تحریر: تصور حسین شہزاد
بشارالاسد کی حکومت کے خاتمے کے بعد شام پر 3 بڑے گروپوں کا کنٹرول ہے۔ ہئیت تحریر الشام بڑی جنگجو قوت ہے، شامی شہر ادلب کو ہیئت تحریر الشام کا گڑھ سمجھا جاتا ہے۔ دوسرا گروپ فورسز اکثریتی علاقے اور مشرقی شام پر کنٹرول رکھتا ہے۔ فورسز کو امریکی حمایت یافتہ گروپ بھی سمجھا جاتا ہے۔ تیسرا گروپ ترکیہ سے منسلک ’’شامی جنگجو گروپ‘‘ شمالی شام میں موجود ہے۔ ہیئت تحریر الشام کا شام کے 50 فیصد، ایس ڈی ایف کا 30 اور دیگر گروپس کا 20 فیصد کنٹرول ہے۔ بشارالاسد کے بعد اب اسرائیل مشرق وسطیٰ کا نقشہ اپنے مفاد میں تبدیل کرنا چاہتا ہے۔ اسرائیل کی کوشش ہے کہ شام کو توڑ کر تین حصوں میں تقسیم کر لیا جائے اور یوں اسے اپنے مفاد اور ایران کیخلاف استعمال کیا جا سکے۔ بشار الاسد کے بعد اب شام اسرائیل کے پاس ایک اہم اڈے کی شکل میں ہاتھ آگیا ہے۔
عالمی امور پر گہری نظر رکھنے والے تجزیہ کاروں کا دعویٰ ہے کہ بشار الاسد کی حکومت کے خاتمے کے بعد نئے شام کو اقتصادی بحران کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ نئی شامی انتظامیہ کو سب سے بڑے چیلنجز میں کمزور معیشت کا سامنا ہوگا۔ اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق شام کی 90 فیصد آبادی غربت میں زندگی گزار رہی ہے۔ شام میں 12.9 ملین لوگ غذائی عدم تحفظ کا شکار اور 6.8 ملین بے گھر ہیں۔ شامی حکام کو معیشت کی بہتری کیلئے شام کے تیل کے ذخائر تک رسائی حاصل کرنا ہوگی۔ شام کے تیل کے ذخائر شمال اور مشرقی شام میں کرد فورسز کے کنٹرول میں ہیں۔ یوں تیل کے ذخائر پر قبضے کیلئے بھی ایک نئی جنگ شروع ہوسکتی ہے۔
بشار الاسد کے انخلاء کے بعد جشن مناتے، ناچتے گاتے شامی عوام کیلئے آنیوالے دن زیادہ خوفناک ثابت ہوسکتے ہیں۔ ایک خانہ جنگی کی صورتحال پیدا ہونے سے شام کا امن داو پر لگ جائے گا۔ یہ گروہ جو آج اقتدار میں آنے پر نہال ہیں، کل یہی آپس میں دست و گربیاں ہوں گے۔ دوسری جانب قطر اپنا پہلا سرکاری وفد آج دمشق بھیجے گا۔ قطری حکام کا کہنا ہے کہ قطری وفد شام کی عبوری حکومت سے ملاقات کرے گا۔ اطلاعات کے مطابق شام میں سفارتخانہ دوبارہ کھولنے اور امداد کی ترسیل پر بات ہوگی۔ قطر کا شام میں سفارتخانہ جولائی 2011ء سے بند پڑا ہے۔ قطری انٹیلی جنس کے سربراہ ابراہیم قالن کے شام جانے کی اطلاعات درست نہیں۔ قطری اہلکار کا کہنا ہے کہ قطری انٹیلی جینس کے سربراہ قالن نے شام کی عبوری حکومت سے ملاقات نہیں کی، جبکہ قطر کیساتھ ساتھ دیگر ہمسایہ ممالک بھی شام کی صورتحال پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں۔
اگر شام میں سیاسی استحکام آتا ہے تو دیگر ممالک بھی اپنے تعلقات قائم کریں گے، بصورت دیگر زمینی حقائق دیکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ امن و استحکام شام سے نکل چکا ہے۔ اب مستقبل میں خانہ جنگی، لڑائی جھگڑے، لوٹ مار کی ہی صورتحال دکھائی دے رہی ہے۔ ایسے حالات میں کوئی ملک بھی شام کیساتھ اپنے تعلقات نہیں بنائے گا۔ ادھر امریکہ اسرائیل کی یہاں بھی اندھی حمایت کر رہا ہے۔ امریکی مشیر قومی سلامتی کی جانب سے اسرائیل کے شام پر حملوں کا دفاع کیا گیا ہے۔ وائٹ ہاؤس کے ترجمان سے شام میں اسرائیلی کارروائیوں پر کافی سخت سوالات کیے گئے۔ وائٹ ہاؤس کے ترجمان اسرائیلی کارروائیوں سے متعلق سوالات کو ٹالتے رہے۔ سوال کیا گیا کہ امریکا شام کو خود مختار ریاست سمجھتا ہے تو اسرائیل کیوں کارروائیاں کر رہا ہے؟ جان کربی سے سوال کیا گیا کہ اسرائیلی فوجی گولان کی پہاڑیوں سے آگے کیوں قابض ہوگئے۔؟ جان کربی نے اس سوال کا جواب دیا کہ شام میں اسرائیلی کارروائیاں عارضی ہیں، جلد رُک جائیں گی۔
ادھر امریکی اخبار نے دعویٰ کیا ہے کہ نومنتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران کو جوہری ہتھیار بنانے سے روکنے کیلئے آپریشنز پر غور شروع کر دیا ہے۔ امریکہ خطے میں مزید افواج، بحری جہاز اور جنگی طیارے بھیج سکتا ہے۔ امریکا ایران کی جوہری تنصیبات پر اسرائیلی حملے کی حمایت کرسکتا ہے، منصوبے ناکام ہونے پر امریکا ایران کو براہ راست فوجی کارروائی کی دھمکی بھی دے سکتا ہے۔ امریکی اخبار کا کہنا ہے کہ اسرائیل نے بھی ایران کی جوہری تنصیبات پر حملے کی تیاریاں شروع کر دی ہیں۔ یہ تو صرف ڈونلڈ ٹرمپ کا سیاسی بیان ہی لگ رہا ہے، کیونکہ ایران کے ڈرونز کی پرواز امریکی شہروں تک دیکھی گئی ہے اور اس پرواز نے امریکہ کے دفاعی نظام کی قلعی کھول دی ہے۔ پینٹاگون ابھی تک اس بات کی تاب نہیں لا پا رہا ہے کہ ایرانی ڈرون امریکہ میں کیسے پہنچ گئے۔ اس حوالے سے امریکہ کبھی بھی براہ راست ایران کو نشانہ نہیں بنائے گا۔ اس کی وجہ امریکہ تک ایران کی ڈائریکٹ رسائی ہے۔
ایران جب چاہے امریکہ کو نشانہ بنا سکتا ہے اور ٹرمپ یہ نہیں چاہے گا کہ کوئی اس کے اندر آکر اس کی دفاعی املاک پر حملے کرکے اس کی ساکھ کو ملیا میٹ کر دے۔ ایران اگر امریکہ کے اندر حملہ کرتا ہے (جو کہ وہ کرسکتا ہے) تو اس سے امریکہ کی دنیا بھر میں ساکھ ختم ہو جائے گی اور اس کا سپرپاور کا زعم خاک میں مل جائے گا۔ اس لئے امریکہ ایران پر حملہ کرے گا، نہ اس کی ایٹمی تنصیبات کو نشانہ بنائے گا۔ البتہ یہ امکان ہے کہ اسرائیل کی جانب سے چھوٹا موٹا کوئی حملہ کروا دیا جائے، لیکن اس کیلئے بھی ایران پہلے ہی واضح کرچکا ہے کہ ایران پر کسی حملے کی صورت میں ایسا ردعمل دیا جائے گا کہ دنیا یاد رکھے گی۔ یہ وہ صورتحال ہے، جس میں مشرق وسطیٰ میں شام کی صورتحال کی بعد مزید ابتری کی صورتحال پیدا ہوسکتی ہے۔ اسرائیل شام میں پہنچ کر یہ سمجھ رہا ہے کہ وہ ایران کی گردن تک پہنچ گیا ہے، تو یہ اسرائیل کی خام خیالی ہے۔
ایران کی ڈرون ٹیکنالوجی کے سامنے امریکہ و اسرائیل کے دفاعی نظام ناکام ہوچکے ہیں۔ اگر اسرائیل ایران کیخلاف حملے کی حماقت کرتا ہے تو اپنے پاوں پر ہی کلہاڑی مارے گا، اس سے ایران کا کچھ نہیں بگڑنا۔ تہران نے جوہری ہتھیاروں کی تیاری کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایران کا خلائی پروگرام اور جوہری سرگرمیاں خالصتاً سول مقاصد کیلئے ہیں، جبکہ امریکہ و اسرائیل نے ایران کا موقف مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ 2003ء میں ایران جوہری ہتھیاروں کی تیاری پر کام کر رہا تھا۔ امریکہ و اسرائیل کی جانب سے ایران پر یہ الزام عین ویسا ہی ہے، جو الزام صدام پر لگایا گیا تھا کہ صدام کیمیائی ہتھیار تیار کر رہا ہے اور اس الزام کے تحت ہی عراق کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی تھی۔ لیکن امریکہ و اسرائیل کو یہ یاد رکھنا ہوگا کہ ایران، عراق نہیں، بلکہ ایران کی دفاعی ٹیکنالوجی اس وقت پوری دنیا میں سب سے آگے ہے۔
ایران کی اس ٹیکنالوجی سے روس نے فائدہ اٹھایا اور یوکرائن آج تک روس کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں کرسکا۔ اس لئے امریکہ و اسرائیل اپنے ممالک کے عوام کی بہبود پر توجہ دیں، جنگوں کے جھنجھٹ سے باہر آئیں اور دنیا میں امن قائم ہونے دیں۔ امریکہ و اسرائیل کی پالیسیاں عالمی امن کیلئے خطرہ ہیں، ان پالیسیوں پر عالمی برادری کو بھی اپنی تشویش کا اظہار کرنا ہوگا۔ دنیا کو مشرق وسطیٰ میں قیام امن کیلئے کردار ادا کرنا ہوگا۔ مشرق وسطیٰ پرامن رہا تو دنیا میں بھی امن رہے گا اور عالمی معیشت مضبوط ہوگی۔ بصورت دیگر مشرق وسطیٰ کی آگ پوری دنیا کے امن کو اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے۔