0
Saturday 30 Nov 2019 09:51

اسلام ایک آفاقی حقیقت ہے جسے ہم اپنی وحدت و اخوت سے ہی دنیا تک پہنچا سکتے ہیں، مولانا غلام محمد عطار

اسلام ایک آفاقی حقیقت ہے جسے ہم اپنی وحدت و اخوت سے ہی دنیا تک پہنچا سکتے ہیں، مولانا غلام محمد عطار
مولانا غلام محمد عطار مقبوضہ جموں و کشمیر کے لاوے پورہ سرینگر سے تعلق رکھتے ہیں، وہ برصغیر کی معروف تنظیم ’’جماعۃ التبلیغ‘‘ سے وابستہ ہیں، وہ پچھلے 29 سالوں سے سرینگر کی ایک جامع مسجد ’’مسجد امام اعظم (رہ)‘‘ میں امام جمعہ کے فرائض انجام دے رہے ہیں، وہ عربی، فارسی اور اردو زبانوں پر خاصی مہارت رکھتے ہیں اور مطالعہ قرآن و حدیث و تفاسیر پر عبور حاصل ہے، مولانا غلام محمد عطار مقبوضہ کشمیر میں پچھلے چالیس سالوں سے دین حق کی تبلیغ و ترویج کا کام کر رہے ہیں، انکے والد بھی ایک جید عالم دین گزرے ہیں، جنکے زیر سایہ انہوں نے پرورش پائی، وہ اتحاد بین المسلمین کے حوالے سے وادی کشمیر کے اطراف و اکناف میں فعال کردار نبھائے ہوئے ہیں اور ملت کے تمام مسائل کا حل امت کے اتحاد میں دیکھتے ہیں، اسلام ٹائمز کے نمائندے نے مولانا غلام محمد سے ایک نشست کے دوران خصوصی انٹرویو کا اہتمام کیا، جو قارئین کرام کی خدمت میں پیش ہے۔(ادارہ)

اسلام ٹائمز: مغربی میڈیا کے ذریعے اسلاموفوبیا کا پروپیگنڈا زوروں پر ہے، اس حوالے سے آپکا تجزیہ جاننا چاہیں گے۔؟
مولانا غلام محمد عطار:
جی اس میں کوئی تردید نہیں ہے کہ مغربی میڈیا اسلاموفوبیا کی جڑیں مضبوط کرنے میں عالمی سطح پر زبردست کردار ادا کررہا ہے۔ مغربی میڈیا کے ذریعے مسلمانوں کو انتہا پسند، دہشتگرد، جاہل اور جنگجو کے طور پر پیش کیا جارہا ہے۔ نائن الیون کے بعد سے مغرب اور یورپ کا کوئی ایسا ٹیلی ویژن، اخبار اور رسالہ نہیں ہوگا، جس میں آئے روز اسلام اور اس کے ماننے والوں کے خلاف زہر افشانی نہ کی جارہی ہو۔ آج اسلام کو مغربی دنیا کے لئے خطرے کے طور پر پیش کیا جاتا ہے، پیغمبر اسلام (ص) کی توہین مغربی میڈیا کا معمول بن چکا ہے۔ مسلمانوں کو وحشتناک اور دہشتگرد کے طور پر پیش یا جارہا ہے۔

مغربی میڈیا کی یہ سب زہر افشانیاں، جنہیں وہ آزادیِ رائی کہتے ہیں، صرف اسلام، پیغمبر اسلام (ص) اور مسلمانوں تک ہی محدود ہیں لیکن جب بھی کوئی ان کی فکر و تہذیب، ثقافت، سیاست اور اخلاقیات پر کسی قسم کی تنقید کرتا ہے، تو اسے وہ آزادیِ اظہارِ رائی پر حملہ قرار دیتے ہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ آج تک اسلام کو جس قدر بدنام کرنے کی کوشش کی گئی ہے اس قدر اسلام کے آفاقی پغام کو ترویج ہی ملی ہے، اسلام دنیا بھر میں پھیلا ہے اور آج کوئی ایسی جگہ نہیں ہے جہاں اسلام کے پیروکار نہیں ہیں۔ مغربی قوتیں اور انکا زرخرید میڈیا روز بروز ناکام ہوتا جارہا ہے اور اسلام جس کا محافظ خود اللہ ہے دن بدن عام ہوتا جارہا ہے۔ تمام ادیان پر اسلام کی افادیت و آفاقیت آشکار ہوتی جارہی ہے۔ اسلام تمام انسانیت کا محبوب ترین دین ثابت ہوتا جارہا ہے۔

اسلام ٹائمز: بھارت میں اسلاموفوبیا کے تحت مسلمانوں کا جینا دشوار کر دیا گیا ہے، اس پر آپکی نگاہ کیا ہے۔؟
مولانا غلام محمد عطار:
پوری دنیا کے ساتھ ساتھ بھارت میں بھی مسلم مخالف لہر زوروں پر ہے، مغربی میڈیا کے ساتھ ساتھ بھارتی میڈیا بھی مسلمانوں کو بدنام کرنے پر کمربستہ ہے۔ بھارت میں آئے روز مسلمان نوجوانوں کو اسلام دوستی کی بنیاد پر گرفتار کرکے ظلم و ستم کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ بے بنیاد کیسوں میں پھسا کر انہیں دہشتگرد قرار دیا جاتا ہے۔ بھارت بھر میں مسلمانوں کو اسلام ہراسی کی بنیاد پر بہت زیادہ حادثات کا سامنا ہے۔ اسلاموفوبیا کے تحت ہی گودھرا، میرٹھ اور مظفرنگر جیسے فسادات واقع ہوئے۔ آر ایس ایس، بجرنگ دل، بی جے پی اور دیگر ہندو انتہا پسند تنظیموں اور تحریکوں کے لیڈران اور سیاسی زعماء کے زہر آلود نظریات و بیانات کے نتیجے میں یہاں ہر ایک مسلمان پریشان اور خوف و ہراس کا شکار ہے۔

زعفرانی تحریکات ہندو اکثریت کو بار بار اس بات کی طرف توجہ دلاتی رہی ہیں کہ مسلمان بھارت میں اپنی آبادی میں اضافے کے ذریعے اسے مسلم ملک بنانے کی سازش میں لگے ہوئے ہیں اور چند برسوں میں بھارت ایک مسلم ملک بن جائے گا اسلئے ایسے عناصر کی ہمیشہ کوشش ہے کہ مسلمانوں اور اسلام سے ملکی عوام کو ڈرایا جائے۔ ہندو انتہا پسند تنظیموں کی طرف سے یہ پیغام دیا جارہا ہے کہ اسلام، مسلمان یہاں بیرونی مذاہب ہیں، بھارت کا ایک اپنا مذہب ہے اور وہ ہندوازم ہے۔ درحقیقت اگر دیکھا جائے بھارتی مسلمان ملک کے کسی ایک فرد کے لئے بھی نقصاندہ ثابت نہیں ہوئے یہ ہندو انتہا پسندی ہے جس نے بھارتی مسلمانوں کو جینا حرام کردیا ہے۔ اسلام ہمیں کب کسی انتہا پسندی و شدت پسندی کی اجازت دیتا ہے۔

اسلام ٹائمز: دین اسلام میں مسلمانوں کی باہمی اخوت و مساوات کی اہمیت کے حوالے سے کیا تعلیمات وارد ہوئی ہیں۔؟
مولانا غلام محمد عطار:
دیکھیئے دین اسلام، اللہ کا پسندیدہ دین ہے۔ اسلام خالص اصولی بنیاد پر ایک خدا، ایک رسول اللہ (ص) اور ایک کتاب کے تحت تمام بنی آدم کی ایک ملی وحدت قائم کرنا چاہتا ہے، جس میں رنگ، نسل، وطن، رتبہ اور اثاثہ وغیرہ کی تنگ اور غیرفطری بنیادوں پر کسی قسم کی تفریق روا نہیں رکھی گئی ہے۔ ہر شخص کی حیثیت صرف اس کے انفرادی عمل و کردار کے مطابق متعین ہوگی اور اس کا عمل و کردار اس کا معیار ہوگا۔ اسلام سراسر ہدایت ہے اور ہدایت یافتہ انسانوں کے لئے خدا کا وضع کردہ نظامِ زندگی ہمارے درمیان موجود ہے۔ اس دین کو اپنی زندگی میں نافذ کرنے اور دنیا پر غالب کرنے کے لئے مسلمان کو اپنے عقائد درست و اعمال صالح کے علاوہ ملت کے تئیں اتحاد و اتفاق، اجتماعیت اور یگانگت کا بھرپور مظاہرہ کرنا ہوگا۔ اسلام میں نفاق اور نزاع کی کوئی گنجائش نہیں ہے بلکہ اس دین مبین میں بھائی چارہ، ملنساری، ہمدردی، محبت اور اخوت پر بہت زیادہ زور دیا گیا ہے۔ باقی تمام ادیانِ جہاں اس طرح کی تعلیم و تربیت اور پیغام دینے سے عاری اور خالی ہیں۔ اگر کہیں انصاف، اخوت، ہم آہنگی، ملنساری، الفت و محبت، عزت و وقار، انسانیت کا درد، سربلندی و کامرانی، کامیابی اور سربلندی ہے تو وہ اسی دین مبین میں ہے۔

ہمارے رہبر و مونس پیغمبر آخرالزمان حضرت رسول اللہ (ص) نے اتحاد اور اخوت و مسوات کے ساتھ زندگی گذارنے اور جماعت کی اہمیت وافادیت اور فضیلت کو واضح کرکے انتشار و افتراق کے انجام بد سے ہمیں خبردار فرمایا ہے۔ وحدت میں قوت، طاقت، غیرت، شجاعت اور بلند ہمت جیسی صفات پیدا ہوتی ہیں۔ یکجہتی و یگانگت، اتفاق اور اتحاد میں خورشید مبین بن سکتے ہیں۔ علامہ اقبال (رہ) نے اسی دین مبین کے آفاقی پیغام کو سمجھا تو فرمایا کہ اپنی ملت پر قیاس اقوام مغرب سے نہ کر، خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمی۔ علامہ اقبال ایسی عظیم شخصیت تھی کہ جس نے وسیع علمی و تاریخی مطالعے سے یہ اخذ کیا کہ اسلام میں انسانی زندگی کے بنیادی مسائل کا حل موجود ہے۔ انہوں نے اپنی پوری عمر افلاک علم کی سیر کی اور اس نتیجے پر پہنچے کہ فاشزم، کمیونزم یا دور حاضر کے دوسرے ازم کوئی حقیقت نہیں رکھتے بلکہ صرف اسلام ہی ایک حقیقت ہے اور اس حقیقت کو ہم اپنی وحدت سے ہی دنیا تک پہونچا سکتے ہیں۔

اسلام ٹائمز: دنیا میں موجود ذات پات اور رنگ و نسلی تفریق کے بارے میں اسلام کیا کہتا ہے۔؟
مولانا غلام محمد عطار:
اسلام سرے سے ہی رنگ، نسل، قوم اور علاقائی تعصبات کو رد کرتا ہے۔ اسلام کے نزدیک بنی نوع انسان سب برابر ہے۔ نہ عربی کو عجمی پر کوئی فضیلت ہے، نہ اسود اور احمر میں کوئی فرق ہے، نہ غلام اور بادشاہ میں کوئی موازنہ ہے اور نہ ہی امیر کو غریب پر کوئی ترجیح ہے۔ اگر کسی کو فضیلت ہے تو وہ بس اس انسان کو ہے جو تقویٰ شعار اور پرہیزگار ہو۔ اسلام کا نصب العین ہی اجتماعیت اور اتحاد ہے تاکہ مسلمان ایک مضبوط ملت کی صورت میں منصبِ خلافت و امامت پر فائز ہوں اور دنیا میں وحدت کی خوشبو اور حیات اجتماعی کی خوبیاں پھیلائیں۔ اس کے برعکس مغرب جو نظریہ قومیت پیش کرتا ہے، اس میں انسانیت کے لئے تباہی و بربادی کے سوا کچھ نہیں ہے۔ اس لئے ملت اسلامیہ کو ملی شعور اور دینی تشخص قائم رکھتے ہوئے اس کا توڑ کرنے کے لئے اتحاد و اتفاق پر قائم رہنا ہوگا۔

حضرت محمد اکرم (ص) نے تمام امت کو پیغام توحید سے منور کرکے ایک ہی پرچم کے نیچے جمع کرکے اتحاد و اتفاق کا لامثال اور پیغمبرانہ کردار ادا کیا جسے ہمیں اپنا نقش راہ بنانا ہوگا۔ رسول اللہ (ص) نے متضاد قبیلوں اور خاندانوں کو اسلام کے لئے متحد کیا۔ وحدت و مساوات کی اہمیت اس قدر زیادہ ہے کہ اللہ کے پیارے نبی (ص) نے اپنی پوری زندگی اسکے لئے صرف کی۔ اسلام امن، مساوات، برابری اور بھائی چارے کا دین ہے۔ رسول اللہ (ص) نے اپنی پوری زندگی میں عملاً کرکے دکھایا کہ ذات پات، رنگ و نسل اور علاقائی تعصبات کی اسلام میں کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اسلام میں کسی کو فضیلت رنگ و نسل، قبیلے اور خاندان پر موقوف نہیں ہے بلکہ خوف خدا اور عمل صالح پر ہے۔ ہمیں رنگ و نسل، فروعی اور مسلکی اختلافات کے احساس کو ختم کرنا چاہیئے تاکہ دنیا میں اسلام کا بول بالا ہو اور شرپسند عناصر ناکام و نامراد ہوکر پسپا و زیر ہوجائیں۔

اسلام ٹائمز: آپ نے علامہ اقبال (رہ) کا ذکر کیا، مسلمانوں کی سربلندی و افتخار کیلئے علامہ اقبال (رہ) کی آرزو کیا تھی۔؟
مولانا غلام محمد عطار:
علامہ اقبال (رہ) مسلمانوں کی سربلندی کے بے حد متمنی تھے، علامہ اقبال نے مسلمانوں کو ایک ہی مقام پر لانے کی بھرپور سعی و کاوش کی۔ افسوس کہ آج مسلمان مسلکی منافرت اور اختلافات و تضادات لئے ایک دوسرے سے دست و گریباں ہیں، کلمہ خوانوں پر رنگ و نسل، ذات پات اور فرقہ پرستی و شخصیت پرستی کا غلبہ ہے۔ حالانکہ وقت وقت پر ایسے علمائے دین و مفکرین و مجددین ابھر کر ہمارے درمیان موجود رہے جو ہمہ وقت تعلیم و تربیت کے ذریعے جمعیت، اخوت اور اتحاد و اتفاق کے پیغامات سے ملت کو نوازتے رہے اور ہمیشہ دامن ِدین کو مضبوطی سے تھام کر جمعیت مسلمانی بچانے کی حتی المقدور کوششیں کرتے رہے مگر زبردست جدوجہد کے باوجود ہم مسلمان نااتفاقی اور سر پھٹول میں لگے رہے کہ ہماری ہوا ہی اکھڑ کر رہی ہے۔

اب اگر ہم مسلمانوں کے درمیان پائے جانے والے انتشار و فساد کی وجہ جاننا چاہیں گے تو وجہ یہ ہے کہ ہم اسلام کے اصول فطرت، طریق حکمت اور اتحاد کی نعمت سے بہت دور چلے گئے ہیں۔ آج کا مسلمان صرف فرقہ، قوم، وطن، نسل اور اپنی ذات کی تنگ حدود میں سوچتا ہے۔ اس وجہ سے عالمی سطح پر اخوت، انسان دوستی، حریت فکر اور مساوات وغیرہ جیسی حیات بخش قدریں سب زائل ہوگئی ہیں۔ حکیم الامت علامہ اقبال کے نزدیک جب تک مسلمان مختلف فرقوں سے آکر صرف ایک مضبوط جماعت نہ بن جائے اور جب تک قرآن حکیم و سنت رسول اکرم (ص) کی تعلیم اور پیغام کو مل کر پیش نہ کیا جائے تب تک فرقہ پرستی کے گندے تالاب میں یہ ملت غوطہ زنی میں مبتلا رہے گی۔ اتنا ہی نہیں بلکہ مسلمان قوم مجبور و مقہور و محکوم اور خلافت کی نعمت سے محروم رہے گی۔

اس لئے جس طرح حضور (ص) کے دور مبارک میں تمام مسلمان ایک ہی پرچم، ایک ہی نعرے اور ایک ہی قائد کے تحت مضبوط ارادوں اور پختہ عزائم کے ساتھ آگے بڑھتے گئے اور اسلامی بہار کی بنیاد ڈالی، اسی طرح ہمیں بھی ایک ہی سایہ دار شجر طیبہ کے نیچے اکٹھے رہنا ہوگا تاکہ ہر یورش سے بچنا ہمارے لئے ممکن ہو اور منزل مراد کا حصول آسان ہو۔ ایک بار پھر بتاتا چلوں کہ اسلام و مسلمانوں کی سربلندی کے لئے ہمارا باہمی اتحاد نہایت ضروری ہے۔ اتحاد میں بڑی برکت ہوتی ہے۔ مسلمانوں کے اتحاد کی ایک ہی صورت ہے وہ یہ کہ مسلمان اللہ تعالیٰ کی رسی یعنی قرآن کریم اور عترت پاک کو مضبوطی سے تھام لیں۔ فروعی اختلافات میں اپنی قوتیں صرف کرنے کی بجائے اپنی اصلاح کریں اور پھر اللہ کے دین کو دنیا میں غالب کرنے کی کو شش کریں۔ مسلمانوں کے اتحاد میں ذاتی مفادات، فرقہ پرستی اور ہٹ دھرمیاں سب سے بڑی رکاوٹیں ہیں۔

اسلام ٹائمز: علامہ کی نگاہ میں اتحاد سے دوری کے نقصانات کیا ہیں۔؟
مولانا غلام محمد عطار:
علامہ اقبال (رہ) نے اُمت مسلمہ کو جھنجھوڑنے کی بھرپور کوشش کر کے اسے اتحاد و اتفاق پر قائم رہنے کی پر زور تلقین کی ہے۔ اقبال کے نزدیک اگر مسلمانوں نے اب بھی اجتماعیت اختیار نہیں کی تو وہ دن دور نہیں جب وہ بڑے پیمانے پر زوال کے شکار ہوجائیں گے۔ علامہ اقبال کے معجز نما اشعار قومیت اور وطنیت کے بجائے دین اور ملت کے دروس سے پیوستہ ہیں۔ اقبال کی ہمیشہ یہی ایک کوشش رہی کہ ملت اسلامیہ اپنے مذہب کے حقائق سے پوری طرح آشنائی حاصل کرسکیں اور خودی کے اسرار سے واقف ہوکر ذہنی غلامی اور جھکڑ بندیوں سے مکمل چھٹکارا پائیں، تب جاکر ملت کا ہر فرد اپنی زندگی کی تعمیر کرسکتا ہے۔ جب کوئی فرد اپنی تعمیر کرتا ہے تو یہ جماعت کو مضبوط بنانے میں کارگر ثابت ہوتا ہے کیوںکہ فرد کے لئے پھر جماعت رحمت بن کر اس کی زندگی کو چار چاند لگاتی ہے۔ اتنا ہی نہیں بلکہ جماعت سے وابستہ افراد میں استحکام اور مضبوطی رونما ہوتی ہے۔ علامہ اقبال کی یہ سب سے بڑی تمنا اور آروزو تھی کہ مسلمان ایک اکائی ہوجائیں اور پوری دنیا پہ چھا جائیں۔ مسلمان ایک جسم اور ایک جان کی حیثیت سے سارے عالم کو یہ پیغام سنائیں کہ ہم سب ایک ہی جسد واحد ہیں، چاہے کوئی مشرق کا ہو یا مغرب کا، شمال کا ہو یا جنوب کا۔
خبر کا کوڈ : 829840
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش