تحریر: ڈاکٹر ندیم عباس
امریکی صدر اکتوبر میں شام کے موضوع پر بات کر رہے ہیں اور سامعین کو بتا رہے ہیں کہ ہم اور خطے میں ہمارے اتحادی بشار کے خلاف لڑ رہے ہیں۔ ترکی، قطر اور سعودی عرب اسلحے کے ڈھیر دے رہے ہیں اور ہر صورت میں بشار کو ہٹانا چاہتے ہیں۔ اب تو بات ترکی اور عرب ممالک تک محدود نہیں ہے بلکہ کہا جا رہا ہے کہ مغرب، عربوں اور ترکی کے پروردہ ان گروہوں کی تربیت یوکرین میں بھی ہو رہی ہے۔ امریکہ ان گروہوں کے لیے ہر راستہ اختیار کر رہا ہے۔ اسی تقریر میں بائیڈن ترکی اور اردگان کا نام لے کر کہتا ہے کہ وہ بشار کے خلاف ہمارے ساتھ ہیں۔ اس کی باتوں سے یوں لگتا ہے کہ خطے کے سارے ممالک فلسطین کا سودا کرچکے اور اپنی پوری قیمت وصول کرچکے ہیں۔ اب یہ ان احکامات پر عمل کرتے ہیں، جو انہیں امریکہ سے براہ راست موصول ہوتے ہیں۔ ویسے بھی خوشی سے اسرائیل کو تسلیم کرنے والا ترکی اور آنکھیں دکھانے پر اسرائیل کو تسلیم کرنے کی دوڑ میں شامل ہو جانے والے عربوں سے فلسطین کی حمایت کرنے والوں سے خیر کی کیا امید کی جا سکتی ہے۔؟
پروفیسر جیفری ساکس، امریکی ماہر اقتصادیات اور بین الاقوامی امور کے ماہر نے کہا ہے کہ شام میں دہشت گرد گروہ تحریر الشام کی قیادت میں جو کچھ شروع ہوا ہے، وہ یقیناً ایران کے خلاف اسرائیل، امریکہ اور ترکی کا مشترکہ آپریشن ہے۔ اس آپریشن کو نتن یاہو نے ترتیب دیا ہے۔ شام میں موجودہ دہشتگردی امریکہ کے لیے اتنی اہم ہے کہ اب وہ براہ راست خود بھی اس میں شامل ہوچکا ہے۔ اپنے ان اثاثوں کو بچانے کے لے شامی افواج اور اس کے حمایتی گروہوں پر بمباری کی گئی ہے۔ پینٹاگون نے تصدیق کی ہے کہ امریکہ نے اس کے ایک اڈے کے قریب راکٹ حملے کے بعد مشرقی شام میں فوجی اثاثوں پر حملہ کیا ہے۔ پینٹاگون کے ترجمان پیٹ رائڈر نے منگل کو صحافیوں کو بتایا کہ امریکی فوج نے ہتھیاروں کے نظام کو نشانہ بنایا۔ راکٹ لانچر اور ایک ٹینک کو تباہ کیا گیا ہے یہ بہت ہی خطرناک صورتحال ہے، ایک طرف روس شام کی جائز حکومت کی درخواست پر اس کی مدد کے لیے بمباری کر رہا ہے اور دوسری طرف امریکہ اپنے اثاثوں کی حفاظت کے لیے بمباری کر رہا ہے۔
ان حالات میں اگر دونوں افواج آمنے سامنے آجاتی ہیں یا ایک دوسرے کا جہاز یا بمباری کرکے جانی نقصان پہنچا دیتی ہیں تو یہ تنازع بین الاقوامی جنگ کی بنیاد بن سکتا ہے۔ روسی وزارت خارجہ نے کہا ہے کہ ہم شام کے عوام اور اس کی قیادت کے ساتھ اظہار یکجہتی کرتے ہیں اور ہم اس کی قیادت کی بھرپور حمایت کرتے ہیں۔ روسی افواج بھی مسلسل دہشتگردوں کے ٹھکاوں پر بمباری کر رہی ہیں۔ منگل کے روز شامی حکومت نے کہا ہے کہ امریکہ کرد اکثریتی سیریئن ڈیموکریٹک فورسز (ایس ڈی ایف) کی فضائی مدد کر رہا ہے، اسی مدد کی وجہ سے کردوں نے دریائے فرات کے مشرق میں، دیر الزور شہر کے قریب حکومت کے زیر کنٹرول کچھ دیہات میں حکومت کے خلاف پیش قدمی کی۔ اسی طرح شامی فوج کے دستوں نے حما شہر سے 20 کلومیٹر کے فاصلے پر دہشت گردوں کو گھیرے میں لے لیا اور ان میں سے متعدد کو ہلاک اور ان کے ہتھیاروں کو تباہ کر دیا ہے۔ یوں جنگ جاری ہے اور زوروں سے جاری ہے۔
خبریں ہیں کہ اسلامی جمہوریہ ایران کے وزیر خارجہ نے کہا ہے کہ دمشق نے مطالبہ کیا تو تہران شام میں فوج بھیجنے پر غور کرے گا۔ ایران کے وزیر خارجہ نے دمشق کا دورہ کیا ہے اور وہاں کے مشہور شوارما مرکز میں شوارما کھاتے ہوئے تصاویر کے ساتھ ٹویٹس کی ہیں۔ اس سے سافٹ جنگ میں دشمن کا کردار ادا کرنے والوں کو کافی مایوسی ہوئی ہے، جو سمجھ رہے تھے کہ جانے دمشق میں کیا ہو رہا ہے۔؟ انہیں خبر ہو کہ دمشق کی زندگی نارمل ہے۔ اسرائیل جنگ بندی کے باوجود حزب اللہ پر حملے کر رہا ہے، وہ چاہتا ہے کہ حزب اللہ کو ادھر ہی مصروف رکھا جائے، وہ دہشتگردوں سے مقابلے کے لیے نہ جا سکیں۔ اسرائیل میں کافی مایوسی بھی ہے۔ اسرائیلی وزیر نے کہا ہے کہ اگر لبنان کی حکومت اسی طرح حزب اللہ کے ساتھ رہی تو وہ اور حزب اللہ ایک ہی تصور کریں گے۔نیتن یاہو کہہ رہا ہے کہ ہم نے جنگ بندی کی ہے، جنگ ختم نہیں ہوئی۔ بار بار لبنان پر حملے ہو رہے ہیں، تاکہ حزب اللہ کو یہاں انگیج کیا جائے اور شام میں ان کی پراکسی شام کو بدامن کر دے۔
چند سال پہلے اردن کے القاعدہ سے وابستہ ایک اہلکار کا انٹرویو سن رہا تھا، جو امریکی حراست میں بھی رہا تھا۔ اس نے مسلمان ملکوں میں اپنی حکومتوں سے برسرپیکار عسکری گروہوں سے کہا تھا کہ میں تمہارا حصہ رہا ہوں، میں اسلام کے نام پر لڑتا رہا ہوں۔ اب میں سوچتا ہوں کہ یہ اسلام کا نام لے کر ہمیں اپنے مفادات کے لیے لڑاتے رہے۔ اسلام کے نام پر استعمال ہونے والو، ذرا سوچا، امریکہ اور مغرب اسلامی حکومت کے قیام کے لیے تمہیں اسلحہ اور پیسہ دیں گے۔؟ ذرا خیال کرو، جہاں جہاں امریکہ اور مغرب نے تمہیں مسلم حکومتوں کے تختے الٹنے کے لیے استعمال کیا، وہاں کیا صورتحال ہے۔؟ لیبیا سے شام تک ہر جگہ آگ لگی ہوئی ہے اور مسلمان مسلمانوں کو گلا کاٹ رہے ہیں۔ مغرب اور امریکہ بیٹھ کر تماشہ دیکھ رہے ہیں۔ مشہور برطانوی صحافی جارج گیلوے القاعدہ اور داعش نے کبھی بھی اسرائیل پر ایک پتھر بھی نہیں پھینکا ہے، وہ فلسطینیوں کا دفاع کریں گے!!! کاش کہ یہی بات آج کا عام مسلمان بھی سوچ لے۔