مولانا مفتی عبدالقوی کا تعلق ملتان کے مذہبی، روحانی اور صاحب فتویٰ خاندان سے ہے، انکے خاندان کا تعارف مفتی ملتان کے نام سے ہوتا ہے، انکے والد اور دادا دونوں مفتی صاحب کے نام سے جانے جاتے تھے، وہ 26 جولائی 1957ء کو ملتان میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم ملتان، فیصل آباد اور ایم فل کی ڈگری جامشورو یونیورسٹی سے حاصل کی، جبکہ وفاق المدارس بنگلہ دیش نے انکو پی ایچ ڈی کی اعزازی ڈگری دی۔ وہ آج کل پاکستان تحریک انصاف کے مرکزی رہنماء، مرکزی رویت ہلال کمیٹی کے ممبر بھی رہ چکے ہیں، پاکستان مدرسہ ایجوکیشن بورڈ حکومت پاکستان کے ممبر ہیں، متحدہ شریعت کونسل پاکستان کے چیئرمین ہیں، مفتی عبدالقوی کو میڈیا میں شہرت اسوقت ملی جب انکی قندیل بلوچ کیساتھ ویڈیو منظرعام پر آئی، قندیل بلوچ کے بعد اور بھی کئی ویڈیوز منظر عام پر آچکی ہیں، جن پر عوام نے شدید اعتراض بھی کیا ہے، اسلام ٹائمز نے ان سے جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کے آزادی مارچ کے حوالے سے ایک انٹرویو کیا، جو قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔(ادارہ)
اسلام ٹائمز: عمران خان اور مولانا فضل الرحمن کے دھرنے میں کیا فرق ہے۔؟ کل وہ جائز تھا اور آج یہ ناجائز کیوں۔؟
مفتی محمد عبدالقوی: بسم اللہ الرحمن الرحیم، ایک فرق عام آدمی محسوس کر رہا ہے اور ایک فرق خواص محسوس کر رہے ہیں، عام آدمی سمجھ رہا ہے کہ مولانا کے پاس مال ختم ہوگیا ہے اور گذشتہ حکومتوں سے ملنے والا مال اور مراعات ستا رہی ہیں، جس کی وجہ سے وہ کسی نہ کسی طرح اس چکر میں لگے ہوئے ہیں، جبکہ خواص یہ سوچ رہے ہیں کہ مولانا یہ سب اس لیے کر رہے ہیں کہ پاکستان کا امیج جو اب اچھا ہو رہا ہے، اُسے بگاڑا جائے، پاکستان جو ایف اے ٹی ایف کے چنگل سے نکل رہا ہے، مسلح ڈنڈے بردار فوج دکھا کر بھارت کو پاکستان کے خلاف بولنے کا موقع دیا جائے، خواص یہ سمجھ رہے ہیں کہ مولانا بیرونی آقاوں کی خوشنودی کے لیے یہ سب کچھ کر رہے ہیں، عمران خان اور ان صاحب (مولانا فضل الرحمان) کے دھرنے میں فرق یہ بھی ہے کہ عمران خان کا دھرنا پاکستان کی بقاء اور سلامتی کے لیے تھا، کیونکہ اُس وقت پاکستان پر رہبر نہیں رہزن بیٹھے تھے، لیکن آج مولانا (فضل الرحمن) صرف اپنے پیٹ کے چکر میں ہیں، پوری قوم دیکھ رہی ہے کہ انہوں نے کس وقت میں یہ مارچ شروع کیا اور اس مارچ کے ذریعے کس کس کو سپورٹ کیا، اس مارچ نے کشمیری کاز کو کتنا نقصان پہنچایا، کرائے کے لوگ اور چندے پر مارچ مولانا کی آخری گولی ہے، جو جلد ناکام ہو جائے گی۔
اسلام ٹائمز: کیا وجہ ہے کہ مولانا فضل الرحمن دیگر اہلسنت جماعتوں کو اپنے ساتھ نہیں ملا سکے، حتی کہ دیوبندی بھی اُنکی مخالفت کر رہے ہیں۔؟
مفتی محمد عبدالقوی: اس کی کئی وجوہات ہیں، پہلی وجہ تو یہ ہے کہ علمائے اہلسنت یہ سمجھتے ہیں کہ وزیراعظم عمران خان نے جس دلیرانہ انداز میں اقوام متحدہ میں مسئلہ کشمیر کے ساتھ ساتھ مسئلہ ختم نبوت کو اُٹھایا ہے، وہ آج تک کوئی نہیں اُٹھا سکا، جس طرح وزیراعظم نے اقوام متحدہ میں اسلام کی ترجمانی کی ہے، کشمیر کے ساتھ اُمت مسلمہ کی بات کی ہے، آج تک کوئی پاکستانی لیڈر ایسا موقف نہیں دے سکا، جس پر مغربی طاقتیں سکتے میں ہیں اور وہ اپنے پتے مختلف انداز میں کھیل رہی ہیں، بعض ایسے لوگ بھی ہیں، مسلمان ہونے کے باوجود کشمیری مسلمانوں اور دیگر مسائل میں گھرے مسلمان ممالک کا ساتھ دینے کی بجائے مخالفت کررہے ہیں اور مسلمان ممالک مولانا کے کافی قریبی ہیں۔
مکتبہ دیوبند کے سمجھدار علماء اب اس بات کو اور اس مولانا (فضل الرحمان) کو سمجھ چکے ہیں کہ جب ان کا شکم خالی ہوتا ہے تو کچھ نہ کچھ ضرور ہوتا ہے، دوسری اہم بات یہ ہے تمام بریلوی تنظیموں اور آستانوں کے سجادہ نشین صاحبان نے بھی ان کی کھل کر مخالفت کی ہے اور آزادی مارچ واپس لینے کا مطالبہ کیا ہے، اُن کا کہنا ہے کہ سرکار دوجہاں کی آمد کے مہینے میں جشن ہائے میلاد کی بجائے آزادی مارچ نہیں فسادی مارچ ہے، آج یہ نعرہ زبان زدعام ہوچکا ہے کہ ان کا یہ مارچ کسی آزادی کے لیے نہیں بلکہ فساد کے لیے ہے۔ ایک طرف پورا ملک سرکار کے میلاد کی تیاریاں کر رہا ہے تو دوسری طرف ریاست پاکستان کے دشمن اپنی آزادی کا رونا رو رہے ہیں۔
اسلام ٹائمز: ذرائع کا کہنا ہے پی ٹی آئی حکومت نے بریلوی تنظیموں کو فعال کرکے مذہب کے مقابلے میں مذہبی کارڈ کھیلا ہے۔؟
مفتی محمد عبدالقوی: حکومت کو کسی ایسے کارڈ کھیلنے کی ضرورت نہیں ہے، کیونکہ حکومت جانتی ہے کہ یہ حکومت کے خلاف کچھ نہیں کرسکتے، پاکستان میں سب سے زیادہ بریلوی مسلک کے افراد بستے ہیں، اگر مولانا کو اپنی آزادی مارچ کا حق ہے تو اُن کو بھی حق ہے کہ اپنا موقف بیان کریں، میں یہ سمجھتا ہوں کہ ماضی میں اس طرح کے کام دونوں حکومتوں نے کیے ہیں، لیکن عمران خان ایسی سیاست سے بہت دور ہیں، ماضی میں مسلح جتھے اور کالعدم جماعتوں کو سپورٹ کیا جاتا رہا ہے اور بدقسمتی سے اُس وقت یہ موصوف (مولانا فضل الرحمان) اُن کے اتحادی تھے۔
میں نے بہت پہلے کہہ دیا تھا کہ چندہ اور دھندہ ہوگا ان کو مندہ، پہلے انہوں نے معصوم عوام سے چندہ اکٹھا کیا، پھر اس سے دھندہ کیا اور ایک دو روز میں مندے کی خبر بھی سامنے آجائے گی۔ مولانا کو پی ٹی آئی حکومت کا احسان مند ہونا چاہیئے کہ ہم نے کوئی رکاوٹ کھڑی نہیں کی، صاف راستہ دیا کہ آو اور اپنا احتجاج ریکارڈ کراو، لیکن آپ کو یاد ہوگا کہ ان لوگوں نے پی ٹی آئی کے ساتھ کیا نہیں کیا، ہمارے راستے روکے گئے، ہمیں پابند سلاسل کیا گیا، ہمیں نظربند کیا گیا، لیکن چونکہ ہم اس ملک کے ساتھ مخلص تھے تو کامیابی ہماری یقینی تھی، لیکن اس دھرنے کے مقاصد سب کو نظر آرہے ہیں اور ناکامی اس کا مقدر ہوگی۔
اسلام ٹائمز: آپ بار بار اپنی گفتگو میں ''چندہ، دھندہ اور مندا'' کا جملہ استعمال کر رہے ہیں، آپکی اس سے کیا مراد ہے۔؟
مفتی محمد عبدالقوی: بھائی دیکھیں میں بھی دیوبند سے تعلق رکھتا ہوں اور مولانا کی جماعت کے کئی عہدیدار میرے ذاتی دوست ہیں، جو بیچارے ان مراحل سے گزر رہے ہیں، پہلے مولانا نے تمام ضلعی امیروں کو لاکھوں روپے چندہ جمع کرنے کا حکم دیا، پھر جب چندہ اکٹھا ہوگیا تو اس سے دھندہ شروع کر دیا، اسی چندے سے مولانا نے 2 نئی گاڑیاں خریدی ہیں اور پتہ نہیں کہاں کہاں خرچ کیے ہیں، چندے کے بعد مولانا کا اگلا حکم بندے لانے کا جاری ہوا، جسے بیچارے ضلعی امیروں کو ماننا پڑا اور ہر ضلع کا مخصوص کوٹہ مسلح ہوکر اس فسادی مارچ کا حصہ ہے، دھندے کے بعد مندے کی باری ہے، کیونکہ جیسی نیت ویسی مراد، مولانا جس مقصد کے لیے نکلے ہیں، وہ اس میں بری طرح ناکام ہوں گے، عمران خان اس کے ساتھ کوئی سودے بازی نہیں کرے گا، اپوزیشن جماعتوں نے بھی مولانا کے ساتھ ہاتھ کیا ہے، پہلے شمولیت کے دعوے، پھر قول و قرار لیکن نتیجہ صفر نکلا، بہرحال مولانا نے بڑے عیش کر لیے ہیں، اب احتساب کا وقت قریب ہے اور اس احتساب کے ڈر سے ہاتھ پیر مارے جا رہے ہیں۔
اسلام ٹائمز: آزادی مارچ کا رزلٹ کیا نکلے گا؟ مارچ کے شرکاء سے نمٹنے کیلئے حکومت کی کیا تیاریاں ہیں۔؟
مفتی محمد عبدالقوی: مارچ کا رزلٹ فیل ہوگا، کیونکہ عوام اس مارچ کو پہلے سے ہی مسترد کرچکی ہے، مولانا کے سابق تمام اتحادیوں نے ان کو مارچ نہ کرنے کا مشورہ دیا، لیکن یہ مارچ کچھ لوگوں کے کہنے پر کیا گیا، جو کہ میں سمجھتا ہوں کہ مولانا کی سب سے بڑی سیاسی غلطی ہے، ایک شخص جو مسلسل کئی سال حکومت کا حصہ رہا ہو اور اُسے ایکدم سے سائیڈ لائن کر دیا جائے تو اُس کا حال مولانا جیسا ہوگا، اس وقت ملک میں اتحاد کی ضرورت ہے، معاشی استحکام کی ضرورت ہے، لیکن مولانا ہیں کہ وہ ایک نیا بحران پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، میں نے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ دھرنا مولانا کے بس کی بات نہیں اور وہی ہوا کہ مجبوراً مذاکرات کے ذریعے دھرنے سے پیچھے ہٹنا پڑا، رہی بات حکومتی تیاریوں کی تو حکومت کو جو ان لوگوں نے لکھ کر دیا ہے، اگر اُس پر عملدرآمد کریں گے تو حکومت بھی تعاون کرے گی اور اگر کسی نے قانون کو ہاتھ میں لیا تو حکومت حرکت میں آئے گی، ابھی تک حکومت کا کوئی محاذ آرائی کا موڈ نہیں ہے، لیکن اگر کسی نے شرارت کی تو ریاست ایکشن لے گی۔