علامہ ارشاد علی کا بنیادی تعلق صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع ہنگو سے ہے، انکا شمار مجلس وحدت مسلمین کے دیرینہ مسئولین میں ہوتا ہے، علامہ صاحب اسوقت ایم ڈبلیو ایم خیبر پختونخوا کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل کی حیثیت سے ملی و قومی ذمہ داری نبھا رہے ہیں، جبکہ اس سے قبل ایم ڈبلیو ایم ضلع ہنگو کے سیکرٹری جنرل اور صوبائی سیکرٹری تربیت کی مسئولیت پر بھی فائز رہ چکے ہیں۔ اسلام ٹائمز نے موجودہ حالات کے تناظر میں علامہ ارشاد علی صاحب کیساتھ ایک انٹرویو کا اہتمام کیا، جو قارئین کے پیش خدمت ہے۔ادارہ
اسلام ٹائمز: علامہ صاحب ہنگو میں گذشتہ دنوں ٹارگٹ کلنگ کا واقعہ پیش آیا، لکی مروت میں معروف پشتو شاعر افگار بخاری کو شہید کر دیا گیا اور دوسری طرف صوبائی حکومت دعویدار ہے کہ امن مکمل طور پر قائم ہوچکا ہے۔؟
علامہ ارشاد علی: بسم اللہ الرحمٰن الرحیم، امن مکمل طور پر قائم کئے جانے کا دعویٰ تو باکل غلط ہے، ہنگو میں شہید ہونے والے شیعہ شہری رحمان علی کا قاتل گرفتار بھی ہوچکا اور اعتراف جرم بھی کرچکا ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ اب تک کیس کو آگے کیوں نہیں بڑھایا گیا، اسی وجہ سے مجرم آزاد ہو جاتے ہیں، پولیس کو چاہیئے کہ وہ فوری طور پر اپنی کارروائی مکمل کرے اور مجرم کو سزا دلوائی جائے۔ اسی طرح لکی مروت میں معروف پشتو شاعر سید افگار بخاری صاحب کو ان کے ہجرے پر شہید کر دیا جاتا ہے اور قاتل اطمینان سے فرار ہونے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ افگار بخاری ایک معروف شخصیت تھے، وہ ہر طبقہ میں جانے جاتے تھے، ان کے قتل پر بھی اب تک کوئی پیشرفت نہیں ہوسکی۔ یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ قاتلوں کو قانون کے کٹہرے میں لائے اور آئندہ اس قسم کے واقعات کی روک تھام کیلئے اقدامات کرے، اب تو ہم لاشیں اٹھا اٹھا کر تھک گئے ہیں، ہمارے اندر مزید ہمت نہیں ہے۔
اسلام ٹائمز: اگر گورننس کی بات کی جائے تو اس حوالے سے بھی صوبائی حکومت ڈیلیور نہیں کر پا رہی، تاریخی مہنگائی نے غریب سے جینے کا حق بھی چھین لیا ہے، کہاں خامی دیکھ رہے ہیں۔؟
علامہ ارشاد علی: یقینی طور پر یہ حکومت کی ہی ذمہ داری ہے کہ مہنگائی کو کنٹرول کرے، اسی وجہ سے پی ٹی آئی کی حکومت عوامی مقبولیت کھوتی جا رہی ہے، بلکہ میں یہ کہوں گا کہ اگر خان صاحب یہ سمجھتے ہیں کہ مہنگائی ان کی حکومت کیخلاف کوئی سازش ہے تو انہیں اس پر سب سے پہلے کام کرنا چاہیئے، وہ بتائیں کہ کون سازش کر رہا ہے، اس سازش سے تو عوام کا بیڑہ غرق ہوگیا ہے۔ اگر یہ سازش ہے تو اسے ناکام بنانا بھی حکومت کی ذمہ داری ہے۔ لوگوں کو نوکریاں نہیں مل رہیں، ٹیکس اتنے بڑھا دیئے گئے ہیں کہ کاروبار تباہ ہوگیا ہے، لوگ نیب کے خوف سے بنکوں میں پیسے نہیں جمع کروا رہے، چوریاں اور ڈکیتیاں بڑھ رہی ہیں۔
اسلام ٹائمز: علامہ صاحب کیسی سازش۔؟ حکومت کیخلاف تو اسکے اپنے ہی وزراء سازش کر رہے ہیں، تین وزیروں کی برطرفی اور حکومت کا اعتراف اسکا ثبوت ہے۔؟
علامہ ارشاد علی: جی بالکل، میں بھی یہی عرض کر رہا ہوں کہ خان صاحب اپنی اور اپنی حکومتوں کی ناکامیوں کا ذمہ دار دیگر جماعتوں یا اپوزیشن کو قرار دیکر جان نہیں چھڑا سکتے۔ دیکھا جائے تو پی ٹی آئی کے اندرونی معاملات ٹھیک نہیں۔
اسلام ٹائمز: ملک میں تو قومی حکومت اور صدارتی نظٓام کی باتیں شروع ہوگئی ہیں، کیا موجودہ جمہوری اور پارلیمانی نظام ناکام ہوگیا ہے۔؟
علامہ ارشاد علی: جب عوام کیلئے مسائل بڑھتے ہیں تو نظام بدلتے ہیں، ہمیں صرف وہ پاکستان چاہیئے، جس کا خواب علامہ اقبال نے دیکھا تھا اور جسے عملی جامہ قائداعظم نے پہنایا۔ پاکستان ایک اسلامی جمہوری ملک ہے، اس میں اسلامی اور جمہوری نظام ہونا چاہیئے۔ عوام کی فلاح و بہبود ہونی چاہیئے، مسائل حل ہونے چاہئیں۔ آمریت کسی طور پر مسائل کا حل نہیں۔ البتہ اگر یہی صورتحال رہی تو لوگ مختلف قسم کے مطالبات تو کریں گے۔
اسلام ٹائمز: خطہ کی بدلتی صورتحال میں ہماری حکومت کی خارجہ پالیسی کو مجلس وحدت مسلمین کیسے دیکھتی ہے۔؟
علامہ ارشاد علی: حکومت نے جنرل قاسم سلیمانی کی شہادت کے بعد جس بزدلی کا مظاہرہ کیا، وہ واقعاً افسوسناک اور پاکستان کیلئے شرمندگی کا باعث بنا ہے۔ قائد وحدت علامہ راجہ ناصر عباس جعفری صاحب نے اس حوالے سے حکومت پر واضح کیا ہے کہ ہمارے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی صاحب پاکستان سے زیادہ امریکی وزیر خارجہ کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ ایک برادر اسلامی ملک کے ٹاپ جنرل کی شہادت پر اظہار افسوس اور مذمت تک نہ کرنا افسوسناک ہے۔ قوم عمران خان سے توقع کر رہی تھی کہ وہ خارجہ پالیسی میں بہتری لائیں گے، لیکن لگتا ہے کہ وہ بھی سابق حکمرانوں کے نقش قدم پر چلنا چاہ رہے ہیں۔
اسلام ٹائمز: کیا آپ سمجھتے ہیں کہ ایران کیجانب سے امریکہ کیخلاف سخت انتقام شروع ہوچکا ہے۔؟
علامہ ارشاد علی: جی بالکل، ایران نے تو انتقام کا آغاز شہید قاسم کی تدفین سے قبل ہی عراق میں امریکی فوجی اڈوں پر حملہ کرکے کر دیا تھا۔ پھر آپ دیکھیں کہ یمن میں امریکہ اور سعودی عرب کی اتحادی افواج کے سینکڑوں فوجی مارے گئے، پھر اب افغانستان میں امریکی جہاز گر کر تباہ ہوا، جس طرح خبریں آرہی ہیں، وہ اس جانب اشارہ ہیں کہ قاسم سلیمانی کا اصل قاتل اس جہاز میں سوار تھا اور وہ بھی ہلاک ہوگیا ہے۔ ایران اس وقت امریکہ کے مقابلہ میں ہے اور اس نے اب تک اپنے جنرل کا بہترین انتقام لیا ہے۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ ایران اپنی قیادت کے حکم کے مطابق امریکہ کو خطہ سے نکال کر ہی دم لے گا۔
اسلام ٹائمز: روسی انٹیلیجنس کا دعویٰ ہے کہ اس جہاز کو طالبان نے نشانہ بنایا، جس میں سی آئی اے کا آپریشنل چیف مائیکل ڈی اینڈریا بھی مارا گیا ہے اور اس جہاز سے اہم سامان برآمد ہوا ہے، جو طالبان کے قبضہ میں ہے، کیا طالبان ایران کے کہنے پر ایسا کرسکتے ہیں۔؟
علامہ ارشاد علی: ایران کا مقصد اس وقت امریکہ اور اس کے مفادات کو نشانہ بنانا ہے، وہ جہاں بھی ممکن ہوگا، شائد وہ کر گزرے گا۔ ایران افغانستان میں بھی امریکہ کو نشانہ بنا سکتا ہے، عراق میں بھی، قطر میں بھی، یمن میں بھی۔ قاسم سلیمانی کے قتل کا انتقام ایران پر فرض ہے، کیونکہ قاسم سلیمانی صرف ایران کے جنرل کی حیثیت نہیں رکھتے تھے، بلکہ وہ سپاہ اسلام کے جرنیل تھے۔ ان سے محبت اور عقیدت رکھنے والے پوری دنیا میں موجود ہیں۔
اسلام ٹائمز: آپ سے آخری سوال کہ سعودی عرب کیجانب سے اسرائیلی شہریوں کو اپنے ملک میں آنے کی باقاعدہ اجازت دیدی گئی ہے، کیا سعودی عزائم اب کھل کر سامنے نہیں آگئے۔؟
علامہ ارشاد علی: سعودی عرب کے تو اسرائیل کیساتھ پہلے ہی تعلقات ہیں، ہمارے مسلمان اگر حقائق کو درست طور پر تسلیم کرلیں تو سعودی عرب ہرگز اسلام کے پردے میں نہ چھپ پائے۔ سعودی کردار تو اسلام کی پیٹھ میں چھرا گھونپنے کی مانند ہے۔ سعودی عرب کے تمام تر اقدامات امریکہ اور اسرائیل کے مفاد میں ہیں۔ یہاں تک کہ آل سعود کو اپنے ملک کے عوام سے زیادہ امریکہ اور اسرائیل عزیز ہیں۔ مسلمانوں کی غیرت کو اب جاگنا چاہیئے اور سعودی عرب سے پوچھنا چاہیئے کہ وہ مسلمانوں کے سب سے بڑے دشمن اسرائیل کو کیسے تسلیم کر رہا ہے؟ وہ امریکہ کے مفادات کو کیوں ترجیح دیتا ہے، جس دن مسلم ممالک نے آل سعود سے یہ سوال کرلیا، اس دن آل سعود کا چہرہ پوری امت مسلمہ پر عیاں ہو جائے گا۔