اجے کمار للو کا تعلق بھارتی ریاست اترپردیش سے ہے۔ اول روز سے ہی کانگریس پارٹی میں شامل رہے اور اہم ترین عہدوں پر فائز بھی رہ چکے ہیں۔ اپنی پوری سیاسی زندگی کانگریس کیلئے وقف کرنے کے بعد کچھ دنوں پہلے ہی کانگریس کی صدر سونیا گاندھی نے کانگریس لیڈر اجے کمار للو کو اترپردیش کانگریس کا صدر مقرر کیا ہے۔ اس فیصلے سے ریاستی کانگریس کارکنان میں خوشی کی لہر دیکھنے کو مل رہی ہے۔ ریاستی کانگریس صدر بننے کے بعد اجے کمار للو سے اسلام ٹائمز کے نمائندہ سے خصوصی انٹرویو کا اہتمام کیا، جو قارئین کرام کی خدمت میں پیش ہے۔(ادارہ)
اسلام ٹائمز: پہلے یہ جاننا چاہیں گے کہ اترپردیش کانگریس صدر کے طور پر آپکی پہلی ترجیح کیا ہوگی۔؟
اجے کمار للو: میں نے اب تک کے سیاسی سفر میں تین چیزوں کو بہت اہمیت دی ہے۔ ملاقات، بات چیت اور جدوجہد۔ یعنی لوگوں سے ملاقات کرکے ان سے بات چیت کرنا، ان کی پریشانیوں کو سمجھنا اور ان پریشانیوں کے حل کے لئے جدوجہد کرنا۔ ان تین اصولوں کو توجہ کا مرکز بناتے ہوئے پریانکا گاندھی کی قیادت میں اترپردیش میں کانگریس کو پھر سے زندہ کرنا ہی میری پہلی ترجیح ہوگی۔ میں نے سیاست میں ایک سرگرم رول ادا کیا ہے اور میں ہمیشہ لوگوں سے جڑا رہا، انکے مسائل سنے اور انکے حل کے لئے جدوجہد کی۔ آئندہ اور ہمیشہ میں عوام کے لئے اپنے آپ کو وقف رکھوں گا اور لوگوں کو راحت پہنچانے میں ہمیشہ پیش پیش رہوں گا۔ آج کی حکومت میں عوام کو نظرانداز کیا گیا ہے، لوگوں مایوس ہوچکے ہیں، اب انکی امیدوں کو پورا کرنے کی ضرورت ہے اور یہ ضرورت کانگریس پوری کرے گی۔
اسلام ٹائمز: سیاسی طور پر سب سے اہم ریاست میں کانگریس پارٹی بہت کمزور ہے۔ اس کمی کو کس طرح دور کرینگے۔؟
اجے کمار للو: میں مانتا ہوں کہ پارٹی میں کمزوری ہے، لیکن عوام کے درمیان جا کر، ان سے بات کرکے اور پارٹی کارکنان سے گفت و شنید کے ذریعے اس کمزوری کو دور کیا جائے گا۔ ہم عوامی مسائل کو زوردار آواز میں اٹھا کر عوام سے دوبارہ جڑ سکتے ہیں۔ سب سے پہلے تو ہم لوگ یوگی آدتیہ ناتھ حکومت کی ناکامیوں کو عوام کے درمیان لے کر جائیں گے۔ صوبے میں نظام اور قانون کی حالت انتہائی خستہ ہے، لگتا ہے کہ ریاست اترپردیش میں بی جے پی کا نہیں بلکہ جنگل راج نافذ ہے۔ یہاں خواتین غیر محفوظ ہیں، عصمت ریزی کی خبریں لگاتار سننے کو مل رہی ہیں، برسرعام قتل ہو رہے ہیں۔ ہم نظامِ قانون کے ایشو پر سڑک سے لے کر اقتدار کے گلیارے تک بی جے پی حکومت کے خلاف تحریک چلائیں گے۔ بے روزگاری بھی ایک بہت بڑا ایشو ہے۔ آج یو پی کا نوجوان بغیر کام کے گھوم رہا ہے۔
یوگی حکومت نے کہا تھا کہ وہ 14 لاکھ لوگوں کو ملازمت دے گی، لیکن ملازمت دینے کی چھوڑیئے، جن کے پاس ملازمت ہے، ان سے بھی چھینی جا رہی ہے۔ امتحانات کے پیپر لیک ہو رہے ہیں۔ اساتذہ کے عہدے ختم کئے گئے ہیں۔ عدالت سے لے کر پولس تک ہر جگہ اسامیاں خالی پڑی ہیں۔ ہم نوجوانوں کے ساتھ مل کر تحریک کا راستہ اختیار کریں گے۔ کسانوں کے مسائل کو بھی ہم پُرزور طریقے سے اٹھائیں گے۔ کسان چاہے بندیل کھنڈ کا ہو یا پھر مغربی اترپردیش کا، یوگی راج میں وہ بے حد پریشان ہیں۔ کہیں بقایا جات کی ادائیگی نہیں ہو رہی ہے تو کہیں بجلی اور زراعت کے وسائل نہیں ہیں۔ ہم کسان، نوجوان اور دلت، محروم اور پسماندہ طبقے کو ایک ساتھ لے کر عوامی سروکار کے ایشوز پر سڑکوں پر اتریں گے اور عوامی مسائل کے حل کے لئے جدوجہد کریں گے۔ عوام اپنے آپ پارٹی سے جڑے گی۔ ہمارے پاس اس کے علاوہ اور کوئی متبادل بھی نہیں ہے۔
اسلام ٹائمز: ایسا دیکھا گیا ہے کہ اپوزیشن یا کانگریس اگر بے روزگاری کی بات کرتی ہے تو بی جے پی دفعہ370 کا راگ چھیڑ دیتی ہے۔ کسانوں کی بات کرینگے تو وہ رام مندر کا ایشو لے آتے ہیں۔ اس مسئلہ کو کس طرح ٹھیک کرینگے۔؟
اجے کمار للو: دیکھیئے، نریٹیو بلڈنگ کا سوال اتنا بڑا نہیں ہے، جتنا بنایا جاتا ہے۔ بنیادی سوال یہ ہے کہ آپ اپنے ایشوز کو لے کر کتنے سنجیدہ ہیں۔ کس حد تک آپ جدوجہد کرسکتے ہیں، سب کچھ اسی سے طے ہونا ہے۔ اگر بنیادی سوالوں پر ہم عوام کو سوچنے پر مجبور کرسکے تو آپ لکھ لیجیئے، بی جے پی کے ذریعہ مشتہر تمام تقسیم کرنے والی دیواریں بہت جلد منہدم ہو جائیں گی۔ جیت آخر سچائی اور اصولوں کی ہی ہوتی ہے۔ منفی پرپیگنڈے سے زیادہ دیر ملک کی عوام کو اب بہکایا نہیں جاسکتا ہے۔ میں نے عرض کیا کہ لوگ مایوس ہوچکے ہیں، اب انکی امیدیں کانگریس سے وابستہ ہیں اور ہم انکی ضروریات پورا کریں گے۔
اسلام ٹائمز: پریانکا گاندھی کے سیاست میں آنے کے بعد سے کانگریس کے اندر اور یو پی کے سیاسی منظرنامے میں آپ کیا تبدیلی محسوس کر رہے ہیں۔؟
اجے کمار للو: ایک جملے میں کہیں تو کانگریس کے اندر جہاں ایک نئی توانائی اور نظریہ پیدا ہوا ہے، وہیں یو پی کا بھاجپا نظام حکومت کافی گھبرایا ہوا نظر آرہا ہے۔ آپ نے دیکھا ہوگا کہ کس طرح امبھا اور سون بھدر میں پریانکا گاندھی جب سڑکوں پر اتریں تو یوگی حکومت بیک فٹ پر آگئی۔ اس ایشو پر وہ گرفتاری دینے سے بھی پیچھے نہیں ہٹیں۔ اسی طرح کلدیپ سنگھ سینگر کے ایشو پر جب کانگریس نے سڑکوں پر تحریک شروع کی تو یوگی حکومت خود بخود گھرتی چلی گئی۔ چنمیانند تیسری مثال ہے، جہاں کانگریس نے سیدھے طور پر تحریک چلانے کا راستہ چنا اور نظام کو رویہ بدلنے کے لئے مجبور کر دیا۔ کانگریس نے شاہجہاں پور سے پد یاترا کا اعلان کیا تو یوگی آدتیہ ناتھ حکومت کے ہاتھ پاؤں پھولنے لگے۔ تقریباً 3 ہزار کانگریسی کارکنان کو گرفتار کیا گیا۔ اتنا ہی نہیں، کئی دوسرے ہزاروں کارکنان کو شاہجہاں پور پہنچنے ہی نہیں دیا گیا۔ لیکن کانگریس کی کوششوں کے بعد یہ معاملہ پورے ملک میں ہائی لائٹ ہوگیا اور لوگوں نے اس کوشش کو سراہا۔
اسلام ٹائمز: پریانکا گاندھی کانگریس کو بدلنے کیلئے کیا کر رہی ہیں۔؟
اجے کمار للو: آپ کو جان کر حیرانی ہوگی کہ انتخاب کے بعد سے اب تک پریانکا گاندھی تقریباً 10 ہزار لوگوں سے مل چکی ہیں۔ ان کی ہدایت کے بعد کئی کمیٹیوں کو تشکیل دیا گیا ہے۔ عوام سے کئی سطحوں پر رائے شماری کی گئی ہے۔ آنے والے دنوں میں کئی دورے مجوزہ ہیں۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ سماج کے دلت، محروم اور پسماندہ طبقے کانگریس کے اندر قائد کے کردار میں آرہے ہیں۔ پریانکا گاندھی کانگریس کا ڈی این اے بدل رہی ہیں۔ ان کے آنے کے بعد کانگریس نے اب اپنی اصل پہچان کے ساتھ چلنا شروع کر دیا ہے۔ سماج کا سب سے پسماندہ طبقہ، مسلمان، دلت، قبائلی، یہ سب لوگ جو گذشتہ کچھ سالوں میں کانگریس سے دور ہوگئے تھے، پریانکا گاندھی کی کوشش سے یہ سب پارٹی کے ساتھ دوبارہ جڑ رہے ہیں۔ آئندہ دور روشن اور تابناک دور ہوگا۔
اسلام ٹائمز: اترپردیش میں کانگریس کے بڑے لیڈران آپس میں متحد نہیں، ایسا کیوں ہو رہا ہے۔؟
اجے کمار للو: کانگریس فیملی متحد ہے۔ ہم سب مہاتما گاندھی کے نظریات کو ماننے والے لوگ ہیں۔ تھوڑا بہت نظریاتی اختلاف ہوسکتا ہے، لیکن بنیادی ایشوز پر ہم سب ایک ساتھ ہیں۔ عوامی سیاست کی حمایت میں، فرقہ واریت اور فاشزم کے خلاف کانگریس کا ایک ایک رکن آپ کو ایک دوسرے کا ہاتھ تھامے کھڑا دکھائی دے گا۔ ہماری پارٹی میں اختلاف کی گنجائش ہے، ہم مختلف آراء کو پسند کرتے ہیں، ہماری پارٹی میں ہر کسی کی بات کو سنا جاتا ہے، جزیات میں اختلاف کا ہونا برائی نہیں ہے، لیکن ہمارا بنیادی موقف ایک ہے اور وہ ملک کی ترقی و پیشرفت۔ کانگریس ایک مٹھی کی طرح مضبوط اور مستحکم ہے۔
