0
Saturday 14 Dec 2024 15:02

شام کے سقوط کے ایران اور مقاومتی محاذ پر پڑنے والے ممکنہ اثرات کا مختصر جائزہ

شام کے سقوط کے ایران اور مقاومتی محاذ پر پڑنے والے ممکنہ اثرات کا مختصر جائزہ
تحریر: محمد علی عزیزی

حال ہی میں شام میں جوکچھ ہوا ہے اس کی توقع کسی کو بھی نہیں تھی، اس لئے اس سے دوست دشمن سب حیران و پریشان ہیں۔ اس کے ممکنہ اثرات کچھ تو بظاہر واضح ہیں کہ جن کی طرف دنیا بھر کے تجزیہ نگار اشارہ کر رہے ہیں لیکن اس کے مضمرات کی تہیں اس وقت کھلنا شروع ہوں گی جب شام کے اندر موجود نسلی، لسانی اور مذہبی مخالفین زیادہ سے زیادہ طاقت کے حصول کیلئے ایک دوسرے سے بر سر پیکار ہوجائیں گے کہ بدقسمتی سے جس کی شروعات ہوچکی ہیں۔ اگر یہ خود نہ لڑیں تو ان کے بیرونی معاون قوتیں یعنی امریکہ، اسرائیل، ترکی اور عرب شیوخ انہیں لڑائیں گے۔

Scot Ritter جو کہ ایک باخبر اور بے لاگ امریکی تجزیہ نگار ہیں نے کل اپنے ایک انٹرویو میں انکشاف کیا ہے کہ عرب حکمرانوں نے بشار الاسد کو عرب لیگ میں دوبارہ شامل کرکے اسے آہستہ آہستہ مقاومتی تحریک سے دور کرنا شروع کیا تھا۔ شام کے فوجی جنرل اور سرکاری افسران کرپٹ ہیں۔ یہ ان کے والد کے دور میں بھی کرپٹ تھے۔ بشار الاسد نے اقتدار سنبھالا تو انہیں کنٹرول کرنے کی لئے سختی کی مگر ان کے ہاتھ اتنے لمبے تھے کہ انہوں نے ملکی معیشت کو برباد کرکے رکھ دیا اور بشار الاسد کو عوامی بغاوت کے ڈر سے سختیوں کو نرم کرنا پڑا۔

جب شام پر اقتصادی پابندیاں لگائی گئیں تو بلیک مارکیٹ کو عروج حاصل ہوئی جس سے ان کرپٹ لوگوں کوکھل کر کھیلنے کا موقع ملا۔ یوں یہ لوگ امیر ہوتے گئے اور شامی عوام غریب سے غریب تر اور نتیجہ میں بشارالاسد کے حامی بھی اس سے مایوس ہونے لگے۔ جب چند سال پہلے عرب شیوخ نے بشارالاسد کو عرب لیگ میں دوبارہ شامل کیا اور ملکی معیشت بہتر بنانےکے نام پر اسے فنڈز دیئے تو یہ شام کے انہی کرپٹ افراد کے ہاتھوں پہنچ گئے اور انہوں نے عوام اور معیشت کی بہتری پر خرچ کرنے کے بجائے اپنی جیبیں بھریں۔ سی آئی اے اور موساد دونوں اس پورے عمل کی نگرانی کررہے تھے تاکہ اس کے ذریعے جنرلوں اور سرکاری اعلی عہدیداران کو خرید لیں اور وقت پر ان سے کام لیں۔

روس اور ایران بھی جو بشارالاسد کے حامی تھے اس سازش سے واقف تھے اور دونوں نے بشار الاسد کو یہ بات سمجھانے کی کوشش کی اور اس سلسلے کو کنٹرول کرنے کیلئے انہیں مشورے دیئے مگر اس نے ان دونوں کی ایک نہ مانی۔ اس کا نتیجہ عرب ڈکٹیٹروں اور سی آئی اے اور موساد کے توقعات سے بھی زیادہ نکلا۔ جب ہیئت تحریر الشام کے جنگجویوں نے حلب کی طرف جانے والی شاہراہ پر قبضہ کرنے کیلئے حملہ کیا تو سرکاری فوج نے ان کی توقعات کے خلاف کوئی مزاحمت نہیں کی اور پیچھے ہٹ گئی۔ جب انہوں نے ڈرتے ڈرتے حلب شہر کی طرف پیش قدمی کی تو وہاں بھی انہیں میدان صاف ملا۔ یوں بکے ہوئے شامی جنرلوں اور سرکاری عہدیداروں کی وجہ سے شامی فوج مکمل طور سے منتشر اور زمین بوس ہوگئی۔

اس طرح پانچ دنوں کے اندر دمشق سمیت بشارالاسد کے زیر کنٹرول سارا علاقہ بغیر کسی مزاحمت کے ان کے ہاتھ آیا۔ روس اور ایران دونوں بشارالاسد کی حمایت کیلئے تیار تھے، مگر اس نے انہیں مدد کیلئے نہیں کہا کیونکہ اسے ترکی اور عرب شیوخ نے وعدہ دیا تھا کہ ہیئت التحریر الشام اور دیگر حکومت مخالف گروہ اس کی حکومت کے خلاف کوئی اقدام نہیں کریں گے۔ یوں عرب شیوخ اور ترکی کی دھوکہ دہی اور بکے ہوئے جنرلوں اور سرکاری اہلکاروں کی وجہ سے شام پانچ دنوں کے اندر بشارالاسد کے ہاتھ سے نکل گیا اور روس اور ایران کیلئے بشارالاسد کی حکومت کو بچانے کیلئے کوئی رول ادا کرنا ممکن نہ ہوا۔

دوسری طرف ایران اس صورتحال سے پہلے ہی کافی حد تک واقف تھا اس لئے اس نے حزب اللہ کو اسلحہ، میزائل اور ڈرون تک بنانے کیلئے کارخانے بنا کر دیئے تھے جو زیر زمیں ٹنلز میں پوشیدہ اور محفوظ ہیں۔ یوں ایران نے شام کے رابطے کے درمیان سے اٹھنے سے پیدا ہونے والے ممکنہ خلاء کو متبادل طریقے سے کافی حد تک پر کررکھا ہے۔ اس لئے جس طرح تجزیہ نگار حضرات دعوی کررہے ہیں کہ مرکز مقاومت ختم ہوگیا، درست نہیں ہے۔ انشاء اللہ وقت بھی اس حقیقت کو ثابت کرے گا۔ مقاومتی تحریک کا مرکز ایران ہے اور جب تک ایران میں اسلامی انقلاب کے حامیوں کا اثرورسوخ قائم ہے یہ ختم نہیں ہوگا۔

ایران اور مقاومتی محاذ کے دیگر اراکین رہبر معظم کی مومنانہ فراست کی وجہ سے ہمیشہ بدترین حالات کو بھی جلد یا بدیر اپنے حق میں کرانے میں کامیاب رہے ہیں۔ الحمد اللہ اس وقت حشد الشعبی، حزب اللہ اور انصاراللہ کے لیڈرران رہبر معظم کو اپنا امام تسلیم کرتے ہیں، اس لئے وہ بشارالاسد کی بیوقوفی اور کفار و منافقین کی دھوکہ دہی سے سبق حاصل کرکے اپنی مزاحمتی اقدامات کو مزید مستحکم کرسکیں گے۔ اس لئے شام کے سقوط کی وجہ سے مقاومتی ہلاک میں بظاہر جو دراڑ آئی ہے، اس سے مقاومتی محاذ کو زیادہ نقصان نہیں ہوگا کیونکہ کچھ عرصہ سے شام پہلے کی طرح مقاومتی کردار ادا کرنے سے انکار کرتا آیا تھا اور اکتوبر 2023ء کے حماس اسرائیل جنگ کے بعد سے اب تک اس نے حماس کے حق میں کوئی اہم اقدام نہیں اٹھایا تھا۔

ایران کے اصرار کے باوجود بشارالاسد نے گولان کی طرف سے اسرائیل کے خلاف ایک نیا محاذ کھولنے سے صاف انکار کیا تھا۔ اس کے برخلاف بشارالاسد در پردہ سعودی عرب، عرب امارات اور ترکی کو خوش کرنے کی کوششیں کرتا رہا تھا اور ایران کے مقابلہ میں ان منافقین پر بھروسہ کرنے کا خمیازہ اسے جلد ہی بھگتنا پڑا۔ اس لئے ایران نے اس متوقع صورتحال سے نمٹنے کیلئے متبادل پلان مرتب رکھا تھا، جس پر اب اس نے عمل درآمد شروع کیا ہے۔ ایران کی طرح مزاحمتی محاذ کے دیگر ارکان نے بھی یقیناً متبادل پلان بنا کر رکھا ہوگا جن پر وہ عمل پیرا ہوچکے ہوں گے۔ اللہ تعالی سے دست بدعا ہیں کہ وہ ایران اور مقاومتی محاذ کے دیگر اراکین حزب اللہ لبنان، حشد الشعبی عراق اور انصاراللہ یمن کی مدد فرمائے اور کفار و منافقین کے مکر کو پہلے کی طرح انہی پر پلٹا دے۔ آمین
خبر کا کوڈ : 1177606
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش