پاکستان مسلم لیگ فیصل آباد کے رہنماء محمد طلال چوہدری 1973ء میں پیدا ہوئے، 2008ء میں پہلی دفعہ نون لیگ کے ٹکٹ پر قومی اور صوبائی اسمبلی کی سیٹ پر الیکشن میں حصہ لیا، لیکن کامیاب نہیں ہوئے، 2013ء میں رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے، انفارمیشن ٹیکنالوجی، سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے وفاقی پارلیمانی سیکرٹری رہے، وزیر مملکت برائے داخلہ رہے، 2018ء میں قومی اسمبلی کا الیکشن لڑا، لیکن کامیاب نہیں ہوئے۔ سابق وزیر مملکت کیساتھ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کے دورہ پاکستان، کشمیر کی صورتحال اور موجودہ ملکی غیر یقینی کی کیفیت سمیت اہم ایشوز پر اسلام ٹائمز کیساتھ انٹرویو قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔(ادارہ)
اسلام ٹائمز: اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے پاکستان میں مسئلہ کشمیر کیلئے ثالثی کی پیشکش کی ہے، صدر ٹرمپ بھی یہ کہہ چکے ہیں، کیا اسکے نتائج مثبت ہوسکتے ہیں۔؟
طلال چوہدری: حقیقت تو یہ ہے کہ اقوام متحدہ پچاس برس میں اس معاملے کو اب دوبارہ زیر بحث لا چکی ہے۔ عالمی قوتیں بھی بظاہر ڈھکے چھپے الفاظ میں اس کی مذمت کر رہی ہیں، مگر مسئلے کے قابل عمل حل کیلئے ان کا کردار صفر ہے، صدر ٹرمپ بھی پاکستانی انتظامیہ سے ملاقاتوں میں اپنی ثالثی کی پیشکش کرتے ہیں، مگر بھارت اس پر سنجیدہ غور کرنے کے بجائے ہمیشہ ردعمل کے طور پر کشمیریوں کی زندگی کو مزید جہنم بنا دیتا ہے اور اس سارے عمل میں صدر ٹرمپ ثالثی تو درکنار ان مظالم کی کھل کر مذمت بھی نہیں کرتے، امریکا خطے میں چین کے اثر و رسوخ کو دبانے کیلئے بھارت سے دیرینہ تعلقات رکھتا ہے اور اس قیمت پر وہ کبھی بھی نہیں چاہتا کہ بھارت کو ناخوش کرے، مگر پاکستان کے پاس افغانستان کی صورت میں ایک بہترین پتا ہاتھ میں ہے، امریکا افغانستان سے نکلنا چاہتا ہے اور یہ خواہش پاکستان کے اپنے مفاد میں بھی ہے۔
اس لیے امریکا سے اس کی قربت بڑھ بھی سکتی ہے، پاکستان کی لیڈرشپ اس کے بدلے کشمیر پر کوئی امریکی کردار حاصل کرنے کی کوشش میں ہے، ظاہر ہے پاکستان کو اس میں خاصہ سنجیدہ ہو کر سفارتی لابنگ کرنا ہوگی کہ امریکا کو کشمیر کی بدترین اندرونی صورتحال کا احساس دلایا جائے اور مجبور کیا جائے کہ وہ اپنا کوئی مثبت کردار خطے میں ادا کرے، یہ مسئلہ چونکہ نیو کلیئر فلیش پوائنٹ بن چکا ہے، اس لئے امریکا کو اپنی عالمی ذمہ داری سمجھتے ہوئے یہ معاملہ ٹھنڈا کرنے کی کوشش کرنی چاہیئے، پاکستانی قیادت پوری یکسوئی سے عالمی سطح پر بھارتی ظلم و بربریت اور انسانی حقوق کی پامالیوں کو اٹھاتی رہی تو پھر بھارت کو دفاعی پوزیشن پر لایا جا سکتا ہے، چونکہ یہ طے ہے کہ یہ معاملہ جنگ نہیں بلکہ مذاکرات سے حل ہوگا، اس لئے پاکستان کو مسئلے کا بنیادی فریق ہوتے ہوئے اپنا سفارتی کردار ادا کرتے رہنا ہوگا۔
اسلام ٹائمز: ترک صدر نے حالیہ دورہ پاکستان کے دوران کشمیر کے حوالے سے حمایت کا اعلان کیا ہے، کیا حکومت اس سے فائدہ اٹھا رہی ہے۔؟
طلال چوہدری: صدر رجب طیب اردوان نے مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل کرنے سے متعلق پاکستان کے اصولی موقف کی حمایت کرکے پاکستانیوں کے دل جیت لیے ہیں۔ صدر ترکی کے خیالات سے پاکستانیوں سے ترک عوام کے قریبی تعلقات کی بھی ترجمانی ہوئی ہے۔ انہوں نے مضبوضہ کشمیر میں مسلمانوں پر مظالم اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر بھی تشویش کا اظہار کیا ہے، جو ان کی اصول پسندی کا عکاس ہے۔ اسی طرح پاکستان کو ترک صدر کی جانب سے عالم اسلام کے حوالے سے بے باکانہ موقف کی بھی تائید کرنی چاہیئے۔ ملائیشیاء کانفرنس میں شرکت نہ کرکے حکومت نے جو غلطی کی، ابھی اس کا ازالہ ہوسکتا ہے۔ پاکستان کو ترکی، ملائیشیاء، ایران اور عرب ممالک کیساتھ مل کر کشمیر اور فلسطین کے حوالے اپنا کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے، پورا عالم اسلام جس طرح جڑا ہوا ہے، اسی طرح مسلمانوں کو درپیش مسائل کا حل بھی مل کر نکالا جانا چاہیئے۔
اسلام ٹائمز: پاکستان میں سوشل میڈیا کیلئے بنائے گئے نئے قوانین اور ضابطہ کار کو میڈیا پر قدغن کی کہانی کا حصہ بتایا جا رہا ہے، کیا ایسے قوانین آمریت کے زمرے میں آتے ہیں۔؟
طلال چوہدری: موجودہ حکومت جس بے ڈھنگے طریقے سے بل پاس کروا رہی ہے اور مختلف قسم کی پابندیاں مسلط کر رہی ہے، اس سے یہ تاثر جا رہا ہے کہ پاکستان کو ایجنٹ ماڈل بنایا جا رہا ہے، یہ کتنی ستم ظریفی ہے کہ جس شخص نے پاکستان کی عدلیہ کو جیل کے پیچھے دھکیل دیا، اُس کے خلاف فیصلے دینے والی عدالت کی تشکیل کو غلط قرار دیا گیا۔ پہلے پاکستانی معاشرہ لبرل اور کافی بہتر تھا، لیکن اب جو صورتحال ہے، اس میں یہ کہوں گا کہ ایسی گھٹن زندگی میں کبھی نہیں رہی۔ ایوب کے خلاف بغاوت اور یحییٰ کے خلاف سول سوسائٹی اور سیاست کے تعین میں دشمن واضح تھا، آج ایسی ہائبرڈ جنگ ہے، جس میں دشمن ہے بھی اور کھل کر سامنے بھی نہیں آتا۔ پہلے پاکستان کیخلاف غیر ملکی دباؤ بہت زیادہ ہے، ایسے میں یہ اقدامات ملک کے لیے مزید نقصان دہ ثابت ہونگے۔
اسلام ٹائمز: کیا میڈیا قوانین کیلئے حکومتی کوششوں کو نام نہاد بلاامتیاز احتساب کی طرح انتقامی کاروائیوں کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔؟
طلال چوہدری: اس حکومت کی تو روش اور طور طریقے ہی ایسے ہیں، لیکن مجموعی طور پر یہ باتیں بادشاہتوں میں ہوتی تھیں کہ اگر کسی منصف نے کسی ریاست کے ستون کے خلاف بات کی تو منصف کا سر قلم کیا جاتا تھا، احتساب کے خلاف کوئی بھی نہیں ہوسکتا، لیکن وہ بلاامتیاز اور سب کا ہونا چاہیئے۔ کچھ ادارے کہتے ہیں کہ ہمارا الگ احتساب کا طریقہ کار ہے، نیب سے سرمایہ کاروں اور بزنس مینوں کو احتساب کے دائرے سے بھی نکال دیا ہے تو اب احتساب صرف سیاستدانوں کا رہ جاتا ہے۔ عمران خان نے خود اپنے بیانات سے سب کچھ تسلیم کر لیا ہے، یا وہ حد سے آگے بڑھ کر فوج کو بدنام کر رہے ہیں، یہ کہنا کہ میرے متعلق چونکہ فوج اور خفیہ اداروں کو پتہ ہے کہ میں نے کرپشن نہیں کی تو اس لیے مجھے ان سے کوئی ڈر نہیں، نہ وہ میرے مخالف ہیں، اسکا کیا مطلب لیا جائے کہ پہلے اگر کسی نے کرپشن کی ہے تو فوج کو پتہ تھا، جو مقدمات بنائے گئے، وہ عدالتوں نے نہیں فوج نے بنائے۔ کرپشن کیخلاف احتساب کے نام پر جو یکطرفہ عمل جاری ہے، اس کے پیچھے بھی فوج ہے۔؟
ان باتوں سے بہت سارے سوالات سامنے آتے ہیں، یہ عمران خان کا ذہنی خلل ہے، وہ بوکھلائے ہوئے ہیں، اس لیے نہ ان سے عوام محفوظ ہیں، نہ اپوزیشن، نہ ہی میڈیا۔ اب وہ میڈیا پر دباؤ ڈالنا چاہتے ہیں کہ میڈیا انکے تمام تر غلط فیصلوں کی تائید کرے، ایک طرف مہنگائی کا طوفان ہے، دوسری وہ چاہتے ہیں کہ میڈیا ان کے ان مظالم اور ساتھ بیٹھے چوروں کی پردہ پوشی کرے۔ عمران خان ملکی تعمیر و ترقی اور معاشی استحکام کے لئے نہیں، صرف سیاسی انتقام کے ایجنڈے پراقتدار میں آئے تھے، ڈیڑھ برس میں جھوٹے الزامات اور احتساب کے نام پر صرف اپوزیشن کو ٹارگٹ کیا گیا، حکومت میں شامل بعض ارکان کے خلاف ریفرنسز بھی موجود ہیں، مگر انہیں پی ٹی آئی حکومت کی طرف سے صادق اور امین بنا دیا گیا ہے۔
اسلام ٹائمز: پاکستان افغان عمل میں اہم کردار ادا کر رہا ہے، کیا موجودہ حکومت بغیر کوئی نقصان کیے امریکہ کیساتھ تعلقات کو آگے بڑھا سکتی ہے۔؟
طلال چوہدری: یہ سوچتے ہوئے بھی ایک ندامت کا احساس ہوتا ہے کہ جو شخص وزارت خارجہ کا قلمدان سنبھالے ہوئے ہے، وہ پاکستان سے زیادہ عالمی طاقتوں کا سفیر نظر آتا ہے، افسوس کی بات ہے ملک کا وزیر خارجہ واشنگٹن میں بیٹھ کر یہ کہتا ہے کہ پاکستان کا طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے میں ہمارا کیا کردار ہے۔؟ امریکہ پاکستان کے ساتھ نہ کبھی پہلے چلا ہے اور نہ آئندہ چلے گا، اُنکے اپنے مفادات اور تقاضے ہیں، ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ ملاقات میں نئی صورتحال سامنے آئی، لیکن اس حوالے سے نہ پاکستان کو، نہ ہی عوام کو اعتماد میں لیا گیا، نہ ہی پارلیمنٹ کو کچھ بتایا گیا، آج ہماری معیشت عالمی سامراج، عالمی بنک کے ہاتھوں گروی ہے۔
اسلام ٹائمز: آئی ایم ایف اور دوسرے عالمی اداروں کا اثر و رسوخ تو پہلے بھی قائم تھا، موجودہ حکومت نے ایسے اقدامات کیے تو غلط ہوگیا۔؟
طلال چوہدری: پاکستان کی مجبوری ہے کہ عالمی اداروں کیساتھ مل کر چلے اور دنیا میں اپنا اعتماد بحال رکھے، لیکن ہماری حکومت نے ان معاملات کو ایک لحاظ سے اپنے ہاتھ میں رکھا، کسی ادارے کو حق حاصل نہیں تھا کہ وہ وفاقی کابینہ اور وزراء کو ہٹانے کے لیے کہیں، لیکن یہاں کیا ہو رہا ہے۔؟ اسد عمر کو وزیر بنایا، پھر انہیں کابینہ سے نکال پھینکا گیا، کیونکہ انہوں نے آئی ایم ایف سے ڈیل میں ٹانگ اڑانا چاہی، کابینہ میں بطور وزیر پلاننگ واپس تو آچکے ہیں، لیکن ان کی حیثیت ثانوی نوعیت کی ہے۔ ایسا کیا کمال تھا جسے اسد عمر نہ پاسکے اور حفیظ شیخ نے پا لیا؟ چھ ارب ڈالر کا وہ پیکیج جس نے بے انتہا مہنگائی کے سیلاب کو جنم دیا۔؟
یہ عالمی اداروں کی ڈکٹیشن پر ہونے والے فیصلوں کا نتیجہ ہے کہ آٹے کے بحران کے ساتھ ہی چینی کی قیمتوں میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ حکومت کی جانب سے کہا جا رہا ہے کہ چینی کے ذخائر ضرورت سے زائد ہیں، اگر ایسا ہے تو مارکیٹ میں رسد میں کیا رکاوٹیں ہیں اور قیمتوں میں اضافے کے اسباب اگر اس کے علاوہ ہیں تو وہ کیا ہیں۔؟ ابھی خوراک کے ایک جزو کا بحران ختم نہیں ہوتا کہ دوسرے کا کال پڑ جاتا ہے اور لوگ ان کی تلاش میں مارے مارے پھرتے رہتے ہیں۔ اگر یہ سب کچھ مصنوعی ہے تو حکومت مارکیٹ فورسز پر قابو پانے میں ناکام کیوں ہے۔؟ محض زبانی مذمت کرنے یا وضاحتیں پیش کرنے سے یہ مسائل حل ہونے والے نہیں۔
اسلام ٹائمز: ان حالات میں اپوزیشن جماعتوں کو عوام کی آواز بننا چاہیئے، کیا لندن پلان کے ذریعے حکومت تبدیل کرنیکی کوششیں بارآور ثابت ہو پائیں گی۔؟
طلال چوہدری: پی ٹی آئی کی حکومت اب ڈیڑھ 2 ماہ کی مہمان ہے، اس حکومت کے خلاف سازش کون کر رہا ہے؟ اس کا جواب عمران خان خود یا ان کے ترجمان دے سکتے ہیں، مسلم لیگ (ق) ہی نہیں بلکہ پی ٹی آئی کے ارکان بھی ہم سے مل رہے ہیں، لیکن مسلم لیگ (ن) میں شمولیت کا فیصلہ قیادت کرے گی۔ حکومت کے خلاف مسلم لیگ (ن) کسی سازش کا حصہ نہیں جبکہ وزیراعظم نے سازش کی بات کی ہے، اُنہوں نے اپنے خلاف ہونے والی سازش میں مسلم لیگ (ن) یا کسی اپوزیشن جماعت کا نام نہیں لیا، عمران خان کا یہ کہنا کہ وزیراعلیٰ کو کوئی نہیں نکال سکتا، لیکن لگتا ہے کہ ان کو شائد علم نہیں کہ وہ اب خود بھی زیادہ دیر تک وزیراعظم برقرار نہیں رہیں گے۔ کسی وقت بھی اتفاق رائے سے ان ہاؤس تبدیلی کا امکان ہے، جس کے بعد رواں سال میں عام انتخابات ہوں گے۔ اللّٰه کرے اس حکومت سے جان چھوٹ جائے۔
الیکشن میں لوگوں نے پی ٹی آئی کو ووٹ نہیں دیئے، جو کچھ ہوا، اس کے باوجود عمران خان سادہ اکثریت بھی حاصل نہ کرسکے۔ ہم غیر فطری تبدیلی نہیں چاہتے، جو بھی ہو آئین کے مطابق ہو، سب پہلے الیکشن چاہتے ہیں۔ پی ٹی آئی والے اتحادیوں سے وعدے پورے نہیں کر رہے، انہوں نے 100 نعرے لگائے تھے، ہر وعدے پر یوٹرن لیا، وہ اب صرف کرسی کا مزہ لے رہے ہیں۔ اگر حکومت سمجھتی ہے کہ وہ درست سمت میں جا رہی ہے تو پھر اس کو مخالفین کا خوف کیونکر ہے اور وہ آرٹیکل 6 کو پڑھے بغیر اس طرح سے بانٹنے کی بات کرتے ہیں، جس طرح کوئی ٹافی بانٹ رہا ہو۔ ہر تھوڑے دن بعد کہہ دینا کہ ادارے میرے ساتھ ہیں، میں غلط کام نہیں کر رہا، مگر ان کی باتیں آج یہ ثابت کر رہی ہیں کہ اپوزیشن نے ان کو سلیکٹڈ غلط نہیں کہا تھا۔
اسلام ٹائمز: میاں نواز شریف لندن میں اپنے بیٹوں، بھائی اور بیٹیوں کیساتھ موجود ہیں، کیا مریم نواز کو لندن بھجوانے کیلئے انکی بیماری کو بہانے کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔؟
طلال چوہدری: نواز شریف کو جھکانے اور بلیک میل کرنے کیلئے مریم نواز پر جھوٹے مقدمات بنائے گئے، مریم نواز کو باہر جانے کی اجازت نہ دینے کا مقصد میاں نواز شریف کو تکلیف پہنچانا ہے۔ مریم نواز عدالتوں سے ضمانت پر ہیں اور ان کی سزا معطل ہے تو پھر انہیں کیوں باہر جانے نہیں دیا جا رہا۔ حکومت کا مریم نواز کو والد کی تیمارداری کی اجازت نہ دینے کا کوئی جواز نہیں، مریم نواز پر نیب قانون لاگو کیا گیا، حالانکہ وہ کبھی کسی سرکاری عہدہ پر فائز نہیں رہیں۔ مریم نواز کو والد کی تیمارداری اور علاج کیلئے نہ بجھوانا غیر انسانی اور غیر قانونی ہے۔ حکومت سے کچھ امید نہیں، عدالت سے پرامید ہیں کہ اجازت مل جائے گی، حکومت سے کسی دن آٹا، چینی، دال اور ٹماٹر کا بھاؤ پوچھ لیا جائے تو کسی کے گھر چھاپہ پڑ جاتا ہے۔ حکمران نان ایشو کو ایشو بناتے ہیں، کبھی کسی رہنماء کی جائیداد سیل کر دی جاتی ہے۔ حکومت عدم استحکام کا شکار ہے، جس سے ملکی معیشت تباہ ہو رہی ہے۔ سیاسی استحکام کیلئے ایسی پارٹی، ایسا لیڈر اور لائق ٹیم ضروری ہے، جس سے عوام کے کام ہوں۔ افسوس حکومت کے پاس یہ تینوں چیزیں نہیں ہیں، جس سے حکومت پٹ چکی ہے۔