تحریر: سید تنویر حیدر
شام میں ایک بار پھر جنگ وجدل کا بازار گرم ہوگیا ہے۔ شام کے مسئلے کو سمجھنے کے لیے ہمیں بارہ تیرہ سال قبل جانا پڑے گا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب مشرق وسطیٰ میں ”عرب بہاریہ“ یا ”عرب سپرنگ“ کا دور دورہ تھا۔ عرب عوام اپنے حکمرانوں کے خلاف سڑکوں پر تھی۔اقتدار کے بڑے بڑے برج ہوا ہوگئے تھے۔ حسنی مبارک اور قذافی جیسے ڈکٹیٹر مکافات عمل کا شکار ہوچکے تھے۔ جمہوریت سے ناآشناء عرب دنیا کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ وہ امریکی سامراج کے شکنجے میں بری طرح سے جکڑی ہوئی ہے۔ اسرائیل کے ساتھ اس کے خفیہ اور اعلانیہ تعلقات کی ایک تاریخ ہے۔ عرب حکومتوں کی امریکہ کے سامنے اس درجے کی کاسہ لیسی کے عالم میں دنیائے عرب میں وہ واحد عرب ملک جو امریکہ کا حاشیہ بردار نہیں تھا اور اپنی بساط کے مطابق اسرائیل کی ناجائز حکومت کے خلاف کھڑا تھا وہ صرف اور صرف ملک شام تھا۔
شام کے حافظ الاسد باقی عرب حکمرانوں سے مختلف موقف رکھتے تھے اور عرب وقار کی علامت تھے۔ ان کی وفات کے بعد بیرون ملک مغربی ماحول میں پلا بڑھا ان کا نوجوان بیٹا بشارالاسد برسر اقتدار آیا۔ ابتداء میں یہی سمجھا گیا کہ مغرب کی فضاؤں میں پرورش پانے والا بشار الاسد نظریاتی طور پر اپنے باپ سے مختلف ہوگا اور امریکہ کی ذلف گرہ گیر کا اسیر ہوجائے گا لیکن حیرت انگیز طور پر وہ امریکہ مخالفت اور اسرائیل دشمنی میں اپنے باپ سے بھی کئی قدم آگے تھا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب لبنان کی تنظیم حزب اللہ اسرائیل کے خلاف بھرپور طور پر میدان عمل میں تھی۔ ایران اس کی پشت پر تھا اور بشارالاسد حزب اللہ کے ساتھ کھڑا تھا۔
عرب سپرنگ کی زد میں جب کئی عرب حکمران آگئے تو امریکہ، اسرائیل اور بعض عرب حکمرانوں نے چاہا کہ اسی سپرنگ کی آڑ میں اپنے شدید مخالف بشارالاسد کو بھی ہوا برد کردیا جائے۔ چنانچہ انہوں نے ایک منصوبے کے تحت بشار الاسد کے خلاف ایک محاذ کھول دیا۔ امریکی ایجنڈے کو فالو کرنے والی حکومتوں نے فساد کی اس آگ کو بڑھکانے کے لیے اپنا اپنا حصہ ڈالا۔ سعودی عرب نے شام کی حکومت کے خلاف نظریاتی محاذ سنبھالا اور سرمایہ خرچ کیا۔ اس نے ایک خاص مکتبہء فکر کے تکفیری عناصر کی مدد سے اہل سنت کے حقوق کے تحفظ کے نام پر ایک تشدد پسند فرقہ وارانہ سپاہ کھڑی کی۔ ایسی ہی ایک سپاہ اس نے پاکستان میں بھی ”سپاہ صحابہ“ کے نام سے تشکیل دی۔ اس طرح کے جتنے بھی لشکر معرض وجود میں آئے وہ درحقیقت اس انقلاب ایران کا بھی ردعمل تھے جس نے ان عیاش عرب حکمرانوں کی نیندیں حرام کر رکھی تھیں۔
امریکہ، اسرائیل، سعودی عرب اور اس کے حلقہء اثر میں آنے والے ممالک کی سرپرستی میں صف بستہ لشکروں کو ترکی کی لاجسٹک سپورٹ سے شام کے اندر داخل کیا گیا۔ یوں داعش کے نام سے عالمی افق پر درندہ صفت انسانوں کی ایک ایسی فوج ظفر موج تیار ہوئی جس کے لیے بربریت کی اصطلاح کا دامن تنگ نظر آیا۔ درون پردہ اسرائیل نے بھی اس فتنے کو ہوا دی۔ داعش اور اس سے وابستہ گروہوں نے بجلی کی سی تیزی سے شام اور عراق کے کئی علاقوں پر قبضہ جما لیا اور سرعام اعلان کردیا کہ وہ حضرت امام حسین (ع) اور حضرت سیدہ زینب (س) کے مزارات مقدس کو شہید کردے گی۔ داعش دمشق میں حضرت زینب (س) کے مزار کے جوار تک پہنچ گئی اور اس پر میزائل برسائے گئے۔ یہ وہ وقت تھا جب فطری طور پر ان مزارات کے حرمت کے تحفظ کے لیے دنیا بھر سے رضاکار شام گئے اور انہوں نے رسول خدا کی نواسی کے مزار کا تحفظ کرتے ہوئے اپنی جانیں قربان کیں اور ”مدافعین حرم“ کہلائے۔
زینبیون بھی دراصل اسی قسم کا ایک گروہ تھا جس نے شام میں سیدہؑ کے حرم کا دفاع کرتے ہوئے قربانی کی ایک نئی تاریخ رقم کی، پاکستان کی سیاست سے اس تنظیم کا قطعی کوئی تعلق نہیں تھا، داعشی دہشت گرد مسلسل آگے بڑھ رہے تھے۔ انہوں نے بے شمار اولیائے کرام اور اصحاب عظام کی قبروں کو مسمار کردیا۔ حضرت علیؑ کے معروف صحابی حضرت حجر بن عدیؓ کی تو میت ہی قبر سے نکال کر لے گئے جسے تھوڑے وقت کے بعد برآمد کر لیا گیا۔ ان کی میت بالکل تازہ حالت میں تھی جسے دنیا بھر کے میڈیا پر دکھایا گیا۔ قریب تھا کہ یہ دہشت گرد اپنے ناپاک منصوبے کے مطابق حضرت امام حسین علیہ السلام، حضرت زینب سلام اللہ علیہ اور دوسرے اہل بیتؑ کی قبور کو مسمار کر دیتے۔ رہبر معظم آیت اللہ سید علی خامنہ ای کی ہدایت پر ایران کی قدس فورس کے کمانڈر، جنرل قاسم سلیمانی اپنے جانبازوں کے ہمراہ میدان کارزار میں وارد ہوئے اور یوں ان کی قیادت میں تکفیری داعشی دشت گرد شکست سے دوچار ہوئے۔
داعش سے نجات پانے والوں کی اکثریت اہل سنت و الجماعت کی تھی۔ آج ایک بار پھر تمام تکفیری امریکہ اور اسرائیل کی آشیرباد اور اسی ترکی کی سپورٹ سے جس کا پہلے بھی اس فتنے کو پھیلانے میں بنیادی کردار تھا، ایک نئے ارادے کے ساتھ میدان میں اترے ہیں۔ سادہ لوح اب بھی انہیں ہیرو کہتے ہیں اور اس سازش کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔ اہل بیتؑ اور صحابہؓ کے مزاروں کو مسمار کرنے کی خواہش کے ساتھ اب کی بار ان فتنہ گروں کا ایک ہی علاقے میں یوں مجتمع ہونا بالکل اسی طرح ہے جس طرح آج سے ستر سال قبل تمام صیہونی وعدہ الہیٰ کے مطابق اپنے آخری انجام تک پہنچنے کے لیے مقبوضہ فلسطین میں آ اکھٹے ہوئے تھے۔ ان صیہونیوں اور ان کے مفاد کے لیے کمر بستہ تکفیریوں، دونوں کا انجام اس ایک قلم سے لکھا جا چکا ہے جس کی قسم سب سے بڑی قادر المطلق اور قادر الکلام ذات نے کھائی ہے۔ انشاءاللہ