تحریر: عادل فراز
آخرکار حزب اللہ لبنان اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی ہوگئی۔ اس جنگ نے اسرائیل کی طاقت کے بھرم کو پاش پاش کر دیا اور مقاومتی محاذ کو مزید مضبوطی حاصل ہوئی۔ 7 اکتوبر 2023ء، طوفان الاقصیٰ کے بعد اسرائیل نے غزہ پر حملے شروع کئے تھے، جس میں بے گناہوں کا منظم قتل عام ہوا۔ رفتہ رفتہ اس جنگ کا رخ لبنان کی طرف مڑتا گیا۔ حزب اللہ اور اسرائیل کے درمیان کشیدگی تو پہلے سے چلی آرہی تھی، مگر طوفان الاقصیٰ کے بعد اس عداوت نے نئی شکل اختیار کر لی۔ اسرائیل جو غزہ میں مسلسل ناکامی سے بوکھلاہٹ کا شکار تھا، حزب اللہ کو ایسا نقصان پہنچانا چاہتا تھا، جس سے وہ پوری طرح ختم ہوسکے اور غزہ میں اس کی ناکامی کو بھلا کر دنیا اس کی کامیابی کے قصیدے پڑھنے لگے۔ کیونکہ اس کے نزدیک حماس سے زیادہ خطرناک حزب اللہ تھا، جس کے پاس تربیت یافتہ جنگجو اور اپنے تیار کردہ ہتھیاروں کا بڑا ذخیرہ تھا۔
اس لئے اسرائیل نے لبنان میں ’’پیچر اٹیک‘‘ کروایا، جس میں اچھا خاصا جانی نقصان ہوا۔ حزب اللہ کو اس حملے کی بھنک تھی یا نہیں، یہ الگ موضوع ہے، لیکن "پیجر اٹیک" نے اس کے مواصلاتی نظام پر ضرب لگائی اور اس کا دفاعی نظام بھی متاثر ہوا۔ابھی حزب اللہ اس حملے سے ابھرنے کی کوشش کر رہا تھا کہ فضائی حملے میں سید حسن نصراللہ کی شہادت کی خبریں آنے لگیں۔ سید حسن نصراللہ تنہاء شہید نہیں ہوئے بلکہ ان کے ساتھ حزب اللہ کے اہم کمانڈر موجود تھے۔ اعلیٰ قیادت پر کیا گیا یہ بزدلانہ حملہ کامیاب تھا، جس میں حزب اللہ کو کاری ضرب پہنچی۔ اس حملے کا جواب دینے اور آئندہ کی منصوبہ بندی کے لئے حزب اللہ کے متوقع جنرل سیکرٹری ہاشم صفی الدین اپنے اہم کمانڈروں کے ساتھ میٹنگ میں تھے کہ پھر اسرائیل کو ان کی لوکیشن کی خبر مل گئی اور اس نے تیسرا کامیاب حملہ کیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ہاشم صفی الدین اپنے ساتھیوں سمیت شہید ہوگئے۔
اس کے بعد اسرائیل نے حزب اللہ پر مسلسل حملے شروع کر دیئے اور یہ باور کرلیا کہ اب مقاومتی محاذ کی کمر ٹوٹ گئی۔ اس کے گمان میں بھی یہ نہیں تھا کہ حزب اللہ زخمی شیر کی طرح میدان میں اترے گی اور ایسے شدید حملے کرے گی کہ نتن یاہو کی رہائش گاہ بھی محفوظ نہیں رہے گی۔ حزب اللہ کے حملوں کے بعد جنگ کا منظرنامہ بدلنے لگا۔ وہ میڈیا جو پہلے حزب اللہ کو دہشت گرد کہہ رہا تھا، اچانک اس کی جنگی حکمت عملی اور ہتھیاروں کے قصیدے پڑھے جانے لگے۔ اسرائیل کے دفاعی نظام کا پول کھل گیا۔ اس کا مرکزی تجارتی شہر حیفا تباہ ہوگیا۔ ایلات اور تل ابیب تک حزب اللہ کے ڈرون اور میزائل پہنچے۔ بیک وقت چار لاکھ لوگوں کو بنکروں میں پناہ لینے پر مجبور ہونا پڑا۔ پہلی بار دنیا نے دیکھا کہ کس طرح حزب اللہ نے اسرائیلی بستیوں کو خالی کرنے کا انتباہ دیا اور صہیونیوں کو خوف و دہشت میں مبتلا رکھا۔
جنگ بندی سے پہلے تک حزب اللہ نے عالمی رائے بدل دی اور اب میڈیا بھی اس کو ایک منظم طاقت کے روپ میں دیکھ رہا ہے۔ جنگ بندی سے پہلے دنیا نے باور کر لیا کہ اسرائیل واقعی مکڑی کے جالے سے زیادہ کمزور ہے، جس کی حفاظت کے لئے پوری ناٹو افواج کو میدان میں اترنا پڑا۔ اس پر لطف یہ کہ جنگ بندی کا اعلان کرنے کے لئے امریکہ اور اسرائیل میں سبقت کی دوڑ لگی تھی اور حزب اللہ خاموشی کے ساتھ دشمن کی ناکامی کا تماشا کر رہا تھا۔ جنگ بندی اہم نہیں ہے، جنگ بندی کے دوران اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا، یہ دیکھنا زیادہ اہم ہوگا۔ یوں بھی اسرائیل عالمی قانون کی پرواہ نہیں کرتا، اس لئے ہم جنگ بندی سے زیادہ مطمئن نہیں ہیں۔ جس ملک نے اقوام متحدہ کے جنرل سیکرٹری کے اسرائیل میں داخلے اور "اونرا" کی سرگرمیوں پر پابندی عائد کر دی، اس سے بھلا کیا توقع رکھی جاسکتی ہے۔
اسرائیل ہمیشہ عالمی طاقتوں کی سرپرستی میں جرائم کا ارتکاب کرتا رہا ہے اور آئندہ بھی کرے گا، لہذا ہم یقین کے ساتھ نہیں کہہ سکتے کہ وہ جنگ بندی کے اصولوں کی پاسداری کرے گا۔ کیونکہ جنگ بندی اقوام متحدہ کی نگرانی میں نہیں ہوئی بلکہ امریکہ اور فرانس کی ثالثی میں ہوئی۔ یہ دونوں ملک ناٹو کے سربراہ ہیں اور ناٹو ممالک ہی اسرائیل کے ناجائز وجود کو تحفظ فراہم کرتے رہے ہیں۔ اس مسئلے کا دوسرا رخ یہ ہے کہ اب سرد جنگ کا خطرناک دور شروع ہوگا۔ میڈیا کو پروپیگنڈے کے لئے مزید غذا فراہم کرائی جائے گی۔ اسرائیل جو ۷7 اکتوبر 2023ء کے بعد سفارتکاری میں بھی کمزور پڑا تھا، از سرنو سفارت کاری کے میدان میں اترے گا۔ گویا کہ ایک بار پھر وہ اپنے لئے رائے عامہ کو ہموار کرنے کی جدوجہد کرے گا۔ یہ کام اب اتنا آسان نہیں، کیونکہ اسرائیل کا بھرم ٹوٹ چکا ہے اور اس کی عالمی ساکھ بھی برباد ہوگئی ہے۔ اب آگے کی راہ اس کے لئے مشکل ترین ہوگی۔
حزب اللہ اسرائیل سے بخوبی واقف ہے، اس لئے وہ بھی جنگ بندی کے دھوکے میں نہیں آئے گا۔ البتہ عالمی قانون کا احترام ضرور پیش نظر رہے گا۔ اس کے باوجود سرحد پر پنجہ آزمائی ہوتی رہے گی۔ ایک اہم نکتہ جو ہمیشہ پیش نظر رہنا چاہیئے، وہ یہ ہے کہ جنگ بندی کا مطلب ہرگز انتقام سے دستبرداری نہیں ہے۔ اسرائیل نے حزب اللہ کی اعلیٰ قیادت کو دھوکے سے شہید کیا ہے، لہذا حزب اللہ اپنے شہداء کا انتقام ضرور لے گی۔ نتن یاہو کی رہائش گاہ پر مسلسل تین حملے کئے گئے، جن کا مقصد شہداء کا انتقام تھا۔ اب بھی اسرائیلی وزیراعظم خود کو محفوظ تصور نہیں کریں گے۔نہ جانے اب بھی انہیں کتنی راتیں زیر زمین بنکروں میں گزارنی پڑیں گی۔ جب تک حزب اللہ کا انتقام پورا نہیں ہوگا، دشمن کی اعلیٰ قیادت ہمیشہ خوف و دہشت میں مبتلا رہے گی۔ یہ حزب اللہ کی طرف سے نفسیاتی جنگ ہے، جس کے الگ اثرات مرتب ہوں گے۔
اسرائیل اور حماس کے درمیان بھی جنگ بندی کی کوششیں مزید تیز ہوگئی ہیں۔ یہ سلسلہ تو گذشتہ ایک سال سے جاری ہے، مگر اب تک کسی ثالث کو کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔ جنگ بندی کی امید اس لئے بڑھ گئی ہے، کیونکہ اب اسرائیل ہر محاذ پر ناکامی کا سامنا کر رہا ہے۔ داخلی سطح پر بھی اس کا نظام کشمکش کا شکار ہے۔ عوام مسلسل نیتن یاہو سرکار کی پالیسیوں کے خلاف سڑکوں پر ہے۔ فوج میں بھی سب کچھ ٹھیک نہیں ہے۔ اس پر نتن یاہو نے غزہ اور لبنان پر حملے کے وقت جو بلند بانگ دعوے کئے تھے، وہ سب ہوائی ثابت ہوئے۔ نہ غزہ میں حماس کو ختم کیا جاسکا اور نہ لبنان میں حزب اللہ کو کمزور کرنے میں اسرائیل کو کامیابی حاصل ہوئی۔ اس لئے اسرائیل پر چاروں طرف سے جنگ بندی کا دبائو ہے۔ مکمل طور پر جنگ بندی خواہ اب ہو یا کچھ دنوں کے بعد، لیکن یہ واضح ہے کہ اب نیا عالمی نظام وجود میں آئے گا۔ یک قطبی نظام کا خاتمہ تو پہلے ہی ہوچکا تھا۔ اب کثیر قطبی نظام میں بھی تیزی کے ساتھ بدلائو ہوں گے۔ بعض طاقتیں ایران، روس اور چین کے ساتھ متحد ہوں گی، جس سے براہ راست ناٹو متاثر ہوگا۔ اس نئے عالمی نظام کی دنیا کو سخت ضرورت ہے، تاکہ جنگ پیشہ طاقتوں سے نجات حاصل ہوسکے۔