہیں۔ تب بھی واجد ضیاء جے آئی ٹی کے سربراہ تھے اور اب بھی چینی اور آٹا بحران پر تہلکہ خیز رپورٹ تیار کرنے کی تہمت انہی کے سر ہے۔ 

اسلام ٹائمز: سبسڈی تو گذشتہ حکومتوں کے ادوار میں بھی دی گئی ہے، اگر یہ کرہشن ہے تو عمران خان کے دعوے سچ ثابت ہوتے ہیں کہ وہ دوسروں سے مختلف ہیں، کیونکہ پہلے کسی نے اسطرح کی تادیبی کارروائی کی نوبت ہی نہیں آنے دی۔؟
چوہدری حامد حمید:
میڈیا پر سبسڈی سے متعلق بہت ہنگامہ ہوا تو محض سبسڈی لینے والوں کو مطعون کیا گیا، حالانکہ سبسڈی دینے والے حقیقی مجرم ہیں۔ ہر ایک کا دعویٰ ہے کہ اس نے سبسڈی کی مخالفت کی تو پھر یہ فیصلہ کیسے ہوگیا؟ اسد عمر کہتے ہیں کہ وہ سبسڈی کے حق میں نہیں تھے، خسرو بختیار کا دعویٰ ہے کہ وہ اجلاس میں نہیں بیٹھے۔ پنجاب کے وزیر خزانہ ہاشم جواں بخت کہتے ہیں کہ وہ سبسڈی دینے کے خلاف تھے۔ سمیع اللہ چوہدری کہہ چکے ہیں کہ وزیراعلیٰ عثمان بزدار بھی سبسڈی دینے کے حق میں نہیں تھے تو پھر یہ فیصلہ کیسے ہوگیا؟ ایف آئی اے کی رپورٹ کہتی ہے کہ چینی برآمد کرنے کا فیصلہ بلاجواز تھا اور اسی فیصلے کی وجہ سے چینی کا بحران پیدا ہوا۔ چینی برآمد کرنے کے فیصلے کی منظوری تو وفاقی کابینہ نے دی، جس کی سربراہی خود وزیراعظم کرتے ہیں تو پھر چینی بحران کا ذمہ دار کون ہوا؟ وفاق نے سبسڈی نہیں دی، صوبوں کو کہہ دیا گیا کہ وہ چاہیں تو سبسڈی دے سکتے ہیں۔

بحث اس پر ہو رہی ہے کہ جہانگیر ترین کی شوگر ملوں کو 56 کروڑ، ان کے ماموں شمیم احمد کے ملکیتی المعیز گروپ کو 40 کروڑ جبکہ خسرو بختیار کے بھائی مخدوم عمر شہریار کی رحیم یار خان شوگر ملز کو 45 کروڑ سبسڈی دی گئی۔ حالانکہ یہ سبسڈی تو محض وہ انعام ہے، جو اچھی سروس کے عوض دی جاتی ہے، بل کتنا بنا، اس پر بات ہی نہیں ہو رہی۔ چینی برآمد ہونے کی وجہ سے فی کلو قیمت 55 روپے سے بڑھ کر 75 روپے ہوگئی مگر شوگر مل مالکان کے اخراجات میں کوئی ردوبدل نہیں ہوا۔ اب اگر جہانگیر ترین کی شوگر ملوں نے 10 لاکھ ٹن شوگر پیدا کی تو بیٹھے بیٹھے 19 ارب روپے اضافی کما لیے۔  رحیم یار خان شوگر ملز کی پیداوار 6 لاکھ ٹن ہے تو انہوں نے 11 ارب روپے اضافی اینٹھ لیے۔ ویسے کاغذوں میں جو پیداوار ظاہر کی جاتی ہے، حقیقی پیداوار اس سے کہیں زیادہ ہوتی ہے، لیکن آپ ان دخل در معقولات کو چھوڑیں، یہ دیکھیں کس قدر بے رحم اور کڑا احتساب ہوا ہے۔
خبر کا کوڈ : 856823
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش