جماعت اسلامی پاکستان کے مرکزی نائب امیر اسد اللہ بھٹو کی شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں ہے۔ وہ ملی یکجہتی کونسل سندھ کے صدر بھی ہیں، پاکستان خصوصاََ کراچی و سندھ بھر میں انکی اتحاد بین المسلمین کے حوالے سے کوششوں کو ہر حلقے میں انتہائی قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ وہ کراچی سے قومی اسمبلی کے رکن بھی رہ چکے ہیں۔ اسکے ساتھ ساتھ وہ جماعت اسلامی سندھ کے امیر کی حیثیت سے بھی ذمہ داریاں انجام دے چکے ہیں۔ ”اسلام ٹائمز“ نے اسد اللہ بھٹو کیساتھ حضرت امام خمینیؒ کے اعلان کردہ ہفتہ وحدت کے حوالے سے مسجد قباء کراچی میں قائم جماعت اسلامی سندھ کے آفس میں ایک مختصر نشست کی۔ اس موقع پر ان سے کیا گیا خصوصی انٹرویو قارئین کیلئے پیش ہے۔ادارہ
اسلام ٹائمز: انقلاب اسلامی ایران کی کامیابی کے بعد حضرت امام خمینیؒ نے بارہ تا سترہ ربیع الاول ہفتہ وحدت منانے کا اعلان کیا، کیا کہیں اس حوالے سے۔؟
اسد اللہ بھٹو: بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔۔۔۔۔ حضرت محمدؐ سے محبت ہمارے ایمان کا حصہ ہے، چاہے کوئی شیعہ ہو یا سنی ہو، بریلوی، دیوبندی اہل حدیث ہو، مسلمانوں کے کسی بھی مسلک و مکتب سے تعلق رکھتا ہو، ہر مسلمان کے دل میں حضرت محمدؐ کی محبت و عقیدت ہوتی ہے، حضرت محمد کی ولادت باسعادت پوری کائنات کیلئے خوشی کا باعث ہے، ختمی مرتب حضرت محمدؐ کی ولادت باسعادت کوئی بارہ ربیع الاول کو مناتا ہے، کوئی سترہ ربیع الاول کو مناتا ہے، ان دو تاریخوں کے علاوہ تیسری اور چوتھی تاریخوں کی روایات بھی موجود ہیں، لیکن اسلام کو دو بڑے فرقے یعنی اہل سنت بارہ ربیع الاول کو مناتے ہیں اور اہل تشیع سترہ ربیع الاول کو جشن ولادت باسعادت مناتے ہیں۔
حضرت امام خمینیؒ کا کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے انقلاب اسلامی کی کامیابی کے بعد مکتب تشیع کی بالادستی قائم کرنے کے بجائے اسلام کی بالادستی قائم کی، انہوں نے اہل تشیع کے بجائے امت محمدی کی وحدت کی فکر کی، جس کے نتیجے میں امام خمینیؒ نے بارہ تا سترہ ربیع الاول ہفتہ وحدت منانے کا اعلان کیا، کیونکہ امت مسلمہ کے درمیان اتحاد و وحدت کی بنیاد حضرت محمدؐ کی رسالت، ختم نبوت اور وجود مقدس ہے، لہٰذا امام خمینیؒ نے ہفتہ وحدت منانے کا اعلان کرکے اسلام کیلئے عظیم خدمت انجام دی ہے اور کئی دہائیوں سے الحمداللہ پوری دنیا میں مسلمان بارہ ربیع الاول سے سترہ ربیع الاول تک جشن عید میلادالنبی مناتے ہیں۔
اسلام ٹائمز: اتحاد بین المسلمین کی فضا کو مزید پروان چڑھانے میں ہفتہ وحدت کیسے مزید مؤثر ثابت ہوسکتا ہے۔؟
اسد اللہ بھٹو: ہفتہ وحدت کی مناسبت سے مختلف پروگرام ہوا کرتے ہیں، فعالیت ہوتی ہے، اس حوالے سے مشترکہ پروگرامات ہوتے ہیں، مزید ترتیب دینے چاہیں، جس میں تمام مسالک و مکاتب کے علماء کرام و لوگ شریک ہو جاتے ہیں، تمام مکاتب میں جشن عید میلاد النبی کو اپنے اپنے طور طریقے سے منایا جاتا ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ تمام مکاتب و مسالک مل کر حضرت محمدؐ کی شان رسالت بیان کریں، تو پوری دنیا کیلئے اتحاد و وحدت، امن و آتشی، خیر خواہی و خوش حالی کا پیغام جائے گا۔
اسلام ٹائمز: پاکستان بھر میں ہفتہ وحدت منانے سے متعلق کیا کہیں گے۔؟
اسد اللہ بھٹو: ملک بھر میں مشترکہ طور پر تمام مسالک و مکاتب کے خواص و عوام پروگرامات ترتیب دیں، مساجد، مدارس، امام بارگاہوں میں سیمینار، جلسہ ہائے سیرت نبوی، درود شریف و نعت کی محافل منعقد کی جائیں، خواتین میں بھی جشن میلاد منایا جاتا ہے، مزید بڑھانے کی ضرورت ہے، سیرت نبوی کی روشنی میں امت مسلمہ کے درمیان وحدت و اتحاد کی فضا مزید پروان چڑھانے کے حوالے سے منظم و موثر اجتماعات منعقد کیے جائیں، پوری دنیا میں مسلمانوں کے درمیان وحدت کا پیغام پھیلایا جائے، یہی وہ پیغام ہے کہ جس کیلئے حضرت امام خمینیؒ نے بارہ تا سترہ ربیع الاول ہفتہ وحدت منانے کا اعلان کیا تھا، جو آج بھی دنیا بھر میں منایا جا رہا ہے۔ ان شاء اللہ جب تک دنیا قائم ہے، حضرت محمد کے میلاد اور پیغام وحدت پھیلانے کا کام جاری رہے گا۔
اسلام ٹائمز: عالم اسلام حساس دور سے گزر رہا ہے، اس تناظر میں ہفتہ وحدت کی اہمیت کو کس نظر سے دیکھتے ہیں۔؟
اسد اللہ بھٹو: امت مسلمہ کو بہت بڑے چیلنجز کا سامنا ہے، مغرب اس وقت پوری دنیا میں مسلمانوں کا خون بہا رہا ہے، کشمیر، فلسطین، مصر، بنگلہ دیش، برما میں مسلم نسل کشی جاری ہے، لہٰذا عالم اسلام کو درپیش موجودہ حساس ترین صورتحال میں بارہ تا سترہ ربیع الاول ہفتہ وحدت منانے کی اہمت اور بڑھ جاتی ہے، امام خمینیؒ کا اعلان کردہ ہفتہ وحدت پوری امت مسلمہ کو ایک لڑی میں پرونے کا ذریعہ ہے، ان شاء اللہ ہم حضرت امام خمینیؒ کے ہفتہ وحدت کے پیغام کو لیکر آگے چلیں گے، اسی میں امت مسلمہ کی بقا و سرفرازی ہے۔ ہفتہ وحدت کی مناسبت سے مزید مشترکہ پروگرامات ترتیب دینے کی ضرورت ہے، اس حوالے سے کام بھی ہو رہا ہے، مزید کام کرنے کی ضرورت ہے۔
اسلام ٹائمز: کیا آپ سمجھتے ہیں کہ حضرت امام خمینیؒ کے اعلان کردہ ہفتہ وحدت کے آفاقی پیغام کا لازمی نتیجہ مقبوضہ فلسطین و کشمیر کی آزادی کیصورت میں نکل سکتا ہے۔؟
اسد اللہ بھٹو: امام خمینیؒ نے ہفتہ وحدت منانے کا جو اعلان کیا تھا، اس کے پیچھے بڑی حکمت عملی پوشیدہ تھی، اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ہفتہ وحدت کے پیغام کا نتیجہ مقبوضہ فلسطین و کشمیر کی آزادی کی صورت میں بھی نکل سکتا ہے اور جدوجہد آزادی کیلئے آواز حق بلند کرنے کی صورت میں بھی نکل سکتا ہے، کیونکہ اس کے نتیجے میں پوری دنیا میں مقبوضہ فلسطین و کشمیر کی آزادی کیلئے فضا بنے گی، دنیا بھر میں بیداری آئے گی، ہفتہ وحدت کی مناسبت سے منعقد ہونے والے تمام چھوٹے بڑے پروگرامات میں مظلوم فلسطینی و کشمیری بھائیوں کو ضرور یاد رکھا جائے، مقبوضہ فلسطین و کشمیر کی آزادی کیلئے مشترکہ طو رپر سوچ بچار کی جائے۔
اسلام ٹائمز: پاکستان کی بقا و سلامتی میں اتحاد بین المسلمین کتنا ضروری ہے، کتنا مؤثر ہے۔؟
اسد اللہ بھٹو: پاکستان اسلام کے نام پر وجود میں آیا ہے، اس کی بقا بھی اسلام کے ساتھ ہی وابستہ ہے، اسلام کی بالادستی کیلئے وحدت امت بہت ضروری ہے، میں سمجھتا ہوں کہ بارہ سے لیکر سترہ تک ہفتہ وحدت پاکستان کے استحکام اور سلامتی کیلئے اہم کردار ادا کریگا، اس لئے تمام عوام کو ہفتہ وحدت پر خصوصی توجہ دینی چاہیئے اور مشترکہ طور پر پروگرامات کرکے وحدت امت کا عملی مظاہرہ کرنا چاہیئے۔
اسلام ٹائمز: ملک میں وحدت و اتحاد کی فضا کو مزید پروان چڑھانے کیلئے کن طبقات پر سب سے زیادہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔؟
اسد اللہ بھٹو: ویسے تو ہر ایک مسلمان کی ذمہ داری ہے کہ وحدت امت کیلئے کام کرے، حکومت کو بھی اس حوالے سے اپنا کردار ادا کرنا چاہیئے، پارلیمنٹ، سیاسی جماعتوں کو بھی کردار ادا کرنا چاہیئے، لیکن سب سے زیادہ وحدت امت کی ذمہ داری علمائے کرام پر ہے، مذہبی طبقات کا کام ہے، سب سے زیادہ دینی جماعتوں پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے، کیونکہ یہ دین کا کام ہم ہی کرینگے، ہم کرتے بھی ہیں اور مزید منظم اور موثر انداز میں وحدت امت کیلئے کام کرنے کی ضرورت ہے، لہٰذا میں امام خمینیؒ نے ہفتہ وحدت منانے کا اعلان کرکے ہم سب مسلمانوں کو جو ایک آفاقی فکر دی ہے، یہ سارے جہان میں چڑھی ہے اور مزید پروان چڑھے گی، پاکستان سمیت سارے عالم اسلام میں استحکام کا باعث بنے گی۔
Regards
Irshad