پی ٹی آئی پنجاب کے رہنماء، خوشاب سے قومی اسمبلی کے رکن اور قائمہ کمیٹی برائے خارجہ امور کے ممبر ملک محمد احسان اللہ ٹوانہ کیساتھ یمن کے مسئلے پر سعودیہ ایران کشیدگی ختم کروانے کیلئے وزیراعظم کی کوششوں، دورہ چین، مسئلہ کشمیر کے پس پشت ڈالے جانے کے خدشات اور مولانا فضل الرحمان کے ممکنہ آزادی مارچ و دھرنے کے حوالے سے حکومتی حکمت عملی سمیت اہم ایشوز پر اسلام ٹائمز کا انٹرویو قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔ (ادارہ)
اسلام ٹائمز: پاکستان کا پرائم کنسرن کشمیر ہے، اسے پسِ پشت ڈال کر حکومت نے یہ کیوں طے کر لیا ہے کہ پاکستان عالمی سطح پر جاری کشمکش کو ختم کروائے، کیا یہ کشمیر سے توجہ ہٹانے کے مترداف نہیں؟
احسان اللہ ٹوانہ: کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے، جس طرح پاکستان کو کشمیر کا احساس ہے، اسی طرح اگر ہمارے جتنا نہیں بھی تو مسلمان ممالک کے عوام کو بھی کشمیر میں ہونیوالے مظالم پہ دکھ اور تکلیف کا احساس ہے، امت مسلمہ کا حصہ اور ایک مسلمان ایٹمی طاقت ہونیکے ناطے برادری اسلامی ممالک کے درمیان تنازعات نہ صرف عالم اسلام کی کمزور کا باعث ہیں، بلکہ اس کے اثرات پاکستان اور مسئلہ کشمیر پر بھی مرتب ہوتے ہیں۔ جس طرح اسکی پذرائی ہوئی ہے، اس سے محسوس ہوتا ہے کہ خود مسلمان ممالک بھی تناؤ میں کمی لانا چاہتے ہیں۔ دنیا میں اس وقت جتنے بھی علاقائی تنازعات عالمی امن کے لئے خطرے کی گھنٹی بجا رہے ہیں، وہ کسی نہ کسی طور مسلمانوں ہی کو اپنی لپیٹ میں لئے ہوئے ہیں۔ جموں و کشمیر اور فلسطین کے مسلمان کئی عشروں سے بھارت اور اسرائیل کی چیرہ دستیوں کا شکار ہیں۔
ان کی داد رسی کے لئے اقوام متحدہ کی قراردادیں موجود ہیں، لیکن عالمی برادری ان پر عملدرآمد کرانے کے معاملے میں بے حسی کا شکار ہے۔ یہ ایک خوشی کی بات ہے کہ وزیراعظم عمران خان نے حالیہ دنوں اس نیک کام کے لیے قدم اٹھایا ہے۔ اس سے کشمیر کا مسئلہ حل کرنے میں بھی مدد ملے گی، جہاں عمران خان دوسرے ممالک کو پرامن طریقے سے تنازعات حل کرنے اور کشمکش ختم کرنیکے لیے جا کر مل رہے ہیں، اس سے پاکستان کا وزن بڑھ رہا ہے، ساتھ ساتھ کشمیر کی صورتحال پر بھی قریبی دوست اسلامی ممالک کو اعتماد میں لیا جا رہا ہے، وقت آنے پر یہ تعلقات زیادہ مفید انداز میں کشمیر کاز کیلئے کام میں لائے جا سکتے ہیں، یہ سفارتی عمل ہے، جو سست رفتار ہو سکتا ہے، اس سے کشمیر کے پائیدار حل کی جانب بڑھنے میں مدد ملے گی، پاکستان کا یک نکاتی ایجنڈا اب بھی کشمیر ہے، جس کے لیے نہ صرف وزیراعظم، وزارت خارجہ بلکہ پوری پاکستانی ریاست اور حکومت اپنا کردار ادا کر رہی ہے۔
اسلام ٹائمز: آپ کے خیال میں ان تنازاعات کے پس پردہ عوامل کا تعلق صرف مسلمان ممالک سے ہے یا یہ کسی عالمی سازش کا نتیجہ ہیں؟
احسان اللہ ٹوانہ: مسلمان شروع سے بیرونی دشمنیوں کا نشانہ ہیں، جسکی وجہ سے فلسطین اور کشمیر جیسے مسائل ختم ہونے اور حل کرنے میں رکاوٹیں رہتی ہیں، ان تمام مسائل اور سازشوں کے پیچھے اسرائیلی لابی کارفرما ہے، جب ہم عمران خان کے کردار کی بات کرتے ہیں تو ایسا ہی ایک تنازع یمن کا بھی ہے، جو کئی سال سے چل رہا ہے مگر ختم ہونے کے بجائے روز بروز سنگین ہوتا جا رہا ہے۔ جسکی وجہ سے نوبت تیل کی تنصیبات اور تیل بردار جہازوں پر حملوں تک آ گئی تھی، اس سے دو بڑے اسلامی ممالک جنگ کے دہانے پر پہنچ چکے ہیں۔ امریکہ ایران کو نشانے پر لئے ہوئے ہے اور اس کے خلاف آئے روز اقتصادی پابندیاں سخت کر رہا ہے۔ ایسے میں عالم اسلام میں سے صرف پاکستان کو یہ توفیق ہوئی کہ سعودی عرب اور ایران کے مابین بڑھتی ہوئی مخاصمت ختم کرا کے مفاہمت کی راہ ہموار کرنے کے لئے اپنا ملّی کردار ادا کرے۔
پاکستان کی جانب سے یہ باور کروایا گیا ہے مسلمان ممالک کو باہمی طور پر لڑانے میں اسرائیلی لابی کا کردار ہے، جیسا کہ کشمیر میں موجودہ صورتحال اور پاکستان پر فضائی حملوں کے پس پردہ بھی اسرائیل کی آشیر آباد حاصل تھی۔ آئی ایس آئی کے سربراہ خصوصی طور پر اسی لیے وزیراعظم کیساتھ تھے۔ نہ صرف جنگ ڈل جائیگی، بلکہ عالم اسلام کو تباہ کرنیکی سازش بھی ناکام ہو جائیگی۔ وزیراعظم عمران خان کو اسلامی دنیا اور عالمی برادری میں اچھی نظر سے دیکھا جاتا ہے، اسکی ضرورت بھی تھی، اب پاکستان کی جانب سے بالآخر وہ قدم اُٹھ چکا ہے، جس کی شدید ضرورت محسوس کی جا رہی تھی۔ پاکستان کے عوام میں شدت سے یہ احساس پایا جاتا ہے کہ برادر اسلامی ممالک کے باہمی تنازعات کا حل مل بیٹھ کر افہام و تفہیم سے نکلنا چاہیے، چنانچہ پچھلے کچھ عرصے کے دوران سعودی عرب اور ایران کے مابین پائی جانے والی نزاعی کیفیت کو پاکستان میں غیر معمولی تشویش کے ساتھ لیا گیا اور یہ احساس تقویت اختیار کرتا گیا کہ ہر دو ممالک کے مابین معاملات میں اعتدال کے لیے کوششیں کی جائیں۔
اسلام ٹائمز: خارجہ تعلقات کا دائرہ وسیع کیے بغیر پاکستان کیلئے ممکن نہیں کہ کشمیر کاز اور قومی مقاصد کو آگے بڑھایا جا سکے، اس ضمن میں صرف مسلم ممالک پہ انحصار کافی ہے؟
احسان اللہ ٹوانہ: یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ میڈیا میں صرف کسی ایک رخ کو اتنا زیادہ نمایاں کر دیا جاتا ہے کہ دیگر اہم مسائل چاہتے جتنے اہم ہوں وہ مدھم ہو جاتے ہیں، حالانکہ مشرق وسطیٰ کے ممالک کے درمیان تناؤ کم کرنیکی کوشش کے طور پر ایران اور سعودی عرب کے دورے سے پہلے عمران خان چین گئے ہیں، اس سے پہلے یو این او میں صرف تقریر نہیں کی بلکہ پورا ہفتہ گذارا ہے اور مسلسل سفارتی مہم جاری رکھی ہے، کشمیر کا مسئلہ وہاں بھی سرفہرست تھا۔ پہلے بھی پاکستانی سربراہِ حکومت کے دورۂ چین کی اہمیت ہمیشہ غیر معمولی ہوتی ہے، مگر مقبوضہ کشمیر کی صورتحال، افغانستان کے معاملات اور پاکستان کے معاشی مسائل کی وجہ سے یہ دورہ خصوصی اہمیت کا حامل تھا۔
اس لیے بھی یہ اہم ہے کہ وزیر اعظم پاکستان کے تین روزہ دورے کے اختتام پر چینی صدر بھارت کے دورے پر جا نے والے تھے۔ اس موقع پر پاکستانی قیادت کے لیے یہ اہم تھا کہ چینی حکومت کو مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے تشویش سے آگاہ کیا جائے، چینی حکومت کا موقف بھی سامنے آ نا ضروری تھا۔ حسبِ توقع چینی قیادت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر پر پاکستانی موقف کی پوری حمایت کی گئی ہے۔ پہلے بھی مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے چین کا موقف ہمیشہ سے پاکستان کی حمایت میں رہا ہے اور اس میں کبھی کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ پانچ اگست کے ناجائز بھارتی اقدام پر پاکستان کے بعد جن ملکوں نے دوٹوک موقف اختیار کیا، چین ان میں سر فہرست ہے۔
اسلام ٹائمز: اقوام متحدہ کے اجلاس کے موقع پر وزیراعظم کو اس وضاحت کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی کہ پاکستان کو چین سے حاصل ہونیوالا تعاون کسی معاوضے کے بغیر ہے؟ کیا پاک چین تعلقات میں بھی کوئی ایسی پنہاں چیز موجود ہے، جو وضاحت طلب ہے؟
احسان اللہ ٹوانہ: پاکستان ایک عرصے تک امریکی بلاک کا حصہ رہا ہے، یہ سارا سلسلہ چلتا بھی امداد پہ رہا ہے، صدر ٹرمپ نے بھی آتے ہی امریکی امداد کا طعنہ دیا، لیکن ایک سال سے بھی کم عرصے میں انکی غلط فہمی دور ہو گئی کہ پاکستان کو پیسے دیکر کام پہ لگایا گیا تھا، اسی لیے دنیا میں پاک چین تعلقات کو بھی اسی تناظر میں دیکھا جاتا ہے، لیکن خود چین کی کوئی ایسی پالیسی نہیں، یہی بات وزیراعظم عمران خان نے امریکہ میں ان سے پوچھے گئے سوال کے جواب میں کہی، وزیراعظم کے دورہ چین کے دوران بھی پاکستان اور چین نے سٹریٹیجک اشتراک عمل کو مستحکم کرنے اور نئے دور میں مشترکہ مستقبل کی تعمیر کے عزم کا اعادہ کیا گیا ہے، جو نئے دور میں مشترکہ مستقبل کی تعمیر، ایک واضح اشارہ ہے، جو پاک چین شراکت داری کے مستقبل کی وضاحت کرنے کیلئے کافی ہے۔
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اقوام کے باہمی تعلقات کی نوعیت باہمی مفادات پر ہی رکھی جاتی ہے،بے شک یہ ایک عالمی اصول ہے، مگر پاکستان اور چین کے سفارتی تعلقات اس نوعیت کو ظاہر کرنے والی تعریف سے مختلف ہیں، یہاں مشترکہ مستقبل کی تعمیر کا تصور پیش نظر رکھا جاتا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان نے بھی اسی لیے کہا ہے کہ چین نے پاکستان کی امداد کے عوض کبھی ایسا مطالبہ نہیں کیا جو پاکستان کے مفاد میں نہ ہو، جبکہ صدر شی جن پنگ کہہ رہے تھے کہ پاکستان اور چین کی شراکت چٹان کی طرح مضبوط اور لافانی ہے اور مستقبل میں یہ تعلقات مزید مضبوط، گہرے اور وسیع ہوں گے۔ خطے میں پاکستان ایک اہم کھلاڑی ہے، اس خطے میں عالمی طاقتوں کے پرانے مفادات ہیں، انکے لیے پاکستان بہت زیادہ اہم رہا ہے، جن میں سے اہم ترین اور دیرینہ ایشو افغانستان کا ہے، اورافغانستان کے حوالے سے بھی چین اور پاکستان کے موقف یکساں ہیں۔
صدر ٹرمپ کی جانب سے طالبان کے ساتھ یکا یک مذاکرات ختم کرنے کے بعد طالبان کے وفود نے پاکستان، روس، ایران اور چین کا دورہ کیا۔ یہ واقعات علاقائی سیاست میں پاکستان اور چین کی ہم آہنگی کو واضح کرتے ہیں۔ اس سارے کرادر میں بھی چین کا اپنا مفاد بھی ہے، لیکن وہ پاکستان کو نقصان نہیں پہنچنے دینگے، دوسری عالمی طاقتوں کی طرح پاکستان کو قربانی کا بکرا نہیں بنا رہے۔ پاک چین تعلقات میں یہ بھی مدنظر ہے کہ بھارت اور بھارت کے عالمی اتحادی کبھی افغانستان سے اور کبھی کشمیر اور ایک او سی پہ گڑبڑ کے ذریعے خطے کو سایسی اور معاشی طور پر غیر مستحکم رکھنا چاہتے ہیں، لیکن چین اور پاکستان اسے کامیاب نہیں ہونے دینگے، جس کے لیے دونوں ملکوں کے درمیان مکمل اعتماد پایا جاتا ہے، امریکہ کیساتھ تعلقات کی طرح شکوک و شبہات نہیں پائے جاتے۔
اسلام ٹائمز: پاک چین تعلقات کی تاریخی حیثیت سے کسی کو انکار نہیں لیکن فی الحال سی پیک پہ دوطرفہ تحفظات کی وجہ سے سردمہری کے تاثر کی وجہ سے منصوبوں میں تاخیر کے نقصانات کا ازالہ کیسے ہوگا؟
احسان اللہ ٹوانہ: یہ سچ ہے کہ تاریخی طور پر پاک چین تعلقات اور اس ہم آہنگی کو جو چیز نقطہ عروج تک پہنچا سکتی ہے اور مشترکہ مستقبل کی تعمیر کے خواب کی تعبیر بن سکتی ہے، وہ ہے پاکستان چین اقتصادی راہداری، مستقبل میں اس منصوبے کے پوٹینشل اور اس سے حاصل ہونے والے مفادات کو دیکھیں تو اسے دو ملکوں کے مابین تجارتی راہداری قرار دینا کافی نہیں، حقیقت میں یہ متعدد ملکوں اور خطوں کے مابین روابط کا سلسلہ ہے۔ مگر پاکستان میں ان منصوبوں کے بارے کبھی کبھار دم خم مدہم پڑ جاتا ہے، لیکن تشکیل پانے والی سی پیک اتھارٹی کے قیام سے سی پیک کے متعلقہ منصوبوں میں فیصلہ سازی اور عمل درآمد میں بہتری آئے گی۔
حکومت پاکستان کو اس ضمن میں اپنا کردار پوری طرح ادا کر رہی ہے۔ شاہراہوں کے منصوبے بڑی حد تک مکمل ہو چکے ہیں، مگر انڈسٹریل زونز اور گوادر کی ڈیویلپمنٹ کے کاموں کی رفتار سست ہے۔ بہرکیف یہ ذہن میں رکھا جائے کہ اقتصادی زونز کی تعمیر کے کاموں میں تاخیر کا خمیازہ قومی معیشت کو بھگتنا پڑے گا۔ اقتصادی راہداری کے علاقائی اثرات بھی غیر معمولی ہیں کیونکہ پاکستان کی جغرافیائی اہمیت کے باعث دنیا کے اس حصے میں پاکستان کا کردار ابھر کر سامنے آئے گا، یہ سب اقتصادی راہداری کی تکمیل سے مشروط ہے۔ گذشتہ ایک سال کے دوران جو تاخیر ہوئی ہے یہ نہیں ہونا چاہیے تھی۔ آئندہ اس کمی کو پورا کیا جاسکتا ہے۔
اسلام ٹائمز: حکومت نے مولانا فضل الرحمان کیساتھ بات چیت کا عندیہ دیا ہے، اس سلسلے میں پی ٹی آئی جے یو آئی کو کیا آفر کریگی؟
احسان اللہ ٹوانہ: ہم نے صرف مولانا فضل الرحمان یا جے یو آئی ہی نہیں باقی بھی جو اپوزیشن کی جماعتیں ہیں انکے ساتھ بات کرنیکا فیصلہ کیا ہے، اس میں مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی بھی شامل ہیں، ہم جمہوری عمل پہ یقین رکھنے والے لوگ، جو بھی مسائل ہوں وہ بات چیت سے حل کیے جانے چاہیں، انہیں بھی چاہیے کہ بات چیت ہی کریں، بیان بازی کی بجائے مل بیٹھ کر جو بھی تحفظات ہیں یا مطالبات ہیں وہ سامنے آ جائیں اسکے بعد انکو حل کرنیکی کوشش کی جائے۔ جب ہم نے دھرنا دیا تھا تو اسوقت کی حکومت نے بھی ایک کمیٹی بنائی تھی، ہم نے بھی ایک کمیٹی بنائی ہے، جب ہم احتجاج کر رہے تھے، دھرنا بھی دیا تھا، تو کبھی بات کرنے سے انکار نہیں کیا۔ ملکی حالات کو دیکھتے ہوئے اب بھی بات چیت ہی ہونی چاہیے، کشمیر کا مسئلہ ہے یا معیشت کو بہتر بنانا ہے تو ہمیں متحد ہو کر کام کرنا پڑیگا، نہ ہم ڈکٹیٹر ہیں، نہ ہی انہیں ایسا رویہ اپنانا چاہیے کہ مکمل طور پر بات کرنا ہی چھوڑ دیں۔ سب مسائل ٹیبل پہ بیٹھ کے حل کیے جا سکتے ہیں۔ کوئی ایسی مشکل بھی نہیں جسکی وجہ سے احتجاج کیا جا رہا ہے، یا کیا جائے۔
اسلام ٹائمز: اس سے پہلے وزیراعظم عمران خان بلاول بھٹو زرداری اور اپوزیشن جماعتوں کو پیشکش کیوں کرتے رہے کہ آئیں اور دھرنا دیں، ہم سب کچھ فراہم کرینگے، کیا آپ کے اندازے غلط نکلیں ہیں؟ اب روکنے کی باتیں کیوں کی جا رہی تھیں؟
احسان اللہ ٹوانہ: یہ بیانات کا سلسلہ تو شاید اب بھی چلتا رہے، لیکن پارٹی کی سطح پر جو فیصلے ہو رہے ہیں اس کے مطابق کسی سے احتجاج کا حق نہیں روکا جا رہا، صرف بات چیت پہ زور دیا جا رہا ہے۔ حالانکہ ہم جب نکلے تھے تو ہر طرف سے راستے روکے گئے تھے، چیف منسٹر پرویز خٹک کو بھی تشدد کر کے اسلام آباد آنے سے روکنے کی کوشش کی گئی تھی۔ اب بھی حکومت کی ذمہ داری ہے کہ پرامن احتجاج کیلئے کوئی رکاوٹ کھڑی نہ ہو، لیکن اگر یہ احتجاج پرامن نہ ہو تو اسے کنٹرول کرنا بھی حکومت کی ذمہ داری ہے۔ اس سے ملک کو نقصان پہنچتا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ انکا کوئی ایجنڈا بھی سامنے نہیں آ رہا، یہ کوئی چیز سامنے ہی نہیں لا رہے، صرف مارچ کرنا اور دھرنا دینا تو کسی جمہوری عمل کا حصہ نہیں، مولانا صاحب تو اپنی فورس تیار کر رہے ہیں، اسے لا کر اسلام آباد پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں تو اسے تو روکا جائیگا، احتجاج کی حدود قیود ہوتی ہیں، سب سے ضروری تو یہ ہے کہ وہ بتائیں چاہتے کیا ہیں، جو وہ نہیں بتا رہے۔ اتنا زیادہ ابہام موجود ہے، اس کے باوجود ہم تصادم نہیں چاہتے، لیکن جہاں تک برداشت ہو سکتا ہے کرینگے، اگر انکا ایجنڈا ہی صرف یہ ہے کہ حکومت کو گرانا ہے اور نظام کو ڈھانا ہے تو یہ کیسے برداشت کیا جاسکتا ہے، اس کے خلاف تو ایکشن ہوگا۔ وہ بات کرینگے تو مسئلہ آگے چلے گا، وہ بولنے کی بجائے گھورتے رہیں، دھمکاتے رہیں تو ہماری برداشت بھی کام چھوڑ دیگی، اس کے نتائج کی ذمہ داری مولانا فضل الرحمان پر ہوگی، نہ کہ حکومت پر۔
اسلام ٹائمز: جے یو آئی نے تو اپنا مطالبہ سامنے رکھ دیا ہے کہ وہ عمران خان کا استعفیٰ چاہتے ہیں، اسکی تائید پیپلز پارٹی بھی کر رہی ہے، اب اسکی روشنی میں آپ کی کیا حکمت عملی ہے؟
احسان اللہ ٹوانہ: ہم اسے اسے ایک ناقابل عمل بات سمجھتے ہیں، ہم جمہوری عمل کا حصہ رہتے ہوئے سیاست کر رہے ہیں، ہمیں بھی پتہ ہے کہ جب صورتحال یہ ہو تو کیا کرنا ہے، آئین اور قانون کے مطابق تمام تر وسائل کو استعمال میں لائیں گے، ہمارے نزدیک یہ ملک کیلئے نقصان دہ ہے، جمہوری عمل کیلئے نقصان دہ ہے، پاکستان جن خطرات میں گھرا ہوا ہے، اس مطالبے سے صرف ان میں اضافہ ہوگا۔ جب کوئی کسی ملک کیخلاف سازش کرے تو اسے روکنا سب کی ذمہ داری بن جاتی ہے، جس طرح ایک فوج کا کام ہے کہ بیرونی حملہ آوروں کو روکے تو اندرونی طور پر ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم ملک کیخلاف ہونے والی سازشوں کو کامیاب نہ ہونے دیں۔ ہم بار بار بات چیت کرنے اور جائز سیاسی مطالبات کی بات کر رہے ہیں، یہ تو حکومتی رٹ کو چیلنج کرنے والی بات ہے، جو ریاست کیلئے بھی بڑی خطرناک ہے، یہ نعرہ لگانے والوں کو شکست ہو گی اور پیچھے ہٹنا پڑیگا۔