مقبوضہ جموں و کشمیر میں کورونا وائرس سے متاثرہ افراد کی تعداد بدستور بڑھتی ہی چلی جا رہی ہے، جسکی وجہ سے ہر سو تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے، تاہم ماہرین و ڈاکٹروں کے مطابق چند بنیادی احتیاطی اقدامات پر عمل پیرا ہونے سے اس وباء سے بچا جاسکتا ہے۔ اسلام ٹائمز کے نمائندے نے وبائی زکام کے معروف ماہر اور شیر کشمیر انسٹی چیوٹ آف میڈیکل سائنسز صورہ سرینگر میں انٹرنل اور پلمونری میڈیسن شعبہ کے سربراہ ڈاکٹر پرویز احمد کول کیساتھ کورونا وائرس کی علامات، احتیاط اور علاج کے حوالے سے تفصیلی گفتگو کی، جو قارئین کرام کی خدمت میں پیش ہے۔(ادارہ)
اسلام ٹائمز: عام زکام اور کورونا وائرس سے متاثر ہونیکی تشخیص ہم کیسے کرسکتے ہیں۔؟
ڈاکٹر پرویز احمد کول: کورونا وائرس انفیکشن اور عام زکام کی علامات ایک جیسی ہیں اور آپ صرف لیبارٹری ٹیسٹ کے ذریعے ہی وائرس کی قسم کا پتہ لگا کر ان میں فرق کرسکتے ہیں، تاہم کورونا متاثرین میں ناک کا بہنا بہت کم پایا گیا ہے۔ کورونا سے متاثرہ علاقوں کی سفری تاریخ یا کورونا متاثرہ شخص سے رابطہ ایک شخص کو مشتبہ کورونا متاثرہ سمجھنے کے لئے کافی ہے۔ یہی اصول اُن صحت ورکروں پر بھی لاگو ہے، جہاں کورونا متاثرین اور مشتبہ مریض رکھے جاتے ہیں۔
اسلام ٹائمز: کورونا وائرس کی عام علامات کیا ہیں۔؟
ڈاکٹر پرویز احمد کول: کثریت سے پائی جانے والی علامات میں بخار، خشک کھانسی اور سانس لینے میں دشواری شامل ہیں۔ کچھ مریضوں میں درد، بند ناک، بہتی ناک، گلہ خراب یا دست بھی ہوسکتے ہیں۔ یہ علامات عمومی طور پر ہلکی ہوتی ہیں اور رفتہ رفتہ بڑھ جاتی ہیں۔ کچھ لوگ کورونا وائرس سے متاثر بھی ہوچکے ہوتے ہیں اور ان میں اس کی علامات ہی ظاہر نہیں ہوتی ہیں اور نہ ہی بیماری محسوس کرتے ہیں۔ اکثر لوگ (تقریباً 80 فیصد) کسی خاص علاج کے بغیر ہی صحتیاب ہو جاتے ہیں۔ کورونا سے متاثر ہونے والے ہر 6 میں سے تقریباً 1 شخص سخت بیمار ہو جاتا ہے اور اُس میں نظام تنفس یا گردے ناکارہ ہونے جیسی پیچیدگیاں پیدا ہوسکتی ہیں۔
اب تک کے ڈیٹا سے معلوم ہوتا ہے کہ بیشتر پیچیدگیاں ایسے بزرگ شہریوں میں پیدا ہو جاتی ہیں، جو پہلے ہی ذیابیطس، فشار خون، پھیپھڑوں یا دل کے عارضہ میں مبتلا ہوتے ہیں۔ یہ بھی بتاتا چلوں کہ عارضہ قلب، ذیابیطس یا فشار خون جیسی بیماریوں میں مبتلا لوگوں کو صحتمند لوگوں کی نسبت زیادہ متاثر ہونے کا کوئی خطرہ نہیں ہے۔ کورونا وائرس سے متاثرہ لوگوں کی اکثریت (80 فیصد سے زیادہ) میں نظام تنفس کی عفونت یا انفیکشن کی ہلکی علامات (بخار، خراب گلہ، کھانسی) نمودار ہوں گی اور وہ مکمل طور صحتیاب ہوں گے۔ ذیابیطس، فشار خون اور عارضہ قلب میں مبتلا کچھ لوگوں میں زیادہ سنگین علامات پیدا ہوں گی، لہٰذا ایسے لوگوں کے لئے اضافی احتیاط کی تجویز ہے۔
اسلام ٹائمز: کورونا وائرس کیسے پھیلتا ہے۔؟
ڈاکٹر پرویز احمد کول: لوگ کورونا وائرس سے متاثرہ اشخاص کے رابطہ میں آنے سے اس کی زد میں آسکتے ہیں۔ یہ بیماری ایک شخص سے دوسرے شخص میں اس صورت میں منتقل ہوسکتی ہے، جب کورونا سے متاثرہ کوئی شخص کھانسی کرے یا چھینکے اور اس کے نتیجہ میں منہ اور ناک سے نکلنے والا لہاب نزدیک بیٹھے کسی شخص کو لگے یا اس کو وہ ہوا کے ساتھ سانس کے ذریعے اپنے اندر لے۔ اسی لئے ایک بیمار شخص سے کم از کم ایک میٹر یعنی 3 فٹ دور رہنا انتہائی اہم ہے۔ چھینکوں اور کھانسی کے ساتھ نکلنے والے یہ آبی ذرات اردگرد موجود چیزوں یا زمین پر بھی گرسکتے ہیں اور اگر کوئی ان چیزوں یا زمین کو چھوتا ہے اور وہی ہاتھ اپنی آنکھوں، ناک یا منہ پر لگاتا ہے تو وہ کورونا وائرس میں مبتلا ہوسکتا ہے۔
اسلام ٹائمز: کیا کورونا وائرس آوارہ بلیوں و کتوں، پالتو بلیوں و کتوں یا دیگر جانوروں اور مچھروں کے کاٹنے سے بھی پھیل سکتا ہے۔؟
ڈاکٹر پرویز احمد کول: ابھی اتک ایسے کوئی شواہد نہیں ملے ہیں، جن سے پتہ چلتا ہو کہ کورونا وائرس مچھروں کے کاٹنے سے پھیلتا ہے۔ منتقلی کا صحیح طریقہ ابھی بھی غیر واضح ہے۔ ایسا مانا جا رہا ہے کہ یہ وائرس چمگادڑوں میں پایا جاتا تھا اور چمگادڑوں سے یہ حیوانوں یا جانوروں میں منتقل ہوا، جہاں سے یہ انسانوں میں منتقل ہوا۔ چمگادڑوں سے انسانوں تک منتقل کرنے والا یہ درمیانی میزبان متغیر طور پر سانپ، دوسرے سمندری کھانے والے جانور یا حتی کہ پینگولین تصور کئے جا رہے ہیں، تاہم یہ محض قیاس ہے اور تاحال اس حوالے سے کوئی ٹھوس شواہد موجود نہیں ہیں۔ ابھی تک صرف ایک ایسی مثال ملی ہے، جب ایک بلی کو اپنے مالک سے یہ انفیشکن منتقل ہوا ہے (اب امریکہ کے ایک چڑیا گھر میں چیتا بھی اس وائرس میں مبتلا پایا گیا ہے)، تاہم ان شواہد کی روشنی میں پالتو جانوروں کو لا وارث چھوڑنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔
اسلام ٹائمز: کورونا وائرس سے بچنے اور اسکے پھیلاؤ کو روکنے کیلئے اہم اقدامات کیا ہوسکتے ہیں۔؟
ڈاکٹر پرویز احمد کول: ہمیں سماجی فاصلہ بنائے رکھنا ہے اور ہاتھوں کو مسلسل صاف رکھنا ہے۔ سماجی فاصلہ بنائے رکھنا انتہائی اہم ہے۔ ایسے لوگوں سے دوری بنائے رکھنی ہے، جن میں سردی، زکام، بخار یا کھانسی کی صورت میں کورونا وائرس کی ممکنہ علامات پائی جاتی ہوں۔ غیر ضروری سفر سے اجتناب کرنا ہوگا۔ پبلک ٹرانسپورٹ ترک کریں۔ لاک ڈاؤن پر انتہائی حد تک عمل کریں۔ عوامی مقامات، بھیڑ بھاڑ اور گھریلوں مجلسوں سے دور رہیں۔ لاک ڈاؤن کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ ہم باہر جانے سے گریز تو کریں، لیکن گھر میں پارٹیاں منائیں۔ ہمیں اپنے دوستوں اور رشتہ داروں سے جسمانی فاصلہ بنائے رکھ کر اُن سے فون، انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کے ذریعے رابطہ رکھنا چاہیئے۔ معمولی مسائل کے لئے ہسپتالوں یا لیبارٹریوں کا رجوع کرنے سے گریز کریں۔
