تحریر: ڈاکٹر ندیم عباس
پوری مغربی دنیا اسرائیل کی پشت پناہی کر رہی ہے اور وہ ایک وحشی درندے کی طرح ہر چیز کو روند دینا چاہتا ہے۔ اسے جس چیز پر برتری کا دعویٰ ہے، وہ فضائی قوت ہے، اسی لیے غزہ ہو یا لبنان ہر جگہ آسمان سے آگ و بارود برسا رہا ہے۔ حماس ہو یا حزب اللہ وہ صرف فوجی اہداف پر حملے کرتے ہیں، عام لوگوں کا قتل عام نہیں کرتے، اسرائیل خود کو انسانیت سمیت تہذیب کے ہر دائرے سے باہر سمجھتا ہے۔اسی لیے ہم دیکھتے ہیں کہ ہر دوسرے دن کسی سکول، ہسپتال یا رہائشی کمپلکس کو نشانہ بنا کر نہتے لوگوں کا قتل عام کرتا ہے۔ مگر جیسے ہی اسرائیل کی افواج زمین پر آگے بڑھنے کی کوشش کرتی ہیں، لبنان کے شیر سامنے آجاتے ہیں اور اسرائیل وزیر دفاع کو بار بار بیان دینا پڑتا ہے کہ کل کا دن بڑا تکلیف دہ تھا۔جیسے جیسے اسرائیلی آگے بڑھتے ہیں، انہیں پتہ چلتا ہے کہ بیس تیس فوجی اور کئی ٹنیک حزب اللہ کے حملوں کی زد میں آکر تباہ ہوچکے ہیں۔
اسرائیل ریاض، دوہا اور دبئی میں بیٹھے لوگوں کے دلوں میں تو خوف پیدا کرسکتا ہے، میدان جنگ میں موجود اللہ کے شیروں کے دلوں میں کسی کا رعب و دبدبہ نہیں ہے۔اسی لیے وہ میدان جنگ سے پیغام دیتے ہیں کہ سید کے خون سے وعدہ ہے کہ ہم محاذ پر موجود ہیں اور موجود رہیں گے، دشمن کو ہر پتھر اور چٹان کو عبور کرتے ہوئے ہمارا سامنا کرنا پڑے گا۔ حزب اللہ نے ایک اور اہم معرکہ سر کر لیا ہے اور شہید حسن نصراللہ ؒ کے جانشین کا انتخاب کر لیا گیا ہے اور شیخ نعیم قاسم حزب اللہ کے نئے جنرل سیکرٹری بن چکے ہیں۔ انہوں نے بہت ہی امید بھرا خطاب کیا ہے، اس سے جہاں محاذ پر لڑنے والوں کے جذبوں کو تقویت ملی، وہیں دنیا بھر میں مقاومت کے چاہنے والوں کو سکون ملا۔
شیخ نعیم قاسم نے اپنے خطاب میں شہید سید حسن نصراللہؒ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ مقاومت کے پرچم دار تھے اور مزاحمت کے فاتح پرچم دار رہیں گے۔ آپ مزاحمتی جوانوں کے دلوں میں زندہ رہیں گے اور امید اور فتح کی خوشخبری سنائیں گے۔ شیخ نعیم قاسم نے مزید کہا کہ اس جنگ میں انہوں نے مزاحمت کو تباہ کرنے کے لیے دنیا کی تمام دستیاب صلاحیتیں استعمال کیں۔ دشمن چاہتے ہیں کہ ہم ہتھیار ڈال دیں، تاکہ وہ ہم پر غلبہ حاصل کرسکیں، تاہم ہم گذشتہ 11 مہینوں سے اعلان کرتے آرہے ہیں کہ ہم جنگ نہیں چاہتے، لیکن اگر ہم پر جنگ مسلط کی گئی تو ہم فتح تک لڑنے کے لیے تیار ہیں۔ یہ سنت کے عین مطابق بھی ہے، اللہ کے رسولﷺ نے بھی جنگ کی خواہش کرنے سے منع فرمایا ہے اور جب جنگ مسلط ہو جائے تو پھر کسی اگر مگر کے بغیر جنگ میں سینہ سپر ہو جانے کی تاکید کی ہے۔
جنگ میں موت شہادت ہے، جنگ کے زخم نشان اعزاز ہیں اور زندہ بچنا غازی کا لقب دے جاتا ہے۔ آپ نے مزید کہا کہ ہم کسی کی طرف سے نہیں لڑ رہے بلکہ ہم لبنان کے دفاع، اپنی سرزمین کی آزادی اور غزہ کی حمایت کے لیے لڑ رہے ہیں۔ حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل نے کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران ہمارے پاس موجود پروگرام اور راستے کی وجہ سے ہماری حمایت کرتا ہے اور ہم سے کچھ نہیں مانگتا۔ ہم امام خمینی (رح) کو سلام پیش کرتے ہیں، جنہوں نے سرزمین کے دفاع کے لیے اسرائیل کے مقابلے کا راستہ دکھایا اور امام خامنہ ای مدظلہ العالی نے بھی بہادری سے اس پرچم کو اٹھایا اور مجاہدین کو تمام ضروری مدد فراہم کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ جیسا کہ ہمارے قائدین نے کہا، ہم روبرو جنگ کا انتظار کر رہے ہیں اور حملے فرنٹ لائن پر مرکوز ہیں اور دشمن خوفزدہ ہے اور وہ اپنی جنگی پوزیشن اور اہداف بدلنے پر مجبور ہوگیا ہے۔
یہ بات بہت اہم ہے کہ دشمن ہمیشہ سے پروپیگنڈا کرتا ہے کہ حزب اللہ ایران کے لیے لڑ رہی ہے۔ عقل کے دشمنوں، اسرائیل نے ایران کی کس زمین پر قبضہ کر رکھا ہے؟اسرائیل اور ایران کے درمیان براہ راست دشمنی کی وجہ صرف اور صرف فلسطین، لبنان اور شام کے مظلوموں کی مدد ہے۔ ایران حماس، حزب اللہ اور خطے کے دیگر مقامات پر موجود مقاومتی محاذ کی حمایت اس لیے کرتا ہے کہ یہ لوگ مظلوم ہیں اور دنیا نے انہیں تنہاء چھوڑ دیا ہے۔ مظلوم کی مدد کرنا اور استعمار کے پنجے سے انہیں نجات دلانا اتنا بڑا جرم ہے کہ پورا یورپ اسلامی جمہوری ایران کا دشمن بنا ہوا ہے۔ یاد رکھیں، اگر حماس اور حزب اللہ نے اسرائیل کو نہ روکا ہوتا تو یہ کب کا دو تین اور مسلمان ملکوں کو ہڑپ کرچکا ہوتا۔ شیخ نعیم قاسم نے بالکل درست فرمایا کہ ایران ہماری جنگ میں ہماری مدد کر رہا ہے اور بدلے میں کچھ نہیں چاہتا اور حقیقت بھی یہی ہے۔ لبنان کے دفاع کے لیے اسلامی جمہوری ایران کی قربانیاں بہت زیادہ ہیں۔
دوسری طرف خبریں آرہی ہیں کہ سعودی دارالحکومت ریاض میں دو ریاستی حل کے نفاذ کے لیے عالمی اتحاد کے پہلے اجلاس کا آغاز ہو رہا ہے۔ سعودی کابینہ نے اس امید کا اظہار کیا کہ دو ریاستی حل کے نفاذ کے لیے عالمی اتحاد کا پہلا اعلیٰ اختیاراتی اجلاس خود مختار فلسطینی ریاست کے لیے ایک موقع فراہم کرے گا اور قبضے کے خاتمے کے لیے کوششوں کو آگے بڑھائے گا۔ سعودی عرب میں ہونے والے اس پہلے اجلاس میں عرب لیگ اور فلسطینی انتظامیہ کے نمائندوں سمیت بحرین، اردن، قطر، مصر کے نمائندے بھی شامل ہو رہے ہیں۔ تاہم یورپی یونین اور ناروے کے علاوہ اسلامی تعاون تنظیم کا ایک نمائندہ، ترکی اور نائیجیریا، انڈونیشیا کے نمائندوں کی بھی شرکت متوقع ہے۔ امریکہ نے ابراہیم اکارڈ کے نام سے فلسطین ہڑپ کرنے کا کام شروع کیا تھا، جو طوفان الاقصی کے سیلاب میں بہہ گیا، لگ رہا ہے کہ اب دوبارہ نئے نام اور نئے انداز سے دنیا کی توجہ مزاحمت سے ہٹانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اس اجلاس میں روس اور چین کی عدم شرکت سے بھی اس اجلاس کے اصل مالکوں کا پتہ چلتا ہے۔
اسرائیل غزہ کے لوگوں کو اجتماعی سزا دے رہا ہے اور ان پر قحط اور بھوک کو مسلط کرنا چاہتا ہے کہ اس طرح گولی چلائے بغیر لاکھوں لوگوں کا قتل عام کر دے۔ اس کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ اقوام متحدہ کا ادارہ انروا ہے۔ سنہ 1949ء میں قائم ہونے والا فلسطینی پناہ گزینوں کا یہ ادارہ "انروا" غزہ، مغربی کنارے، شام، لبنان اور اردن میں اپنے فرائض انجان دیتا رہا ہے۔ یہ تنظیم ابتدائی طور پر ان 700،000 فلسطینیوں کی دیکھ بھال کرتی چلی آرہی ہے کہ جنھیں اسرائیل کی ریاست کے قیام کے بعد اپنے گھروں سے بے دخل کر دیا گیا تھا۔ انروا غزہ میں کام کرنے والی اقوام متحدہ کی سب سے بڑی ایجنسی بن چکی ہے۔ یہاں تقریباً 13,000 افراد کام کرتے ہیں۔ انروا کے مطابق اکتوبر 2023ء سے اب تک اس کے 200 سے زائد کارکُنان اپنے فرائض کی انجام دہی کے دوران اسرائیلی حملوں میں شہید ہوچکے ہیں۔
اب اسرائیل کی پارلیمنٹ نے پیر کی شام اقوام متحدہ کے فلسطینی پناہ گزینوں کے ادارے (انروا) کو اسرائیل اور مقبوضہ مشرقی یروشلم کے اندر کام کرنے سے روکنے کے حق میں ووٹ دیا۔ اسرائیل میں ہونے والی اس ووٹنگ کے بعد انروا کے ملازمین اور اسرائیلی حکام کے درمیان رابطوں پر پابندی عائد کر دی گئی، جس کے بعد اب اس امدادی ادارے کا کام محدود ہوگیا ہے۔ اسرائیل کے اس اقدام کے بعد غزہ میں یو این آر ڈبلیو اے کے سربراہ نے میڈیا کو بتایا تھا کہ اگر اسرائیل پابندی پر مکمل عمل درآمد کرتا ہے تو غزہ میں آپریشن جاری رکھنا ناممکن ہو جائے گا۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کا کہنا ہے کہ غزہ میں اہم امدادی ادارے انروا کے آپریشن پر پابندی کے اسرائیل کے نئے قانون سے فلسطینیوں کی انسانی صورتحال پر تباہ کن اثرات مرتب ہوں گے۔آپ اسرائیلی بدمعاشی کی حد ملاحظہ کریں، اقوام متحدہ کا ادارہ جو براہ راست مغربی کنٹرول میں مغربیت کا علمبردار ہے، اس پر بھی اسرائیل پابندیاں لگا رہا ہے۔اس سے پتہ چلتا ہے کہ ان کا اپنا بنایا نظام بھی ناکام ہوچکا ہے۔ ناکامی کے بعد اب دنیا کے سامنے بے نقاب ہو رہا ہے۔