Tuesday 31 Mar 2020 23:51
علامہ ارشاد علی کا بنیادی تعلق صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع ہنگو سے ہے، انکا شمار مجلس وحدت مسلمین کے دیرینہ مسئولین میں ہوتا ہے، علامہ صاحب اسوقت ایم ڈبلیو ایم خیبر پختونخوا کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل کی حیثیت سے ملی و قومی ذمہ داری نبھا رہے ہیں، جبکہ اس سے قبل ایم ڈبلیو ایم ضلع ہنگو کے سیکرٹری جنرل اور صوبائی سیکرٹری تربیت کی مسئولیت پر بھی فائز رہ چکے ہیں۔ علامہ ارشاد علی کچھ عرصہ قبل زیارات مقامات مقدسہ کیلئے عراق و ایران گئے ہوئے تھے، جب وہ وطن واپس روانہ ہونے لگے تو اس دوران دنیا بھر میں کورونا وائرس کی وبا پھیلنا شروع ہوگئی، انہیں بھی دیگر زائرین کے ہمراہ تفتان بارڈر پر کئی روز رکنا پڑا، علامہ صاحب تفتان کے راستے دیگر زائرین کے ہمراہ ڈیرہ اسماعیل خان میں قائم قرنطینہ سنٹر پہنچے اور اب بھی گومل میڈیکل کالج ڈی آئی خان میں موجود ہیں، اسلام ٹائمز نے علامہ ارشاد علی سے تفتان سے ڈی آئی خان قرنطینہ سنٹر تک کے سفر، تفتان اور ڈیرہ قرنطینہ سنٹر کے حالات کے حوالے سے اہم انٹرویو کا اہتمام کیا، جو قارئین کے پیش خدمت ہے۔ادارہ
اسلام ٹائمز: سب سے پہلے ہماری قارئین کیلئے بتایئے گا کہ آپ لوگ تفتان کے قرنطینہ سنٹر پر کب پہنچے، وہاں کتنے دن گزارے اور ادھر حکومتی انتظامات کی کیا پوزیشن تھی۔؟
علامہ ارشاد علی: ہم لوگ چار مارچ کو تفتان بارڈر پر پہنچے تھے، ہم نے وہاں قرنطینہ میں تقریباً 15 دن گزارے، وہاں حکومت اور مقامی انتظامیہ کی جانب سے سہولیات اور انتظامات بالکل ناقص ترین تھے۔ اس کے بعد ہمیں ڈیرہ اسماعیل خان کے اس قرنطینہ سنٹر میں بھیج دیا گیا۔ تفتان میں شروع میں تو ضلعی انتظامیہ کے نمائندے چکر لگاتے تھے، لیکن پھر نہیں آئے۔ اس کے علاوہ کرنل اور بریگیڈیئر بھی آئے تھے، لیکن صوبائی حکومت کا کوئی نمائندہ وہاں نہیں آیا۔
اسلام ٹائمز: علامہ صاحب سنا ہے کہ تفتان بارڈر پر کورونا کے خدشات کے باوجود تمام زائرین کو ایک ساتھ رکھا گیا تھا۔؟
علامہ ارشاد علی: جی بالکل، آپ نے ٹھیک کہا، ایسا ہی تھا وہاں۔ جو شرائط یہ حکومت قرنطینہ سنٹر کی بتا رہی تھی، اس میں کسی ایک شرط پر بھی تفتان میں ہم نے عمل ہوتا نہیں دیکھا، ایک ایک خیمے میں چار، چار لوگوں کو ایک ساتھ رکھا گیا تھا، صفائی کے انتہائی ناقص انتظامات تھے۔ صرف کھانا ملتا تھا، اس کے علاوہ نہ میڈیکل کی کوئی سہولت تھی، نہ ڈاکٹرز تھے، نہ ہی دیگر کوئی میڈیکل سٹاف موجود تھا۔ دوائیاں بھی نہیں تھیں۔ شوگر، بلڈ پریشر اور ہارٹ کے مریضوں کیلئے بھی کوئی بندوبست موجود نہیں تھا۔ ایک خیمے کیلئے دو کمبل اور ایک چٹائی دی گئی تھی، جس میں چار، چار لوگوں کو سامان کیساتھ رکھا گیا تھا۔ میں حیران ہوں کہ کورونا کے اتنے خطرے کے باوجود حکومت نے کسی قسم کی توجہ نہیں دی۔
اسلام ٹائمز: یعنی وہاں کورونا کو مزید پھیلنے کی دعوت دی گئی اور کیا تفتان قرنطینہ میں لوگوں کے کورونا ٹیسٹ ہوئے تھے۔؟
علامہ ارشاد علی: نہیں، وہاں کوئی ٹیسٹ نہیں ہوا، میں سمجھتا ہوں کہ وہاں حکومت نے بالکل کوئی توجہ نہیں دی، وہاں کورونا کو کنٹرول کرنے کی بجائے پھیلانے کا موقع فراہم کیا گیا، جب ہم ڈیرہ اسماعیل خان آئے ہیں، تب ہمارے ٹیسٹ ہوئے۔ تفتان کا سنٹر تو قرنطینہ سنٹر تھا ہی نہیں۔ یہ بہت بڑا مسئلہ بن سکتا تھا۔
اسلام ٹائمز: آپ لوگ گومل میڈیکل کالج ڈی آئی خان کب پہنچے تھے اور یہاں انتظامیہ کیجانب زائرین کو فراہم کی جانیوالی سہولیات کی کیا صورتحال ہے۔؟
علامہ ارشاد علی: ہم لوگ یہاں 20 مارچ کو پہنچے تھے، ہم تفتان سے ڈائریکٹ ژوب کے راستے یہاں پہنچے، کوئٹہ میں ہم نہیں رکے۔ یہ قرنطینہ سنٹر ڈاکٹر مجید کے زیر نگرانی قائم ہے، یہاں پر انتظامات اچھے ہیں، ہمیں کھانے، پینے اور رہائش کے حوالے سے کوئی مشکل پیش نہیں آئی، جس بھی زائر کو کسی چیز کی ضرورت ہوتی ہے تو یہ لوگ پہنچا رہے ہیں۔ یہاں ہر شخص کو الگ الگ رکھا گیا ہے اور الگ بیڈ دیا گیا ہے۔ ہر زائر کا سب کچھ علیحدہ ہے۔
اسلام ٹائمز: اب تک آپکی اطلاعات کے مطابق اس قرنطینہ سنٹر میں موجود کتنے افراد کے کورونا ٹیسٹ پازیٹیو آئے ہیں اور کیا آپکا اپنا ٹیسٹ کلیئر ہے۔؟
علامہ ارشاد علی: یہاں انتظامیہ نے بتایا ہے کہ 37 افراد کے ٹیسٹ پازیٹیو آئے ہیں، جن کے ٹیسٹ پازیٹیو آئے ہیں، ان کے دوبارہ ٹیسٹ کروائے جا رہے ہیں، وہ کہہ رہے ہیں کہ یہ مریض سیریس نہیں ہیں، ان مریضوں میں کوئی زیادہ سیریس نہیں ہے۔ جو کورونا کی شرائط بتائی جاتی ہیں، ان میں وہ ظاہری طور پر نظر نہیں آتیں۔ الحمد اللہ میرا ٹیسٹ بھی کلئیر ہے۔
اسلام ٹائمز: یہاں جن افراد کے ٹیسٹ نیگیٹو آئے ہیں، انہیں کب تک گھروں کو واپس جانے کی یقین دہانی کرائی گئی ہے۔؟
علامہ ارشاد علی: انتظامیہ نے بتایا ہے کہ جن لوگوں کے ٹیسٹ نیگیٹو آئے ہیں، انہیں قرنطینہ کے اصولوں کے مطابق 14 دن رکھا جائے گا، یعنی 4 اپریل کو ہمارا ٹائم مکمل ہو جائے گا، ان کا کہنا ہے کہ جن کے ٹیسٹ پازیٹیو ہیں، انکو بھی 14 روز بعد یہاں سے منتقل کیا جائے گا۔ ہمیں اس حوالے سے احتیاطی تدابیر کے حوالے سے بھی آگاہ کیا گیا ہے کہ جب ہم گھر چلے جائیں تو کیا کریں۔ یعنی ہمیں کم از کم سات روز تک اپنے اپنے گھروں میں رہنا ہے، باہر نہیں نکلنا۔
اسلام ٹائمز: پاراچنار سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون کے اس سنٹر میں جاں بحق ہونے کی اطلاعات تھیں، انکی وفات کیسے ہوئی۔؟
علامہ ارشاد علی: جب ہم ڈیرہ اسماعیل خان آرہے تھے، تو راستہ میں ان کی طبعیت خراب ہوگئی تھی، انکی شوگر ہائی ہوگئی تھی۔ راستے میں کوئی خاص بندوبست نہیں تھا۔ نہ ایمبولینس تھی۔ جب ہم قریب پہنچے تو اس خاتون کی طبعیت زیادہ خراب ہوگئی، قافلے والوں نے اس وقت کافی شور وغیرہ مچایا کہ ایمبولینس کا بندوبست کیا جائے، لیکن کوئی بندوبست نہیں ہوسکا اور وہ خاتون شوگر کیوجہ سے فوت ہوگئی، نہ کہ کورونا کیوجہ سے۔
اسلام ٹائمز: سب سے پہلے ہماری قارئین کیلئے بتایئے گا کہ آپ لوگ تفتان کے قرنطینہ سنٹر پر کب پہنچے، وہاں کتنے دن گزارے اور ادھر حکومتی انتظامات کی کیا پوزیشن تھی۔؟
علامہ ارشاد علی: ہم لوگ چار مارچ کو تفتان بارڈر پر پہنچے تھے، ہم نے وہاں قرنطینہ میں تقریباً 15 دن گزارے، وہاں حکومت اور مقامی انتظامیہ کی جانب سے سہولیات اور انتظامات بالکل ناقص ترین تھے۔ اس کے بعد ہمیں ڈیرہ اسماعیل خان کے اس قرنطینہ سنٹر میں بھیج دیا گیا۔ تفتان میں شروع میں تو ضلعی انتظامیہ کے نمائندے چکر لگاتے تھے، لیکن پھر نہیں آئے۔ اس کے علاوہ کرنل اور بریگیڈیئر بھی آئے تھے، لیکن صوبائی حکومت کا کوئی نمائندہ وہاں نہیں آیا۔
اسلام ٹائمز: علامہ صاحب سنا ہے کہ تفتان بارڈر پر کورونا کے خدشات کے باوجود تمام زائرین کو ایک ساتھ رکھا گیا تھا۔؟
علامہ ارشاد علی: جی بالکل، آپ نے ٹھیک کہا، ایسا ہی تھا وہاں۔ جو شرائط یہ حکومت قرنطینہ سنٹر کی بتا رہی تھی، اس میں کسی ایک شرط پر بھی تفتان میں ہم نے عمل ہوتا نہیں دیکھا، ایک ایک خیمے میں چار، چار لوگوں کو ایک ساتھ رکھا گیا تھا، صفائی کے انتہائی ناقص انتظامات تھے۔ صرف کھانا ملتا تھا، اس کے علاوہ نہ میڈیکل کی کوئی سہولت تھی، نہ ڈاکٹرز تھے، نہ ہی دیگر کوئی میڈیکل سٹاف موجود تھا۔ دوائیاں بھی نہیں تھیں۔ شوگر، بلڈ پریشر اور ہارٹ کے مریضوں کیلئے بھی کوئی بندوبست موجود نہیں تھا۔ ایک خیمے کیلئے دو کمبل اور ایک چٹائی دی گئی تھی، جس میں چار، چار لوگوں کو سامان کیساتھ رکھا گیا تھا۔ میں حیران ہوں کہ کورونا کے اتنے خطرے کے باوجود حکومت نے کسی قسم کی توجہ نہیں دی۔
اسلام ٹائمز: یعنی وہاں کورونا کو مزید پھیلنے کی دعوت دی گئی اور کیا تفتان قرنطینہ میں لوگوں کے کورونا ٹیسٹ ہوئے تھے۔؟
علامہ ارشاد علی: نہیں، وہاں کوئی ٹیسٹ نہیں ہوا، میں سمجھتا ہوں کہ وہاں حکومت نے بالکل کوئی توجہ نہیں دی، وہاں کورونا کو کنٹرول کرنے کی بجائے پھیلانے کا موقع فراہم کیا گیا، جب ہم ڈیرہ اسماعیل خان آئے ہیں، تب ہمارے ٹیسٹ ہوئے۔ تفتان کا سنٹر تو قرنطینہ سنٹر تھا ہی نہیں۔ یہ بہت بڑا مسئلہ بن سکتا تھا۔
اسلام ٹائمز: آپ لوگ گومل میڈیکل کالج ڈی آئی خان کب پہنچے تھے اور یہاں انتظامیہ کیجانب زائرین کو فراہم کی جانیوالی سہولیات کی کیا صورتحال ہے۔؟
علامہ ارشاد علی: ہم لوگ یہاں 20 مارچ کو پہنچے تھے، ہم تفتان سے ڈائریکٹ ژوب کے راستے یہاں پہنچے، کوئٹہ میں ہم نہیں رکے۔ یہ قرنطینہ سنٹر ڈاکٹر مجید کے زیر نگرانی قائم ہے، یہاں پر انتظامات اچھے ہیں، ہمیں کھانے، پینے اور رہائش کے حوالے سے کوئی مشکل پیش نہیں آئی، جس بھی زائر کو کسی چیز کی ضرورت ہوتی ہے تو یہ لوگ پہنچا رہے ہیں۔ یہاں ہر شخص کو الگ الگ رکھا گیا ہے اور الگ بیڈ دیا گیا ہے۔ ہر زائر کا سب کچھ علیحدہ ہے۔
اسلام ٹائمز: اب تک آپکی اطلاعات کے مطابق اس قرنطینہ سنٹر میں موجود کتنے افراد کے کورونا ٹیسٹ پازیٹیو آئے ہیں اور کیا آپکا اپنا ٹیسٹ کلیئر ہے۔؟
علامہ ارشاد علی: یہاں انتظامیہ نے بتایا ہے کہ 37 افراد کے ٹیسٹ پازیٹیو آئے ہیں، جن کے ٹیسٹ پازیٹیو آئے ہیں، ان کے دوبارہ ٹیسٹ کروائے جا رہے ہیں، وہ کہہ رہے ہیں کہ یہ مریض سیریس نہیں ہیں، ان مریضوں میں کوئی زیادہ سیریس نہیں ہے۔ جو کورونا کی شرائط بتائی جاتی ہیں، ان میں وہ ظاہری طور پر نظر نہیں آتیں۔ الحمد اللہ میرا ٹیسٹ بھی کلئیر ہے۔
اسلام ٹائمز: یہاں جن افراد کے ٹیسٹ نیگیٹو آئے ہیں، انہیں کب تک گھروں کو واپس جانے کی یقین دہانی کرائی گئی ہے۔؟
علامہ ارشاد علی: انتظامیہ نے بتایا ہے کہ جن لوگوں کے ٹیسٹ نیگیٹو آئے ہیں، انہیں قرنطینہ کے اصولوں کے مطابق 14 دن رکھا جائے گا، یعنی 4 اپریل کو ہمارا ٹائم مکمل ہو جائے گا، ان کا کہنا ہے کہ جن کے ٹیسٹ پازیٹیو ہیں، انکو بھی 14 روز بعد یہاں سے منتقل کیا جائے گا۔ ہمیں اس حوالے سے احتیاطی تدابیر کے حوالے سے بھی آگاہ کیا گیا ہے کہ جب ہم گھر چلے جائیں تو کیا کریں۔ یعنی ہمیں کم از کم سات روز تک اپنے اپنے گھروں میں رہنا ہے، باہر نہیں نکلنا۔
اسلام ٹائمز: پاراچنار سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون کے اس سنٹر میں جاں بحق ہونے کی اطلاعات تھیں، انکی وفات کیسے ہوئی۔؟
علامہ ارشاد علی: جب ہم ڈیرہ اسماعیل خان آرہے تھے، تو راستہ میں ان کی طبعیت خراب ہوگئی تھی، انکی شوگر ہائی ہوگئی تھی۔ راستے میں کوئی خاص بندوبست نہیں تھا۔ نہ ایمبولینس تھی۔ جب ہم قریب پہنچے تو اس خاتون کی طبعیت زیادہ خراب ہوگئی، قافلے والوں نے اس وقت کافی شور وغیرہ مچایا کہ ایمبولینس کا بندوبست کیا جائے، لیکن کوئی بندوبست نہیں ہوسکا اور وہ خاتون شوگر کیوجہ سے فوت ہوگئی، نہ کہ کورونا کیوجہ سے۔
خبر کا کوڈ : 853865
منتخب
13 Nov 2024
13 Nov 2024
12 Nov 2024
12 Nov 2024
12 Nov 2024
12 Nov 2024
12 Nov 2024
11 Nov 2024
11 Nov 2024
بندہ آقای ارشاد علی کے بیان کی تائید کرتا ہوں، چونکہ میں خود بھی اس گومل کالج میں موجود ہوں تو اس حوالے سے میں بھی عرض کروں کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ کالج میں کھانے اور پینے کے حوالے سے انتظامات ٹھیک ہیں، لیکن اصل جو مسئلہ ہے، وہ میڈیکل سٹاف اور میڈیسن کا ہے کہ کالج ھذا میں ان چیزوں کا فقدان ہے، کوئی میڈیکل چک اپ نہیں اور نہ ہی میڈیسن کا کوئی خاص بندوبست۔
شکریہ