اسلام ٹائمز: اترپردیش میں فرقہ وارانہ سیاست عروج پر ہے۔ پارٹی ناقدین کانگریس کو مسلمانوں کی پارٹی کہتے ہیں۔ اس سوچ کو کس طرح بدلیں گے۔؟
اجے کمار للو: دیکھیئے، میں اسے ایک چیلنج کی شکل میں لیتا ہوں۔ میں مانتا ہوں کہ لوگوں کو مذہب اور ذات کے نام پر کچھ دیر کے لئے کچھ سالوں کے لئے تو ورغلایا جا سکتا ہے، لیکن ہمیشہ ایسا نہیں ہوسکتا ہے۔ جس طرح سے بے روزگاری بڑھ رہی ہے اور ملک میں معاشی بحران چھایا ہے، آٹو سیکٹر میں ملازمتیں جا رہی ہیں اور بینک دیوالیہ ہو رہے ہیں، اس سے ایک بار پھر لوگوں کا دھیان روزی روٹی جیسے بنیادی سوالوں کی جانب گیا ہے۔ بے روزگاری پچھلے 45 سالوں کا ریکارڈ توڑ چکی ہے۔ بڑے نوٹوں کی منسوخی اور جی ایس ٹی کی وجہ سے لاکھوں لوگ سڑک پر آچکے ہیں۔ آخر کب تک لوگ مذہب اور ذات کے سوالوں پر لڑتے رہیں گے۔؟ جب پیٹ میں آگ جلتی ہے تو ذات اور مذہب نظر نہیں آتا۔ میں یہ مانتا ہوں کہ عوام ذات اور مذہب کے نام پر لڑانے والوں کے خلاف لڑنے کے لئے دھیرے دھیرے ہی سہی، لیکن تیار ہو رہی ہے۔
اسلام ٹائمز: آپکا مقابلہ یو پی میں یوگی آدتیہ ناتھ سے ہے، جنکی شبیہ مضبوط، کٹر اور مذہبی لیڈر کی ہے۔ انکے مقابلے میں آپکا کیا منصوبہ ہے۔؟
اجے کمار للو: یوگی ادتیہ ناتھ کے اڑھائی سال کے دور حکومت کو اگر آپ دیکھیں گے تو پائیں گے کہ وہ بے حد کمزور اور ناکام وزیراعلٰی ثابت ہوئے ہیں۔ یوگی حکومت ہر معاملے پر ناکام ہے۔ کسان، نوجوان، دکاندار سب یوگی کی حکومت میں پریشان ہیں۔ دلت، پسماندہ طبقہ کے طلباء کے اسکالرشپ روک دیئے گئے ہیں۔ خواتین سے عصمت دری اور مسلمانوں کو ہجومی تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ یوگی ناتھ کے اڑھائی سال کے دور حکومت میں مسہر ذات کے 30-25 لوگ خودکشی کرچکے ہیں، لیکن یوگی جی کے منہ سے ایک لفظ تک نہیں نکلا ہے۔ نہ ہی وہ ہمدردی ظاہر کرنے کے لئے مسہروں کے گھر گئے اور نہ ہی انہوں نے کسی طرح کی مالی مدد دینے کا اعلان کیا۔ انسفلائٹس کی وجہ سے آج بھی گورکھپور میں سینکڑوں بچوں کی جان جا رہی ہے، لیکن یوگی حکومت نے میڈیکل بلیٹن پر پابندی لگا دی ہے، تاکہ میڈیا کو اور ملک کی عوام کو اس بارے میں پتہ نہ لگ سکے۔ بنیادی ایشوز کو بھول کر وہ صرف جرائم پیشوں کو تحفظ دینے کا کام کر رہے ہیں۔ اس کا ثبوت ہے چنمیانند اور کلدیپ سنگھ سینگر جیسے لوگوں کا دفاع۔ یوگی جی نے بی جے پی کے ان دونوں لیڈروں کے جرائم کو چھپانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑ رکھی ہے۔