پاکستان تحریک انصاف پنجاب کے رہنماء چوہدری شوکت محمود بسراء 1966ء میں بہاولنگر میں پیدا ہوئے، کراچی یونیورسٹی سے ایل ایل بی کیا، 2008ء میں پی پی 283 سے پنجاب اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ انکے ساتھ آرمی چیف کی مدت ملازمت کی توسیع کے فیصلے پر سپریم میں آنیوالی درخواست کے بعد پیدا ہونیوالی صورتحال کے بعد حکومتی رد عمل کے متعلق اسلام ٹائمز کا انٹرویو قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔(ادارہ)
اسلام ٹائمز: حکومت کو پندرہ ماہ ہو چکے ہیں، لیکن ایک بحران کے بعد دوسرا بحران پیدا ہو رہا ہے، آرمی چیف کی توسیع کے معاملے میں مسئلہ کہاں ہے، کس کیطرف سے ہے.؟
شوکت بسراء: یہ معاملہ ہو یا باقی معاملات انہیں میڈیا زیادہ ہوا دے رہا ہے، حقیقت میں اسقدر گھمبیر صورتحال ہے نہیں۔ حکومتی کارکردگی درست سمت میں انجام پا رہی ہے۔ آرمی چیف کی توسیع کے حوالے سے جو سقم تھے، وہ کابینہ نے دوبارہ اجلاس میں دور کر دیئے ہیں، باقی جو کچھ کورٹ کی جانب سے سوالات آ رہے ہیں، ان کے جوابات بھی ساتھ آتے جا رہے ہیں، سمری میں توسیع لفظ استعمال نہیں ہوا تھا، حالانکہ اس سے قبل جتنی مرتبہ توسیع دی گئی وہ اسی رول کے مطابق دی گئی ہے۔ اس کے باوجود حکومت نے اس کی بجائے کہ کہا جاتا کہ اس ایک لفظ کو بنیاد بنا کر نوٹیفیکشن معطل نہیں کیا جا سکتا، کابینہ نے سمری درست کر دی۔ تاکہ یہ معاملہ طول نہ پکڑے۔ اس کے باوجود کورٹ کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ فیصلہ کرے۔
اسلام ٹائمز: حکومت کی غلطی کی وجہ سے بھارت میں آرمی چیف توسیع کیس کی سماعت کو بنیاد بنا کر واویلا کیا جا رہا ہے، کیا اس سے پاکستان میں اداروں کے درمیان تناؤ کا تاثر پیدا نہیں ہوگا، اسکا ازالہ کیسے ہوگا.؟
شوکت بسراء: دیکھیں صرف یہ معاملہ نہیں ہے بلکہ خطے کی موجودہ صورتحال کو بھی دیکھنا چاہیے، ایک ایمرجسنی کی صورتحال ہے، جنگ کا سماں ہے، اس پر فیصلہ کرنا اور ان فیصلوں کے نتائج کو سامنے رکھنا وفاقی کابینہ کا اختیار ہے، اس تناظر میں آرمی چیف کو برقرار رکھنا یا تسلسل دینا بھی وزیراعظم اور کابینہ کا اختیار ہے۔ اس فیصلے کی وجہ سے بھارت یا کسی دشمن ملک کو موقع نہیں ملا، بلکہ جس طرح یہ معاملہ سپریم کورٹ میں لے جایا گیا اس وجہ سے دنیا میں یہ تاثر جا رہا ہے، اس کے منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں، لیکن ہمیں اپنی عدالتوں سے توقع ہے کہ وہ اس مسئلے میں صحیح رہنمائی کرینگی اور یہ معاملہ خوش اسلوبی سے نمٹ جائیگا۔
ان حالات میں کسی جوڈیشل فیصلے کی بجائے ایک انتظامی فیصلہ ہی بہتر ہوگا، جسکا اختیار وزیراعظم اور کابینہ کو ہے۔ کیونکہ خدانخواستہ اگر ملک پر کوئی مشکل صورتحال پیش آتی ہے تو اسکا فیصلہ بھی انتظامیہ نے کرنا ہوتا ہے، کم ہی ایسا ہوتا ہے کہ عدلیہ یا دوسرے اداروں کو مدد کیلئے بلایا جائے، یہ ایک اہم معاملہ ہے، ہم اسے سادگی سے نہیں لے سکتے۔ پھر اس معاملے میں کابینہ، وزیراعظم اور صدر مملکت سب ایک ہی رائے پر متفق ہیں تو اسکا مطلب ہے کہ ملک کے مفاد کو موجودہ وقت کے تقاضوں کو سامنے رکھ کر ہی یہ فیصلہ کیا گیا ہے، اس کے بعد جو بھی صورتحال ہو گی، اسکے ذمہ دار بھی انتظامیہ کے حکام ہونگے، اسی طرح بظاہر بلکہ یقنی طور پر اس فیصلے کے کوئی مضمرات بھی نہیں ہیں، ایسا پہلے بھی ہوتا رہاہے۔
اسلام ٹائمز: جنرل مشرف کے کیس کا فیصلہ جس طرح رکوانے کی کوشش کی گئی، کیا اس سے عدلیہ کو بطور ادارہ نشانہ نہیں بنایا گیا، اسکی توجیح کیا ہوسکتی ہے.؟
شوکت بسراء: عدلیہ بالکل ایک ادارہ ہے، لیکن اگر اس کیس کے فیصلے کو موخر کروانے کی درخواست کو آرمی چیف کے مدت ملازمت میں توسیع کے تناظر میں دیکھیں تو فوج ایک انسٹی ٹیوشن ہے، اور آرمی کے اندر آرمی چیف ایک ادارے کی حیثیت رکھتے ہیں۔ یہ معاملہ ایک شخص کا نہیں، نہ موجودہ چیف کا بطور شخص نہ ہی سابق آرمی چیف جنرل پرویز مشرف کا بطور شخص ہے، بلکہ ہمارے مدنظر جس طرح عدلیہ ہے اسی طرح فوج بھی ایک ادارہ ہے، اسی طرح وفاقی حکومت اور وفاقی کابینہ بھی ایک ادارہ ہے، اس کے فیصلے بلا سوچے سمجھے نہیں ہوتے، نہ ہی قانون کو بالائے طاق رکھ کر رول بنائے جاتے ہیں، آئین، قانون اور سابقہ روایات کو ہمشیہ سامنے رکھا جاتا ہے۔ ایسی کوئی بات نہیں کہ عدلیہ کو دباؤ میں لانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
اسی طرح نہ ہی انکی توجہ ہٹانے کیلئے جنرل پرویز مشرف کے کیس کا فیصلہ رکوانے کی کوشش کے طور پر وہ درخواست دی گئی تھی۔ اب تو اسکا فیصلہ بھی آ گیا ہے، وہ بالکل قانون کے مطابق ہے کہ ملزم کو حق ملنا چاہیے کہ وہ اپنی صفائی دے۔ جنرل پرویز مشرف کے علاوہ کئی لوگ ہیں، جو بیماری کی وجہ سے یا اسکے علاوہ بھی بیرون ملک ہیں اور دبئی میں ہیں، جن کے خلاف فیصلے اس وجہ سے نہیں آئے کہ وہ حاضر ہوکر اپنی صفائی نہیں دے سکے، اسی طرح یہ پرویز مشرف کا بھی حق ہے، جس پہ وزارت داخلہ نے عدالت سے رجوع کیا ہے، پھر پرویز مشرف حقیقت میں علیل بھی ہیں۔ اسی طرح عدالت نہ ہی انہیں بیماری کیوجہ سے اجازت دی، انکا نام بھی ای سی ایل سے نکالا گیا، اس لیے اب بھی کوئی ایسا مسئلہ نہیں ہونا چاہیے، نہ ہی اس کیس کو آرمی چیف کی توسیع کے معاملے سے جوڑا جانا چاہیے۔
اسلام ٹائمز: یہ جو حالات اور صورتحال کی سنگینی کی بات ہے، اسکی تو کوئی مدت متعین نہیں ہوسکتی، پھر پورے تین سال کی توسیع ہی کیوں دی گئی ہے۔؟
شوکت بسراء: موجودہ صورتحال تو ایک پہلو ہے، قانونی لحاظ سے تو یہ پہلے سے روایت ہے، پھر اس معاملے پر بحث اس لیے چھڑ گئی ہے کہ یہ معاملہ عدالت میں لے جایا گیا ہے، جو کہ نہیں ہونا چاہیے تھا۔ لیکن یہ بنیادی معاملہ نہیں ہے۔ یہ اسکا ایک پہلو ہے بلکہ ثانوی پہلو ہے، اب معزز ججز کو مطمئن کرنا پڑیگا، کیونکہ یہ معاملہ اب عدالت میں چل رہا ہے۔
اسلام ٹائمز: کیس تو آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کا ہے، اگر اسکا پرویز مشرف کیس سے بھی تعلق نہیں، موجودہ آرمی چیف کی توسیع سے بھی نہیں تو پھر اصل معاملہ کیا ہے۔؟
شوکت بسراء: اصل معاملہ سرحدوں کی صورتحال اور جنگ کی کیفیت کا ملک کو درپیش چیلنجز کا ہے، جس کی روشنی میں آرمی چیف کی توسیع کا فیصلہ کرنے کا اختیار حکومت کو ہے، لیکن اس سے پہلے بھی جب مسئلہ کشمیر ہمارے لیے سب سے پہلا اور سب سے آخری مسئلہ ہونا چاہیے، مارچ اور واویلا شروع کر دیا گیا، جس سے سب سے زیادہ نقصان کشمیر کے ایشو کو ہوا۔ اب جب سی پیک پر عالمی طاقتیں پاکستان کو کنفوز کرنیکی کوشش کر رہی ہیں تو یہ معاملہ عدالت میں لے جایا گیا ہے، میڈیا مکمل طور پر اسی کو کور کر رہا ہے، قوم کو بھی ایک پریشانی اور ہیجان کی کیفیت میں مبتلا کر دیا گیا ہے۔ اس معاملے یا اس جیسے کسی بھی معاملے کا براہ راست مفاد عامہ سے کوئی تعلق نہیں، اس وجہ سے صرف قومی اور عوامی اہمیت کے ایشوز پس منظر میں چلے جاتے ہیں، جس سے قوم اور ملک کا ناقابل تلافی نقصان ہوتا ہے۔ آئین میں بھی واضح کیا گیا ہے کہ انتظامیہ اور عدلیہ کا الگ الگ دائرہ کار ہے، یہ فیصلہ ایگزیکٹیو کا ہے، جوڈیشری کا نہیں۔ سارے حالات کی خبر تو حکومت کو ہوتی ہے۔
خارجہ پالیسی بنانا اور اس کے مطابق داخلہ معاملات کے فیصلے کرنا حکومت کا کام ہے، ساری معلومات بھی ہر طرح کی، اندرون و بیرون ملک کیا ہو رہا ہے، صرف حکومت کو ہوتی ہیں، اس لیے بہتر فیصلہ بھی حکومت ہی کر سکتی ہے۔ وفاقی کابینہ یا متعلقہ فورم ہی ایسی جگہ ہیں جہاں انٹیلی جنس ایجنسیز کے ذریعے حاصل ہونیوالی معلومات کی بنیاد پر ہی درست فیصلے ہوتے ہیں، باقی ادارے انکی معاونت کر رہے ہوتے ہیں، توقع ہے کہ اس معاملے میں بھی عدلیہ رہنمائی کر کے معاونت کریگی۔ پہلے یہ سارے فیصلے وزیراعظم ہی کرتے تھے، دو سال سے آرمی چیف کی توسیع کے معاملے میں وفاقی کابینہ کو بھی اعتماد میں لینے کی روایت قائم کی گئی، ورنہ اس کی حساسیت اور اہمیت کی وجہ سے وزیراعظم کی سفارش پہ یہ کام صدر مملکت کرتے تھے۔ اب بھی رولز کے مطابق ہو رہا ہے، جہاں کہیں سقم تھا وہ دور کر دیا گیا ہے۔
اسلام ٹائمز: یہ بات اپنی جگہ درست ہے لیکن آرمی چیف کی تعیناتی کیلئے اس دفعہ کابینہ کو اعتماد میں نہیں لیا گیا، صرف وزیراعظم نے ہی کیوں سمری بھجوا دی۔؟
شوکت بسراء: پہلی بات تو یہ ہے کہ کابینہ کے ارکان کے دستخط تھے، دوسرا یہ کہ اس کے بعد اس کمی کو پورا کر دیا گیا، اس سے پہلے تو حکومتوں نے کبھی وفاقی کابینہ کے اتنے اجلاس ہی کبھی نہیں ہوئے، ہم جب مسلسل کام کر رہے ہیں تو اس دوران اگر غلطی بھی ہو گئی ہے اور پھر اس کی نشاندہی پر اس کو درست بھی کر دیا گیا ہے تو جو رہنمائی عدالت دے گی اس کی پیروی کرینگے۔ ہمیں اب بھی کوئی عار نہیں، نہ ہی آرمی چیف کی طرف سے کوئی پریشر یا مطالبہ ہے کہ وہ توسیع چاہتے ہیں، یہ وزیراعظم کی رائے تھی، جس کے جواب میں انہوں انکی رائے اور خواہش کا احترام کیا، لیکن اس کے بعد جو صورتحال اچانک پیدا کی گئی ہے، اگر اسکا نشانہ وزیراعظم یا آرمی چیف ہی ہیں تو اس سے ملک کو نقصان پہنچے گا۔ اس طرح کی تعیناتیاں تو قانونی سے زیادہ سیاسی انداز میں ہوتی ہیں۔
پاکستان کی تاریخ میں اسی لیے سنیارٹی کو بالائے طاق رکھ کر بھی جونئیر جرنیل آرمی چیف بنائے گئے ہیں، اس سے کسی قانون کی خلاف ورزی نہیں ہوتی، تقرری کا اختیار وزیراعظم کو دیا گیا ہے، اس کے بعد وہ آرمی ایکٹ کو مدنظر رکھ کسی بھی جرنیل کو آرمی چیف کے عہدے پر فائز کر سکتے ہیں۔ اس معاملے میں وزیراعظم ہاوس اور وزارت قانون کا زیادہ عمل دخل نہیں ہے، آرمی کے پروسیجر کو فالو کیا جاتا ہے، باقی ایک سیاسی طریقہ کار ہے، جو اختیار کیا جاتا ہے۔ اس حوالے سے آرمی کے رولز ہیں، اسی لیے یہ ادارے سیاسی معاملات میں دخل نہیں دیتے، یہ حکومت کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ تمام اداروں کے درمیان توازن رکھتے ہوئے فیصلے کرے، اس سے بڑے فیصلے بھی ہوتے ہیں، وہ بھی سارے سیاسی طریقے سے حکومت ہی کرتی ہے، باقی اداروں کو اعتماد میں لیا جاتا ہے۔
اسلام ٹائمز: وزیر قانون کا استعفیٰ کیوں لیا گیا ہے، کیا اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ انہوں نے یا انکی وزارت نے کوئی بڑی غلطی کی ہے، جسکی وجہ سے حکومت بھی پھنس گئی اور پوری دنیا کو پاکستان کے حوالے سے من چاہے تبصروں کا موقع بھی ملا۔؟
شوکت بسراء: دنیا کو تو خیر اختیار نہیں کہ وہ پاکستان کے اندرونی معاملات میں عمل دخل دے، لیکن وزیر قانون کو عدالت میں حکومت کی معاونت کیلئے مستعفی ہونا پڑا۔ یہ کوئی اور معاملہ نہیں، یہ صرف اس لیے کیا گیا کہ وہ پوری تیاری اور قانونی تقاضوں کے مطابق عدالت میں معاونت کر سکیں۔ وہ ایک اچھے ماہر قانون ہیں، ہم سب جانتے ہیں۔ کیونکہ اس سے یہ پتہ چلے گا کہ حکومت اپنے فیصلوں پہ ڈٹ کر کھڑی ہے اور انکا دفاع کرنا چاہتی ہے۔ یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ وزیراعظم اور کابینہ پوری حکومت باقی معاملات کی طرح اس بارے میں بھی یکسو ہے۔ ہم یہ تاثر دے رہے ہیں کہ ہم اس پہ قائم ہیں۔ اسی لیے وزیراعظم نے انہیں کیس کے بعد دوبارہ کابینہ میں آنے کا کہا ہے۔ اس کے بعد تو بات ختم ہو جاتی ہے۔