علامہ سید عابد حسین الحسینی کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ وہ تحریک نفاذ فقہ جعفریہ اور اسکے بعد تحریک جعفریہ میں صوبائی صدر اور سینیئر نائب صدر کے عہدوں پر فائز رہنے کے علاوہ ایک طویل مدت تک تحریک کی سپریم کونسل اور آئی ایس او کی مجلس نظارت کے رکن بھی رہے۔ 1997ء میں پاکستان کے ایوان بالا (سینیٹ) کے رکن منتخب ہوئے، جبکہ آج کل علاقائی سطح پر تین مدارس دینیہ کی نظارت کے علاوہ تحریک حسینی کے سرپرست اعلٰی کی حیثیت سے کام کر رہے ہیں۔ ’’اسلام ٹائمز‘‘ نے کرم کی تازہ صورتحال پر انکے ساتھ ایک خصوصی انٹرویو کا اہتمام کیا ہے، جسے قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔ (ادارہ)
اسلام ٹائمز: علامہ صاحب! کرم کے موجودہ حالات کے حوالے سے ذرا بریف کریں کہ کیا حالات دوبارہ جنگ کی جانب بڑھ رہے ہیں، یا یہ وقتی افواہیں ہیں۔
علامہ سیدعابد الحسینی: بسم اللہ الرحمن الرحیم،
یہاں کرم میں ایک مقولہ سا مشہور ہے کہ کرم میں ہر دس بارہ سال بعد ایک جنگ ناگزیر ہوتا ہے۔ لوگوں کی ذہنیت کچھ اس طرح سی بنی ہے کہ وہ خیال کرتے ہیں کہ دس بارہ سال بعد جنگ ضرور ہوگا۔ اس حوالے سے عرض یہ ہے کہ کرم میں کچھ عناصر کی جانب سے جنگ کیلئے ایک ماحول تیار کیا جاتا ہے۔ اور پھر جنگ ناگزیر ہوجاتا ہے۔ چنانچہ آج کل جو حالات بنے ہیں۔ اسکے لئے بغیر کسی وجہ کے ایک ماحول تیار کیا گیا۔ اور اب پراپیگنڈہ اور جوابی پراپیگنڈہ کے ذریعے حالات کو جنگ کی جانب لے جانے کی کوششیں ہورہی ہیں۔
اسلام ٹائمز: صدہ میں ہونے والا احتجاج ایک سانحے کے رد عمل میں تھا، کیا کسی کو پرامن احتجاج کا حق حاصل نہیں؟
علامہ سیدعابد الحسینی: ٹوپکی میں منڈا کے سنی گھرانے سے تعلق رکھنے والے باپ بیٹے کو کسی نے ٹوپکی کے مقام پر قتل کیا۔ جسے بنیاد بنا کر صدہ میں احتجاج کیا گیا۔ لیکن احتجاج پرامن نہیں تھا، بلکہ مظاہرین نے متعدد گاڑیوں کو نذر آتش کردیا۔ اور درجنوں کو گرفتار کرکے انہیں ٹارچر کیا گیا۔ ویڈیو ریکارڈ شاہد ہے کہ جن افراد کو بعض پرامن افراد نے پناہ دی تھی، انہیں بھی دھمکیاں دی جاتی تھیں۔ حالانکہ اس قتل کا تعلق کسی فرقہ ورانہ تنازعے سے نہیں تھا۔ قتل جس نے بھی کیا ہو، تاہم مقتولین کے ورثاء نے ایک مخصوص خاندان پر ایف آئی آر کاٹا ہے۔ چنانچہ دو خاندانوں کی دیرینہ دشمنی اور وہ بھی ایک حساس مسئلے پر۔ تو کسی ایک فریق کا اپنے دشمن کو قتل کرنا جائز ہو یا ناجائز الگ بات ہے، جبکہ غیر متعلقہ افراد کا ایسے مسئلے کو بنیاد بنا کر شر پھیلانا الگ بات ہے، یہ خالصتا فرقہ واریت ہے۔ اور فرقہ واریت پھیلانے والوں کا اپنا ایک سسٹم اور اپنا ایک مکتب ہے۔ جن کی شر سے شیعہ تو کیا، مملکت خداداد پاکستان میں رہنے والا کوئی شہری بھی محفوظ نہیں ہے، شہری کا تعلق سول سے ہو یا فوج سے، کوئی بھی ان سے محفوظ نہیں۔
اسلام ٹائمز: پاراچنار میں طوری قبائل کے مظاہرے کو آپ کیا حیثیت دیں گے؟
علامہ سیدعابد الحسینی: پاراچنار میں ہونے والا مظاہرہ صدہ میں ہونے والے مظالم کے خلاف تھا۔ کہ وہاں درجنوں گاڑیوں اور مسافروں کو روک نشانہ بنایا گیا۔ گاڑیوں کو جلایا گیا۔ ایک سرکاری ملازم کو زدوکوب اور ٹارچر کیا گیا۔ چنانچہ طوریوں نے ایک شخص کے حق یا ایک شخص کے خلاف مظاہرہ نہیں کیا، بلکہ اپنے قبیلے کے عوام پر ہونے والے مظالم کے خلاف احتجاج کیا۔ پہلا سانحہ ذاتی دشمنی کا شاخسانہ تھا جبکہ صدہ سانحہ فرقہ واریت پر مبنی تھا۔ پختو، قبائلی قوانین اور اسلامی قوانین کے تحت ایک شخص کا اپنے دشمن سے قصاص لینے کا حق حاصل ہوتا ہے۔ جبکہ کسی قانون میں اس بات کی گنجائش نہیں کہ مقتول یا متاثرہ شخص کے بجائے کوئی دوسرا اٹھے اور پھر غیر مربوط شخص سے متاثر فریق کا بدلہ لے۔
اسلام ٹائمز: ایک طرف صدہ میں احتجاج ہوتا ہے تو دوسری جانب پاراچنار میں۔ اس احتجاج اور جوابی احتجاج سے حالات خراب نہیں ہونگے؟
علامہ سیدعابد الحسینی: حکومت موجود ہے، اگرچہ نام نہاد اور برائے نام حکومت ہے، اسکی کوئی حیثیت نہیں، اگر حکومت ہوتی تو وہ احتجاج کی نوعیت اور معیار دیکھتی، کہ طوریوں کے احتجاج کا معیار کیا ہے، اور سنیوں کے احتجاج کا معیار کیا ہے۔ انہوں نے کافر کافر کے نعرے لگائے۔ تاریخ شاہد ہے، شیعوں نے کبھی کسی کو کافر نہیں کہا، جبکہ انکے پاس تو فتوؤں کے خزانے بھرے ہیں۔ اپنے عقیدے سے ذرا سے منحرف کو یہ لوگ کافر کہتے ہیں۔ ہر شہری کو پرامن احتجاج کا حق حاصل ہے، تاہم حکومت کا فرض ہے، کہ وہ غیر قانونی اور فرقہ واریت پر مبنی مظاہروں کی اجازت نہ دے۔
اسلام ٹائمز: سنا ہے کہ صدہ میں اہل سنت نے شیعوں کو مناظرے کا چیلنج دیا ہے۔ اگر یہ سچ ہے تو آپکا رد عمل کیا ہوگا؟
علامہ سیدعابد الحسینی: مناظرے یا کسی بھی چیلنج کو ہم قبول کرتے ہیں۔ بلکہ بندہ تو اس بات کا خواہاں ہوں کہ تمام اختلافی مسائل پر شیعہ اور سنی علماء وماہرین کے مابین مناظرہ ہو۔ جو بھی ہار جائے اس مسئلے میں دوسرے کی پیروی کرے۔ ممکن ہے ایک مسئلے پر ایک فریق حق پر، دوسرے میں دوسرا، جس کا دلیل بھاری اور ناقابل تردید ہو۔ اس معاملے میں اسی کو حق بجانب قرار دیا جائے۔ رہی بات، مناظرے کی، تو یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ آج تو اہل سنت علماء بھی شیعہ عقائد کی تصدیق کرتے نظر آرہے ہیں۔ اور یہ بھی واضح ہے، کہ کئی مقامات پر مناظرے ہوبھی چکے ہیں۔ جس میں جیتے اور ہارنے والوں کا بھی سب کو پتہ ہے۔ تاہم ہمارے طرف سے اب یہ اعلان ہے۔ اور ہمارے اس اعلان کو میڈیا دنیا کے گوشے گوشے تک پہنچائے کہ جو کوئی، جس کسی موضوع پر گفتگو اور مناظرہ کرنا چاہیں، ہم ہردم تیار ہیں۔ لیکن اسکے لئے شرط یہ ہے کہ فریقین کی جانب سے برابر افراد ہوں۔ دوسری بات یہ کہ کیمرے لگے ہوں۔ اور ساتھ ہی دو ایمپائر بھی بیٹھے ہوں۔ کسی گوشے میں بیٹھ کر کافر کہنا بہت آسان بات ہے۔ آمنے سامنے بیٹھ کر ثابت کرنا علماء کا کام ہے۔