0
Tuesday 7 Apr 2020 21:01
خاموش رہے تو بھارت کشمیر کو ہڑپ کر جائیگا، پاکستان آواز اٹھائے

کورونا کے باعث خطرات لاحق ہیں، بھارت حریت قیادت اور کارکنوں کو فی الفور رہا کرے، الطاف احمد بھٹ

لاک ڈاون کی آڑ میں مقبوضہ جموں کشمیر ڈومیسائل قانون تبدیل کیا گیا
کورونا کے باعث خطرات لاحق ہیں، بھارت حریت قیادت اور کارکنوں کو فی الفور رہا کرے، الطاف احمد بھٹ
الطاف احمد بھٹ جموں و کشمیر حریت کانفرنس کے رہنما اور جموں و کشمیر سالویشن موومنٹ کے صدر ہیں۔ الطاف احمد بھٹ جموں و کشمیر کے اس خانوادے سے تعلق رکھتے ہیں کہ جنہوں نے کشمیر کی آزادی کیلئے عملی جہاد میں حصہ لیا۔ مقبوضہ وادی میں ان کے خاندان کے کئی افراد بھارتی افواج کیخلاف آزادی کی جنگ میں شہید ہو چکے ہیں۔ الطاف احمد بھٹ سری نگر کے علاقے شنگرپورہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ مقبوضہ جموں و کشمیر میں 1987 کے انتخابات میں کہ جب بھارتی حکومت نے باقاعدہ پلاننگ کے تحت دھاندلی کی اور آزادی کشمیر کی سیاسی جدوجہد عسکری جدوجہد میں تبدیل ہوئی تو الطاف احمد بھٹ بھارتی عزائم کے خلاف عسکری جدوجہد کرنے والوں میں پیش پیش تھے۔ کئی سال مقبوضہ وادی میں قابض بھارتی افواج کے خلاف نبرد آزما رہے۔ 1998 میں مقبوضہ وادی سے آزاد کشمیر آ گئے اور پھر پہلے مظفر آباد اور حال اسلام آباد میں مقیم ہیں۔ الطاف احمد بھٹ جموں و کشمیر ہیومن رائٹس آرگنائزیشن کے سربراہ ہیں جو کہ مقبوضہ کشمیر میں ہونے والی انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیوں کو اقوام عالم تک پہنچانے کیلئے کوشاں ہے۔ کورونا کے نتیجے میں مقبوضہ وادی کی موجودہ صورتحال اور تحریک آزادی کشمیر کے حوالے سے اسلام ٹائمز کے ساتھ الطاف احمد بھٹ نے جو گفتگو کی، وہ انٹرویو کی صورت پیش خدمت ہے۔ (ادارہ)

اسلام ٹائمز: دنیا کے بیشتر ممالک کورونا وائرس کی وجہ سے لاک ڈاؤن میں ہیں جبکہ کشمیر میں پہلے سے ہی لاک ڈاؤن تھا۔؟ دونوں لاک ڈاون میں کتنا فرق محسوس کرتے ہیں۔؟
الطاف احمد بھٹ:
جہاں تک پانچ اگست کے لاک ڈاون کا تعلق ہے کہ جو مقبوضہ جموں کشمیر اور لداخ میں آرٹیکل 370 اور آرٹیکل 35 اے جو مودی حکومت نے ختم کرکے ریاست جموں و کشمیر کی آئینی و قانونی حیثیت زبردستی بدلنے کی کوشش کی اور اس کے خلاف ممکنہ ردعمل کے خوف سے پورے کشمیر کو بند کیا گیا تو وہ ایک ظالمانہ اور پرتشدد مسلط کردہ لاک ڈاؤن ہے۔ کشمیریوں پہ گزشتہ بتیس برسوں سے بھارت نے دائرہ حیات تنگ کیا ہوا ہے۔ ان بتیس برسوں میں کرفیو، لاک ڈاؤن، تشدد کی تاریخ ہے۔ جس کا کشمیریوں کا اندازہ بھی ہے اور اسے سہہ بھی رہے ہیں۔ کورونا کے باعث موجودہ لاک ڈاون نصف سے زائد دنیا اس کی لپیٹ میں آچکی ہے۔ تو کشمیر میں یہ لاک ڈاؤن اپنی بدترین شکل میں پہلے سے ہی موجود تھا اور وہاں کے بچے بوڑھے، مرد و خواتین دنیا کو بتا رہے تھے کہ وہ کس حال میں ہیں۔ نریندر مودی اور اس کے دس لاکھ فوجی وہاں موجود ہیں۔ انسانی آبادی اور ان پہ مسلط افواج کی تعداد کے تناسب میں دیکھیں تو مقبوضہ کشمیر دنیا کا وہ شدید ترین محصور ایریا ہے کہ جہاں اسی لاکھ افراد کیلئے دس لاکھ فوجی موجود ہیں اور ان دس لاکھ افواج سے وہاں کے عوام پہ ظلم ہے تشدد ہے۔ عدم تحفظ ہے، عوام ان سے اپنے جان و مال کو محفوظ نہیں سمجھتے۔ باہر نکلنے پہ گولی مارنے کا حکم ہے۔ ظاہر بات ہے اس لاک ڈاون اور کشمیر میں لاک ڈاون میں یہ فرق موجود ہے کہ باقی دنیا میں موجود فوجی اپنے عوام کی مدد کیلئے موجود ہیں، عوام کو ان سے یہ خطرہ موجود نہیں ہے کہ باہر نکلنے پہ انہیں گولی مار دی جائے گی۔ بہرحال دنیا کو یہ معلوم ہو گیا ہے کہ لاک ڈاون ہوتا کیا ہے اور کرفیو میں زندگی بسر کرنا کیا ہوتا ہے۔ 

اسلام ٹائمز: بھارتی فوج کے اس کرفیو سے مقبوضہ وادی میں تحریک حق خودارادیت پہ کتنا اثر پڑا ہے۔؟
الطاف احمد بھٹ:
لاک ڈاون سے دنیا کو یہ احساس ہو چکا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں آٹھ مہینے سے کیا صورتحال ہو گی۔ کشمیر میں اکنامک لاک ڈاون بھی تھا۔ اربوں یو ایس ڈالر کا نقصان ہوا ہے۔ ہمارے وسائل تباہ ہوئے ہیں۔ وہاں ہمارے وسائل ہیں۔ فروٹ کی صورت میں باغات کی صورت میں سیب کی صورت میں۔ زعفران، اخروٹ کی صورت میں۔ ہماری اکنامی تباہ کی گئی اور یہ سارا کچھ باقاعدہ منصوبہ بندی سے کیا گیا۔ ہماری اکنامی ریڑھھ کی ہڈی توڑی گئی مگر بھارت حق خود ارادیت کی ہماری تحریک کو توڑنے میں ناکام رہا۔ 

اسلام ٹائمز: بھارتی آئین میں کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے سے تحریک آزادی کشمیر کے مقدمے کو زیادہ تقویت ملی ہے یا کمزور ہوا ہے۔؟ 
الطاف احمد بھٹ:
 مودی حکومت کی جانب سے 5 اگست کے جو اقدامات لیئے گئے اور کشمیر کی حیثت ختم کرنے کی جو کوشش کی گئی ہے اس سے ہمارا حق خود ارادیت کا، ہماری آزادی کا، ریفرنڈم کا جو کیس ہے وہ مزید مضبوط ہوا ہے۔ ہماری آواز مزید موثر ہوکر دنیا کے کونے کونے تک پہنچی ہے۔ آپ نے دیکھا ہو گا کہ جب سے کشمیر کی آزادی کا نعرہ بلند ہوا ہے۔ پہلی مرتبہ ایسا ہوا ہے کہ دنیا کے کونے کونے سے کشمیر کے، کشمیریوں کے حق میں آواز بلند ہوئی ہے۔ لوگ باہر نکلے ہیں۔ امریکہ میں، برطانیہ، جرمنی، آسٹریلیا میں نکلے ہیں۔ دنیا کے کونے کونے میں لوگوں نے کشمیریوں کے حق میں آواز اٹھائی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس ترمیم سے کوئی شک نہیں کہ ہمارا مقدمہ مضبوط ہوا ہے۔ 

اسلام ٹائمز: کورونا سے بچاؤ کیلئے مقبوضہ وادی میں بھارتی ریاستی اقدامات سے مطمئن ہیں۔؟
الطاف احمد بھٹ: 
جہاں تک کورونا کے حوالے سے بات ہے پوری دنیا اس کے خلاف جنگ لڑ رہی ہے اور جہاں تک ہندوستان کی بات ہے، تو اس کی ایڈمنسٹریشن کے اقدامات محض لفاظی کی حد تک ہیں۔ وہاں عوام اور حکومت ایک دوسرے کو دشمن کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ کیسے ممکن ہے کہ مقبوضہ کشمیر اور لداخ کے عوام کی فلاح و بہبود، سکیورٹی اور تحفظ کیلئے قابض فورسز کوئی اقدامات کریں۔؟ جب کہ وہ ایک دوسرے کو اپنا دشمن سمجھتے ہیں۔ لفاظی کی حد تک ان کے اقدامات بھی ہیں اور اثرات بھی۔ البتہ مقبوضہ وادی میں جو ہماری اپنی ایڈمنسٹریشن ہے، جو ہمارے اپنے ڈاکٹرز ہیں ، وہ عوام کیلئے اپنا دن رات ایک کئے ہوئے ہیں۔ ہم عالمی اداروں سے اپیل کرتے ہیں کہ دنیا کی این جی اوز کو جو صحت کے حوالے سے کام کرتی ہیں، انہیں مقبوضہ کشمیر اور لداخ میں بھیجیں تاکہ وہ وہاں پہ جاکر لوگوں کی جان کے تحفظ کیلئے اقدامات کریں۔ 

اسلام ٹائمز: کورونا کی وبا بھارت میں بھی عام ہے تو ایسے میں بھارتی جیلوں میں قید حریت قیادت کس حد تک محفوظ ہے۔؟
الطاف احمد بھٹ:
 مقبوضہ وادی میں کرونا کی ٹیسٹنگ کیلئے سہولیات ہیں نہ ہی بھارتی افواج کی موجودگی میں ایسا ممکن ہے۔ کرونا وائرس سے بچنے کیلئے بھی ایسے کوئی اقدامات نہیں کئے جا رہے کہ جن سے جیلوں میں بند قیدیوں اور عام شہریوں کو بچایا جا سکے۔ کرونا کیخلاف ساری دنیا میں اقدامات اٹھائے جارہے ہیں لیکن مقبوضہ کشمیر میں بھارتی ہٹ دھرمی کی وجہ سیکورٹی ہیلتھ کئیر اور ڈاکٹرز کی ٹیم نہیں بھیجی گئی۔ 5 اگست کے آرٹیکل 370 اور 35 اے کے خاتمہ کے بعد سے اب تک مقبوضہ کشمیر کی معاشی، سماجی و معاشرتی صورتحال انتہائی دگرگوں ہے، وہاں کے شہری اس وقت معاشی بدحالی اور اب کرونا کے باعث شدید ذہنی دباو اور جسمانی تکالیف کا شکار ہیں۔ کرونا کے باعث کشمیریوں کی زندگیاں داو پہ لگی ہوئی ہیں۔ کرونا وائرس کے پھیلنے کی رفتار انتہائی تشویش ناک ہے اگر مقبوضہ کشمیر میں اس پر بروقت قابو نہ پایا گیا تو یہ کشمیریوں کیلئے تباہ کن ہو گا۔ اٹلی،سپین اور فرانس کی مثال ہمارے سامنے موجود ہے۔ جہاں پہ اس وائرس کو سنجیدہ نہیں لیا گیا اور آج وہاں ہزاروں لوگ موت کے گھاٹ اتر چکے ہیں۔ اگر ترقی یافتہ ممالک اس پہ قابو نہیں پا سکے تو مقبوضہ کشمیر کے ہسپتالوں کی حالت زار سے بخوبی واقف ہیں، یہ ہسپتال طبی سہولیات کے فقدان کا شکار ہیں۔

ماہرین کے نزدیک یہ وائرس ٹھنڈے ممالک میں تیزی سے پھیلتا ہے اس لحاظ سے مقبوضہ کشمیر میں اس کو روکنا وہاں کے لوگوں کیلئے بڑا چیلنج ہے۔ دوسری طرف بھارت نے بھی اس علاقے کو اپنے اہداف سے دور رکھا ہوا ہے، جس سے اس بات کا خدشہ ہے کہ وہاں یہ کرونا تباہی نہ پھیلا دے۔ عالمی ادارہ صحت،اقوام عالم اور انٹر نیشنل این جی اوز آگے بڑھیں اور کشمیریوں کو کرونا وائرس سے بچائیں۔ جیلوں میں ناکافی سہولیات کے باعث قیدی وائرس کا آسان شکار بن سکتے ہیں، لہذا حریت لیڈر شپ ڈاکٹر حمید فیاض، ظفر اکبر بٹ، یسین ملک، آسیہ اندرابی، شبیر احمد شاہ، مسرت عالم بٹ، شاھدالسلام، ڈاکٹر فاختو، خان سو پوری اور تمام دیگر کشمیری مزاحمت پسند کارکنوں کو فوری طور پر رہا کیا جائے۔ ان کی آواز دبانے کی کوشش کی جارہی ہے، ان کی زندگیوں کو خطرہ لاحق ہے۔ پاکستان کو اس پہ مزید آواز اٹھانی چاہیئے اور اس عنوان سے عالمی سطح پہ ایک باقاعدہ تحریک چلنی چاہیئے بالخصوص اس کورونا وائرس سے ہماری قیادت کو شدید خطرہ لاحق ہے۔ عالمی اداروں سے مطالبہ کرنا چاہیئے کہ ہماری حریت قیادت اور کارکنان کو غیر مشروط طور پر رہا کیا جائے۔ 

اسلام ٹائمز: پاکستان نے جس طرح کشمیر کا مقدمہ عالمی فورم پہ لڑا ، کشمیر کے عوام اس سے مطمئن ہیں۔؟
الطاف احمد بھٹ:
نریندر مودی اور ان کے ساتھی امیت، اجیت ڈوال جنہوں نے پانچ اگست کے اقدامات کئے ہیں۔ پاکستان مسئلہ کشمیر کا فریق بھی ہے اور وکیل بھی ہے ۔ اس لحاظ سے پاکستان کی دہری ذمہ داری ہے کہ وہ مسئلہ کشمیر کا معاملہ دنیا کے سامنے بھرپور طریقے سے اٹھائے۔ بھارت نے جو پانچ اگست کے جارحانہ اقدامات اٹھائے ہیں، اسے کشمیر کے عوام نے قطعا مسترد کر دیا ہے۔ یہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کی سراسر خلاف ورزی ہے، یہ عالمی انسانی حقوق کی سراسر خلاف ورزی ہے۔ دنیا سے مطالبہ کرنا چاہیے کہ وہ بھارتی حکومت کے جارحانہ عزائم کے سامنے بند باندھے اور جس روش پہ بھارتی حکومت گامزن ہے، اسے روک دے۔ کشمیری عوام کے مرضی و منشا کے منافی بھارتی حکومت کے یکطرفہ اقدامات کو عالمی برادری روک دے۔ 

اسلام ٹائمز: کشمیر میں شہریت، ڈومیسائل کے نئے قانون پہ عملدرآمد شروع کیا گیا ہے، اس کے کیا اثرات برآمد ہوںگے۔؟
الطاف احمد بھٹ:
پانچ اگست کو بھارتی حکومت نے جو اقدامات اٹھائے تھے۔ اب اس پہ عملدرآمد یوں شروع کیا ہے کہ بھارت کا کوئی بھی شہری جوکہ پندرہ سال تک کشمیر میں رہا ہو تو اس ڈومیسائل قانون کے تحت وہ کشمیر کی شہریت حاصل کر سکتا ہے۔ جس شخص نے کشمیر میں دس سال تک نوکری کی ہو تو اسے بھی وہاں کی ڈومیسائل ملے گی اور اس کے بچوں کو بھی وہاں کی شہریت ملے گی۔ تو میں سمجھتا ہوں کہ مودی کی ہندوتوا ذہنیت پوری دنیا کے سامنے کھل کر سامنے آگئی ہے۔ بھارت نے ایک ایسے وقت میں کہ جب عوام کورونا سے لڑ رہے ہیں، اپنے خبث باطن کو ظاہر کرتے ہوئے انتہائی متنازعہ قانون بشروع کیا ہے۔ وادی میں آبادی کا تناسب بدلنے کی کوشش ہے، اگر اس وقت خاموش رہے تو بھارت کشمیر ہڑپ کر جائے گا۔ پورے ہندوستان کے اندر مودی حکومت نے نے جو ظلم و ستم کا بازار گرم کیا ہو ا ہے تو یہ اسی کا تسلسل ہے۔ نریندر مودی کشمیر، لداخ میں وہی ماحول بنانا چاہ رہے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ سراسر خلاف ورزی ہے، اقوام متحدہ کی قراردادوں کی۔ اقوام عالم کو ہندوستان کے عوام دشمن اور ہندوتوا ذہنیت پہ مبنی ایجنڈے کے سامنے بند باندھنا ہو گا۔ سوال تو یہ بھی ہے کہ اقوام متحدہ، سلامتی کونسل اور دیگر عالمی ادارے کیوں خاموش ہیں کہ جب انہی کی قراردادوں کو کسی خاطر میں نہ لاتے ہوئے بھارت کھلم کھلا خلاف ورزی کر رہا ہے۔ کیوں۔؟

اسلام ٹائمز: حالیہ بھارتی قوانین کے خلاف پاکستان کو کیا کرنا چاہیئے۔؟
الطاف احمد بھٹ:
بھارت نے جو تنظیم نو کے نام پہ پانچ اگست کے ترامیم پہ جو عملدرآمد شروع کیا ہے۔ ان آٹھ مہینے میں بھارتی فوج نے ہر طرح سے لاک ڈاون، کریک ڈاون کیا، بریک ڈاون کیا ہمارے بچوں کا مستقبل چھیننے کی کوشش کی ہے۔ عوام کو ناگفتہ بے حالات کی بھٹی میں جھونک دیا۔ ساتھ ساتھ مودی حکومت زمینی سطح پہ عملی اقدامات اٹھا رہی ہے اور تیزی سے سسٹم کو تبدیل کرنے کیلئے کوشاں ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس سے ریاست کا جو بنیادی، سیاسی ڈھانچہ ہے وہ تبدیل ہوجائیگا۔ اس کی بنیادیں ہل جائیں گی۔ حکومت پاکستان کو اس کے خلاف بھرپور اقدامات کرنے ہوں گے۔ اس کا ڈٹ کے مقابلہ کرنا ہو گا۔ پوری دنیا کو  بتانا ہوگا کہ اقوام متحدہ کی قراردادوں، معاہدوں اور وعدوں کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے۔ حکومت پاکستان بالخصوص وزارت خارجہ اور ہماری موجودہ سیاسی قیادت کو اس مسئلہ پہ کھل کر سامنے آنا چاہیے۔

اسلام ٹائمز: تحریک آزادی کشمیر کا مستقبل کیا ہے۔؟ 
الطاف احمد بھٹ:
مقبوضہ جموں کشمیر کے عوام نے آج تک ان ستر اکتہر سالوں میں نہ ہی بھارتی قبضے اور تسلط کو قبول کیا ہے اور نہ ہی مودی حکومت کے انسانیت سے عاری قوانین و فیصلوں کو۔ 27 اکتوبر 1947سے انہوں نے زبردستی قبضہ کیا اور اپنے فوجی اتار کر وادی اور اس کے شہریوں کو یرغمال بنایا۔ مقبوضہ جموں و کشمیر اور لداخ کے لوگوں نے اس کے خلاف مزاحمت کی ہے اور یہ مزاحمت آج بھی جاری ہے۔ اس میں وقتافوقتا اتار چڑھاو ضرور آئے ہیں، اس کے مختلف اداوار ہیں۔ ہم نے پہلے سیاسی جدوجہد کی ہے اور پھر 1989 کے بعد ہم نے عسکری جدوجہد شروع کی ہے۔ اب وہاں پہ عسکریت بھی ہے، انتفادہ بھی ہے۔ تحریک آزادی کشمیر تب تک جاری رہے گی کہ جب تک مقبوضہ وادی سے ایک ایک بھارتی فوجی کا انخلا نہیں ہوجاتا اور جب تک مقبوضہ وادی کے شہریوں سے پوچھ کر ان کے مستقبل کا فیصلہ نہیں کیا۔ اس وقت تک تحریک آزادی کشمیر جاری رہے گی۔  
خبر کا کوڈ : 855285
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش