سابق وزیر مملکت برائے امور داخلہ اور پاکستان پیپلز پارٹی کے مرکزی رہنما تسنیم احمد قریشی سرگودہا سے 2002ء سے لیکر 2013ء تک رکن قومی اسمبلی رہے ہیں، وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کیساتھ وزیر مملکت رہے، حکومتی پالیسیوں پر بے لاگ تبصروں اور سرگودہا میں حزب مخالف کی بے دھڑک نمائندگی کے حوالے سے معروف ہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے نظریاتی کارکن اور پارٹی میں قائدانہ کردار کے حامل اپوزیشن رہنما کیساتھ موجودہ سیاسی صورتحال، نیب کے ذریعے رہنماؤں کی گرفتاریوں، چینی بحران کے متعلق ایف آئی اے کی رپورٹ اور اپوزیشن کی حکمت عملی سمیت اہم ایشوز پر اسلام ٹائمز کیساتھ انکا انٹرویو قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔(ادارہ)
اسلام ٹائمز: چینی بحران سے متعلق حکومتی رپورٹ کے بعد سیاسی طور پر کیا تبدیلی آسکتی ہے۔؟
تسنیم احمد قریشی: یہ کئی دن سے موضوع گفتگو ہے، حالانکہ یہ دن وباء سے انسانیت کو بچانے کیلئے موثر اقدامات کرنے کے ہیں۔ اس لیے ہم افسوس کے اظہار کیساتھ یہ کہیں گے کہ ہمارا فوکس اسکینڈل پر نہیں ہونا چاہیئے۔ سب سیاسی جماعتوں نے پہلے بھی اس پر بات کی تھی، ایف آئی اے کی رپورٹ کے بعد حکومت نے پھر کابینہ میں رد و بدل کیا ہے، یہ پہلے بھی کیا جا چکا ہے، یہ ان کا وطیرہ ہے کہ کسی کو ذمہ دار قرار دینے کی بجائے صرف دکھاوے کے اقدامات کرتے ہیں۔ اسی طرح یہ اپوزیشن کے رہنماؤں کو الزامات پر گرفتار کرتے ہیں، لیکن حکومتی لوگوں کے جرم ثابت ہونے کے بعد بھی کوئی کارروائی نہیں کرتے۔ ہمارے خیال میں اسکینڈل کی وجہ سے کرونا کے حوالے سے یکسو ہو کر کام کرنیکی کی جو ضرورت ہے، اس سے توجہ نہیں ہٹائی جانی چاہیئے۔
اسلام ٹائمز: کیا ان حالات میں جب ایک طرف اپوزیشن کرونا کے حوالے سے یکسوئی کا مطالبہ کر رہی ہے، دوسری طرف وزیراعظم کے استعفیٰ کا مطالبہ درست ہے۔؟
تسنیم احمد قریشی: ہاں یہ اس صورت میں غلط تھا، جب موجودہ وزیراعظم اس معاملے کو سنجیدگی سے لیتے، سب سے پہلے انہوں نے لاک ڈاون کی مخالفت کی، پھر اس پر خاموشی اختیار کی، پھر انہی دنوں میں یہ رپورٹ بھی خود ہی سامنے لے آئے۔ اس کا مطلب ہے کہ عمران خان کے ہونے یا نہ ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ جہاں تک استعفیٰ کے مطالبے کی بات ہے تو یہ بالکل ٹھیک ہے، کیونکہ ان کی نااہلی اور اب ثابت ہوجانیوالی بدعنوانی کیوجہ سے ملک اور قوم کا نقصان زیادہ ہوگا۔ پھر خود عمران خان ہر موقع پر یہی مطالبہ دہراتے رہے ہیں کہ جب بھی کوئی الزام سامنے آئے تو حکمرانوں کو مستعفی ہونا چاہیئے۔
یہ لوگ اتنے جلد باز ہیں کہ یہ اپنی ہی حکومت کی کرپشن بے نقاب ہونے پر اس کو شائع کرنے کا کریڈٹ لینا چاہتے ہیں، حالانکہ ان کے کریڈٹ پر پہلے بھی صرف بدعنوانی تھی اور اب بھی یہی کچھ ہے۔ موجودہ حکومت کا ایک ایک بندہ اور ہر کل پرزہ کرپشن کی مٹی سے بنا ہوا بلکہ پکا ہوا ہے۔ اب تو اس کے لیے مزید کسی ثبوت کی بھی ضرورت نہیں ہے۔ لیکن اس کے باوجود یہ چاہتے ہیں کہ انہیں داد دی جائے۔ ایسے حالات میں ملک و قوم کا اللہ ہی حافظ ہے۔ ان کی اس سوچ اور ہٹ دھرمی کیوجہ سے ہمارا یہ مطالبہ زیادہ ٹھیک لگتا ہے کہ ایسے لوگوں سے قوم کی جان چھڑوائی جائے، عمران خان بھی استعفیٰ دیں اور یہ حکومت گھر جائے۔
اسلام ٹائمز: کیا کرونا وائرس کے حوالے سے وفاقی حکومت کے اقدامات ناکافی ہیں۔؟
تسنیم احمد قریشی: اسوقت بڑی بڑی طاقتیں وائرس کی وجہ سے پیدا ہونیوالی صورتحال کو سنبھالنے سے قاصر ہیں، پھر کہوں گا کہ زیادہ متحد ہو کر کام کرنیکی ضرورت ہے۔ اس لیے بنیادی کردار وفاقی حکومت کا ہے، لیکن افسوس کیساتھ دیکھا گیا ہے کہ وفاقی حکومت نے ہر سطح پر مایوس کیا ہے، بلکہ سوائے مختارے کو ڈرانے کے قوم کیلئے کچھ نہیں کیا۔ سندھ کی طرف سے جو تعاون درکار تھا، انہوں نے فراہم نہیں کیا، جب پوری دنیا نے ان کے اقدامات کو تسلیم کیا اور سراہا ہے، وزیراعظم نے سندھ حکومت سے بات کرنا گوارا نہیں کیا، جبکہ سب جانتے ہیں کہ صوبائی یا مقامی سطح پر اس وباء کا مقابلہ کرنا ممکن نہیں ہے۔ لیکن ان کو اس کا احساس نہیں ہے۔ دنیا کی ہر مرکزی حکومت صوبائی اور مقامی حکومتوں کی مدد کر رہی ہے۔ ان کی صحت سے متعلق سہولتوں میں اضافہ کر رہی ہے، لیکن یہاں صرف نمبر گیم بنائی گئی ہے۔ جس پر جتنا بھی افسوس کیا جائے کم ہے۔ وفاقی حکومت جو کچھ کر رہی ہے، یہ بھی اپوزیشن کی جانب سے مسلسل آواز اٹھائے جانے کے بعد کر رہی ہے۔
ورنہ یہ لوگ تو میڈیا سے بات کرنے کیلئے تیار نہیں تھے۔ جس طرح سے بلوچستان میں ایک بری مثال سامنے آئی، ڈاکٹروں کو حفاظتی سامان بھی مہیا نہیں کیا گیا، وہ احتجاج کرنے پر مجبور ہوئے، انہیں پولیس تشدد کا نشانہ بنایا گیا، گرفتار کیا گیا، بالآخر فوج کو مداخلت کرنا پڑی۔ کیا اس طرح لوگوں کو پریشان کرکے یہ لوگ اپنی نااہلی پر پردہ ڈال سکتے ہیں۔؟ ایسا نہیں ہے، یہ مسلسل بے نقاب ہو رہے ہیں۔ اب اگر بلوچستان کی حکومت اس پوزیشن میں ہوتی تو وہ ڈاکٹروں کی ضروریات پوری کر دیتے، لیکن جب تک وفاق صوبوں کی مدد نہیں کریگا، وہ کام نہیں کرسکتے، یہی صورت حال گلگت بلتستان کی بھی ہے، سب صوبائی حکومتوں کو وفاق کی مدد کی ضرورت ہے۔ اس وقت سب سے پہلی ترجیح صحت کی ہے، پورا نظام ہی خراب ہے، جسے مل کر ٹھیک طریقے سے چلانے کی ضرورت ہے۔ بہتر یہ ہے کہ وزیراعظم روزانہ کی بنیاد پہ صوبوں سے ہم آہنگی کو بہتر بنائیں، ورنہ اس وباء کا مقابلہ نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن حکومت تو نان ایشوز کو اب بھی چھوڑنے کیلئے تیار نہیں۔
اسلام ٹائمز: جیسا کہ آپ نے کہا کہ یہ دن وائرس وباء کیخلاف یکسو ہو کر توجہ دینے کے ہیں، کیا اپوزیشن نے میر شکیل الرحمان کی گرفتاری کو ایشو بنانے کی کوشش نہیں کی۔؟
تسنیم احمد قریشی: یہ ایک المیہ ہے کہ اتنے حساس اور مشکل حالات میں بھی سیاسی انتقام کیساتھ ساتھ صحافت کو بھی نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ پوری دنیا کی صحافی تنظیموں اور اداروں نے اس پر آواز اٹھائی ہے۔ جب ملک کے تمام اداروں اور لوگوں کو مل کر کام کرنیکی ضرورت ہے، ایسے وقت میں عوام دشمی کا ثبوت دیا جا رہا ہے۔ موجودہ حکومت نے انسانی حقوق اور قانون شکنی کے سارے ریکارڈ توڑ دیئے ہیں۔ حالانکہ نیب کو اس بات کا پابند بنایا گیا تھا کہ وہ کسی بزنس مین کو حراست میں نہ لیں۔ اس کے باوجود جھوٹے الزامات کی بنیاد پر ایک ادارے کے سربراہ کو گرفتار کیا گیا ہے۔
دوسری طرف خود صحافی اپنے روزگار کیلئے پریشان ہیں، اس کے لیے حکومت نے کوئی اقدام نہیں کیا، نہ ہی کسی صحافی کی مدد کی ہے۔ اس کے برعکس من پسند صحافیوں اور چینلز کو نوازا جا رہا ہے۔ موجودہ صورتحال میں ایک مصیبت اور مشکل قدرت کی طرف سے ہے، دوسری طرف سے حکومت ایک عذاب کی صورت میں مسلسل لوگوں کی پریشانیوں میں اضافے کا سبب بن رہی ہے۔ ہماری توبہ سے مراد ہی یہی ہوگی کہ موجودہ حکمران طبقے سے جان چھڑائیں، ورنہ پاکستانی عوام کو کئی اور مصیبتوں کا سامنا کرنا پڑیگا۔ موجودہ حکمران عوام، صحافت، سیاست اور معیشت ہر چیز کیلئے کرونا سے زیادہ خطرناک ثابت ہوئے ہیں۔
اسلام ٹائمز: پاکستان کی تاریخ لفافہ صحافت سے بھری پڑی ہے، موجودہ دور تو تعمیری تنقید کی بجائے صرف تنقید برائے تنقید کا دور ہے، ایسے میں حکومت اپنا کام کیسے کرسکتی ہے۔؟
تسنیم احمد قریشی: سیاست کی دنیا میں اپوزیشن کا کردار ہی تنقید سے شروع ہوتا ہے، جہاں قومی سلامتی جیسے مسائل ہوں، وہاں پوری قوم خود بخود ایک صف میں آجاتی ہے، لیکن حکومت کی طرف سے یہ کہہ کر اگر تنقید کا راستہ بند کرنیکی کوشش کی جائے تو نہ تو اس کی اجازت آئین دیتا ہے، نہ یہ قابل قبول ہوسکتا ہے۔ اس کے لیے پہلے آئین میں اظہار رائے کی آزادی کو یقینی بنانے کیلئے طے کر دیا گیا ہے، اسی کے ذریعے بلاجواز تنقید کو بھی روکا جا سکتا ہے، اس کیلئے قانون موجود ہے کہ میڈیا کے ذریعے اگر صرف الزامات لگائے جا رہے ہوں اور وہ جھوٹے ہوں تو جس کے خلاف بھی یہ الزامات لگائے جا رہے ہوں، وہ عدالت میں جا سکتا ہے، اس کے لیے حکومت میں ہونا بھی ضروری نہیں۔ لیکن اگر خود حکومت ہی میڈیا کیخلاف اقدامات کر رہی ہو تو جمہوریت کیسے چل سکتی ہے، ایسا کرنا خود خلاف قانون ہے، آئین کی خلاف ورزی ہے، اگر حکومت آئین کی خلاف ورزی کریگی تو عوام کو کیا پیغام جائیگا، وہ کس کی طرف دیکھیں گے۔ اگر میڈیا پر قدغن لگا دیا جائے تو حکومت اپنے کاموں میں بہتری نہیں لا سکتی۔
جی حضوری کی وجہ سے آمریت کو راستہ ملتا ہے، ترقی کا راستہ رک جاتا ہے۔ معاشرے کو سانس لینے کی اجازت بھی اگر نہ دی جائے۔ میڈیا کی آزادی محض اپوزیشن کو نہیں حکومت کو بھی اپنا موقف عوام تک پہنچانے کے تمام مواقع مساوی طور پر فراہم کرتی ہے، جس کی بنا پر بدنیتی پر مبنی تنقید کرنے والوں کو حقائق سامنے لاکر کسی دشواری کے بغیر بےنقاب کیا جاسکتا ہے لہٰذا میڈیا کی مکمل آزادی کے ذریعے جمہوریت کو مستحکم کرنے میں تاخیر نہیں کی جانی چاہیئے۔ گھٹن کے ماحول میں کیسے سیاسی عمل کو آگے بڑھایا جا سکتا ہے، کیونکہ حکومت کی کارکردگی صفر ہے، اس لیے دوسروں کو زندان کا راستہ دکھا کر لوگوں کی توجہ ہٹانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اگر اپوزیشن اس بات کو نہ سمجھے تو عوامی نمائندگی کا باب بند ہو جائیگا، اس لیے نہ صرف یہ کہ ہم اپنا کردار ادا کر رہے ہیں، بلکہ ملک اور قوم کی بہترین خدمت ہی یہی ہے کہ آئینی آزادیوں پر کمپروبائز نہ کیا جائے اور حکمران وقت کو آئینہ دکھایا جائے، تاکہ ملک کو بڑے نقصان سے بچایا جا سکے۔
اسلام ٹائمز: کیا عمران خان جہانگیر خان ترین جیسے دوستوں کی وفاداری کے جواب میں ان کیخلاف ایکشن لے سکتے ہیں۔؟
تسنیم احمد قریشی: وہ حکومت میں آنے سے پہلے اور حکومت میں آنے کے بعد بھی بے نامی اکاونٹس کے نام پہ، کبھی کرپشن کے نام پہ، کبھی احتساب کے نام پہ اپوزیشن کو اور مخالف سیاسی رہنماؤں کو بدنام کرتے رہے ہیں، اب چینی کے بے نامی کھاتوں سے ثابت ہوگیا ہے کہ عمران خان کی سیاست کی بنیاد ہی کرپشن اور کرپٹ سیاستدانوں کی کمائی پر رکھی گئی ہے۔ اسی لیے شیخ رشید نے کہا ہے کہ اب عمران خان کو سمجھ آگئی ہے کہ سیاست کیا ہے اور حکومت کو کیسے چلانا ہے۔ اسکا مطلب یہی ہے کہ جس سیاست کو یہ گالیاں دیتے رہے ہیں، یہ خود اسی کا حصہ ہیں، انکا طرز سیاست منفاقت پہ مبنی ہے، اس وقت ایک منافق نے دوسرے منافق کو زچ کیا ہے۔
اب ان کے درمیان قربت اور اتحاد اپنے اپنے مفادات کی وجہ سے پارہ پارہ ہوگیا ہے۔ لیکن پی ٹی آئی میں منافقوں کی کوئی کمی نہیں، یہ تو صرف ایک ٹولہ سامنے آیا ہے۔ لیکن جو زخم جہانگیر ترین کو لگا ہے، وہ اس کا ردعمل دیں گے، اسی لیے یہ باتیں شروع ہوگئی ہیں کہ موجودہ حکومت کو اندر سے خطرہ تھا، جس کے لیے عمران خان نے پہلے ہی اس بچاؤ کی تدبیر کی، لیکن اس کے اثرات ضرور مرتب ہونگے۔ اب تو کھلم کھلا جہانگیر ترین نے عمران خان کو دھمکیاں دینا شروع کر دی ہیں، اب عمران خان کی کمزور حکومت مزید کمزور ہوگئی ہے، سلیکٹڈ وزیراعظم جہانگیر ترین کیخلاف کوئی ایکشن لے یا نہ لے، لیکن جہانگیر ترین عمران خان کیخلاف ضرور ایکشن لیگا۔
انتہائی عمدہ اور بامعنی تحریر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