0
Monday 29 Jul 2024 22:16

مسئلہ فلسطین اور امریکی یونیورسٹیوں سے اٹھنے والا طلباء کا انقلاب

مسئلہ فلسطین اور امریکی یونیورسٹیوں سے اٹھنے والا طلباء کا انقلاب
تحریر: ڈاکٹر صابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان


فلسطین کی غزہ پٹی پر سات اکتبور 2023ء کے بعد سے ایک منظم نسل کشی جاری ہے۔ فلسطینیوں کی نسل کشی میں جہاں غاصب صیہونی افواج ملو ث ہیں وہاں ساتھ ساتھ مغربی دنیا کی حکومتیں بالخصوص امریکی حکومت اور دیگر کی بھرپور حمایت اور پشت پناہی بھی حاصل ہے۔ یوں تو مسئلہ فلسطین کو لگ بھگ 76سال ہوچکے ہیں کہ غاصب صیہونیوںنے قبضہ کیا ہے اور قتل عام جاری ہے۔ گزشتہ 76 سالوں میں فلسطینیوں نے روزانہ قتل عام برداشت کیا ہے۔ نت نئے مظالم بھی فلسطینی عوام کے خلاف جاری رکھے گئے ہیں۔ تمام تر عالمی قوانین اور عالمی اداروں کی قراردادوں کے باوجود بھی نہ تو فلسطینیوں پر ظلم کم ہوا ہے اور نہ ہی فلسطین پر صیہونی قبضہ کی مہم میں کوئی کمی آئی ہے۔

گزشتہ 76 سالوں میں سے سات اکتوبر سے اب تک گزرے نو مہینوں میں ایک نئی تاریخ رقم ہوئی ہے۔ گزشتہ نو مہینوں میں غاصب صیہونی حکومت اسرائیل نے چالیس ہزار سے زیادہ معصوم فلسطینیوں کو قتل کیا ہے۔ پندرہ لاکھ فلسطینی بے گھر ہوچکے ہیں۔ تمام اسپتال، رہائشی عمارتیں، اسکول، پناہ گزین کیمپس اور ہر وہ مقام جو فلسطینی عوام کو پناہ دے سب کچھ تباہ کر دیا گیا ہے۔ اس تمام تر صورتحال نے جہاں دنیا کی مسلمان اقوام کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے وہاں ساتھ ساتھ مغربی دنیا کے عوام بھی اپنے ضمیر کی آواز پر خاموش نہیں رہ سکے ہیں۔

گزشتہ 76 سالوں میں پہلی مرتبہ ایسا ہوا ہے کہ فلسطین میں جاری نسل کشی کے خلاف ہر طبقہ آواز بلند کر رہا ہے۔ انہی طبقات میں سے معاشرے کا ایک اہم طبقہ طلباء ہیں۔ امریکی یونیورسٹیوں کے طلباء نے فلسطین کی حمایت میں بے مثال احتجاج ریکارڈ کئے ہیں۔ حالانکہ امریکی طلباء کو امریکی حکومت کی جانب سے مشکلات کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ کئی ایک طالب علم گرفتار کر لئے گئے۔ درجنوں کو تعلیمی اسناد سے محروم کیا گیا۔ سینکڑوں ایسے ہیں جو آج بھی جیلوں میں قید ہیں۔ امریکی یونیورسٹیوں کے طلباء نے غزہ میں صہیونی حکومت کے ہاتھوں فلسطینیوں کی نسل کشی کے خلاف مظاہرے کرکے 1960ء کی دہائی میں ویت نام جنگ کے خلاف مظاہروں کی یاد تازہ کردی۔ 50 سے زائد امریکی یونیورسٹیوں میں ہونے والے مظاہروں کا دائرہ امریکہ سے باہر پھیل کر آسٹریلیا، کینیڈا، فرانس، اٹلی اور برطانیہ وغیرہ تک پہنچ گیا۔

ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے امریکی طلباء کی بیداری پر ان کے نام ایک خط تحریر کیا جس میں ان نوجوانوں کو تاریخ کے درست راستے پر کھڑے ہونے پر مبارک باد دی اور کہا کہ آپ نوجوانوںنے تاریخ کا نیا ورق پلٹ دیا ہے۔ البتہ اس خط سے متعلق متعدد ممالک میں مختلف قسم کا ردعمل بھی سامنے آیا ہے لیکن حقیقت یہی ہے جو خط میں بیان کی گئی تھی۔ آیت اللہ خامنہ ای کے خط کے متن پر کہا گیا کہ ایک طرف فلسطینی ہیں جو اپنی عزت و ناموس اور اپنی اور اپنے وطن کی آزادی کے لئے مزاحمت کر رہے ہیں، فلسطینی گروہ مسلح مزاحمت بھی کر رہے ہیں۔

امریکی طلباء جنہوں نے غزہ میں نسل کشی کے خاتمہ کے لئے احتجاج کا راستہ اختیار کیا ہے وہ فلسطین کی آزادی کے لئے مزاحمت کے راستے پر ہیں۔ یہ ایک حقیقی مزاحمت ہے جس کا سامنا خود امریکی حکومت کو کرنا پڑا ہے۔ امریکی طلباء نے سوال اٹھا دیا ہے کہ آیا انسانی حقوق کیا ہیں؟ جو امریکی حکومت نے بیان کئے ہیں؟ یا پھر انسانی حقوق وہ ہیں جس کی پامالی امریکی حکومت غزہ میں اسرائیل کے ساتھ مل کر انجام دے رہی ہے؟ ان سوالات نے امریکی حکومت کے لئے مشکل پیدا کی ہے۔

دراصل آیت اللہ سید علی خامنہ ای کی جانب سے امریکی طلباء کو تاریخ کے صحیح سمت میں کھڑے ہونے کا کہنا اور ان کی قدر دانی کرنا انتہائی اہمیت کا حامل ہے، اس کا مطلب ہے کہ صہیونی حکومت کے مظالم کو برجستہ کیا جائے۔ اگر مسئلہ فلسطین کے بارے میں آیت اللہ خامنہ ای کی سیاسی فکر پر غور کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ ان کلمات کو انتہائی دقت اور سوچ سمجھ کر استعمال کیا گیا ہے۔ آیت اللہ خامنہ ای نے امریکی یونیورسٹیوں کے طلباء کے اقدامات کی قدر دانی کی اور ان کو یقین دہانی بھی کروائی تھی کہ میں آپ کو اطمینان دلاتا ہوں کہ آج کے حالات بدلنے والے ہیں، مغربی ایشیا کی تقدیر بدل جائے گی، عالمی سطح پر ضمیر بیدار ہورہا ہے اور حقائق آشکار ہورہے ہیں، مقاومتی محاذ پہلے سے زیادہ طاقتور ہوا ہے اور تاریخ کا ورق پلٹنے والا ہے۔

ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای کی جانب سے امریکی طلباء کے اقدام کی تعریف کرنا ایک فطری اور درست عمل ہے۔ آیت اللہ خامنہ ای کا خط اس لئے بھی اہمیت کا حامل تھا کہ یہ کسی ایک خاص مذہب کو مخاطب کرکے نہیں لکھا گیا بلکہ طلباء کو مخاطب کیا گیا تھا۔ امریکی طلباء میں ایسے بھی نوجوان شامل تھے جو یہودی مذہب سےتعلق رکھتے ہیں لیکن وہ فلسطین پر غاصب صیہونی حکومت کے قبضہ کے خلاف ہیں۔ یہ امریکی یہودی طلباء غزہ میں جاری نسل کشی کے خلاف احتجاج کا حصہ رہے ہیں۔ اس عنوان سے دنیا بھر کے ذرائع ابلاغ نے آیت اللہ خامنہ ای کے پیغام کو سراہا ہے جبکہ اس پیغام کی اہمیت کو اس وقت زیادہ دقت کے ساتھ سمجھا جا سکتا ہے کہ جب ہم اسرائیلی دشمن کے میڈیا کی طرف دیکھتے ہیں کہ انہوںنے اس پیغام کو کس طرح لیا ہے۔

اسرائیلی دشمن کے ذرائع ابلاغ "یروشلم پوسٹ" نے اپنی ایک رپورٹ میں امریکہ میں فلسطین کے حامی طلباء کے نام ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای کے خط کا حوالہ د یتے ہوئے لکھا کہ آیت اللہ خامنہ ای نے امریکی طلباء سے کہا کہ وہ اسرائیل کی جانب سے غزہ کے عوام کی "نسل کشی" کی پالیسیوں کے خلاف جدوجہد جاری رکھیں۔ یہ پیغام خود امریکہ میں موجود یہودی طلباء کے لئے بہت موثرثابت ہو رہا ہے کیونکہ یہودی طلباء کے سامنے اسرائیل کا چہرہ آشکار ہوا ہے۔

آیت اللہ خامنہ ای کی جانب سے امریکی طلباء کو لکھے گئے خط کے ایک اور اہم حصہ کو ان لفاظ میں اجاگر کیا جا سکتا ہے کہ آیت اللہ خامنہ ای اس بات پر زور دیا کہ فلسطین ایک خودمختار سرزمین ہے اور ایک ایسی قوم ہے جو مسلمانوں، عیسائیوں اور یہودیوں پر مشتمل ہے، جس کا ایک طویل تاریخی پس منظر ہے۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ اسرائیل کو سیاسی، اقتصادی اور فوجی مدد فراہم کرتا ہے اور اس کے جوہری ہتھیاروں کے حصول کی راہ ہموار کرتا ہے۔ اس نقطہ نے امریکی نوجوانوں کی آنکھیں کھول دی ہیں۔ اس نقطہ میں مسئلہ فلسطین کی بنیاد اور حل بھی بیان کیا گیا ہے۔

خلاصہ کرتے ہوئے میں صرف اتنا کہتا ہوں کہ آیت اللہ خامنہ ای کا امریکی طلباء کے نام یہ خط در حقیقت ایک شفیق ترین انسان کی جانب سے لکھا گیا محبت اور ہمدلی کا پیغام ہے جس نے امریکی نوجوانوں کی بیداری کو مزید تقویت بخشی ہے۔ آج بھی 2300 سے زائد امریکی طلباء قید میں ہیں لیکن فلسطین کی حمایت سے دستبردار نہیں ہو رہے ہیں یقینا یہ امریکی نوجوان تاریخ کا نیا صفحہ تحریر کر رہے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 1150751
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش