اُمت مسلمہ کسی حد تک مذہبی منافرتوں کے خطرے سے دور ہو چکی ہے
عراق میں بم نصب شدہ گاڑیاں سعودی خفیہ اداروں کیجانب سے بھیجی گئیں، سید حسن نصراللہ کا خصوصی انٹرویو (حصہ چہارم)
امریکی عہدیداران کہتے تھے کہ شام میں فتح حاصل کرنے کے بعد لبنان میں داخل ہونگے
ادارہ حفظ و نشر آثار، رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ سید علی خامنہ ای کے مجلہ ’’مسیر‘‘ کی ٹیم نے حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل سید حسن نصراللہ کیساتھ طویل دورانیئے پہ مشتمل انٹرویو کا اہتمام کیا۔ اس انٹرویو کو ذرائع ابلاغ کی دنیا کا طویل ترین انٹرویو بھی کہا جا سکتا ہے، کیونکہ یہ انٹرویو لگاتار دو راتوں پہ محیط ہے اور اس انٹرویو کی اہمیت یوں بھی دوچند ہو جاتی ہے کہ طلسماتی شخصیت رکھنے والے سید حسن نصراللہ نے اپنی گفتگو میں کئی اہم باتوں اور رازوں سے پردہ اٹھایا ہے۔ اس انٹرویو کا چوتھا حصہ پیش ہے۔
شام کے معاملے میں ایران اور حزب اللہ نے شمولیت کیوں ضروری سمجھی۔؟ اس سوال کے جواب میں سید حسن نصراللہ نے مزید کہا:
شام کا بحران شروع ہونے سے ڈیرھ سال پہلے یعنی تقریباً ۲۰۱۲ یا ۲۰۱۳ تھا کہ ’’ملک عبد اللہ بن عبد العزیز‘‘ نے اپنے خصوصی ایلچی کو بشارد الاسد کے پاس بھیجا۔ سعودیہ نے یہ پیغام اسد کے لیے بھیجا تھا کہ اگر وہ مقاومت سے دور ہو جائے اور ایران کے ساتھ اپنے روابط منقطع کر لے تو شام کی جنگ ختم کر دی جائے گی، تکفیریوں کا مسئلہ حل ہو جائے گا اور اسد ہمیشہ کے لیے باقاعدہ جمہوری صدر رہے گا۔ سعودیوں نے اسد سے کہا کہ ہم نہ اصلاحات چاہتے ہیں نہ کوئی اور چیز، ہم تیار ہیں کہ شام کی تعمیر نو کے لیے سینکڑوں ملین ڈالر ادا کریں۔ لہذا اصل مقصد، بہار عربی میں قوموں کے مطالبات سے بالکل ہٹ کر تھا۔ اصل مقصد شام کی تاریخی حیثیت کو مسخ کرنا، اُس کے حقوق پر ڈاکہ ڈالنا اور اُسے محور مقاومت سے باہر نکال دینا تھا تاکہ مسئلہ فلسطین کو نابود کرنے کی راہ ہموار ہو جائے ۔ عراق میں امریکہ کی بدمعاشی مان لی جائے۔ ایران کو تنہا کر دیا جائے اور اُس کا محاصرہ کر لیا جائے۔ شام کی جنگ کے ابتدائی دنوں میں ہی ہم اس نتیجہ تک پہنچ گئے تھے۔ میں اُمید رکھتا ہوں کہ ایران میں ہمارے برادران، اِن مطالب کو عوام تک پہنچانے میں مدد کریں۔
بعض امریکی عہدیداران اور شام کے مخالفین کہتے تھے کہ جیسے ہی ہم نے شام پر فتح حاصل کر لی تو فوراً لبنان میں داخل ہو جائیں گے تاکہ حزب اللہ کا کام تمام کر دیں۔ کچھ کہتے تھے کہ عراق جائیں گے لہذا مسئلہ صرف شام کا نہ تھا۔ جب امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے اظہار کیا کہ اوباما، کلنٹن اور امریکی خفیہ ادارہ سی آئی اے نے داعش کے دہشت گردوں کو بنایا اور پھر انہیں شام لے کر آئے، کیا اِن دہشت گردوں کا مقصد شام میں جمہوریت کا نفاذ اور انتخابات تھا یا وہ اس ملک کی تباہی کے پیچھے تھے۔؟ اسی وجہ سے ہم پہلے دن سے جانتے تھے کہ شام کے خلاف جنگ کا اس قسم کے مسائل کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس جنگ کا مقصد شامی حکومت کو گرانا، شامی فوج کی تباہی، شام پر مکمل تسلط ہے تاکہ یہ ملک اپنے حقوق سے پیچھے ہٹ جائے اور یوں مسئلہ فلسطین کے خاتمہ، اسرائیل کے ساتھ روابط معمول پر لانے نیز خطے کی اقوام کی تمام خواہشیں اور آرزوئیں ختم کرنے کے لیے راہ ہموار ہو جائے۔ شام کے خلاف شروع کی جانے والی جنگ سے متعلق ہم حزب اللہ لبنان کے اندر اس بات پر متفق تھے حتیٰ ایک بھی مخالفانہ رائے موجود نہ تھی، حضرت آقا جن پر اللہ کی نظر خاص ہے، وہ ایک عظیم تاریخی بصیرت و آگاہی اور اسی طرح قیادت کی والا صفات و غیر معمولی صلاحتیوں کے مالک ہیں، تفصیل کے ساتھ اس مسئلہ سے آگاہ تھے۔
ہم نے بعض مواقع پر اظہار کیا ہے کہ کچھ لوگ دوسروں کو سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں کہ ایران نے ہمیں شام میں داخل ہونے کا حکم صادر کیا ہے جبکہ یہ صحیح نہیں ہے، ہم نے شام میں داخل ہونے کا فیصلہ کیا تھا کیونکہ ہم سنجیدگی کے ساتھ شام اور لبنان کے لیے خطرہ محسوس کر رہے تھے۔ اس خطرہ کا احساس کیا جا رہا تھا کہ بہت جلد لڑائی ہمارے دیہاتوں اور شہروں تک آ جائے گی۔ ہم چاہتے تھے کہ لڑائی میں کود جائیں لیکن اس کی خاطر اجازت اور حمایت اور پشت پناہی کی ضرورت تھی، جس میں سے پہلے نمبر میں اجازت تھی۔ میں حضرت آقا سے ملاقات کے لیے گیا۔ شام سے متعلق تمام معلومات اور تجزیے اِن کی خدمت میں پیش کیے اور اپنے دلائل بھی اِن کے سامنے رکھے۔ میں نے دیکھا کہ شام اور اس کے حالات سے متعلق اِن کی نظر ہم سے کہیں زیادہ واضح، شفاف اور گہری تھی۔ شام اور اس کے حالات پر اِن کا موقف پہلے دن سے معلوم تھا۔ انہوں نے کہا کہ یہ شام کو گرانے کی ایک سازش ہے، اس میں اِن کا مقصد مسئلہ فلسطین اور مقاومت کے اندر شام کی حیثیت اور اس ملک کی اہمیت کو ختم کرنا ہے۔ اسی طرح اِن کا ہدف اسلامی جمہوریہ ایران ہے کیونکہ انہوں نے شام میں کام ختم کرنے کے بعد لڑائی کو لبنان، عراق اور ایران تک لے جانا ہے۔ یہ وہی چیز ہے، جو بعد میں آگے بڑھی۔ وہ لبنان آئے اور البقاع کے کچھ حصہ پر قبضہ کر لیا۔ اگر وہ کر سکتے ہوتے تو اس سے زیادہ علاقے پر قبضہ کر لیتے لیکن ہم اور لبنانی فوج اِن کے سامنے کھڑے ہو گئے اور ہم نے انہیں پہاڑی علاقوں میں دھر لیا۔
آپ نے عراق میں دیکھا، تکفیری دہشت گرد شام کے شرق فرات سے کتنی تیزی کے ساتھ عراق پہنچائے گئے اور وہ انتہائی کم وقت میں صوبہ الانبار پر قابض ہو گئے۔ یہ صوبہ، عراق کے کل رقبہ کا چوتھائی یا اس سے بھی زیادہ ہے۔ پھر وہ موصل، صلاح الدین اور دوسرے علاقوں پر قابض ہوتے چلے گئے حتیٰ کہ کربلا سے ۲۰ کلو میٹر اور بغداد سے ۴۰ کلو میٹر کے فاصلہ پر پہنچ گئے تھے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ حضرت آقا نے شام کے واقعات کے ابتدائی دنوں میں جو کچھ کہا تھا، ہم نے گزشتہ سالوں میں وہی کچھ ہوتے دیکھا ہے۔ یہ وہ موقعہ تھا کہ جب حضرت آقا کا شام کے ساتھ کندھا لگا کر کھڑے ہو جانے کے دو ٹوک موقف واضح ہو گیا۔ اسلامی جمہوریہ ایران نے اس موقف کو اختیار کیا، اسی موقف کو اختیار کرتے ہوئے ہم شام میں داخل ہوئے اور وہاں جنگ لڑی۔ بہرحال، شام کی حکومت ، قوم اور فوج نے سازشوں کا مقابلہ کیا یعنی شامی عوام کے بڑے حصہ نے اپنی حکومت کا ساتھ دیا۔ ہم نے ہمیشہ کہا ہے کہ لطف و عنایت الہی کے بعد یہ شامی حکومت، قوم اور قائدین کی استقامت اور پامردی تھی کہ جو شام کی فتح کا باعث بنی۔ حزب اللہ لبنان، اسلامی جمہوریہ ایران، عراقی دوست اور پھر روس، سارے شام کی مدد کرنے والے بازو تھے جبکہ اصل کام شامی حکومت، قوم اور فوج نے انجام دیا۔ اگر شامی قائدین تسلیم ہو جاتے، اگر شامی فوج ٹوٹ جاتی، اگر شامی قوم، حکومت اور فوج کی پشت خالی چھوڑ دیتی، ہم سرزمین شام کی ایک بڑی لڑائی میں کچھ نہیں کر سکتے تھے۔ ہمارا کردار صرف مدد کرنے اور مدد پہنچانے کی حد تک تھا۔ اور یوں ہم موجودہ صورتحال تک پہنچ پائے۔
اس حصہ میں اپنی گفتگو کو حضرت آقا کے ساتھ ایک ملاقات کے واقعہ اور اِس سید عزیز و بزرگوار کی کرامات پر ختم کرتا ہوں۔ شام کا بحران شروع ہونے کے بعد ۲۰۱۱ میں امریکی قیادت کے تحت ایک بین الاقوامی اتحاد اس ملک میں داخل ہوا اور دنیا کے سارے ملکوں کا کہنا تھا کہ دمشق صرف دو مہینے کے اندر سقوط کر جائے گا۔ سارے عرب ملکوں کا بھی یہی تصور تھا حتیٰ ہمارے بعض دوست بھی یہی کہہ رہے تھے۔ بالآخر ہم بھی اگر ایسا تصور نہیں رکھتے تھے تو کم سے کم کچھ پریشانی کا اظہار ضرور کر رہے تھے۔ اس مسئلہ کے تمام جوانب ہمارے لیے واضح نہ تھے، پریشانی بہت بڑھ گئی تھی۔ اُس زمانہ میں ترکی اور قطر جیسے ملک، جن کے ساتھ ہم شام کا بحران شروع ہونے سے پہلے رابطے میں تھے، ہمارے لیے پیغام بھیجا کرتے تھے۔ جناب داود اغلو اُس زمانہ میں سیاسی ذمہ داری رکھتے تھے، لبنان آئے۔ ترکی کے سربراہان نے ہمیں یوں پیغام دیا کہ ’’ہم آپ کو ضمانت دینے کو تیار ہیں، آپ پیچھے کھڑے رہیں اور شام پر بھروسہ نہ کریں کیونکہ ہم آپ کو بہت پکی بات بتا رہے ہیں کہ دمشق صرف دو سے تین مہینے کے اندر سقوط کر جائے گا۔ ایران میں، ہمارے بہت سے دوستوں پر بھی اس ماحول کا اثر ہو گیا تھا لیکن حضرت آقا کے ساتھ جو ہماری ملاقات تھی، اس میں انہوں نے ایسی ہر رائے، دنیا بھر کے ممالک کے کہنے، خطے کے ماہرین کے تجزیہ اور اسی طرح بعض ایرانی حکام کی سوچ کے برخلاف، میری طرف رخ کرتے ہوئے فرمایا کہ ہم ہر صورت کوئی ایسا کام کریں کہ شام اور بشار اسد کامیاب ہو جائیں اور آخر کار وہ کامیاب ہونگے۔
یہ اُس وقت ہے کہ جب ساری دنیا کوئی اور بات کر رہی ہے۔ تقریباً دو سال گزرنے کے بعد رہبر معظم انقلاب کی اس پیشن گوئی کے آثار دیکھائی دینے لگے۔ آج ہم شام میں ایک بڑی اور تاریخی
کامیابی کے شاہد ہیں۔ ایک لمحے کے لیے آپ تصور کریں کہ داعش، جبہۃ النصرہ اور اُن کے امریکی حمایتی، شام میں کامیاب ہو جاتے اور اس ملک پر قبضہ حاصل کر لیتے، اُس وقت لبنان، عراق اور ایران کے ساتھ کیا ہوتا اور خطے کی قوموں کی کیا قسمت ہوتی؟ تکفیریوں کی کامیابی کی صورت میں معاہدہ صدی بہت پہلے وقوع پذیر ہو جاتا اور آج وہ موجود ہوتا۔ اگر آج بن سلمان آتا ہے اور فلسطینیوں سے کہتا ہے کہ جو کچھ تھوڑا بہت آپ کو دیا جاتا ہے، اسے قبول کر لیں تو آپ تصور کریں کہ قدس اور فلسطین کے ساتھ کیا ہوتا۔؟ لہذا اگر ہم چاہتے ہیں کہ شام میں حاصل ہونے والی فتح کی عظمت کو جانیں تو ہمیں یہ سوال کرنا ہوگا کہ اگر ہم شام میں کامیاب نہ ہوتے اور شکست کھا جاتے، اگر وہ کامیاب ہو جاتے، تو اِس وقت شام، لبنان ، فلسطین، عراق ، ایران اور سارے خطے میں حالات کیسے ہوتے؟ جب ہم اِس سوال کا جواب دیتے ہیں تو شام میں مجاہدین نے جو کارنامہ انجام دیا اور جو استقامت دکھائی، اِس کی اہمیت سمجھ میں آتی ہے۔
سوال: آپ نے تاکید کے ساتھ یہ بات بتائی ہے کہ مختلف ممالک کے حکام نے بشار اسد سے رابطہ کیا اور اُسے مالی و سیاسی مدد کی پیش کش کی اور یقین دہانی کرائی ، حتیٰ اقتدار پر باقی رہنے کی اُسے ضمانت دیتے رہے لیکن اُس نے اِن تجاویز اور پیش کشوں کو قبول نہیں کیا۔ سوال یہ ہے کہ بشار اسد کی جانب سے ایسی پیش کشوں کو قبول نہ کرنے پر تاکید اور ثابت قدمی کی وجہ کیا ہے، آخر کونسی چیز وجہ بنی کہ وہ اس قدر زیادہ دباؤ کو برداشت کر سکا؟
سید حسن نصراللہ: یہ مسئلہ بادی النظر میں امریکہ اور عربوں پر بشار اسد کی بد اعتمادی کی طرف پلٹتا ہے۔ دوسری جانب اسد اُن کے طریقہ کار کو جانتا تھا کیونکہ وہ سارے نمبر گیم کی طرف دوڑتے ہیں جبکہ وہ ایسا انسان نہیں ہے کہ جو سیاسی اصولوں اور قومی اصولوں پر سودی بازی کرے اور انہیں نمبر دیتا پھرے۔ بشار اسد اعتقاد رکھتا ہے کہ ہر طرح کا امتیاز حاصل کرنا، قومی اصولوں، شام کے وجود، قومی حاکمیت اور خطے میں اس کے کردار کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔
سوال: اس سے پہلے کہ شام میں دفاع کا آغاز کیا جاتا اور ایران، حزب اللہ، شام اور جناب ڈاکٹر بشار اسد کی حکومت اس راستے پر چلتے کیا کسی دوسرے راہ حل کو بھی دیکھا گیا، کیا کوئی دوسرا انتخاب بھی موجود تھا یا ابتدا سے ہی کوئی دوسرا راستہ باقی نہ بچا تھا؟
سید حسن نصراللہ: ہمارا پہلا انتخاب، مذاکرات تھا اور سیاسی طریقہ کار کو ترجیح دی جا رہی تھی۔ شامی حکومت، ہمارے ایرانی بھائیوں اور خود حزب اللہ کی جانب سے کئی مرتبہ شام کے مخالفین سے رابطہ کیا گیا اور انہیں سیاسی طریقہ کار کے تحت مذاکرات کی دعوت دی گئی لیکن مخالفین نے مذاکرات اور سیاسی گفتگو کا سختی کے ساتھ انکار کر دیا۔ اُن کا پختہ تصور تھا کہ شامی حکومت دو سے تین مہینے کے اندر سقوط کر جائے گی۔ مجھے یاد ہے کہ بعض شامی مخالفین پر مؤثر لوگ ہم سے کہتے تھے کہ آپ کسی مردہ کو زندہ کرنا چاہتے ہیں، دمشق کی حکومت کا کام تمام ہو چکا ہے اور ایسی حکومت کے ساتھ مذاکرات کو قبول نہیں کر سکتے۔ انہوں نے غلط اندازے لگا رکھے تھے کہ جس کی وجہ سے وہ سیاسی راہ کی تلاش کے لیے کسی بھی حالت میں مذاکرات نہیں کرنا چاہتے تھے لیکن اُن کے حساب کتاب میں بڑی غلطی یہ تھی کہ انہوں نے فوجی حملہ کرنے میں جلد کر دی، جوکہ شام میں اُن کا اصل ہدف تھا۔ جیسا کہ میں نے پہلے کہا کہ اُن کا مقصد شام میں جمہوریت کی برقراری اور اس ملک میں اصلاحات کا نفاذ نہ تھا بلکہ اُن کا اصل مقصد دمشق کی حکومت کو گرانا، شامی فوج پر ضرب لگانا اور اس ملک میں اقتدار کے مہروں کو بدلنا تھا لہذا یہ بات ٹھیک ہے کہ جب شامی حکومت، اس کے حمایتیوں اور اتحادیوں نے مسلحانہ دفاع کو انتخاب کیا تو اُس وقت کوئی دوسرا راہ حل نہیں بچا تھا۔
سوال: ایک بات، جس پر ہمیشہ حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے تاکید کی ہے، وہ تقریب مذاہب اسلامی ہے، وہ چاہتے ہیں کہ ایسا ماحول بن جائے، جس میں مختلف اسلامی مذاہب صلح و امن کے ساتھ باہم زندگی گزار سکیں اور کسی بھی صورت ایک دوسرے کے لیے دشمنی کا دروازہ نہ کھولیں جبکہ دوسری جانب ہم ایسی تنظیموں کو دیکھتے ہیں جو غیروں کی سیاست اور تبلیغ کے زیر اثر شیعوں کی دشمن ہیں اور سنیوں کی بھی دشمن ہیں۔ مذہبی اختلافات کی آگ کو ہوا دیتے ہیں۔ اب یہ جو حضرت آیت اللہ خامنہ ای کی جانب سے جس تقریبی حکمت پر ہمیشہ تاکید کی گئی ہے اور حضرت امام خمینی بھی اِسی بات پر تاکید کیا کرتے تھے، آپ اِس کو کس نظر سے دیکھتے ہیں؟ اِس حکمت عملی کا کیا حاصل ہے؟ اور آپ کی نظر میں اب اس حکمت عملی کی راہ میں کونسے مسائل رکاوٹ ہو سکتے ہیں؟
سید حسن نصراللہ: سب سے پہلے یہ کہ یہ مسئلہ بہت بنیادی اصولوں میں سے ہے کہ جو حضرت آیت اللہ خمینی رحمہ اللہ کی جانب سے پیش کیا گیا۔ جس کا عنوان وحدت اسلامی، اتحاد بین المسلمین، تقریب مذاہب اسلامی، باہمی رواداری، تعاون اور تمام مسلمانوں کے درمیان ہم آہنگی تھا۔ اسلامی جمہوریہ ایران نے ہمیشہ اِسی چیز کو عملی بنانے کی طرف قدم بڑھایا ہے۔ حضرت آقا نے بھی رہبری کی ذمہ داری قبول کرنے کے بعد اِسی حکمت عملی کو پوری طاقت کے ساتھ جاری رکھا ہے اور ہمیشہ اس پر تاکید کی ہے۔ درحقیقت یہ موقف، اصل اسلامِ محمدی صلی اللہ علیہ و آلہ کا موقف بھی ہے، نیز قرآن کریم کا موقف بھی شمار ہوتا ہے۔ اتحاد بین المسلمین اور مذاہب اسلامی کے درمیان تقریبی حکمت، ایک اسلامی منطق ہے کہ جس پر تمام مسلمانوں کی توجہ ہونی چاہیے۔
ظاہر ہے کہ اس راستے پر بہت سی کاوشیں ہوئی ہیں۔ ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد سے، خطے میں حتیٰ پوری دنیا میں مسلمان علما اور احزاب اسلامی کے درمیان وسیع رابطے بڑھے ہیں۔ علاوہ ازیں اِن سالوں کے دوران مذاہب اسلامی کے درمیان تقریبی حکمت کو پروان چڑھانے کی خاطر کئی سیمینار، اجتماعات اور کانفرنسیں منعقد کی گئی ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ حضرت امام خمینی اور اسی طرح حضرت آقا کے اس موقف نے مسئلہ فلسطین اور مسلمانوں کو ایک پرچم کے نیچے یعنی مسئلہ فلسطین کی مرکزیت پر اکٹھا کرنے کا اہم کردار ادا کیا ہے۔ بہرحال اس حوالے سے بہت زیادہ کوششیں کی گئی ہیں۔ اگر ہم مذاہب اسلامی کے درمیان تقریبی حکمت کے اچھے نتائج اور ما حصل کی جستجو کرنا چاہیں تو گزشتہ سالوں میں ہم یہ سب دیکھ سکتے ہیں کیونکہ ۲۰۱۱ سے اب تک اس حوالے سے انتہائی خطرناک واقعہ وہی امریکی اور سعودی پروجیکٹ تھا، جس کا مقصد خطے میں شیعوں اور سنیوں کے درمیان فتنہ پروری، مذہبی و نسلی منافرت پیدا کرنا تھا۔ یہ چیز اُس سے زیادہ خطرناک ہے جو شام، عراق ، یمن اور بحرین میں وقوع پذیر ہوئی۔
میں آپ کو گزشتہ چار سال یاد دلاتا ہوں اب ہم پانچویں سال میں داخل ہو گئے ہیں، جب امریکی سعودی جارح اتحاد نے یمن پر فوجی حملہ کیا، مسجد الحرام کے امام جماعت نے نماز جمعہ کے خطبہ میں اعلان کیا کہ یمن کی جنگ، شیعہ سنی جنگ ہے۔ سعودیوں نے کوشش کی تھی کہ شام کی جنگ کو بھی دینی اور فرقہ وارانہ جنگ ظاہر کریں۔ ذرائع ابلاغ کے ذریعہ بہت کوشش کی گئی اور اس پر کافی پیسہ بھی خرچ کیا گیا کہ خطے کی مختلف جنگوں کو فرقہ وارانہ، مذہبی اور گروہی ظاہر کریں، لیکن اِن تمام کوششوں کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ شیعوں نے اس سیاست کو مسترد کر دیا۔ بہت سے اہل سنت علما اور سنی شخصیات نے اس سیاست کو مسترد کر دیا۔ گزشتہ تیس سالوں میں اس راستے پر چلنے کے نتائج میں سے یہ ایک نتیجہ تھا۔ شیعہ اور سنیوں کے درمیان روابط، اسلامی جمہوریہ ایران اور امام رحمہ اللہ و حضرت آقا کی کوششوں کے باعث ممکن ہو سکے ہیں اور اب عالم اسلام میں مضبوط روابط پائے جاتے ہیں۔ ایسے روابط کہ جنہوں نے عالم اسلام میں پیدا ہونے والے سب سے بڑے فتنے کو جڑ سے ختم کر دیا، جس کا مقصد شیعہ و سنی کے درمیان جنگ کروانا تھا۔ واضح ہے کہ ہمیں اس راستے کو آگے بڑھانا ہے۔ آج ہم اس مرحلہ کو عبور کر چکے ہیں اور اب تک بہت سے خطرات کو پیچھے چھوڑ چکے ہیں۔
میں معتقد ہوں کہ خطے میں امریکہ اور سعودیوں کو فتنے برپا کرنے میں برُی طرح ناکامی ہوئی ہے لہذا وہ عراق کے واقعات کو شیعہ سنی لڑائی بنا کر نہیں دکھا سکے۔
ہم نے دیکھا ہے کہ اہلسنت، شیعہ اور عراقی شیعہ سنی قبائل سب اکٹھے داعش کے مقابلے میں کھڑے ہوگئے تھے اور اس سے پہلے سب
لوگ امریکی قبضہ کے خلاف شانہ بشانہ کھڑے تھے۔ شام میں بھی جنہوں نے داعش، جبہۃ النصرہ اور دوسرے دہشت گرد گروہوں کے ساتھ مقابلہ کیا ہے، چاہے وہ شامی فوج ہو، چاہے عوامی فورس ہو یا اتحادی سپاہی ہوں، اِن میں زیادہ تر اہلسنت تھے یعنی جو شام میں لڑے ہیں، عام طور پر اہلسنت تھے، اِن کے ہمراہ شیعہ اور دوسرے اسلامی مذاہب کے لوگ بھی تھے۔ میں بہت سختی کے ساتھ قائل ہوں کہ ابھی تک جو کچھ ہوا ہے، چاہے یمن میں یا دوسرے ممالک میں، اس کے اندر تفرقہ اندازی کے پروجیکٹ کو شکست ہوئی ہے اور اس کا مطلب یہ ہے کہ اُمت مسلمہ کسی حد تک مذہبی منافرتوں کے خطرے سے دور ہو چکی ہے۔ لہذا واضح ہے کہ ہمیں اس راستے کو بڑھانا چاہیے تاکہ اِن نتائج کو قوت اور مضبوطی مل سکے۔ مسئلہ فلسطین میں پہلے سے زیادہ روابط ، تعاون اور حمایت کرنے سے، اسی طرح امریکہ کے مقابلے میں کھڑے ہونے اور خطے کی قوموں کا دفاع کرنے سے ممکن ہے کہ تمام عالم اسلام میں وحدت اور ہم آہنگی پیدا ہو جائے۔
سوال: حقیقت یہ ہے کہ کبھی کبھار فلسطینی قوم کی برائی چاہنے والے، اسلامی انقلاب اور مقاومت کی برائی چاہنے والے اس طرح کی تشہیر و تبلیغ کرتے ہیں کہ چونکہ فلسطینی عوام اہلسنت ہیں لہذا شیعوں کو اِن کی حمایت نہیں کرنی چاہیے، وہ لوگ فلسطینی قوم کے متعلق بہت غلط، گمراہ کن باتیں کرتے ہیں تاکہ ایرانی عوام فلسطینیوں کے بارے میں بدگمان ہو جائیں۔ وہ کوشش کرتے ہیں کہ یہ شک و شبہ پیدا کریں کہ ایران کیوں ایک سنی قوم کی حمایت کر رہا ہے؟ لیکن ہم نے مسلسل دیکھا ہے کہ حضرت آیت اللہ خامنہ ای ہمیشہ اس مسئلہ پر تاکید کرتے رہے ہیں، اور اب بھی کرتے ہیں کہ فلسطین، عالم اسلام کا ایک بنیادی اور اصلی مسئلہ ہے۔ ہم نے کئی مرتبہ غور کیا ہے کہ وہ مسئلہ فلسطین کو شیعہ سنی نگاہ سے دیکھتے ہی نہیں۔ اس بارے میں آپ کی کیا رائے ہے۔؟
سید حسن نصراللہ: حضرت آقا (رہبر معظم سید علی خامنہ ای) کا یہ موقف، صہیونیوں کے فلسطین پر قبضہ کے پہلے دن سے ہے۔ اسی طرح ہم شیعوں کے تمام علما، فقہا اور مراجع عظام، چاہے وہ نجف اشرف میں ہوں یا شہر مقدس قم میں ہوں یا دوسرے شہروں میں، سب کا یہی موقف رہا ہے۔ حتیٰ وہ بزرگ علما و مراجع، جنہیں پرانی روایات کا پابند تصور کیا جاتا ہے اور انہیں انقلابی نہیں کہا جاتا اگر یہ تعبیر صحیح ہو، انہوں نے ہمیشہ فلسطین کی حمایت کی ہے۔ وہ اسرائیلی قبضہ کو غلط قرار دیتے ہیں، وہ فلسطین کی مدد کو جائز کہتے ہیں۔ اِن سب نے وجوہات شرعیہ اور سہم امام، فلسطینی مقاومت کو دینے کے بارے میں تحریری طور پر اجازت نامے جاری کر رکھے ہیں، یہ بہت بڑا قدم ہے۔ آپ جانتے ہیں کہ ہمارے مراجع، عام طور پر سہم امام کے مصرف میں احتیاط سے کام لیتے ہیں لیکن اس مسئلہ میں اجازت دیتے ہیں کہ کل سہم امام یا اِس کا کچھ حصہ فلسطینی مقاومت کے لیے مخصوص کیا جائے جبکہ فلسطینی مقاومت کے لوگ شیعہ نہیں بلکہ اہلسنت ہیں۔ حتیٰ اُن میں سے کئی اسلام پسند بھی نہ تھے، مثال کے طور پر وہ قومی اور بائیں بازو کی تنظیموں کی طرف راغب تھے۔ ہمارے مراجع نے اُن کی مدد کرنے میں کسی شرط کو ملحوظ نہیں رکھا، انہوں نے صرف اجازت دے دی کہ سہم امام میں سے کچھ حصہ فلسطینی مقاومت کو دیا جا سکتا ہے تاکہ اس ذریعہ سے فلسطین آزاد ہو جائے۔ اس کا مطلب ہے کہ کافی حد تک بصیرت و آگاہی پائی جاتی تھی۔
مسئلہ فلسطین کے بارے میں جیسا کہ حضرت آقا نے کئی ایک محافل میں فرمایا ہے کہ اگر ہم کرہ ارض کو چھان لیں اور چاہیں کہ ہمیں ایک ایسا مسئلہ مل جائے جس پر کوئی گرد و خاک نہ ہو، یعنی اس کی مکمل حقیقت، قانونی، شرعی، دینی، اخلاقی اور انسانی اصولوں کے اعتبار سے واضح ہو تو وہ مسئلہ مسئلہ فلسطین ہے۔ غیروں کے پاس جتنے بھی وسائل ہیں، وہ مختلف حربوں کے ساتھ کوشش کرتے ہیں کہ ہمیں مسئلہ فلسطین سے دور کر دیں۔ یہی کوشش گزشتہ سالوں میں بھی انجام دی گئی یعنی جب فلسطینی فدائیوں کو شیعہ علاقوں میں دہشت گرد کارروائیوں کے لیے بھیجا گیا۔ اِسی وجہ سے کچھ سال پہلے میں نے روز قدس پر کہا تھا کہ آپ کیوں فلسطینی جوانوں کو اُجرت دے کر ہماری عورتوں اور بچوں کو قتل کرنے کے لیے بھیج رہے ہو؟ آپ اگر چاہتے ہو کہ ہمیں مسئلہ فلسطین سے دور کر دو تو پھر ہمیں ہر پتھر کے نیچے، ہر دروازے کے سامنے اور ہر مسجد و امام بارگاہ میں قتل کرو۔ ہم امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے شیعہ ہیں، فلسطین، فلسطینی قوم اور فلسطین کے اندر اُمت مسلمہ کے مقدسات سے پیچھے نہیں ہٹ سکتے۔ یہ باتیں عملی طور پر بھی ثابت ہیں بغیر کسی شک کے مسئلہ، حق کا مسئلہ ہے، اسلام کا مسئلہ ہے۔ اِسی بنا پر اسلامی جمہوریہ ایران، ہمیں اور تمام مسلمانوں کو اس مسئلہ کی نسبت اپنے شرعی و الہی فریضہ پر عمل کرنا چاہیے۔
سوال: اس مسئلہ کی اہمیت کے پیش نظر میں جناب کی خدمت میں دو سوال کروں گا، پہلا یہ کہ تقریب کے بارے میں حضرت آیت اللہ خامنہ ای کی عمومی رائے تو ہمیں معلوم ہے اور انہوں نے اپنی رہبری کے ابتدائی دور میں تقریب کے عنوان سے سلسلے شروع کیے تھے۔ آپ سے میں چاہوں گا کہ شیعہ و سنی کی وحدت اور تقریب کے حوالے سے حضرت آقا کے بعض اہم اقدامات اور بعض نظریات پر روشنی ڈالیں۔ مثال کے طور پر یہ بات مشہور ہے کہ انہوں نے اہلسنت کے مقدسات کی توہین کو حرام قرار دیا ہے اور اسی طرح کی کچھ مثالیں۔ دوسرا یہ کہ بعض لوگ اظہار کرتے ہیں کہ مختلف اسلامی ممالک جیسے لبنان، عراق، یمن اور بحرین میں بعض ایسے واقعات ہوئے ہیں، جن کی بنیاد ایران اور سعودیہ کے درمیان اختلافات ہیں، لوگ اِن اختلافات کو لے کر ایک دوسرے کے ساتھ جھگڑتے رہے ہیں۔ یہ بات کس حد تک ٹھیک ہے؟
سید حسن نصراللہ: پہلے سوال کے حوالے سے میں کہوں گا کہ مجمع تقریب مذاہب اسلامی کی تشکیل، اس موضوع پر ایران میں منعقد ہونے والی کئی ایک کانفرنسیں، سیمینارز اور حضرت آقا کی جانب سے ان کانفرنسوں، سیمینارز میں شرکت کی خصوصی ہدایات اور حاضرین و دنیا کے مسلمانوں سے خطاب کرنا، تقریب کے حوالے سے اِن کے اہم اقدامات میں سے ہے۔ ہم نے ایران میں منعقد ہونے والی وحدت اسلامی کانفرنسوں میں دیکھا ہے کہ حضرت آقا حفاظتی اصولوں کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے شیعہ سنی علما کے درمیان آ جاتے ہیں، گرم جوشی کے ساتھ اُن سے ملتے ہیں۔ اس خصوصیت کے پیچھے اُن کی تاکید اور وہ شدید خواہش ہے جو وہ اسلامی معاشروں اور مسلمان علماء کے درمیان تہذیب وحدت کے عنوان سے دیکھنا چاہتے ہیں۔ وہ علما کے درمیان اتحاد قائم کرنے والی محافل کی پُر زور حمایت کرتے ہیں۔ ہم نے بھی لبنان میں مجمع علمائے مسلمان کے نام سے ایک تنظیم بنا رکھی ہے، جس کا تجربہ بہت کامیاب رہا، اس سے اسلامی مذاہب کے درمیان اتحاد کی فضا قائم کرنے میں ہمیں بہت مدد ملی ہے۔ بہت سے شیعہ علما اور اہلسنت علما اس تنظیم کے رکن ہیں۔ جب بھی تجمع علمائے مسلمان کے اراکین نے ایران کا سفر کیا اور حضرت آقا سے ملاقات کی ہے تو آقا نے اس تجمع کی تشکیل کو سراہا اور ایسی تنظیموں کی تشکیل کو دوسرے ممالک میں بھی ضروری قرار دیا۔
گزشتہ سالوں میں انہوں نے انتہائی بے باک موقف اختیار کیا۔ دوسری جانب ہم گزشتہ سالوں میں اس بات کے گواہ ہیں کہ شیعہ و سنی کے درمیان اختلافات کو ہوا دی گئی، تفرقہ اندازی کی گئی، افسوس ہے کہ ان حالات میں بعض وہابی اور تکفیری تنظیموں نیز کچھ اہلسنت سے تعلق رکھنے والے ٹی وی چینلز جیسے صفا اور وصال نے شیعہ کو کافر قرار دینے کی ٹھان لی اور بڑے بڑے جھوٹوں کی نسبت شیعوں کے ساتھ دی گئی۔ انہوں نے ایسے افکار و اعتقادات کی نسبت شیعوں کے ساتھ دی کہ جنہیں شیعہ بنیاد سے ہی تسلیم نہیں کرتے۔ ان کے مقابلے میں کچھ ٹی وی چینلز اور شخصیات جو خود کو شیعہ کہتے ہیں، جن کا حقیقت میں شیعوں سے کوئی تعلق نہ تھا اور نہ ہے، یہ لوگ اس دور کے مسائل سے لاتعلق ہیں، جیسے اُمت مسلمہ، عالمی استکبار، استبداد اور طاغوت، آزادی، قابل احترام جگہوں اور مقدسات کا دفاع، اِن کے لیے کچھ بھی اہم نہیں، اِن کا کام صرف شیعہ و سنی کے درمیان اختلاف پیدا کرنا ہے اور اپنی دوسری طرف والے کو گالی بکنی ہے، انہیں برا بھلا کہنا ہے۔ یہ وہی چیز ہے، جسے حضرت آقا لندنی تشیع کا نام دیتے ہیں۔ دونوں طرف یعنی شیعہ و سنی کے چینلز کو دیکھ کر یوں لگتا ہے کہ دونوں ایک ہی جگہ کے تحت فرمان چل رہے ہیں۔ مثال کے طور پر ہم دیکھتے
ہیں کہ شیعوں سے منسوب بعض چینلز ازواج پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ یا آپ (ص) کے صحابہ کو گالی دیتے ہیں جبکہ دوسری جانب کے وہابی چینلز اِن گالیوں کی تشہیر کرتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان چینلز میں سے ہر کوئی مذہبی بنیاد پر شیعہ و سنی کے درمیان فتنہ و فساد برپا کرنے میں ایک دوسرے کو مکمل کر رہا ہے۔
واضح ہے کہ یہ چیز مسلمانوں پر گہرے اور خطرناک اثرات مرتب کرے گی۔ میں نے لبنان کے بڑے اہلسنت علما، نیز دوسرے ممالک جیسے شام اور مصر کے علما سے بات کی ہے اور انہوں نے مجھ سے کہا ہے کہ یہ مسئلہ بہت خطرناک ہے اور صرف ایک ہی شخص ہے جو اس مسئلہ کو حل کر سکتا ہے، اِن امواج کے مدمقابل کھڑا ہوسکتا ہے کیونکہ اس کام کے لیے شجاعت و بہادری اور بلند مرتبہ شخصیت کی ضرورت ہے تاکہ وہ اس حوالے سے حتمی موقف اختیار کرے یعنی فتنہ کی آنکھ پھوڑ دے۔ کچھ سال پہلے جب میں حضرت آقا سے ملا تھا، میں نے یہ مسائل اور اس کے بعض موارد اِن کی خدمت میں عرض کیے تھے، بعض نام بھی اِن کے سامنے ذکر کیے تھے۔ انہوں نے فرمایا کہ جی ہاں، جو کچھ ہو رہا ہے وہ انتہائی خطرناک ہے، بدترین واقعہ اور بدترین کاموں میں سے ایک یہی مذاہب کی ممتاز شخصیات کی توہین کرنا اور انہیں گالی دینا ہے۔ ہمیں اس کے مقابلے میں مضبوط موقف اختیار کرنا چاہیے۔
مجھے یاد ہے کہ چند سال پہلے حضرت آقا نے استان کردستان کے سفر کے دوران شہر سنندج میں خطاب کیا۔
اس خطاب میں آپ نے اہلسنت کی ممتاز شخصیات کی توہین کے حرام ہونے پر تاکید کی تھی۔ اس کے باوجود حضرت آقا کے خطاب کو زیادہ عرصہ نہ گزرا تھا کہ ظاہر میں شیعہ کہلوانے والے چینلز نے السیدہ عائشہ کے بارے میں انتہائی گندی زبان استعمال کرنا شروع کر دی۔ اُن پر ایسے الزامات لگائے کہ جنہیں شیعوں نے کبھی اور کہیں بیان نہیں کیا۔ یہ ایسا واقعہ تھا، جس میں گمان کیا جا رہا تھا کہ عالم اسلام میں کوئی بڑا فتنہ و فساد برپا ہو گا۔ اس کے بعد بعض علما نے رہبر معظم انقلاب سے مذاہب اسلامی کی ممتاز شخصیات کو گالی دینے کے حوالے سے سوالات کیے اور حضرت آقا کا اِن سوالات پر جواب اس قدر جرتمندانہ اور شفاف تھا کہ عربی و اسلامی ممالک میں اس کے بہت مفید اور گہرے اثرات مرتب ہوئے۔ میں دوٹوک انداز میں کہہ سکتا ہوں کہ شہر سنندج میں حضرت آقا کی تقریر اور علما کے سوالات پر جرتمندانہ جوابات نے شیعہ سنی فتنہ پرور چینلز کی سازش کو ناکام بنا دیا اور تفرقہ اندازی کرنے والوں کے سارے راستے بند کر دیے۔ علاوہ از این بفضل پروردگار، اُس زمانہ میں شہر قم و نجف اشرف کے مراجع عظام نے اپنے اپنے بیان میں واضح کیا کہ شیعوں کا اصلی و حقیقی موقف وہی ہے جو حضرت آقا نے فرمایا ہے۔
اب سوال کے دوسرے حصے کے حوالے سے کہوں گا کہ یہ تصور کرنا کہ خطے کے حالات حقیقت میں ایرانی سعودی لڑائی ہے، ایک بڑی غلط فہمی ہے۔ خطے میں لڑائی اور جنگ، ایران میں اسلامی جمہوری نظام قائم ہونے سے پہلے بھی موجود تھی یعنی جب ایک طرف ریشین فیڈریشن اور دوسری جانب امریکہ اور یورپ کی سرد جنگ چل رہی تھی۔ اسی طرح ایران میں اسلامی جمہوری نظام قائم ہونے سے پہلے خطے میں عرب اسرائیل جھگڑے بھی موجود تھے۔ عرب اسرائیل جنگ ۱۹۴۸ سے یعنی اسلامی انقلاب کی کامیابی سے پہلے تھی۔ اسی وجہ سے سعودی عرب کے خطے میں موجود ممالک اور مقاومتی گروہوں کے ساتھ مسائل کے نشانات، ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی سے پہلے جا ملتے ہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے، جسے سب جانتے ہیں۔ جب ایران میں اسلامی انقلاب کامیاب ہوا اور امریکہ کا ایک بہترین و قریبی دوست یعنی شہنشاہی حکومت سقوط کر گئی تو ایران میں اسلامی جمہوری نظام قائم ہوا، اس نظام نے مسئلہ فلسطین، مقاومتی گروہوں اور خطے کے مستضعفین کی حمایت کا اعلان کیا۔ اُنہی ابتدائی لمحات سے سعودی عرب نے اسلامی جمہوریہ سے دشمنی کا اعلان کیا۔ البتہ امام خمینی رحمہ اللہ نے انقلاب کی کامیاب کے ابتدائی دنوں سے ہی تمام عربی اسلامی ممالک کے ساتھ دوستی کا ہاتھ بڑھایا۔ اس بات سے ہٹ کر، آل سعود نے پہلے دن ہی یہ اندازہ لگا لیا تھا کہ اسلامی جمہوریہ ایران کا وجود خطے میں امریکی مفادات، اسرائیل، طاغوت، استعمار اور واشنگٹن و تل ابیب کے نوکروں کے لیے خطرہ شمار ہوتا ہے۔ اِسی بنا پر، اُس کے ساتھ دشمنی شروع کر دی۔ وہ کہتے ہیں کہ جب ایران کے خلاف جنگ میں انہوں نے صدام کا ساتھ دیا تو انہوں نے ۲۰۰ ملین ڈالر کی مدد کی۔ یہ اُس وقت کی بات ہے جب تیل کی قیمت بہت کم تھی۔
مجھے یاد ہے کہ کچھ سال پہلے سعودی شہزادوں میں سے ’’نائف‘‘ نام کے ایک شہزادے نے کہا تھا کہ اگر اُس زمانہ میں سعودیہ عرب اِس سے بھی زیادہ صدام کی مالی امداد کرسکتا ہوتا تو ضرور کرتا لہذا اسلامی جمہوریہ ایران کے ساتھ دشمنی، جنگ اور سازش شروع کرنے والا، سعودیہ عرب تھا جبکہ ایران نے اس کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا تھا۔ سعودی عرب کی ایران کے ساتھ مشکل بنیادی طور پر اُنہی مسائل کی طرف پلٹتی ہے، جن کی وجہ سے سعودیہ اور خطے میں فلسطینی مقاومت کے حامی ممالک کے درمیان روابط اچھے نہیں رہے۔ یہ ایک حقیقت ہے۔ خطے میں ایران اور سعودیہ کے درمیان کسی کی نیابتی جنگ نہیں ہے۔ لبنان میں اسلامی جمہوریہ ایران سے ہٹ کر، اسلامی انقلاب کی کامیابی سے پہلے بھی سعودیہ عرب مقاومتی گروہوں کے ساتھ دشمنی رکھتا تھا لہذا ہماری سعودیہ کے ساتھ مشکل، ایران کے ساتھ روابط نہیں ہے۔ اسی طرح سعودیوں اور فلسطینی مقاومت کے مسائل کا بھی ایران کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔ مثال کے طور پر جب سعودیوں اور مصر کے جمال عبد الناصر کے مابین سخت دشمنی چل رہی تھی، اُس وقت ایران میں ابھی اسلامی انقلاب نہیں آیا تھا۔ اسلامی جمہوری نظام قائم ہونے سے پہلے کے جھگڑوں کی اپنی واضح دلیلیں موجود تھیں۔ پھر جب ایران میں اسلامی انقلاب کامیاب ہوگیا اور اسلامی جمہوریہ نے اُمت مسلمہ اور عرب اقوام کے مسائل کو اہمیت دینا شروع کی تو سعودیوں نے دشمنی کرنا شروع کر دی، حقیقت یہی ہے۔
سوال: سعودی عرب کے حوالے سے گفتگو کے آخر میں اس بات کی طرف اشارہ کریں کہ حال ہی میں رہبر معظم انقلاب نے سعودیہ کو ایٹمی ہتھیار اور میزائل فراہم کیے جانے سے متعلق فرمایا ہے کہ ہم ناراض نہیں ہیں کیونکہ بہت جلد یہ ہتھیار مجاہدین اسلام کے اختیار میں آ جائیں گے۔ حضرت آقا کے اس بیان کو آپ کس طرح دیکھتے ہیں؟
سید حسن نصراللہ: سعودی عرب پر حاکم نظام ایک بوڑھا نظام ہے، بہت زیادہ بوڑھا اور عمر رسیدہ ہو گیا ہے۔ طبعی حالات کے تحت یہ نظام شاید اپنا آخر دور گزار رہا ہے۔ خاندان آل سعود نے گزشتہ ایک سو سال سے آج تک دوسرں پر ہر طرح کا ظلم روا رکھا ہے، اپنی قوم کے مال و اسباب کو لوٹا ہے۔ اس نظام کی رگ رگ میں برائی نے جڑ پکڑ لی ہے، اس ملک میں آزادی کا قلع قمع اپنی بلند ترین سطح تک پہنچ گیا ہے۔ علاوہ از این گزشتہ سو سال میں کرسی اقتدار کو سعودی خاندان کے اندر محدود اور مخصوص کر دیا گیا ہے۔ البتہ اب جس چیز نے اس سیاہ نظام کو اس کے انجام سے قریب کیا ہے اور مزید کرے گی، وہ موجودہ حکام کا کردار ہے۔ ایسا کردار جو ظاہر میں اور طریقہ کار میں سابقہ سعودی حکمرانوں سے بالکل مختلف ہے مثلاً سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے یمن پر جنگ مسلط کر دی اور آج ہم اس ملک میں دل دہلا دینے والے جرائم کو دیکھ رہے ہیں، اس میں شک نہیں ہے کہ اس اقدام کے اثرات سعودی نظام کے مستقبل پر ہونگے۔ دوسری جانب، دوسرے ممالک کے داخلی معاملات میں سعودی عرب کی واضح مداخلت، اُن دوسرے اسباب میں سے ایک ہے، جس کے اثرات اس نظام کے مستقبل پر ہونگے۔
مثال کے طور پر ہم عرب دنیا کے ممالک میں دیکھتے ہیں کہ سعودی حکام ہر ملک کے معاملات میں ٹانگ اڑاتے ہیں اور کوشش کرتے ہیں کہ خود کو اُس کی قوم کے ساتھ ظاہر کریں۔ ہم نے گزشتہ ۴۰ سالوں میں دیکھا ہے کہ سعودیوں کی کوشش تھی کہ خود کو سارے ممالک اور اقوام عالم کا دوست بناتے ہوئے یوں اظہار کریں کہ جیسے یہ ملک سب کا خیر خواہ اور مددگار ہے جبکہ ہم پہلی مرتبہ سن رہے ہیں کہ عربی ممالک کی فضاوں سے مردہ باد آل سعود کے نعروں کی گونج آ رہی ہے۔ یہ پہلی مرتبہ ہے کہ ہم دیکھ رہے ہیں، سیاسی و قومی جماعتیں اور اسی طرح حکومتیں، عرب ممالک میں سعودی جرائم اور دخل اندازی کے خلاف کھل کر موقف اختیار کر رہے ہیں۔ مختلف ممالک جیسے بحرین، یمن، عراق، افغانستان اور پاکستان
میں سعودیوں کی دخل اندازی صاف ظاہر ہے حتیٰ لیبیا میں جہاں اب بھی فوجی تنازعات جاری ہیں، ہم دیکھتے ہیں کہ لڑنے والے گروہوں میں سے کوئی ایک ضرور یہ کہتا ہوا نظر آتا ہے کہ سعودیہ عرب اور امارات، طرابلس اور لیبیا کی تباہی کے لیے سازش کر رہے ہیں۔ آج بہت سے عربی اور اسلامی ممالک میں، مختلف شخصیات اور اسی طرح جماعتیں، انجمنیں، علما اور حکومتیں، سعودی کردار سے نفرت کرتی ہیں اور اُن کے مخالف ہیں۔ اس مسئلہ میں، سعودیوں کا فلسطین اور معاہدہ صدی کے مذموم منصوبہ پر موقف کو بھی شامل کر لیں۔
ٹرمپ کے سامنے ذلت و خواری اور عاجزی کے اظہار سے سعودی حکام کی عزت و آبرو خاک میں مل جائے گی۔ سعودیوں نے ہمیشہ خود کو دوسروں سے الگ، محترم اور خادم حرمین شریفین ظاہر کیا ہے۔ ٹرمپ کے آخری دورہ سعودیہ اور آج کل جو کچھ وہ کانفرنسوں اور جلسوں میں کہتا پھر ہے، اُس پر غور کریں۔ وہ کہتا ہے کہ میں نے سعودی بادشاہ کو فون کیا اور اسے کہا، مجھے تم سے پیار ہے۔ وہ کہتا ہے کہ سعودی بادشاہ سے کہا کہ آپ کے پاس بہت زیادہ پیسہ ہے اور ہم نے آپ کی حمایت پر کافی خرچہ کیا ہے، لہذا آپ یہ خرچہ ادا کر دیں۔ ٹرمپ کہتا ہے کہ نیو یارک میں کسی دکاندار سے ایک سو ڈالر وصول کرنے سے کہیں زیادہ آسان ، سعودیہ سے اتنی بڑی رقم وصول کرنا تھا۔ اب آپ اس سعودی عرب، اس کے میڈیا اور حکام کو دیکھیں، کیسے چپ سادھے بیٹھے ہیں حتیٰ کہ دنیا میں اِن کے دوست، اُن کے تمام ذرائع ابلاغ، اس صورتحال پر ایک جملہ نہیں کہہ رہے، یہ پرلے درجے کی ذلت و خواری ہے۔ دوسری جانب ٹرمپ سعودیوں کو ذلیل کرنے اور اُن کا مذاق اڑاتے ہوئے یوں کہتا ہے کہ امریکی سعودیوں پر ہنستے ہیں اور انہیں اپنے لیے مسخرہ قرار دیتے ہیں۔
سوال: اِن حالات میں بھی اگر عالم اسلام سے کوئی شخصیت سعودیوں کے بارے میں بات کر دے تو انہیں سخت غصہ آ جاتا ہے۔
سید حسن نصراللہ: جی ہاں ! ایسا ہی ہے حتیٰ ممکن ہے کہ اُس ملک اور اس کے سربراہ کے ساتھ اپنے سیاسی روابط بھی توڑ لیں۔ اُن پر کفر کا فتویٰ لگا دیں اور اُن کی گردن اڑا دینے کا حکم جاری کر دیں۔ میں بڑے یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ سعودی عرب نے اپنی پوری تاریخ میں اس قدر ذلت، نیچ پن، کمزوری، حقارت اور رسوائی نہیں دیکھی۔ بالکل اسی وجہ سے میرا خیال ہے کہ موجود سعودی حکام زیادہ دیر تک اقتدار کی کرسی پر نہ رہیں گے۔ سنت الہی و تاریخی، معاملات کا انداز یہ بتاتا ہے کہ وہ زیادہ لمبے عرصہ تک نہیں چل سکتے۔
سوال: رہبر معظم سے جو آپ کی ملاقاتیں رہیں اور اِن کی نگاہ میں جہان اسلام کے اندر رونما ہونے والے واقعات میں عوامی کردار کی اہمیت کو آپ کس نگاہ سے دیکھتے ہیں؟
سید حسن نصراللہ: ہم نے حضرت آقا سے جو کچھ سنا ہے، چاہے عمومی محافل ہوں، عام ملاقاتیں ہوں یا خاص ملاقاتیں ہوں، سب میں آپ نے ہر مسئلہ کے لیے وسیع عوامی شرکت پر خاص تاکید کی ہے۔ انہوں نے ہمیشہ اس بات پر زور دے کر تاکید کی ہے کہ اگر آپ کی کوئی مخصوص تنظیم ہو یا کوئی خاص انجمن ہو پھر بھی اُس کی مقبولیت عوامی ہونی چاہیے۔ کسی بھی تنظیم، انجمن یا جماعت کو اپنی عوامی مقبولیت سے دور نہیں ہونا چاہیے، حقیقی طاقت، آپ کے ساتھ عوام کا موجود ہونا ہے۔ البتہ یہ وہی چیز ہے، جسے ہم نے انقلاب اسلامی ایران میں بھی مشاہدہ کیا تھا۔ ہم نے حزب اللہ لبنان میں بھی ایسا تجربہ کیا ہے۔ لبنان میں حزب اللہ کی طاقت صرف ہمارے پاس فوجی ہتھیار کا ہونا ہی نہیں بلکہ وہ شہرت و مقبولیت ہے، جو اس نے عوام کے مختلف طبقوں میں حاصل کی ہے۔ فلسطین میں بھی جو کوئی اسرائیلی قبضہ اور جارحیت نیز سازشوں جیسے معاہدہ صدی کے ساتھ مقابلہ کر رہا ہے، وہ فلسطینی قوم ہے۔ فلسطینی مقاومتی تحریکیں، فلسطینی قوم کے بل بوتے پر اپنی مقاومت اور جہاد کو جاری رکھے ہوئی ہیں، اسی بنیاد پر کھڑی ہیں اور جرتمندانہ موقف اختیار کر سکی ہیں۔ آج یمن میں اگر انصار اللہ کے ساتھ عوام کھڑی نہ ہوتی، اس کی حمایت نہ ہوتی تو کیا انصار اللہ برادر عزیز سید عبد الملک الحوثی کی قیادت میں جنگ کے پانچویں سال میں داخل ہو سکتی تھی؟
عوامی حمایت کے بغیر کیا جنگ کو جاری رکھا جاسکتا تھا۔؟ ہم یمن کے کئی صوبوں منجملہ صعدہ اور صنعا میں وسیع عوامی شرکت کے شاہد ہیں۔ یہ اِن حالات میں ہے کہ جب یمن میں جنگ کی وجہ سے بڑی بڑی مشکلات پیدا ہو چکی ہیں، وبائی بیماریاں اور محاصرہ موجود ہے لیکن اس کے باوجود ساری یمنی عوام، مرد و زن سے بوڑھے و جوان تک، سارے لوگ مختلف حوالوں سے سڑکوں پر آ جاتے ہیں، اِسی عوامی شرکت نے فوج اور یمنی عوامی جماعتوں کو سعودی اور امریکی حملوں کے مقابلے میں کھڑے رہنے کی طاقت دی ہے۔ ایک اور مثال عراق ہے، داعش کے مقابلے میں کون کھڑا ہوا ؟ عراق میں داعشی دہشت گردوں کے سامنے لوگ کھڑے ہوئے ہیں۔ عراق میں جو کوئی داعش کے سامنے سینہ تان کر ڈٹا، وہ عراقی قوم اور حشد الشعبی تھے، جو مرجعیت کے فتویٰ، حضرت آقا اور اسلامی جمہوریہ ایران کی حمایت کے بعد گھروں سے نکل پڑے۔ اگر حشد الشعبی، فوج اور مرجعیت کی عراقی عوام حمایت نہ کرتی تو تکفیری دہشت گردوں کا مقابلہ نہ ہو سکتا اور انہیں شکست دینا ممکن نہ تھا۔
تمام میدانوں میں ایسا ہی ہے لہذا قوموں کا مسئلہ بنیادی مسئلہ ہے۔ اب اصلی سبب اور حقیقت میں جس چیز نے دسیوں سال کی سازشوں اور فریب کاری کے بعد بھی مسئلہ فلسطین کو زندہ رکھا ہوا ہے، نیز خطے میں فلسطینیوں کے خلاف امریکی منصوبوں اور چالوں کو گزشتہ کئی سالوں کے اندر یکے بعد دیگرے شکست سے دوچار کیا ہے، یہی عوامی حمایت ہے، حکومتی فیصلے اور موقف نہ تھے۔ قوموں کے فیصلے، قوموں کا قیام، اپنے مسائل کی طرف توجہ، معاملات میں موجود رہنا، جانثاری، مختلف میدانوں میں دفاع ہی ہمیشہ ہر کامیابی کا اہم سبب رہا ہے، یہی مقاومت ہے۔ ہم لبنانی محاورے میں کہتے ہیں کہ قوم اور مقاومت دریا میں مچھلی اور پانی کی مانند ہیں۔ مچھلی پانی سے باہر زندہ نہیں رہ سکتی، اس کا مطلب یہ ہے کہ کوئی بھی مقاومتی تحریک، قوم کے دائرہ اور اس کی حمایت سے باہر نہیں رہ سکتی، نہ مقاومت کر سکتی ہے اور نہ کامیاب ہو سکتی ہے۔
سوال: آپ نے عراق کا ذکر کیا ہے، ہم نے گزشتہ سالوں میں عراق کے اندر بہت اہم واقعات اور تبدیلیوں کو دیکھا ہے، کہا جاسکتا ہے کہ اس عرصہ میں اس ملک کے اندر دو واقعات زیادہ اہم ہیں، پہلا صدام کے بعد غیروں کے ذریعہ سے عراق پر قبضہ تھا۔دوسرا اہم واقعہ دہشت گرد گروہ داعش کا منظم ہونا تھا۔ اس دہشت گرد گروہ کے منظم ہونے کے بعد عراق پر زبردست حملے ہوئے۔ اس گروہ کے ذریعہ سے اس ملک کے بعض اہم علاقوں پر قبضہ کیا گیا لیکن اس کے بعد امریکی قابض اور داعشی قابضین کو مجبور ہو کر عراقی سرزمین سے نکلنا پڑا۔ سوال یہ ہے کہ عراق کے مختلف حالات میں اسلامی جمہوریہ ایران نے کیا کردار ادا کیا۔؟ اِن اہم واقعات میں اور عراق کے اندر اتحاد کی فضا قائم رکھنے میں اسلامی جمہوریہ ایران کی سیاست کیا تھی؟ اس کے علاوہ گزشتہ کچھ سالوں میں عراقی کردستان کے اندر بھی بعض اہم واقعات رونما ہوئے ہیں، ہم آپ سے چاہتے ہیں کہ اس پر بھی کچھ اظہار خیال کریں۔
سید حسن نصراللہ: پہلی بات یہ ہے کہ عراق پر امریکی تسلط کی ابتدا سے ہی اسلامی جمہوریہ ایران اور حضرت آقا کا اِس تسلط کے حوالے بڑا واضح موقف موجود تھا۔ اسلامی جمہوریہ ایران نے شروع سے ہی عراق پر اس امریکی تسلط کو ناجائز قرار دیا تھا۔ عراق پر امریکی حملہ سے پہلے ہی ایران کا موقف بڑا واضح اور شفاف تھا۔ پھر عراق پر امریکی قبضہ کے بعد اسلامی جمہوریہ ایران نے دو ٹوک موقف اختیار کرتے ہوئے اس ملک سے امریکیوں کے نکل جانے اور اسے عراقی عوام کے حوالے کرنے کا مطالبہ کیا۔ یہ بہت بڑا اور انتہائی اہم سیاسی موقف تھا۔ دوسری بات یہ ہے کہ عراق پر امریکی قبضہ کے بعد اسلامی جمہوریہ ایران نے عراقی جماعتوں، انجمنوں، مختلف گروہوں کو آپس میں متحد رکھنے کی کوششیں تیز کر دیں تاکہ یہ لوگ قابضین کے سامنے یک زبان اور متحد رہیں جبکہ اُس زمانہ میں امریکیوں کی کوشش تھی کہ عراق کے اندر موجود اختلافات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے، اپنے قبضہ کو باقی رکھیں۔ لہذا ایران کا دوسرا قدم، مختلف عراقی قائدین اور جماعتوں کے درمیان، فکری، سیاسی، مذہبی، نسلی اور علاقائی اختلاف کے باوجود ہم آہنگی پیدا کرنے کی کوشش کرنا تھا۔ اسلامی
جمہوریہ ایران نے عراق کے اندر اپنے اس اہم مقصد یعنی مختلف جماعتوں کے اتحاد کو حاصل کرنے کی خاطر تمام عراقی قبائل منجملہ اعراب، کرد، ترکمن، شیعہ اور اہلسنت کے ساتھ دو طرفہ دوستانہ روابط برقرار کیے۔
تیسری بات یہ ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران نے نجف اشرف میں دینی مرجعیت یعنی مرجع عالی قدر شیعان جہان آیت اللہ العظمیٰ سیستانی کی مکمل حمایت کی، کیونکہ نجف اشرف میں مرجعیت کی بہت زیادہ اہمیت تھی اور اہم و بنیادی فیصلوں پر وہ بہت زیادہ مؤثر تھے مثلاً عراق پر امریکی تسلط کے بعد وہ اس کوشش میں تھے کہ اس ملک پر نیا آئین نافذ کر دیا جائے۔ مرجعیت نے اس کی مخالفت کر دی کہ عراقی کسی نئے آئین کا انتخاب کریں اور پھر اس پر اتفاق کریں۔ جن مواقع پر مرجعیت نے قدم اٹھائے اور فیصلہ لیا یہ اُن میں سے صرف ایک مثال ہے۔ دوسرے بعض اہم مواقع میں سے ایک یہ تھا کہ جب عراقی مقاومتی گروہ قابض امریکہ کے سامنے ڈٹ گئے۔ اسلامی جمہوریہ ایران کی حمایت سے اِن کے حوصلے بڑھے۔ اسلامی جمہوریہ ایران کے موقف بالکل شفاف تھے، وہ عراق میں مقاومت کو جائز اور عراقیوں کا فطری حق تصور کرتے تھے۔ اُن کا کہنا تھا کہ یہ عراقیوں کا حق ہے کہ وہ اسلحہ اٹھائیں اپنی سرزمین پر قبضہ کرنے والوں کے خلاف جہاد کریں لہذا آخر کار امریکی عراق میں اپنے مقاصد حاصل نہ کرسکے۔ اسلامی جمہوریہ ایران نے ہر مرحلہ پر نجف اشرف میں عالی قدر مرجعیت کے ساتھ مل کر عراق کے اندر کسی بھی قسم کی مذہبی منافرت اور مذہبی لڑائی کا راستہ روکا۔
اُس زمانہ میں جب تکفیری عراق میں داخل ہو گئے تھے، انہوں نے شیعہ علاقوں ، امام بارگاہوں، مساجد، مزارات معصومین علیہم السلام، منجملہ روضہ امام حسین علیہ السلام اور سامرہ میں امامین عسکریین علیہما السلام پر خود کش حملہ کر کے، شیعہ و سنی کے درمیان تفرقہ اندازی کی کوشش کی۔ اِن خود کش حملہ آوروں میں زیادہ تر حملہ آور سعودی شہری تھے۔ ان کے لیے بم نصب شدہ گاڑیاں سعودی خفیہ اداروں کی طرف سے بھیجی جاتی تھیں لہذا ریاض کی جانب سے عراق کے اندر مذہبی منافرت پھیلانے کی بھرپور کوشش کی گئی لیکن نجف اشرف میں دینی مرجعیت اور اسلامی جمہوریہ ایران کی کوششوں کی بدولت قبائل کے درمیان اور اندرونی جنگ نہ ہوسکی، البتہ بعض اکا دکا واقعات پیش آئے تھے۔ ایک طرف سیاسی مقاومت، سیاسی کوششوں سے اور دوسری طرف مسلحانہ مقاومت کی بنا پر امریکیوں کو اندازہ ہو گیا کہ وہ عراق میں زیادہ عرصہ نہیں ٹھہر سکتے۔ وہ نور مالکی کی وزارت عظمیٰ کے دور میں، عراق سے اپنے نکلنے کے لیے کسی معاہدے کی کوشش میں تھے۔ بالآخر بغداد اور واشنگٹن کے مابین ایک معاہدہ امریکی افواج کی عراق سے عقب نشینی کے فیصلہ کا موجب بنا جبکہ امریکیوں کی خواہش تھی کہ زیادہ عرصہ تک عراق میں ٹھہریں۔ اُن کی کوشش تھی کہ مذاکرات اور معاہدوں کے ذریعہ کوئی ایسی بات طے ہو جائے جس سے مثلاً عراق میں مستقر ڈیرھ لاکھ فوج میں سے تقریباً ۵۰ ہزار فوج اسی ملک میں رہ جائے لیکن عراقیوں نے اسے قبول نہ کیا۔ اس فوج کی موجودگی پر بات کرتے ہوئے وہ تعداد کم کرنے لگے مثلاً ۳۰ ہزار ، ۲۵ ہزار ، ۲۰ ہزار اور آخر ۱۰ ہزار فوج کو عراق میں ٹھہرانے پر اپنی رضامندی کا اظہار کیا لیکن پھر بھی عراقیوں نے اس کی مخالفت کر دی۔
واضح ہے سارے عراقیوں نے تو انکار نہیں کیا لیکن عمومی تاثر یہی تھا۔ عراقی حکومت نے امریکی سپہ سالاروں اور فوجیوں کی حفاظت کی ذمہ داری لینے سے انکار کر دیا، اسی وجہ سے واشنگٹن بارک اوباما کی صدارت کے زمانہ میں اس نتیجہ پر پہنچا کہ عراق سے مکمل انخلا کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ جی ہاں! امریکیوں نے عراق میں اپنے کچھ سفارت کار، سفارت اور سفارتکاروں کی حفاظت کے لیے بڑی تعداد میں محافظین، اسی طرح کچھ کونسلرز کو چھوڑا لیکن کھلے عام امریکی فوجیوں کی موجودگی ختم ہو گئی، امریکی چوکیاں اکٹھی کر لی گئیں اور امریکی فوج کے عراق سے مکمل انخلا کا اعلان کیا گیا۔ یہ عراق اور عراقی عوام کے لیے ایک بہت بڑی فتح و کامرانی تھی۔ ایک اور واقعہ اُس وقت پیش آیا جب داعش ایک مصیبت بن کر آئی۔ داعش کو سب جانتے ہیں۔ داعش نے شام میں اپنی موجودگی یعنی شرق فرات اور بادیہ سے فائدہ اٹھایا، آپ کو یاد ہوگا کہ اس گروہ نے شام کے ۴۰ سے ۴۵ فیصد علاقے پر قبضہ کر لیا تھا۔ داعش کے سرکردہ لوگ عراقی تھے اور عراق پر اُن کی خاص توجہ تھی لہذا یہ دروازہ بھی کھول دیا گیا۔ عراق میں داعش کے ذریعہ سے جو کچھ ہوا، اس کے پیچھے امریکہ، خطے کے بعض ممالک اور سرفہرست سعودیہ عرب تھا۔ ہمیں سب کو یاد ہے کہ جب داعش موصل، دیالی، الانبار اور صلاح الدین میں داخل ہو رہی تھی تو سعودیہ عرب اور خلیج فارس کے ممالک کا میڈیا اس واقعہ کو ایک بڑی کامیابی قرار دے رہا تھا اور اس کے لیے تالیاں بجائی جا رہی تھیں۔ داعش بہت کم وقت میں عراق کے کئی ایک صوبوں اور اس کے وسائل پر قابض ہو گئی۔
عراقی فوج بکھر گئی، داعش نزدیک تھی کہ کربلا اور حتیٰ بغداد میں داخل ہو جائے۔ حالات بہت زیادہ خطرناک ہوچکے تھے۔ سامرا سے چند سو کلو میٹر دور داعش والے پہنچ چکے تھے اور امامین عسکریین علیہما السلام کے روضوں کے لیے خطرہ بن کر منڈلا رہے تھے۔ ابتدائی دنوں میں ہی اسلامی جمہوریہ ایران، عراق کی مدد کے لیے پہنچ گیا تھا۔ عراق کی دینی مرجعیت نے مقابلہ کرنے کا فیصلہ کیا اور حضرت آیت اللہ سیستانی نے جہاد کفائی کا فتویٰ جاری کیا۔ عراقی قیام کے لیے آمادہ ہوگئے لیکن اُنہیں ادارتی سربراہی اور اسلحہ بارود کی ضرورت تھی۔ اُس زمانہ میں عراق کے جنگی اسلحہ کا بیشتر حصہ داعش کے ہاتھ لگ چکا تھا۔ عراقیوں کا کہنا تھا کہ اسلحہ ڈپو خالی ہو گئے ہیں۔ ہمیں یاد ہے کہ ابتدائی دنوں میں برادر عزیز جناب قاسم سلیمانی اور سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی ایران کے عہدیداران بغداد گئے۔ انہوں نے عراقی مقاومتی گروہوں کو منظم کیا، عراقی فوج اور اُن کے درمیان رابطہ برقرار کیا اور ایک ہم آہنگی پیدا کی۔ جناب نوری المالکی بھی مسلسل رابطے میں تھے اور پھر داعش کے مقابلے میں مقاومت کا مضبوط بند باندھ دیا گیا۔ کچھ دنوں بعد جناب قاسم لبنان آئے اور مجھ سے ملاقات کی۔ انہوں نے ہم سے چاہا کہ حزب اللہ کے ۱۲۰ لوگوں کو عراق میں جہاد کی سربراہی اور نگرانی کے لیے بھیجیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں مجاہدین کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ اس وقت عراق میں مجاہدین بڑی تعداد میں موجود ہیں لیکن مختلف علاقوں میں کارروائیوں کیلئے سپہ سالاروں کی ضرورت ہے۔
ہم نے بھی اپنے بہت سے دوستوں کو عراق روانہ کیا۔ ایران و عراق کی درمیانی سرحد کھول دی گئی تاکہ اسلحہ بارود کو سرحدی علاقوں تک پہنچا دیا جائے اور تہران یا دور دراز کے علاقوں سے لانے کی ضرورت نہ رہے۔ جنگی ساز و سامان کو عراق پہنچانے نیز عراقی فوج اور حشد الشعبی کو اسلحہ سے لیس کرتے ہی سخت دفاعی جنگ کا آغاز ہو گیا۔ سارے عراقی اس حقیقت کو جانتے ہیں۔ یہ وہ موقعہ تھا جب اسلامی جمہوریہ ایران نے جرتمندانہ موقف اختیار کیا اور عراق کی مدد کو پہنچا۔ داعش کے قبضہ کا انکار کیا اور کھلم کھلا، بے باک ہو کر، بغیر کسی شک و شبہ کے تکفیریوں کے ساتھ جنگ کا آغاز کیا اور امدادی سامان کی ترسیل کا کام جاری رکھا۔ سپاہ پاسداران کے بہترین سپہ سالار عراق پہنچے تاکہ عراقیوں کی مدد کر سکیں۔ ایرانی وسائل عراقیوں کے اختیار میں دیے گئے۔ سب جانتے ہیں کہ داعش کو شکست دینے کی خاطر عراقی قوم اور عراقی فوج کی مدد کرنے کے حوالے سے حضرت آقا کا موقف یہ تھا کہ کوئی سرخ لکیر وجود نہیں رکھتی جو اسلامی جمہوریہ ایران کو اِن کی مدد سے روک سکے۔ الحمد للہ، عراقی دینی مرجعیت کی برکت اور جہاد کفائی کے فتویٰ، حضرت آقا کے واضح موقف، اسلامی جمہوریہ ایران کی قابل قدر حمایت، سپاہ پاسداران کے عزیزوں کی شرکت بالخصوص سپاہ قدس کی آمد، حشد الشعبی کے اقدامات، عراقی افواج کی قربانیوں اور اسی طرح عراقیوں کے قومی اتحاد، خاص طور سے داعش کے مقابلہ میں شیعہ سنی اور کردوں کے اتحاد کی برکت سے کچھ ہی سالوں کے اندر اس ناپاک گروہ کے مقابلہ میں عظیم فتح حاصل ہوئی۔ اگر اسلامی جمہوریہ ایران، حضرت آقا اور دینی مرجعیت کی جانب سے یہ تاریخی اور مضبوط موقف اختیار نہ کیا جاتا، حشد الشعبی، عراقی حکومت اور افواج کے جرتمندانہ اقدامات نہ ہوتے تو یہ عظیم فتح حاصل نہ ہوتی۔