0
Thursday 3 Jun 2010 10:19

کیا اب بھی اسرائیل کو جنگی مجرم قرار نہیں دیا جائے گا؟

کیا اب بھی اسرائیل کو جنگی مجرم قرار نہیں دیا جائے گا؟
انور غازی
اقوام متحدہ کے چارٹر کے مطابق ”ایسے ارکان جو مستقل اس کے منشور کی خلاف ورزی کریں گے، انہیں اقوام متحدہ سے خارج کر دیا جائے گا۔“ لیکن اسرائیل 62 برسوں سے اس کی کھلم کھلا خلاف ورزیاں کرتا چلا آرہا ہے،اس کے خلاف تاحال کوئی کاروائی ہو سکی ہے اور نہ ہی ہو سکتی ہے۔ اسرائیل کے صہیونیوں نے حسب ِعادت مسلّمہ اصولوں کو پامال کرتے ہوئے،بین الاقوامی قوانین کی دھجیاں اڑاتے ہوئے اور تمام اخلاقی اقدار کو پس پشت ڈالتے ہوئے غزہ کے 16 لاکھ جان بلب محصوین کے لیے امدادی اشیاء لے جانے والے قافلے پر تاریخ کی بد ترین دہشت گردی کی۔جس کے نتیجے میں 40 ممالک سے تعلق رکھنے والے 20 افراد شہید اور 65 سے زائد زخمی ہو گئے جبکہ سینکڑوں کو یرغمال بنا لیا گیا۔
قارئین! اسرائیل نے کوئی پہلی دفعہ یہ جنگی جرم نہیں کیا ہے بلکہ اپنے ناجائر قیام سے لے کر آج تک مسلسل کرتا چلا آ رہا ہے۔ہم مختصراً صہیونیوں کے جرائم کی فہرست آپ کے سامنے رکھتے ہیں۔ اسرائیل نے اب تک اقوام متحدہ کی 69 قراردادوں کو جوتے کی ناک پر رکھا ہے۔اسرائیل نے جنیوا کے قوانین کو پامال کرتے ہوئے ہسپتالوں اور ڈسپنسریوں کو نشانہ بنایا۔اسکول اور کالجوں پر میزائل داغے۔ کیمیاوی ہتھیار اور فاسفورس بم استعمال کیے۔گمنام جگہوں پر شہید ہونے والے فلسطینیوں کے اجسام کی بے حرمتی کی۔فلسطینی بچوں کو اغوا کر کے ان کے اعضا نکالے۔قبلہ اول مسجد اقصیٰ کا تقدس پامال کیا۔امدادی کارکنوں پر بمباری کی۔یہاں تک اقوام متحدہ کے اہلکار بھی اس ظلم سے نہ بچ سکے۔ 
مسلّمہ قانون ہے کہ دورانِ جنگ بچوں،بوڑھوں اور خواتین کو امان حاصل ہو گا۔ہتھیار نہ اُٹھانے والوں پر فائرنگ اور بمباری نہیں کی جائے گی،لیکن اسرائیلی درندوں نے بچوں،مریضوں،ضعیفوں حتیٰ کہ ایمبولینسوں اور فلاحی اداروں کے امدادی کارکنوں تک لہو میں نہلا دیا۔دور نہ جائیں! حالیہ غزہ پر صہیونی حملوں میں 1300 فلسطینی شہری،437 کم عمر بچے،110 عورتیں اور 123 بوڑھوں کو بے دردی سے شہید کیا گیا۔شہری آبادی پر اندھا دھند گولہ باری کر کے سیکڑوں فلسطینیوں کو زخمی کیا گیا۔جنگ کے دوران بیسیوں بے گناہوں حتیٰ کہ راہگیروں اور امدادی ورکروں کو گرفتار کر کے عقوبت خانوں میں ڈالا گیا۔بین الاقوامی قانون کے مطابق امدادی اور انسانی ہمدردی کے تحت جانے والے کارکنوں پر حملہ نہیں کیا جاسکتا،لیکن اسرائیل متعدد بار بار ایسا کر چکا ہے۔
گزشتہ سال 2009ء میں فلسطینی عوام کو امداد پہنچانے والے امدادی کارکنوں کے ساتھ بھی ایسا ہی کیا گیا تھا۔اس وقت گرفتار کیے گئے کئی کارکن تاحال جیلوں میں قید ہیں۔ایک مسلمان قیدی نے ”رملہ جیل“ سے لکھا ہے: ”میرا نام سنتھیا میکنیے ہے۔میں انسانی حقوق کے ان 21 ارکان میں سے ہوں جو اس وقت قید ہیں۔جنگ کے دوران ہم زخمیوں کے لیے ادویات پہنچانے غزہ کی طرف جا رہے تھے اسرائیلیوں نے ہماری گاڑی پر فائرنگ کر دی۔ہمیں پکڑ کر گرفتار کر لیا اور پھر جیل میں ڈال دیا گیا۔ ہم دنیا کے مہذب لوگوں کو بتانا چاہتے ہیں ہمارے ساتھ کیا سلوک کیا جا رہا ہے؟ ہم غزہ کے زخمیوں تک بنیادی ضروریات کی چیزیں پہنچانا چاہتے تھے۔لیکن اسرائیلی فوج نے یہ کہتے ہوئے گرفتار کر لیا کہ دہشت گردوں کو طبی امداد کیوں پہنچا رہے ہو؟ ان فلسطینیوں کو یونہی تڑپ تڑپ کر مرنا چاہیے۔“ میں نے جرات کرتے ہوئے کہا: ”انسانیت کے ناتے ان کے لیے فرسٹ ایڈ ضروری ہے،لیکن اسرائیلی فوج نے میری ایک نہ سنی اور فلسطینی زخمی عوام کو طبی امداد پہنچانے کے جرم میں مجھے 30 جون 2009ء کو گرفتار کر کے رملہ کے عقوبت خانے میں ڈال دیا گیا،حالانکہ میرا مشن انسانی حقوق، معاشرتی انصاف اور بلارنگ ونسل،قوم و مذہب صرف انسانیت کی خدمت ہے۔ 
میں سوچتی ہوں جب مجھ جیسی عورت کے ساتھ اسرائیلی فوج نے یہ ظلم کیا ہے تو عام فلسطینی مسلمانوں کے ساتھ وہ کیا کیا انسانیت سوز کام کرتے ہوں گے؟“ آخر میں ”سنتھیا میکینے“ اقوام متحدہ،او آئی سی،عرب لیگ،انسانی حقوق کی تنظیموں،مسلم دنیا کے 58 حکمرانوں اور امریکی صدر اوباما سے اپیل کرتی ہیں کہ وہ اسرائیلی عقوبت خانوں میں بے گناہ فلسطینی عورتوں،بچوں، بوڑھوں اور گرفتار کیے گئے ہزاروں افراد کو آزاد کروائیں۔“ پس منظر کے طور پر یاد رہے اس وقت اسرائیلی جیلوں اور عقوبت خانوں میں 1500 مرد،400 کے قریب معصوم بچے اور 210 خواتین انتہائی صعوبتیں اُٹھارہے ہیں۔
فلسطینی ”محکمہٴ اسیران“ کے ترجمان کا کہنا ہے فلسطینی قیدیوں پر نئی نئی تیار کردہ ادویات کے تجربات بھی کیے جا رہے ہیں۔بیشتر تجربات معصوم بچوں پر کیے جاتے ہیں۔ان ادویات کے استعمال سے ایک ہزار قیدی شدید متاثر ہیں،جن میں سے ایک سو پچاس کی حالت تشویش ناک بتائی جاتی ہے۔ستم ظریفی تو یہ ہے عالمی ریڈ کراس تک کے نمایندوں تک کو اسرائیلی جیلوں کا دورہ کرنے کی اجازت نہیں دی جاتی۔کتوں بلوں کے خراش آنے پر آسمان سر پر اٹھانے والی مغربی این جی اوز کو اس پر آواز اُٹھانی چاہیے۔
اسرائیل کا ایک جرم یہودی بستیوں کی آباد کاری ہے۔اقوام متحدہ کے قانون کے مطابق اسرائیل مزید بستیاں تعمیر نہیں کر سکتا۔متعدد بار تعمیر روکنے کا حکم بھی دیا جا چکا ہے،لیکن یہ ایک ناقابلِ تردید تاریخی حقیقت ہے یہودیوں نے فلسطین کے علاقوں پر غیر قانونی طور پر قبضہ کیا۔یہودی قیادت کو شروع میں ایسا کرنے سے روکنے کی کوئی عملی کوشش نہیں کی گئی،جس کی وجہ سے اسرائیل کے حوصلے بلند ہوتے چلے گئے اور وہ فلسطین کے مزید علاقوں پر قابض ہوتا گیا۔مشرقی یروشلم،مغربی کنارہ،غزہ،گولان کی پہاڑیاں یہ سب مقبوضہ علاقہ جات ہیں اور اسرائیل کا حصہ نہیں۔ اسرائیل کا ایک بڑا جرم غیر قانونی اور ممنوع اسلحے کا بے دریغ استعمال ہے۔قانون کے مطابق جوہری اور فاسفورس بم استعمال نہیں کرسکتا،مگر غزہ جنگ کے دوران صہیونیوں نے ایسا بارود استعمال کیا کہ بچے موم کی طرح پگھل گئے۔کبھی وہ ایران کو دھمکیاں دیتا ہے تو کبھی شام کو،کبھی لبنان کو تو کبھی اردن کو،کبھی پاکستان کا ایٹمی پروگرام تباہ کرنے کے لیے بھارت سے گٹھ جوڑ کرتا ہے تو کبھی اپنے ایجنٹوں کے ذریعے ہمسائے ممالک خصوصاً پاکستان میں تخریب کاریاں کرواتا ہے۔اسرائیل کے توسیع پسندانہ عزائم اور بڑھتے ہوئے جنگی جرائم کی وجہ سے گذشتہ سال ترکی نے اس کے ساتھ جنگی مشقیں کرنے سے انکار کر دیا تھا۔سوال یہ ہے عالمی سطح پر کیا اب بھی اسرائیل کو جنگی مجرم قرار نہیں دیا جائے گا؟
 "روزنامہ جنگ"



خبر کا کوڈ : 27477
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش