Friday 26 Jan 2024 17:12
تحریر: ڈاکٹر راشد عباس نقوی
”یقین“، ”شک“ کا متضاد ہے جیسا کہ علم، جہالت کا نقطہٴ مقابل ہے، قران و سنت اور روایات سے جو کچھ معلوم ہوتا ہے، اس کے مطابق ایمان کے اعلیٰ ترین مرتبہ کو یقین کہا جاتا ہے۔ فرزند رسول امام محمد باقر علیہ السلام فرماتے ہیں: "ایمان اسلام سے ایک درجہ بالاتر ہے اور تقویٰ ایمان سے ایک درجہ بالاتر ہے اور یقین تقویٰ سے ایک درجہ بالاتر ہے۔" اس کے بعد آپ نے فرمایا: ”ولم یقسم بین الناس شیء اقل من الیقین“، ”یقین کی حقیقت اللہ پر توکل کرنا، اللہ کی پاک ذات کے سامنے سرتسلیم خم کرنا، قضائے الٰہی پر راضی رہنا اور اپنے تمام کاموں کا خدا کے سپرد کر دینا ہے۔" مقام تقویٰ و ایمان و اسلام سے مقام ِ یقین کی برتری ایک ایسی صفت ہے، جس پر دوسری روایات میں بھی تاکید ہو ئی ہے۔
ایک دوسری حدیث میں امام جعفر صادق علیہ السلام سے نقل کیا گیا ہے: ”من صحة یقین المراٴ المسلم ان لایرضی الناس بسخط اللہ، ولا یلومھم علی مالم یوٴتہ اللہ ان اللہ بعد لہ و قسطہ جعل الراحة فی الیقین و الرضا و جعل الھم و الحزن فی الشک و السخط"، ”مسلمان مرد کے یقین کے صحیح ہونے کی نشانیوں میں سے ایک یہ ہے کہ وہ خدا کو ناراض کرکے لوگوں کو راضی نہ کرے اور جو کچھ خدا نے اسے نہیں دیا، اس پر لوگوں کو ملامت نہ کرے (انہیں اپنی محرومیوں کا ذمہ دار نہ ٹھہرائے) خدا نے اپنے عدل و انصاف کی بناء پر راحت و آرام، یقین و رضا میں رکھا ہے اور غم و اندوہ کو شک اور راضی میں قرار دیا ہے۔“ ان تعبیرات اور دوسری تعبیروں سے اچھی طرح معلوم ہو جاتا ہے کہ جب انسان یقین کے مقام تک پہنچ جاتا ہے تو ایک خاص قسم کا سکون و آرام اس کے سارے دل و جان میں سرایت کر جاتا ہے۔
البتہ یقین کے لیے کئی مراتب ہیں، جن کی طرف اوپر والی آیات اور سورہٴ واقعہ کی آیہ (انّ ھٰذا لھو حق الیقین) میں اشارہ ہوا ہے اور وہ تین مرحلے ہیں۔
۱۔ علم الیقین: انسان مختلف دلائل اور نشانیوں سے کسی چیز پر ایمان لائے۔جیسے دھوئیں کو دیکھ کر آگ کے ہونے پر ایمان لے آتا ہے۔
۲۔ عین الیقین: اس مقام پر حاصل ہوتا ہے، جب انسان مشاہدہ کے مرحلہ تک پہنچ جاتا ہے اور اپنی آنکھ سے مثلاً کسی آگ کو دیکھ لے۔
۳۔ حق الیقین: اس مرحلے کا نام ہے، جب انسان خود آگ میں داخل ہو جائے اور اس کی تپش، سوزش اور حرارت کو لمس کرے اور یہ یقین کا بالاترین مرحلہ ہے۔
محقق طوسی اپنی ایک گفتگو میں کہتے ہیں: ”یقین“ وہی پختہ اور ثابت اعتقاد ہے، جس کا زوال ممکن نہیں ہے۔ حقیقت میں پہلا مرحلہ عمومی پہلو رکھتا ہے اور دوسرا مرحلہ پرہیزگاروں کے لیے ہے اور تیسرا مرحلہ خواص اور مقربین الہیٰ کے ساتھ مخصوص ہے۔ ایک اور حدیث میں آیا ہے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں صحابہ نے عرض کیا: "ہم نے سنا ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام کے بعض اصحاب پانی پر چلتے تھے؟! آپ نے فرمایا: ”لو کان یقینہ اشد من ذالک لمشی علی الھواء“، ”اگر ان کا یقین اس سے زیادہ پختہ ہوتا تو وہ اس سے زیادہ محکم ہوتے اور ہوا پر چلتے۔“ مرحوم ”علامہ طباطبائی“ اس حدیث کو ذکر کرنے کے بعد مزید کہتے ہیں: "تمام چیزیں خداوند سبحان پر یقین اور عالم تکوین کے اسباب کی تاثیر کے استقلال کو محو کرنے کے محور کے گرد گھومتی ہیں، اس بناء پر انسان کا قدرت مطلقہ الٰہیہ پر اعتقاد و ایمان جتنا زیادہ ہوگا، اشیاء عالم اسی نسبت سے اس کے سامنے مطیع و تسلیم ہو جائیں گی اور عالم ِآفرینش میں یقین اور خارق العادت تصرف کے رابطہ کے یہی رمز و رموز ہیں۔
کسی جگہ یہ جملہ یقین کے تناظر میں پڑھا تھا۔ بہادر وہ ہیں کہ جب لڑائی کا موقع آ پڑے یا ان پر کوئی مصیبت آ پڑے تو بھاگتے نہیں۔ ان کا صبر لڑائی اور سختیوں کے وقت میں خدا کی رضامندی اور اس پر یقین کے پیرائے میں ہوتا ہے۔ ان کو ڈرایا جاتا ہے کہ لوگ تمہیں سزا دینے کے لئے اتفاق کر گئے ہیں۔ سو تم لوگوں سے ڈرو۔ لیکن ڈرانے سے ان کا ایمان و یقین اور بھی بڑھتا ہے اور وہ کہتے ہیں کہ خدا ہمیں کافی ہے۔ ان کی شجاعت دو پہلو رکھتی ہے، کبھی تو وہ اپنی ذاتی شجاعت سے اپنے نفس کے جذبات کا مقابلہ کرتے ہیں اور اس پر غالب آتے ہیں اور کبھی جب دیکھتے ہیں کہ دشمن کا مقابلہ قرین مصلحت ہے تو نہ صرف جوش نفس سے بلکہ سچائی کی مدد کے لئے دشمن کا مقابلہ کرتے ہیں۔
وہ اپنے نفس پر بھروسہ کرکے نہیں بلکہ خدا پر بھروسہ کرکے بہادری دکھاتے ہیں۔ ان کی شجاعت میں ریا کاری اور خود پسندی نہیں ہوتی۔انکے مدنظر نفس کی پیروی نہیں بلکہ ہر ایک پہلو سے خدا کی رضا مقدم ہوتی ہے۔ انسان جب اس مرحلے پر پہنچتا ہے تو خوف اس سے کوسوں دور ہو جاتا ہے۔ اسی حوالے سے گذشتہ دنوں دلوں پر حکمرانی کرنے والے کمانڈر حاج قاسم سلیمانی (رح) کا ایک واقعہ نظر سے گزرا۔ اس واقعہ کو عالم اسلام کے عظیم مفکر اور دانشور جناب رحیم پور ازغدی نے نقل کیا ہے۔
"جناب رحیم پور ازغدی نفل کرتے ہیں، قم کے مدرسہ فیضیہ اور تہران کی نماز جمعہ کے دوران میری تقریر پر کچھ لوگوں نے سخت ردعمل کا اظہار کیا تھا۔ ان تقاریر کے بعد جب شہید جنرل قاسم سلیمانی سے میری ملاقات ہوئی تو انہوں نے مجھے مسکرا کر گلے لگایا اور میری بات کی تائید و حوصلہ افزائی کی اور فرمایا کہ جو تقریر آپ نے قم کے مدرسہ فیضیہ اور تہران کی نماز جمعہ میں کی تھی، اسی طرح کے الفاظ و مطالب سے انقلاب قائم رہے گا، چاہے یہ آخری لفظ اور تقریر ہی کیوں نہ ہو۔ ان کا کہنا تھا اسی طرح انقلاب اور تحریک قائم رہتی ہے۔ ان کی اس بات کی تعبیر یہ تھی کہ اپنے آپ کو پروانوں کی طرح شمع پر قربان کر دو، تاکہ وہ روشن رہے۔ انہوں نے یہ بات زور دیکر کہی کہ انقلابی گفتگو اور انقلابی کشادگی کو دیانت اور عقلانیت کے ساتھ محفوظ رکھنا چاہیئے اور ہمیں مادیت اور حیوانی خواہشات کا شکار نہیں ہونا چاہیئے۔
اس موقع پر حاج قاسم نے مجھے ایک اور بات بھی بتائی۔ ان کا کہنا تھا امریکہ، انگلینڈ اور فرانس اندر سے انتہائی جعلی اور کھوکھلے ہیں۔ وہ ثقافتی مباحثے اور ثقافتی مکالمے کے تناظر میں خطے کے دانشوروں، روشن خیالوں اور رائے عامہ کو تلقین کرتے تھے کہ ہمیں اقوام عالم سے مکالمہ کرنا چاہیئے۔ جناب رحیم پور ازغدی کہتے ہیں، میں نے بعض حکام اور کچھ مغرب زدہ نام نہاد دانشوروں کو ان کے نکات یاد دلائے اور کہا کہ شہید قاسم سلیمانی نے کہا تھا کہ امریکی افسران اور سپاہی بزدل ہیں اور امریکی فوج قطعی طور پر جنگی فوج نہیں ہے اور وہ کبھی لڑ نہیں سکتی۔ انہوں نے صرف اپنی ایک ہالی ووڈ جیسی تصویر بنائی ہوئی ہے۔ حقیقت اس کے برعکس ہے۔
شہید قاسم سلیمانی نے مجھے کہا تھا کہ امریکی افسران اور سپاہی ڈائپر پہنتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ امریکی اڈوں کے اندر موجود ہمارے کچھ لوگ ہمیں بتاتے تھے کہ اگر 50 کلومیٹر دور کوئی جھڑپ ہوتی تو وہ اپنی بیرکوں میں قریب سے آنے والی گولی کی آواز سے بھی خوفزدہ ہو جاتے تھے۔ شہید سلیمانی کہتے تھے کہ میرے پاس امریکی، اسرائیلی اور برطانوی اڈوں کے اندر سے بہت سی ایسی ویڈیوز موجود ہیں، جن سے پتہ چلتا ہے کہ وہ کتنے خوفزدہ و ڈرپوک ہیں اور موت تو ایک طرف وہ تو زخمی ہونے سے کتنے ڈرتے ہیں۔ وہ مخالفین کو ڈرا کر، دانشوروں کی سوچ پر اثر انداز ہو کر، ایٹم بم کے ذریعے یا میڈیا کے ذریعے ذہنوں پر کام کرکے نیز حکومتوں اور قوموں میں کرپٹ لوگوں کو خرید کر اپنا کام آگے بڑھاتے ہیں۔
شہید سلیمانی کہتے تھے کہ ہمارے پاس ایسی ویڈیوز موجود ہیں، جس میں امریکی افسران معمولی جھڑیوں سے بھاگ کر چھوٹے بچوں کی طرح ایک کمرے میں بیٹھے نظر آرہے ہیں اور ان میں سے کچھ تو خوف کی وجہ سے رو بھی رہے ہیں۔ ایسی حالت میں ان کے اعلیٰ افسر انہیں کچھ کرنے کا حکم دیتے ہیں تو وہ اس کو انجام دینے کے لئے کمروں سے نہیں نکلتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ انتہائی جعلی، کھوکھلے اور کمزور ہیں۔ شہید سلیمانی کے بقول اگر کچھ مضبوط اور وفادار لوگ ان کے سامنے کھڑے ہو جائیں اور صبر و شکر کا مظاہرہ کریں تو وہ جلد شکست کھا کر پیچھے ہٹ جائیں گے۔"
”یقین“، ”شک“ کا متضاد ہے جیسا کہ علم، جہالت کا نقطہٴ مقابل ہے، قران و سنت اور روایات سے جو کچھ معلوم ہوتا ہے، اس کے مطابق ایمان کے اعلیٰ ترین مرتبہ کو یقین کہا جاتا ہے۔ فرزند رسول امام محمد باقر علیہ السلام فرماتے ہیں: "ایمان اسلام سے ایک درجہ بالاتر ہے اور تقویٰ ایمان سے ایک درجہ بالاتر ہے اور یقین تقویٰ سے ایک درجہ بالاتر ہے۔" اس کے بعد آپ نے فرمایا: ”ولم یقسم بین الناس شیء اقل من الیقین“، ”یقین کی حقیقت اللہ پر توکل کرنا، اللہ کی پاک ذات کے سامنے سرتسلیم خم کرنا، قضائے الٰہی پر راضی رہنا اور اپنے تمام کاموں کا خدا کے سپرد کر دینا ہے۔" مقام تقویٰ و ایمان و اسلام سے مقام ِ یقین کی برتری ایک ایسی صفت ہے، جس پر دوسری روایات میں بھی تاکید ہو ئی ہے۔
ایک دوسری حدیث میں امام جعفر صادق علیہ السلام سے نقل کیا گیا ہے: ”من صحة یقین المراٴ المسلم ان لایرضی الناس بسخط اللہ، ولا یلومھم علی مالم یوٴتہ اللہ ان اللہ بعد لہ و قسطہ جعل الراحة فی الیقین و الرضا و جعل الھم و الحزن فی الشک و السخط"، ”مسلمان مرد کے یقین کے صحیح ہونے کی نشانیوں میں سے ایک یہ ہے کہ وہ خدا کو ناراض کرکے لوگوں کو راضی نہ کرے اور جو کچھ خدا نے اسے نہیں دیا، اس پر لوگوں کو ملامت نہ کرے (انہیں اپنی محرومیوں کا ذمہ دار نہ ٹھہرائے) خدا نے اپنے عدل و انصاف کی بناء پر راحت و آرام، یقین و رضا میں رکھا ہے اور غم و اندوہ کو شک اور راضی میں قرار دیا ہے۔“ ان تعبیرات اور دوسری تعبیروں سے اچھی طرح معلوم ہو جاتا ہے کہ جب انسان یقین کے مقام تک پہنچ جاتا ہے تو ایک خاص قسم کا سکون و آرام اس کے سارے دل و جان میں سرایت کر جاتا ہے۔
البتہ یقین کے لیے کئی مراتب ہیں، جن کی طرف اوپر والی آیات اور سورہٴ واقعہ کی آیہ (انّ ھٰذا لھو حق الیقین) میں اشارہ ہوا ہے اور وہ تین مرحلے ہیں۔
۱۔ علم الیقین: انسان مختلف دلائل اور نشانیوں سے کسی چیز پر ایمان لائے۔جیسے دھوئیں کو دیکھ کر آگ کے ہونے پر ایمان لے آتا ہے۔
۲۔ عین الیقین: اس مقام پر حاصل ہوتا ہے، جب انسان مشاہدہ کے مرحلہ تک پہنچ جاتا ہے اور اپنی آنکھ سے مثلاً کسی آگ کو دیکھ لے۔
۳۔ حق الیقین: اس مرحلے کا نام ہے، جب انسان خود آگ میں داخل ہو جائے اور اس کی تپش، سوزش اور حرارت کو لمس کرے اور یہ یقین کا بالاترین مرحلہ ہے۔
محقق طوسی اپنی ایک گفتگو میں کہتے ہیں: ”یقین“ وہی پختہ اور ثابت اعتقاد ہے، جس کا زوال ممکن نہیں ہے۔ حقیقت میں پہلا مرحلہ عمومی پہلو رکھتا ہے اور دوسرا مرحلہ پرہیزگاروں کے لیے ہے اور تیسرا مرحلہ خواص اور مقربین الہیٰ کے ساتھ مخصوص ہے۔ ایک اور حدیث میں آیا ہے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں صحابہ نے عرض کیا: "ہم نے سنا ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام کے بعض اصحاب پانی پر چلتے تھے؟! آپ نے فرمایا: ”لو کان یقینہ اشد من ذالک لمشی علی الھواء“، ”اگر ان کا یقین اس سے زیادہ پختہ ہوتا تو وہ اس سے زیادہ محکم ہوتے اور ہوا پر چلتے۔“ مرحوم ”علامہ طباطبائی“ اس حدیث کو ذکر کرنے کے بعد مزید کہتے ہیں: "تمام چیزیں خداوند سبحان پر یقین اور عالم تکوین کے اسباب کی تاثیر کے استقلال کو محو کرنے کے محور کے گرد گھومتی ہیں، اس بناء پر انسان کا قدرت مطلقہ الٰہیہ پر اعتقاد و ایمان جتنا زیادہ ہوگا، اشیاء عالم اسی نسبت سے اس کے سامنے مطیع و تسلیم ہو جائیں گی اور عالم ِآفرینش میں یقین اور خارق العادت تصرف کے رابطہ کے یہی رمز و رموز ہیں۔
کسی جگہ یہ جملہ یقین کے تناظر میں پڑھا تھا۔ بہادر وہ ہیں کہ جب لڑائی کا موقع آ پڑے یا ان پر کوئی مصیبت آ پڑے تو بھاگتے نہیں۔ ان کا صبر لڑائی اور سختیوں کے وقت میں خدا کی رضامندی اور اس پر یقین کے پیرائے میں ہوتا ہے۔ ان کو ڈرایا جاتا ہے کہ لوگ تمہیں سزا دینے کے لئے اتفاق کر گئے ہیں۔ سو تم لوگوں سے ڈرو۔ لیکن ڈرانے سے ان کا ایمان و یقین اور بھی بڑھتا ہے اور وہ کہتے ہیں کہ خدا ہمیں کافی ہے۔ ان کی شجاعت دو پہلو رکھتی ہے، کبھی تو وہ اپنی ذاتی شجاعت سے اپنے نفس کے جذبات کا مقابلہ کرتے ہیں اور اس پر غالب آتے ہیں اور کبھی جب دیکھتے ہیں کہ دشمن کا مقابلہ قرین مصلحت ہے تو نہ صرف جوش نفس سے بلکہ سچائی کی مدد کے لئے دشمن کا مقابلہ کرتے ہیں۔
وہ اپنے نفس پر بھروسہ کرکے نہیں بلکہ خدا پر بھروسہ کرکے بہادری دکھاتے ہیں۔ ان کی شجاعت میں ریا کاری اور خود پسندی نہیں ہوتی۔انکے مدنظر نفس کی پیروی نہیں بلکہ ہر ایک پہلو سے خدا کی رضا مقدم ہوتی ہے۔ انسان جب اس مرحلے پر پہنچتا ہے تو خوف اس سے کوسوں دور ہو جاتا ہے۔ اسی حوالے سے گذشتہ دنوں دلوں پر حکمرانی کرنے والے کمانڈر حاج قاسم سلیمانی (رح) کا ایک واقعہ نظر سے گزرا۔ اس واقعہ کو عالم اسلام کے عظیم مفکر اور دانشور جناب رحیم پور ازغدی نے نقل کیا ہے۔
"جناب رحیم پور ازغدی نفل کرتے ہیں، قم کے مدرسہ فیضیہ اور تہران کی نماز جمعہ کے دوران میری تقریر پر کچھ لوگوں نے سخت ردعمل کا اظہار کیا تھا۔ ان تقاریر کے بعد جب شہید جنرل قاسم سلیمانی سے میری ملاقات ہوئی تو انہوں نے مجھے مسکرا کر گلے لگایا اور میری بات کی تائید و حوصلہ افزائی کی اور فرمایا کہ جو تقریر آپ نے قم کے مدرسہ فیضیہ اور تہران کی نماز جمعہ میں کی تھی، اسی طرح کے الفاظ و مطالب سے انقلاب قائم رہے گا، چاہے یہ آخری لفظ اور تقریر ہی کیوں نہ ہو۔ ان کا کہنا تھا اسی طرح انقلاب اور تحریک قائم رہتی ہے۔ ان کی اس بات کی تعبیر یہ تھی کہ اپنے آپ کو پروانوں کی طرح شمع پر قربان کر دو، تاکہ وہ روشن رہے۔ انہوں نے یہ بات زور دیکر کہی کہ انقلابی گفتگو اور انقلابی کشادگی کو دیانت اور عقلانیت کے ساتھ محفوظ رکھنا چاہیئے اور ہمیں مادیت اور حیوانی خواہشات کا شکار نہیں ہونا چاہیئے۔
اس موقع پر حاج قاسم نے مجھے ایک اور بات بھی بتائی۔ ان کا کہنا تھا امریکہ، انگلینڈ اور فرانس اندر سے انتہائی جعلی اور کھوکھلے ہیں۔ وہ ثقافتی مباحثے اور ثقافتی مکالمے کے تناظر میں خطے کے دانشوروں، روشن خیالوں اور رائے عامہ کو تلقین کرتے تھے کہ ہمیں اقوام عالم سے مکالمہ کرنا چاہیئے۔ جناب رحیم پور ازغدی کہتے ہیں، میں نے بعض حکام اور کچھ مغرب زدہ نام نہاد دانشوروں کو ان کے نکات یاد دلائے اور کہا کہ شہید قاسم سلیمانی نے کہا تھا کہ امریکی افسران اور سپاہی بزدل ہیں اور امریکی فوج قطعی طور پر جنگی فوج نہیں ہے اور وہ کبھی لڑ نہیں سکتی۔ انہوں نے صرف اپنی ایک ہالی ووڈ جیسی تصویر بنائی ہوئی ہے۔ حقیقت اس کے برعکس ہے۔
شہید قاسم سلیمانی نے مجھے کہا تھا کہ امریکی افسران اور سپاہی ڈائپر پہنتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ امریکی اڈوں کے اندر موجود ہمارے کچھ لوگ ہمیں بتاتے تھے کہ اگر 50 کلومیٹر دور کوئی جھڑپ ہوتی تو وہ اپنی بیرکوں میں قریب سے آنے والی گولی کی آواز سے بھی خوفزدہ ہو جاتے تھے۔ شہید سلیمانی کہتے تھے کہ میرے پاس امریکی، اسرائیلی اور برطانوی اڈوں کے اندر سے بہت سی ایسی ویڈیوز موجود ہیں، جن سے پتہ چلتا ہے کہ وہ کتنے خوفزدہ و ڈرپوک ہیں اور موت تو ایک طرف وہ تو زخمی ہونے سے کتنے ڈرتے ہیں۔ وہ مخالفین کو ڈرا کر، دانشوروں کی سوچ پر اثر انداز ہو کر، ایٹم بم کے ذریعے یا میڈیا کے ذریعے ذہنوں پر کام کرکے نیز حکومتوں اور قوموں میں کرپٹ لوگوں کو خرید کر اپنا کام آگے بڑھاتے ہیں۔
شہید سلیمانی کہتے تھے کہ ہمارے پاس ایسی ویڈیوز موجود ہیں، جس میں امریکی افسران معمولی جھڑیوں سے بھاگ کر چھوٹے بچوں کی طرح ایک کمرے میں بیٹھے نظر آرہے ہیں اور ان میں سے کچھ تو خوف کی وجہ سے رو بھی رہے ہیں۔ ایسی حالت میں ان کے اعلیٰ افسر انہیں کچھ کرنے کا حکم دیتے ہیں تو وہ اس کو انجام دینے کے لئے کمروں سے نہیں نکلتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ انتہائی جعلی، کھوکھلے اور کمزور ہیں۔ شہید سلیمانی کے بقول اگر کچھ مضبوط اور وفادار لوگ ان کے سامنے کھڑے ہو جائیں اور صبر و شکر کا مظاہرہ کریں تو وہ جلد شکست کھا کر پیچھے ہٹ جائیں گے۔"
خبر کا کوڈ : 1111745
منتخب
1 Dec 2024
30 Nov 2024
30 Nov 2024
27 Nov 2024
30 Nov 2024
29 Nov 2024
29 Nov 2024