سابق چیئرمین سینیٹ اور پاکستان پیپلز پارٹی کے مرکزی رہنماء رضا ربانی پاکستان کے صف اول کے سیاستدان ہیں۔ مخصوص انداز بیان اور ٹھوس جمہوری اصول انکی پہچان ہے۔ ایران امریکہ کشیدگی اور پاکستان سمیت خطے کی صورتحال پر انکے ساتھ اسلام ٹائمز نے خصوصی گفتگو کی، جو قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔(ادارہ)
اسلام ٹائمز: ایرانی جنرل قاسم سلیمانی کی شہادت اور عراقی سرزمین کی خلاف ورزی، کیا خطے میں طاقت کے ایک نئے باب کا آغاز ہو رہا ہے۔؟
سینیٹر رضا ربانی: جی بالکل! آپ نے درست فرمایا، قاسم سلیمانی پر ہوئے امریکی حملے کے بعد طاقت کے ایک نئے باب کا آغاز ہوچکا ہے۔ امریکی صدر ٹرمپ نے نئے سال کے آغاز ہی میں ایک اہم ایرانی کمانڈر کو عراق میں ڈرون حملے کے ذریعے قتل کرنے کا خود حکم دیکر خطے میں نئی کشیدگی کا اہتمام کیا ہے تو اس سے علاقائی اور عالمی امن و سلامتی کے حوالے سے ان کی سنجیدگی کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ امریکہ نے عراق کی خود مختاری اور عالمی قوانین کی خلاف ورزی کی اور پورے خطے کے جذبات کو ٹھیس پہنچائی ہے، یہ واضح طور پر ایک دہشت گردی کی کارروائی ہے۔ امریکہ کے اس اقدام کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے، فوجی مہم جوئی کسی صورت قابل قبول نہیں ہے۔ عراق کی خود مختاری، یو این چارٹر کا احترام اور علاقائی امن برقرار رکھنے کیلئے اقدامات ہونے چاہیئیں۔ ایران کو چاہیئے کہ عالمی سطح پر امریکہ کو قاسم سلیمانی کے قتل کا ذمہ دار قرار دلانے کیلئے قانونی اقدامات کرے۔ ایران اور دیگر اسلامی ممالک جن کے ایران کے ساتھ برادرانہ تعلقات ہیں، ملکر امریکہ کی مخالفت کریں۔ اگر امریکہ کے اس اقدام کی مخالفت نہ کی گئی تو امریکہ اس طرح کے مزید اقدامات کرسکتا ہے۔
اسلام ٹائمز: امریکہ اور ایران میں کشیدگی کوئی نئی بات نہیں ہے، ایک عرصہ سے ہم دونوں ممالک میں تناؤ دیکھ رہے ہیں، کیا اب مذاکرات کی صورت نکل سکتی ہے؟ اگر نہیں تو پھر نتائج کیا ہوسکتے ہیں۔؟
سینیٹر رضا ربانی: قاسم سلیمانی کے قتل کے بعد فوری طور جو صورتحال سامنے آئی، اس کے مطابق نہیں لگتا تھا کہ اب ایران امریکہ کے ساتھ مذاکرات کی ٹیبل پر بیٹھے، کیونکہ ایران کے ساتھ واشنگٹن انتظامیہ نے طے کردہ ایٹمی معاہدہ ٹرمپ نے اقتدار میں آتے ہی سبوتاژ کر دیا تھا اور ایران پر پابندیاں عائد کر دیں، جبکہ انہوں نے سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں منعقدہ نیٹو سربراہ کانفرنس میں ایران کو دہشت گرد ملک قرار دیکر اور پھر اسے دنیا میں تنہا کرنے کی اپیل کرکے اس کے ساتھ عملاََ جنگ کا آغاز کر دیا تھا۔ ایران نے امریکی پابندیوں کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے اپنے ایٹمی پروگرام پر کام جاری رکھا اور آج ایران کی جانب سے اس امر کی تصدیق کی جا رہی ہے کہ جس ایٹمی ٹیکنالوجی پر ٹرمپ انتظامیہ اِترا رہی ہے، وہ ایران کے پاس بھی موجود ہے۔
ایران اب امریکہ سے بدلہ لینے کا اعلان بھی کرچُکا ہے، اس لئے امریکہ کے جارحانہ عزائم برقرار رہے اور اس نے چین کی وارننگ کے باوجود طاقت کے غلط استعال سے پرہیز نہ کیا تو امریکہ کی اگلی کوئی بھی کارروائی اس خطہ میں باقاعده جنگ کی شروعات ہوسکتی ہے، جو صرف امریکہ اور ایران تک محدود نہیں رہے گی اور خطے کے تمام ممالک اس کی زد میں آئیں گے۔ اس تناظر میں جنگی جنون بڑھانے کے حوالے سے امریکی صدر ٹرمپ اور بھارتی وزیراعظم نریندر مودی میں حیران کن مماثلت نظر آتی ہے اور دونوں ہی اپنے جنگی عزائم کے تحت تیسری عالمی جنگ اور اس کے ذریعے دنیا کی تباہی کی نوبت لانے پر تُلے بیٹھے نظر آتے ہیں۔
اسلام ٹائمز: اس تمام تر صورتحال میں امریکہ پاکستان سے کیا تقاضہ کرسکتا ہے۔؟
سینیٹر رضا ربانی: میں یہ سمجھتا ہوں کہ خطے کی موجودہ صورتحال ہمارے لئے تو اور بھی زیادہ مشکلات کا باعث بن سکتی ہے، کیونکہ امریکہ اور پاکستان کے درمیان اسوقت اعتماد سازی کی بحالی کیلئے دوطرفہ کوششیں کی جا رہی ہیں۔ امریکہ نے افغان امن عمل میں بھی پاکستان کے کردار پر انحصار کیا ہوا ہے اور ٹرمپ نے گذشتہ دنوں پاکستان کیلئے فوجی تربیتی پروگرام بحال کرنے کی بھی توثیق کر دی ہے، جس سے امریکی نائب وزیر خارجہ کے بقول پاکستان امریکہ عسکری تعاون مضبوط ہوگا۔ چنانچہ اس صورتحال میں امریکہ اور ایران کے مابین باقاعدہ جنگ کا آغاز ہوتا ہے تو ٹرمپ انتظامیہ پاکستان سے اسی طرح ایران کے خلاف جنگی تعاون کی متقاضی ہوگی، جیسے نائن الیون کے بعد پاکستان کو افغان جنگ میں فرنٹ لائن اتحادی کا کردار سونپا گیا اور اس سے لاجسٹک سپورٹ حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ اس کے تین فضائی اڈے بھی استعمال کئے گئے۔ اسی کے ردعمل میں پاکستان بدترین دہشت گردی کی لپیٹ میں آیا اور اسے 70 ہزار سے زائد اپنے شہریوں کی قیمتی جانوں اور اربوں روپے کے مالی نقصانات اٹھانا پڑے۔ ہم آج بھی امریکی مفادات کی اس جنگ میں خود کو جھلسا رہے ہیں۔ اگر اب امریکہ ایران کے خلاف جنگ چھیڑتا ہے تو وہ لامحالہ ایران کے خلاف ہم سے بلوچستان میں معاونت کا متقاضی ہوگا، جو ہمارے لئے زہر قاتل ثابت ہوسکتا ہے۔
اسلام تائمز: وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے حال ہی میں سعودی عرب سمیت ایران کا دورہ کیا، کیا پاکستان صلح کرانے کی پوزیشن میں ہے۔؟
سینیٹر رضا ربانی: ہم امریکہ، سعودی عرب اور ایران کے مابین دوستی کرانے کو تیار ہیں۔ ہمارا یہ موقف ہے کہ جنگ کوئی بھی نہیں جیت سکتا۔ پاکستان نے ہمیشہ ملکوں کے درمیان کشیدگی کو کم کرنے کی کوشش کی ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ ایران کی جانب سے امریکی فوجی اڈوں پر کئے گئے بیلسٹک میزائل حملوں کے بعد مشرق وسطیٰ اور جنوبی ایشیاء سمیت پورے خطے میں امن و امان کی صورتحال انتہائی کشیدہ ہوچکی ہے اور دنیا تیسری عالمی جنگ کے دہانے پر آکھڑی ہوئی ہے۔ لیکن ایران کے جوابی میزائل حملے کے بعد دونوں فریق جنگ سے گریز پر آمادہ نظر آتے ہیں، جس کیلئے ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف نے اشارہ دیا ہے کہ ہم جنگ یا کشیدگی نہیں بڑھانا چاہتے، لیکن جارحیت کا جواب ضرور دیں گے۔ اسی طرح اقوام متحدہ میں امریکی سفیر نے بھی کہا ہے کہ جنرل سلیمانی کو قتل کرنے کی وجہ امریکہ کی جانب سے دفاعی اقدام تھا، جبکہ بین الاقوامی امن و امان کو قائم رکھنے کیلئے امریکہ ایران کے ساتھ مذاکرات کیلئے تیار ہے۔ دوسری جانب انٹیلی جنس معلومات کے مطابق ایرانی نظام نے مسلح ملیشیاؤں کو کہہ دیا ہے کہ وہ امریکی مفادات پر حملہ نہ کریں تو اس سے صاف ظاہر ہوتا کہ دونون ممالک اب کشیدگی نہیں چاہتے، بلکہ امن کی طرف جانا چاہتے ہیں اور اس میں پاکستان بھرپور کردار ادا کرسکتا ہے۔
اسلام ٹائمز: ایک طرف امریکہ مذاکرات اور امن کی بات کرتا ہے تو دوسری جانب وہی امریکہ خطے کے امن کو سبوتاژ کرتا ہے۔؟
سینیٹر رضا ربانی: بدقسمتی سے امریکہ کو مسلم دنیا کے باہمی فروعی اختلافات سے فائدہ اُٹھانے کا موقع ملا، جس نے مسلم ممالک کے ایک دوسرے سے برسر پیکار ہونے کے راستے نکالے۔ اس میں امریکہ کا مفاد اپنے ہتھیاروں کی فروخت تھی۔ اس نے سعودی عرب اور یمن کی جنگ میں ان دونوں مسلم ممالک کو ہتھیار فروخت کئے۔ ایران چونکہ اپنی آزادی اور خود مختاری کو مقدم رکھتا ہے اور وہ کبھی امریکی ڈکٹیشن لینے پر آمادہ نہیں ہوا، اس لئے واشنگٹن کی تہران کے ساتھ گاڑی چلنے کا موقع کبھی نکل ہی نہیں پایا۔ ایران اکثر اوقات امریکی پابندیوں کی زد میں رہا ہے، اب امریکہ نے ایران پر دوبارہ اقتصادی پابندیاں عائد کر دیں، جس کے ناطے سے پاکستان ایران گیس پائپ لائن کا منصوبہ بھی رک گیا۔ حالانکہ ایران کی جانب سے پاکستان کی سرحد تک پائپ لائن بچھا دی گئی تھی، مگر اس پر عالمی پابندیاں عائد ہونے کے بعد پاکستان نے اس منصوبے کے تحت اپنی جانب گیس پائپ لائن بچھانے کا آغاز ہی نہ کیا۔ اس کا یقیناََ پاکستان کو بھاری نقصان اٹھانا پڑا اور وہ بھاری جرمانے کی بھی زد میں آگیا، یہ نقصان ہمیں امریکی اتحادی ہونے کے ناطے اُٹھانا پڑا، مگر ٹرمپ انتظامیہ نے پاکستان کو بھی آنکھیں دکھانا شروع کر دیں۔
اس کی سول اور فوجی امداد منقطع کر دی اور اس کے دیرینہ دشمن بھارت کو اپنا فطری حلیف بنا کر پاکستان کی سلامتی کیخلاف اس کے عزائم کی سرپرستی شروع کر دی، جبکہ اس نے اس امر کا بھی احساس تک نہ کیا کہ افغان جنگ میں اس کے فرنٹ لائن اتحادی کا کردار ادا کرتے ہوئے پاکستان خود بدترین دہشت گردی کی زد میں آیا ہے اور اس پرائی جنگ میں کود کر اپنے 70 ہزار سے زائد قیمتی شہریوں کی جانوں اور اربوں ڈالر کی املاک کا نقصان اٹھا چکا ہے۔ امریکہ اور طالبان کے مابین مذاکرات معطل ہونے کے بعد اب دوبارہ شروع ہوئے اور حتمی مراحل میں داخل ہو رہے ہیں، جبکہ اب امریکہ نے ایران کے ساتھ ایک نیا محاذ کھول کر علاقائی امن و سلامتی پر بھی سنگین خطرات کی تلوار لٹکا دی ہے۔ اسی طرح جس افغانستان میں قیام امن کیلئے امریکہ طالبان مذاکرات جاری ہیں، وہاں اس کے شہر ہرات میں امریکہ نے ڈرون حملہ کرکے 35 طالبان کے ساتھ 40 بے گناہ شہریوں کو بھی ہلاک کر دیا ہے۔ اس سے یہی محسوس ہوتا ہے کہ امریکہ اپنے مفادات کے تحت علاقائی اور عالمی امن و سلامتی کی فضا خود ہی سازگار نہیں ہونے دیتا۔