محترمہ نگہت اورکزئی کا تعلق خیبر پختونخوا کے دارالحکومت پشاور سے ہے، وہ پاکستان پیپلزپارٹی خیبر پختونخوا خواتین ونگ کی صدر ہیں۔ اسکے علاوہ وہ رکن صوبائی اسمبلی بھی ہیں۔ نگہت اورکزئی صاحبہ جذباتی تقاریر، اسمبلی اجلاسوں کے دوران اپنے مخصوص دبنگ انداز کیوجہ سے اکثر میڈیا کی خصوصی توجہ کا مرکز رہتی ہیں۔ خاص طور پر جنرل الیکشن کے دوران کلاشنکوف کے ہمراہ پولنگ اسٹیشن کا دورہ کرنا اورکزئی صاحبہ کے دبنگ مزاج کی عکاسی کرتا ہے۔ اسلام ٹائمز نے نگہت اورکزئی کیساتھ موجودہ ملکی و بین الاقوامی امور کے حوالے سے ایک انٹرویو کیا، جو قارئین کے پیش خدمت ہے۔ادارہ
اسلام ٹائمز: آپکی جماعت کے سیاسی حلیف مولانا فضل الرحمان کیجانب سے ایسے اشارے دیئے جا رہے ہیں کہ پی پی اور نون لیگ فرینڈلی اپوزیشن کا کردار ادا کر رہی ہیں، کیا یہ تاثر درست ہے۔؟
نگہت اورکزئی: مولانا فضل الرحمان صاحب کی ہم بہت عزت کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ وہ بہت اعلیٰ پائے کے سیاستدان بھی ہیں، مگر میں سمجھتی ہوں کہ مولانا صاحب کا یہ الزام خاص طور پر پیپلزپارٹی کے حوالے سے درست نہیں ہے۔ جمہوریت کیلئے جتنی زیادہ قربانیاں پاکستان پیپلزپارٹی نے دی ہیں، تو ہماری پارٹی یہ چاہتی ہے کہ جمہوریت پھلے پھولے اور مزید مستحکم ہو۔ اگر آرمی ایکٹ یا کسی اور معاملہ پر بات ہو رہی ہے تو ایک ملک کی بڑی جماعت کی ذمہ داری ہے کہ وہ مفاہمت پیدا کرے اور سب کو ایک ساتھ لیکر چلے۔ اگر آپ خیبر پختونخوا کی بات کریں تو پیپلزپارٹی ہر ایشو پر بات کر رہی ہے۔ چاہے آٹے کا بحران ہو، چاہے کرپشن کا معاملہ ہو، چاہے وائس چانسلرز کا معاملہ ہو، اگر آپ اسمبلی کی ویب سائٹ کا وزٹ کریں تو آپ کو معلوم ہو جائے گا کہ ہم بذات خود اور میری پارٹی، تمام عوامی مسائل کو اسمبلی میں بھرپور طریقہ سے ڈسکس کر رہی ہے۔ مقصد کہنے کا یہ ہے کہ ہم ہر ایشو پر بات کر رہے ہیں، اب یہ نہیں ہوسکتا کہ ہم لوگوں کے گریبانوں میں ہاتھ ڈالیں، میں سمجھتی ہوں میڈیا بھی اپنا رول ادا کر رہا ہے، لیکن اس طریقہ سے ایشوز کو نہیں اٹھایا جا رہا، جس کی ضرورت ہے۔ خیبر پختونخوا اسمبلی میں قانون سازی کے حوالے سے بھی پیپلزپارٹی ٹاپ پر ہے۔
اسلام ٹائمز: بلاشبہ پیپلزپارٹی ایک عوامی جماعت ہے، لیکن جو رول محترمہ بینظیر بھٹو کیجانب سے اپوزیشن میں ادا کیا جا رہا تھا، وہ رول اسمبلی کے اندر اب نظر نہیں آتا، میڈیا پر پی پی قیادت بہت بولتی ہے، مگر جہاں بولنا چاہیئے، وہاں کیوں نہیں بولا جا رہا۔؟
نگہت اورکزئی: دیکھیں، اپوزیشن تو عوامی ایشوز پر ہی ہوتی ہے، آپ خود میڈیا سے تعلق رکھتے ہیں اور مجھ سے زیادہ بہتر جانتے ہیں کہ فریال بی بی جیل سے ہوکر آگئیں ان پر کچھ ثابت نہیں ہوا، زرداری صاحب پر کچھ ثابت نہیں ہوا۔ مجھے آج تک یہ سمجھ نہیں آیا کہ تحریک انصاف کی حکومت نے آج تک علیمہ خان پر ہاتھ کیوں نہیں ڈالا، چینی کے بحران میں ڈیڑہ ارب کمانے والے جہانگیر ترین پر ہاتھ کیوں نہیں ڈالا جاتا۔ اب پیپلزپارٹی کا قصور یہی ہے کہ وہ یہ ایشوز اٹھا رہی ہے۔
اسلام ٹائمز: پی ٹی آئی حکومت کا یہ موقف ہے کہ پی پی اور نون لیگ صرف اپنی کرپشن چھپانے کیلئے ہم پر تنقید کر رہی ہے، عوام کی فلاح و بہبود یا حکومت کی اصلاح کیلئے کچھ نہیں کیا جا رہا۔؟
نگہت اورکزئی: ہم تو حکومت کی اصلاح ہی چاہتے ہیں، میں یہ سوال کرتی ہوں کہ حکومت نے آج تک کرپشن کے حوالے سے کیا کیا ہے، یہ آج کی خبر ہے کہ وزیراعظم کے معاون خصوصی شہزاد اکبر نے میاں سومرو کی زمینوں پر قبضہ کرنے کیلئے اپنے لوگ بھیجے اور میاں سومرو نے بھی اسی طرح اپنے لوگ بھیجے، ان میں تو لینڈ مافیا موجود ہیں۔ چیئرمین نیب نے خود کہا تھا کہ اگر میں حکومت کی فائلیں کھول دوں تو یہ حکومت چند دنوں میں گھر چلی جائے گی۔ ملک میں گیس کا بحران ہے اور میں حیران ہوں کہ وزیراعظم بے خبر ہیں۔ ہم تو ان کو سب کچھ بتا رہے ہیں، اب وزراء کیخلاف کارروائی کرنا میرا کام تو نہیں ہے اور نہ ہی اپوزیشن جماعتوں کا بلکہ یہ کام عمران نیازی نے کرنا ہے۔
اسلام ٹائمز: لگتا تو ایسا ہے کہ کشمیر کا مسئلہ بالکل پس پشت ڈالا دیا گیا ہے، کیا آپکی جماعت حکومتی پالیسی سے مطمئن ہے۔؟
نگہت اورکزئی: اس حوالے سے تو میں ان کو زیرو مارکس دیتی ہوں، ان کی پالیسی بالکل ناکام ہے۔ جب عمران خان اقتدار میں نہیں تھے تو کہتے تھے کہ اگر مودی جیت گیا تو یہ پاکستان کیلئے بہت اچھا ہوگا۔ مودی نے جیت کر کشمیر کی صورتحال ہی تبدیل کرکے رکھ دی۔ پھر یو این میں جاکر ہم بھارت کو ووٹ دیتے ہیں، ہم کیوں انہیں سپورٹ کرتے ہیں۔؟ میں نے اسمبلی میں بھی یہ ایشو اٹھایا ہے کہ ہمارا پنک نمک پچیس پیسے فی کلو کے حساب سے بھارت جا رہا ہے اور بھارت اس میں کچھ تبدیلی کرکے آگے دس ہزار روپے کے حساب سے فروخت کر رہا ہے۔ بھارت کے ایک سال کا بجٹ نمک سے پورا ہو رہا ہے۔ عمران نیازی اس حوالے سے اقدام کیوں نہیں کرتا۔؟ ہم کیوں بھارت کے آگے اس طرح لیٹ گئے ہیں۔؟
اسلام ٹائمز: ایرانی جنرل قاسم سلیمانی کی شہادت کے بعد خطہ کے حالات تبدیل ہوئے، اس تناظر میں پاکستان کی خارجہ پالیسی کو کیسے دیکھتی ہیں۔؟
نگہت اورکزئی: یہ کیسی خارجہ پالیسی ہے، کوئی آپ کو منع کر دیتا ہے تو آپ ملائیشیاء نہیں جاتے، آپ طیب اردغوان کی مثال لے لیں، انہوں نے بابری مسجد کے حوالے سے کھل کر بات کی ہے، جہاں بھی مسلمانوں پر ظلم ہو رہا ہوتا ہے، وہ اس پر کھل کر بات کرتے ہیں۔ امریکہ اور وہ ممالک جن کے ہم اتحادی بنے ہوئے ہیں، وہ نہیں چاہتے کہ پاکستان ترقی کرے۔ میں سمجھتی ہوں کہ ہماری خارجہ پالیسی بالکل زیرو ہے، موجودہ وزیر خارجہ جب پاکستان پیپلزپارٹی کے دور حکومت میں تھے تو بہت اچھا کام کر رہے تھے، لیکن اس حکومت میں وہ کچھ نہیں کر رہے۔ وہ ممالک جو ہمارے ساتھ مخلص نہیں تھے، ان کی وجہ سے ہم نے اپنے پڑوسی ممالک کا ساتھ چھوڑ دیا۔ ایک دو ممالک کی خاطر ہم نے ایران اور چین کو ناراض کر دیا ہے، جب تک آپ پڑوسی ممالک کیساتھ اچھے تعلقات نہیں رکھتے، اس وقت تک آپ کا خطہ پرامن نہیں ہوسکتا۔
اسلام ٹائمز: وزیراعظم عمران خان تو ایران اور امریکہ کے درمیان ثالثی کی باتیں کر رہے ہیں، کیا ہم اس پوزیشن میں ہیں کہ اتنے اہم ایشو میں کردار ادا کرسکیں۔؟
نگہت اورکزئی: دیکھیں جی، پاکستان تو اس پوزیشن میں بالکل نہیں ہے کہ وہ ایران اور امریکہ کے درمیان ثالثی کرائے، ٹرمپ نے بھی کہہ دیا تھا کہ ہم نے تو کبھی ان کو ثالثی کا کہا ہی نہیں ہے۔ جو بندہ خود ثالثی کا طلب گار ہو، وہ کسی اور کی ثالثی کیسے کروا سکتا ہے۔؟ اس وقت تو ہمیں کشمیر کے مسئلہ پر خود ثالثی درکار ہے۔ وہ ایک مثال ہے کہ جب گھوڑے نالیں لگوا رہے تھے تو مینڈکوں نے بھی اپنے پاوں آگے کر دیئے۔ میں تو سمجھتی ہوں کہ یہ صرف ان کی خوش فہمی ہے، اس سے بڑھ کر کچھ نہیں۔
اسلام ٹائمز: آپ سے آخری سوال کہ افغانستان میں مذاکراتی عمل دوبارہ شروع ہونے جا رہا ہے، اس میں پاکستان کے رول کو کیسے دیکھتی ہیں۔؟
نگہت اورکزئی: اگر حکومت پاکستان سنجیدہ ہے تو ہم اس حوالے سے بہترین کردار ادا کرسکتے ہیں، افغانستان ہمارا پڑوسی ملک ہے، جب افغانستان میں امن ہوگا تو پاکستان میں بھی امن ہوگا۔ ہم چاہتے ہیں کہ پاکستان اپنے پڑوسی ممالک کیساتھ بھائی چارے والے تعلقات قائم کرے، کسی دوسرے کی گود میں بیٹھ کو اپنے پڑوسی ممالک کیساتھ تعلقات کو ہرگز خراب نہ کیا جائے۔ ہمارے تمام پڑوسی ممالک سے اچھے برادرانہ تعلقات ہوں گے تو ہم عالمی سطح پر ہونے والی تنہائی سے اپنے آپ کو نکال سکتے ہیں اور داخلی مسائل کو حل کرسکتے ہیں۔ حکومت اپنی خارجہ پالیسی کو بہتر بنائے۔