سینیٹر غوث محمد نیازی پاکستان مسلم لیگ نون خوشاب کے سربراہ ہیں، 2015ء میں سینیٹ کی جنرل سیٹ سے سینیٹ کے ممبر منتخب ہوئے۔ 1986ء میں پنجاب سے ایم بی بی ایس مکمل کرنے بعد سے میڈیکل کے شعبے سے وابستہ ہیں۔ پیشہ وارانہ ذمہ داریوں کیساتھ ساتھ سیاست میں بھی فعال ہیں۔ خارجہ امور، علاقائی سیاست اور بین الاقوامی تعلقات پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ سینیٹ آف پاکستان میں انفارمیشن ٹیکنالوجی، انفارمیشن اینڈ براڈ کاسٹنگ، قومی ورثہ، واٹر اینڈ پاور اور نیشنل ہیلتھ سروسز ریگولیشنز اینڈ کوارڈینشین کمیٹیز کے ممبر کا اسلام ٹائمز کیساتھ انٹرویو قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔ ادارہ
اسلام ٹائمز: ایک دفعہ پھر سپریم کورٹ کے فیصلے نے حکومت کو اپوزیشن سے بات کرنے پہ مجبور کر دیا ہے، کیا قانون سازی کا عمل آسانی سے مکمل ہو جائیگا؟
غوث محمد نیازی: پارلیمنٹ کا بنیادی کام ہی قانون سازی ہے، یہ معمول کے مطابق ہی ہونی چاہیے۔ ابھی تک کوئی مسودہ سامنے نہیں آیا، اس لیے کوئی واضح بات کرنا مشکل ہے۔ اسکی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ پی ٹی آئی کا طرزعمل پہلے بھی مثبت نہیں تھا، بہت اہم مسائل بھی غیرسنجیدگی کا شکار ہو رہے ہیں۔ ابھی تک اس بارے میں کچھ کہنا اس لیے بھی مشکل ہے کہ کوئی معلوم نہیں کہ حکومت کیا کرتی ہے، یہ بھی ممکن ہے کہ پی ٹی آئی پارلیمان کو ساتھ لیکر چلنا بھی نہ چاہیے۔ اس پر ہماری رائے یہ ہے کہ معاملہ ابھی عبوری طور پر چل رہا ہے، اس لیے کچھ کہنا کافی مشکل ہے۔ ابھی اس میں کچھ دیر ہے کہ میڈیا پہ اس حوالے سے بات کی جائے، البتہ حکومتی رویہ، مسودہ اور انکی حکمت عملی سامنے آجائے تو کھل کر کچھ کہا جا سکتا ہے۔ ابھی تک نہیں پتہ کہ حکومت کی کیا سوچ ہے لیکن آئینی ترمیم کے لیے دو تہائی اکثریت درکار ہوگی، جس کے لیے حکومت کو اپوزیشن سے بات کرنا پڑیگی۔ جب حکومت بات کریگی تو اپوزیشن اپنا موقف بھی سامنے لے آئیگی، اب کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا۔
اسلام ٹائمز: آزادی مارچ اور پلان بی، سی کو کامیاب گردانتے ہوئے مولانا فضل الرحمان تو کہہ رہے ہیں کہ جعلی پارلیمنٹ قانون سازی کر ہی نہیں سکتی، آپ ان کے اتحادی ہیں، پھر اس کے حق میں کیوں ہیں؟
غوث محمد نیازی: یہ درست ہے ہم اتحادی ہیں، لیکن یہ مولانا کی اپنی رائے ہے، اتحادی ہونیکا یہ مطلب نہیں بنتا کہ ہر معاملے پہ بالکل ایک جیسی پالیسی ہو۔ اس کے باوجود ہم چاہتے ہیں کہ انتخابات ہوں، یہ ہمارا مطالبہ ہے۔ اگر یہ اسمبلی اور پارلیمنٹ نہیں بھی رہتی تو اگلی اسمبلی آنے والی جو گی وہ آرمی چیف کی توسیع کے بارے میں قانون سازی کر سکتی ہے، اس لیے یہ مطالبہ درست ہے کہ نئی حکومت بنانے کیلئے نئے انتخابات کروائے جائیں، اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ سپریم کورٹ کی جانب سے قانون سازی کا معاملہ تو ابھی آیا ہے، اصل تو حکومت کی نااہلی ہے، جو ایک بار پھر ثابت ہو گئی ہے۔ ہم اس لیے چاہتے ہیں کہ یہ حکومت جائے اور عوامی حکومت آئے، جو ضرورت کے مطابق قانون سازی بھی کرے، حکومتی معاملات بھی چلائے، انہوں نے تو ثابت کر دیا ہے کہ ان کے بس میں نہیں، نہ قانون سازی نہ امور حکومت چلا سکتے ہیں۔
اسلام ٹائمز: وفاقی حکومت نے پرویز مشرف کے کیس کا فیصلہ رکوا دیا ہے، اس کے کیا مضمرات ہونگے، ایسا کیوں کیا جا رہا ہے؟
غوث محمد نیازی: یہ تو بڑا آسان ہے، خود عمران خان اس پہلے جو کچھ کہتے رہے ہیں عدالتی فیصلوں اور فوجی آمروں کے متعلق اسی کے اندر اسکا جواب موجود ہے۔ موجودہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے متعلق انہوں نے جو کہا ہے کہ میں نے جتنے آرمی چیف دیکھے ہیں، یہ جمہوریت پسند ہیں، باقیوں کے متعلق اس میں جواب موجود ہے، یہ انہوں نے خود ثابت کر دیا ہے کہ طاقتور کیلئے قانون الگ ہے اور کمزور کیلئے قانون الگ ہے، سسٹم بھی ایسا ہی چل رہا ہے۔ ورنہ روزانہ عدالتیں کئی ایسے فیصلے دے رہی ہوتی ہیں، کبھی حکومتوں کو ضرورت نہیں پڑی کہ وہ فریق بنیں اور عدالت میں جا کے کہیں کہ جس شخص یا ملزم کے متعلق فیصلہ دیا جا رہا ہے، وہ مفرور ہے، اس کا موقف سنا جائے۔ یہ الگ بات ہے کہ عدالتیں خود اس کی گنجائش نکالیں کہ ملزم موجود نہیں اور اسکا موقف نہیں سنا جا رہا یا پولیس کی نیت درست نہیں۔
انتظامیہ نے اپنا کام نہیں کیا، اس کے برعکس مشرف کیس میں عدالت یہ ساری کاروائی پوری کر چکی ہے، ملزم کو کئی ںوٹسز دی چکی ہے کہ وہ پیش ہوں ورنہ انکا یہ حق ختم کر دیا جائے گا۔ اسی طرح حکومت نے یہ تو نہیں کہا کہ وہ مشرف کو واپس لائینگے، بلکہ حکومتی وزراء مشرف کے حق میں تقریریں کر رہے ہیں، عدالتی فیصلوں کی نفی کر رہے ہیں، ایک کیس جو عدالت میں ہے، اس پر میڈیا میں بحث کر رہے ہیں۔ اس سے یہی پتہ چلتا ہے کہ یہ ایک ہی پارٹی ہیں، مشرف اور عمران خان۔ یہ عمران خان کے دوغلے پن اور کٹھ پتلی ہونیکا ایک اور ثبوت ہے۔ مزاج اور عادتوں کے لحاظ سے عمران خان بھی ایک ڈکٹیٹڑ ہیں، جو اپنے آپ کو کسی کے سامنے جوابدہ نہیں سمجھتے نہ ہی کسی قانون کا اپنے آپ کو پابند سمجھتے ہیں۔
اسلام ٹائمز: حکومت کا کہنا ہے کہ سابق حکومتوں نے خود گارڈ آف آنر دیکر جنرل مشرف کو رخصت کیا تھا، اس لیے یہ فیصلہ ملتوی کروانے میں بھی کوئی حرج نہیں، یہ بھی اسی کا تسلسل ہے؟
غوث محمد نیازی: پہلی بات تو یہ ہے کہ اس طرح کا تسلسل رہا نہیں، کسی بھی سول حکومت کا۔ چاہے مسلم لیگ (ن) کا دور تھا یا پی پی پی کا۔ کسی بھی وزیراعظم کو کام نہیں کرنے دیا گیا۔ کبھی ڈان لیکس تو بھی اقامہ کا قصہ۔ پھر اسوقت جنرل مشرف وردی میں تھے۔ اس لیے انہیں وردی سے نکال کر اقتدار سے باہر کرنا بہت مشکل تھا، جو اسکی وقت کی سیاسی قیادت نے کیا۔ پہلے انہیں وردی سے نکالا پھر اقتدار سے اور پھر وہ پاکستان میں رہنے کے قابل ہی نہیں رہے، اس کے بعد کبھی واپس نہیں آئے۔ یہ سیاسی قوتوں کی ایک فتح ہے، لیکن ایک آمر کی وکالت کرنا یہ ایک الگ بات ہے، موجودہ حکومت نااہل تو ہے ہی، پھر یہ ایک ڈکٹیٹر کی وکالت کر رہے ہیں، یہ جمہوریت کے نام پر ایک دھبہ ہے، جس طرح یہ غیرجمہوری انداز میں اقتدار تک پہنچے ہیں، اسی طرح حکومت میں آنے کے بعد بھی انہوں نے عوام اور جمہوریت کی کوئی خدمت نہیں کی، بلکہ انکی پیٹھ میں چھرا گھونپا پے، اب انکا مکروہ چہرہ کھل کر لوگوں کے سامنے آ گیا ہے۔ البتہ اس میں باقی سیاستدان بھی ذمہ دار ہیں۔ لیکن ایسے رویے جمہوریت کے فروغ اور استحکام میں رکاوٹ ہیں، جو ملک کیلئے اچھا شگون نہیں ہے۔
اسلام ٹائمز: اگر اسی چیز کو سامنے رکھیں تو اپوزیشن کی سیاسی جماعتوں کے اپنے اندر بھی جمہوری طرزعمل نظر نہیں آتا، حالیہ دنوں میں ہونیوالے فیصلوں کو ہی دیکھ لیں؟ ہر طرف ایک ایک خاندان ہے؟
غوث محمد نیازی: اسوقت جو سیاسی پارٹیز اپوزیشن میں ہیں، جتنا زیادہ انہوں نے دباؤ کا مقابلہ کیا ہے، شاید پاکستان کی تاریخ میں ایسا ماحول کبھی رہا ہو۔ اس کے باوجود مسلم لیگ (ن) کا ووٹ بینک موجود ہے، بلکہ زیادہ وسیع ہوا ہے، وسیع ان معنوں میں کہ جب تمام امیدواروں کو یقین تھا کہ ہماری حکومت نہیں آ رہی اس کے باوجود وہ پارٹی اور پارٹی قیادت کیساتھ کھڑے رہے ہیں، پھر جس طرح مقدمات میں پھنسایا جا رہا ہے یہ اس سے پہلے کبھی نہیں ہوا۔ نیب کی کاروائیاں دیکھ لیں، رانا ثنا اللہ کیخلاف اینٹی نارکوٹیکس کا کیس دیکھ لیں۔ میڈیا پر بندشیں اور پابندیاں دیکھ لیں، مسلم لیگ (ن) کی قیادت کو مکتی باہنی ثابت کرنیکی کوشش کی گئی ہے، اس سارے سازشی عمل کے باوجود پنجاب سمیت ہر جگہ مسلم لیگ (ن) کا ورکر، ووٹر اور اسپوٹر پارٹی کیساتھ کھڑا ہے، سب سختیوں اور کرپشن کے الزامات کو فیس کر رہا ہے۔ لیکن دوسری طرف طلبہ حقوق کیلئے بات کرنیوالوں کیخلاف بغاوت کے مقدمات بنائے جا رہے ہیں، لوگوں کی آواز کو دبایا جا رہا ہے، یہ غیر جمہوری ہتھکنڈے ہیں جو موجودہ حکومت استعمال کر رہی ہے۔
اسلام ٹائمز: اگر اییسا ہے تو ان سختیوں کے مقابلے میں پوری اپوزیشن ایک کیوں نہیں ہو جاتی، چھوٹے چھوٹے فیصلوں میں بھی کسی ایک نکتے پر متفق نہیں ہو پاتے؟
غوث محمد نیازی: اپوزیشن کی ساری جماعتوں کی اپنی اپنی پالیسی اور نعرے ہیں، ضروری نہیں کہ وہ مدغم ہو جائیں، لیک ایک نکتے پہ سب کا اتفاق ہے کہ حکومت کو جانا چاہیے، نئے انتخابات ہونے چاہیں، عوام کو اس مصیبت سے چھٹکارا ملنا چاہیے، اب ایک تبدیلی کی ہوا چلی ہے جو ایک سال پہلے نہیں تھی، شروع میں ہم نے بھی فیصلہ کیا تھا کہ پارلیمنٹ کو چلنا چاہیے، لیکن اس حکومت نے ثابت کر دیا کہ وہ نہیں چاہتے، بلکہ انکا ایجنڈا ہی فقط مخالفین کیخلاف تعصب پہ مبنی کاروائیوں کا انجام دینا ہے، یہ ملک اور قوم کی خدمت کا کوئی جذبہ اور پروگرام ہی نہیں رکھتے۔
اسلام ٹائمز: وزیراعظم کے استعفیٰ کا مطالبہ لیکر چلنے والا آزادی مارچ تو ناکام ہوگیا، اس سے پہلے سینیٹ میں بھی اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد کامیاب نہیں ہو سکی، وزیراعظم اور حکومت کو کس طرح گھر بھیج سکتے ہیں؟
غوث محمد نیازی: اس کی ابتداء تو ہم نے کی تھی لیکن اب پی ٹی آئی کے اندر سے بھی آوازیں آنا شروع ہو گئی ہیں، حکومتی جماعت کے اراکین اسمبلی میڈیا کے ٹاک شوز میں کہہ رہے ہیں کہ حکومت کچھ نہیں کر رہی، وزیراعظم کے پاس ان سے ملنے کیلئے وقت نہیں ہے، پی ٹی آئی کے جلسوں میں کہا جا رہا ہے کہ ہماری حکومت آئی ہے تو پٹواری کا ریٹ بڑھ گیا ہے، عوام مہنگائی کے ہاتھوں تنگ ہیں۔ پھر جو تحریک عدم اعتماد کی بات ہے، وہاں سینیٹ میں تو خفیہ رائے شماری کا معاملہ تھا، قومی اسمبلی میں تو خفیہ رائے شماری نہیں ہونی، یہاں تو تحریک کامیاب ہو سکتی ہے۔ حکومتی کارکردگی صفر ہے، لوگ بھی تیار ہیں کہ یہ حکومت اب گھر جائے۔
اسلام ٹائمز: پنجاب کے وزراء نے تو حکومتی کارکردگی کی بناء پر وزیراعلیٰ کو شیر شاہ سوری کا درجہ دیدیا ہے، اس سے تو طاقت کا اظہار بھی ہوتا ہے، اسکا مقابلہ کیسے کیا جائیگا؟
غوث محمد نیازی: یہ نہ صرف مبالغے سے کام لیتے ہیں بلکہ لوگوں کی آنکھوں میں دھول جھانکنے کی کوشش بھی کر رہے ہیں، اس طرح یہ لوگ تاریخی مشاہیر کیلئے بدنامی کا باعث بھی بن رہے ہیں، بنیادی طور پر انکی اپروچ فاشسٹوں والی ہے، لنگرخانے کھولنے سے حکومت یہ نہیں کہہ سکتی کہ وہ شیر شاہ سوری جیسی پرفارمنس اور گورننس کے حامل ہیں، یہ کام تو ایدھی صاحب کر چکے ہیں، پھر آپ لوگوں کو حکومت میں رہنے کی کیا ضرورت ہے۔ لاکھوں لوگوں کو بے روزگار کر کے سڑکوں پہ لے آئے ہیں، اس کے بعد کہتے ہیں کہ بے سہارا لوگوں کیلئے پناہ گاہیں بنا دی ہیں، آپ نے تو لوگوں سے چھتیں چھین لی ہیں، انہیں مجبور کر دیا ہے کہ وہ لنگر خانوں کو رخ کریں۔ اس سے بڑا لطیفہ کوئی نہیں ہو سکتا، کہ وزیراعلیٰ پنجاب کی تعریف کی جائے یا انکو ہیرو کا درجہ دیا جائے۔ صبح شام میڈیا اور حکومتی وزراء عثمان بزدار پر اعتراضات اٹھا رہے ہیں، اسکی نااہلی کا ماتم کر رہے ہیں۔ وزیراعظم کہتے ہیں یہ شریف آدمی ہے، ہمارے ہاں تو وہ شخص جسے اپنا ہوش بھی نہ ہو، مذاق میں کہتے ہیں کہ یہ شریف آدمی ہے، عمران خان نہ صرف وزیراعلیٰ کے منصب بلکہ پنجاب کے عوام کا بھی مذاق اڑا رہے ہیں۔