اگر ممکن ہو تو فون یا ہیلپ لائن نمبروں کے ذریعے ہی ہسپتالوں یا طبی مراکز سے رابطہ کریں۔ اگر آپ باقاعدگی کے ساتھ بلڈ شوگر، آئی این آر، سی بی سی وغیرہ چیک کراتے ہیں تو اس صورت میں فون پر ڈاکٹر سے رابطہ کریں اور جتنا ہوسکے، ہسپتال سے دور ہی رہیں۔ مصافحہ کرنے، گلے ملنے اور چہرے پر ہاتھ لگانے سے گریز کریں۔ اپنے ہاتھ صابن اور پانی سے بار بار دھوئیں۔ ایسا کم از کم بیس سکینڈز تک کریں اور ہاتھ کا کوئی بھی حصہ کو دھونے سے رہ نہ جائے۔ شراب سے بنے ہینڈ سینٹائزر بھی کارآمد ہیں۔ شراب سے عاری سینٹائزروں سے کوئی فائدہ ثابت شدہ نہیں ہے اور سینٹائزر میں کم از کم 70 فیصد شراب ہونی چاہیئے۔
اسلام ٹائمز: بازار میں ہر کوئی ماسک کی تلاش میں ہے اور بیشتر لوگ ماسک پہن بھی رہے ہیں۔ کیا یہ ضروری ہے۔؟
ڈاکٹر پرویز احمد کول: عالمی ادارہ صحت کے مطابق ایسے لوگوں کے لئے میڈیکل ماسک کی ضرورت نہیں ہے، جن میں نظام تنفس کی علامات موجود نہ ہوں، کیونکہ صحتمند لوگوں میں اس کی کارآمدگی کے کوئی شواہد موجود نہیں ہیں۔ منتقلی کا طریقہ کھانسی یا چھینکنا ہے اور اگر وہاں اُس وقت کوئی موجود نہ ہوگا تو ماسک لازمی نہیں ہے، تاہم کچھ ممالک میں مقامی تمدنی عادات کے مطابق ماسک پہنے جاتے ہیں، جیسے چین، ہانک کانگ وغیرہ میں یہ آلودگی سے بچنے کے لئے استعمال ہوتے ہیں۔ اگر ماسک استعمال کرنے ہیں تو انہیں پہننے، نکالنے اور ٹھکانے لگانے کے لئے وضع کردہ طریقہ کار پر عمل کیا جانا چاہیئے اور انہیں نکالنے کے بعد ہاتھوں کی صفائی پر خصوصی توجہ دی جانا چاہیئے۔
عام لوگوں کے لئے اُس وقت ماسکوں کی ضرورت نہیں ہے، جب تک نہ وہ کسی مریض کا خیال رکھ رہے ہوں، تاہم اگر ماسک صرف ہیلتھ ورکروں کے لئے رکھے جائیں تو بہتر رہے گا۔ اگر کوئی مکمل صحتمند ہے تو صرف اسی صورت میں ماسک پہننے کی ضرورت ہے، جب آپ کورونا سے ممکنہ طور متاثر کسی مریض کی دیکھ بھال کر رہے ہیں۔ ایک اہم بات یہ کہ ہمیں ہر حال میں ماسکوں کی ذخیرہ اندوزی سے گریز کرنا چاہیئے۔ اس وقت پوری دنیا میں ماسکوں کی قلت ہے، لہٰذا انہیں اُن لوگوں کے لئے چھوڑ دیں، جنہیں اس کی سخت ضرورت ہے۔
اسلام ٹائمز: کیا جسم پر شراب یا کلورین چھڑکنے سے کورونا وائرس مرسکتا ہے۔؟
ڈاکٹر پرویز احمد کول: جی نہیں، پورے جسم پر شراب یا کلورین چھڑکنے سے وہ وائرس نہیں مریں گے، جو پہلے ہی آپ کے جسم کے اندر داخل ہوچکے ہوں۔ ایسی چیزوں کا چھڑکاؤ آپ کے کپڑوں اور میوکس ممبرین (جیسے آنکھوں، منہ) کے لئے نقصان دہ ثابت ہوسکتا ہے۔ یہ بات ذہن نشین کر لیں کہ شراب اور کلورین، دونوں سطحوں کو انفیکشن سے پاک کرنے میں کارآمد ہوسکتے ہیں، لیکن انہیں سائنسی ضوابط کے تحت ہی استعمال کرنا ہے۔ گرم پانی سے غسل کسی کو بھی کورونا وائرس سے نہیں بچا سکتا ہے۔ ہمارے جسم کا درجہ حرارت پانی کے درجہ حرارت سے قطع نظر 36.5 سے 37 ڈگری سیلشس تک رہتا ہے، بلکہ انتہائی گرم پانی سے نہانا نقصان دہ ثابت ہوسکتا ہے۔
اسلام ٹائمز: کیا 3 ہفتوں میں یہ وباء ختم ہوگی، جیسا کہ کچھ رپورٹوں میں کہا جا رہا ہے۔؟
ڈاکٹر پرویز احمد کول: مجھے ایسا نہیں لگتا۔ اگر ہم چین اور اٹلی میں اس انفیکشن کی حرکیات پر غور کریں تو وہاں معاملات کو انتہاء تک پہنچ کر اس کے بعد متواتر گراوٹ ریکارڈ کرنے میں 8 ہفتے لگے۔ اگر ہم اس ٹرینڈ کو فالو کریں تو ہمیں وسط اپریل کے بجائے کافی دیر مزید انتظار کرنا پڑے گا۔ ایسے کچھ تخمینہ جات ہیں، جن میں کہا گیا ہے کہ بھارت میں یہ وباء اپریل کے تیسرے یا چوتھے ہفتہ میں اپنی انتہا کو پہنچ چکی ہوگی۔ اگر وہ اندازے صحیح ثابت ہوئے تو ہمیں اپریل کے پہلے یا دوسرے ہفتہ کے برعکس اس بیماری کے خلاف کافی طویل لڑائی کے لئے تیار رہنا پڑے گا۔ مجھے لگتا ہے کہ ہم ابھی تک وبائی انتہاء تک نہیں پہنچے ہیں اور اس میں ابھی بھی دو سے تین ہفتے لگیں گے۔ جہاں میں ایسا کہہ رہا ہوں، وہیں میری دعا ہے کہ میں ہی غلط ثابت ہو جاؤں۔
اسلام ٹائمز: کیا کورونا وائرس کے علاج یا بچاؤ کیلئے کوئی مخصوص ادویات ہیں۔؟
ڈاکٹر پرویز احمد کول: ایسی کئی ادویات ہیں، جنہیں کورونا وائرس کے خلاف استعمال کیا جا رہا ہے۔ ان میں وبائی زکام اور ایچ آئی وی کے خلاف ضد وائرل ادویات، ہائیڈروکسی کلوروکوئین جیسی ضد ملیریا دوائی، ازیتھرو مائسن جیسی انٹی بیوٹک اور دیگر کئی تجرباتی دوائیاں شامل ہیں۔ گویا کہ ان دوائیوں کے کارگر ہونے کے کچھ دعوے کئے جا رہے ہیں، تاہم شواہد انتہائی کمزور ہیں اور انہیں متحرک کلینکل تجزیوں کی پشت پناہی بھی حاصل نہیں ہے۔ ایف ڈی اے نے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر کورونا متاثرہ مریضوں کے لئے اس بیماری سے صحتیاب ہونے والے فرد کے پلازما کے استعمال کو منظوری دی ہے۔
ہم بھی اس کے استعمال کی انضباطی منظوری پر غور کر رہے ہیں۔ کووڈ 19 یا کورونا وائرس نیا وائرس ہے اور اس کے علاج کے لئے اس کی اپنی ویکسین چاہیئے۔ محققین کورونا وائرس کے خلاف ویکسین تیار کرنے کی کوششیں کر رہے ہیں۔ کچھ انفرادی ویکسین دستیاب ہیں بلکہ انسانوں پر تجربہ کی کوششیں بھی شروع ہوچکی ہیں، تاہم ان ویکسین کو انسانی استعمال پر ڈالنے سے قبل سال سے ڈیڑھ سال لگ سکتا ہے۔ وہ فی الوقت بہت دور ہے۔
اسلام ٹائمز: کیا کورونا وائرس گرم اور مرطوب آب و ہوا میں پھیل سکتا ہے یا گرمی میں اسکا پھیلاؤ کم ہوگا۔؟
ڈاکٹر پرویز احمد کول: اب تک ملے شواہد کے مطابق کورونا وائرس سبھی علاقوں میں پھیل سکتا ہے، جس میں گرم و مرطوب آب و ہوا والے علاقے بھی شامل ہیں۔ فی الوقت گرم علاقوں سے بھی کورونا وائرس کے معاملات سامنے آئے ہیں، لہٰذا یہ لازمی نہیں ہے کہ آنے والے گرما میں اس وائرس کا پھیلاؤ کم ہوگا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ موسمی حالات کے قطع نظر ہمیں احتیاطی تدابیر سے کام لینا چاہیئے۔
اسلام ٹائمز: کشمیر میں کورونا وائرس کے معاملات بڑھ رہے ہیں۔ کیا ہماری ائرپورٹ سکریننگ جو پہلے کچھ دنوں تک جاری رہی تھی، ناکام ثابت ہوئی ہے۔؟
ڈاکٹر پرویز احمد کول: ایسا ہی لگ رہا ہے، کیونکہ ہمارے سارے مثبت کیس اُن لوگوں سے نہیں آئے، جن میں کوئی علامات نہیں تھیں اور پھر انہیں قرنطینہ کیا گیا بلکہ ان میں وہ لوگ شامل ہیں، جو خود ائرپورٹ سے کسی طرح نکلنے میں کامیاب ہوئے اور پھر ان کے رابطہ میں آنے والے لوگ ہیں۔ 1700 مہمانوں کو کافی خرچہ کرکے قرنطینہ کر دیا گیا، تاہم ان میں سے کسی میں بھی علامات ظاہر نہ ہوئیں، آپ خود اس مشق کی کامیابی کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔ مزید ایسے بھی لوگ ہیں، جو زمینی سفر یا ریلوں کے ذریعے آئے، جہاں سکریننگ زیادہ سست تھی۔ حسب ضوابط بناء علامتوں کے افراد کا قرنطینہ لازمی نہیں ہے۔ ہم ایسا کہہ سکتے ہیں کہ نیک ارادہ سے شروع کی جانے والی یہ مشق کہیں پر غلط ڈگر پر چلی گئی۔
ہمارے پاس عالمی ادارہ صحت، سی ڈی سی اور وزارت صحت و خاندانی بہبود جیسے ادارے ہیں، جنہوں نے ماہرین کی جانب سے تکنیکی مشاورت کی بنیاد پر تکنیکی پالیسیاں بنائیں۔ میں حکام پر زور دوں گا کہ وہ ان ضوابط پر من و عن عمل کریں، تاکہ ہم اپنے ہی رہنماء خطوط ایجاد نہ کریں، جو افرادی قوت اور وسائل کے غیر معقول استعمال پر منتج ہوں گے۔ ہماری قرنطینہ پالیسیوں کو غیر سائنسی قرار دیکر تنقید کا نشانہ بنایا گیا، اگر ہم رہنماء خطوط پر عمل کریں تو ہم نہ صرف وضع کردہ طریقہ کار پر عمل کریں گے بلکہ ہم اپنے آپ کو اُس حوصلہ شکن تنقید سے بھی بچا پائیں گے، جو اس وقت ہو رہی ہے۔
اسلام ٹائمز: یہاں مقبوضہ کشمیر میں بھی کورونا وائرس کے متاثرین کی تعداد بتدریج بڑھ رہی ہے۔ کیا ہم ایک بڑی جنگ کیلئے ہم تیار ہیں۔؟
ڈاکٹر پرویز احمد کول: ایک ہی لفظ میں ’’نہیں۔‘‘ میں افراتفری نہیں پھیلانا چاہتا ہوں، لیکن اگر امریکہ اور بیشتر یورپی ممالک جیسے ترقی یافتہ ممالک کا ترقی پا چکا طبی ڈھانچہ جواب دے سکتا ہے تو ہمارا نظام کہیں شمار و قطار میں ہی نہیں ہوگا، اگر یہاں بھی تعداد اُس حد تک پہنچ جائے۔ ہماری افرادی قوت، طبی ڈھانچہ، ہسپتال بستروں کے حجم وغیرہ کی ان ممالک سے کوئی مماثلت نہیں ہے اور ہماری آبادی کے حجم، غربت اور صفائی ستھرائی کے فقدان کو مدنظر رکھتے ہوئے ہمیں اس وائرس سے تباہ کن حملہ کا سامنا ہوسکتا ہے۔ ہمارے نظام کا ناکام ہونا اُس صورت میں پھر طے ہے۔ ہمارے وسائل انتظامیہ کی جانب سے کافی کوششوں کے باوجود انتہائی ناکافی ہیں۔ یہاں اس وائرس کی منتقلی روکنے کے لئے حکومتی اقدامات کی بجائے عوامی مہم کی اہمیت زیادہ بڑھ جاتی ہے۔