0
Sunday 24 Nov 2024 23:49

شہید علی ناصر صفوی، سادگی، پرہیزگاری اور مزاحمت کی علامت

شہید علی ناصر صفوی، سادگی، پرہیزگاری اور مزاحمت کی علامت
تحریر: مولانا محمد احمد فاطمی

راستوں کی ویرانیوں اور جلتی دھوپ سے ڈرنے والے کبھی اپنی منزل تک نہیں پہنچ سکتے۔ یہ الفاظ شہید علی ناصر صفوی کی زندگی اور ان کی جدوجہد کا بہترین خلاصہ پیش کرتے ہیں۔ وہ اپنی ملت کے لیے قربانی دینے والی ان عظیم شخصیات میں سے تھے، جنہوں نے اسلامی اصولوں کی پاسداری، اخلاص اور مزاحمت کے ذریعے تاریخ میں اپنی منفرد جگہ بنائی۔ ان کی زندگی کا ہر پہلو فکری بیداری اور عملی قربانی کا سبق دیتا ہے۔

سادگی اور پرہیزگاری، ایک مجاہد کا طرزِ زندگی
شہید علی ناصر صفوی کی زندگی سادگی اور پرہیزگاری کا عملی نمونہ تھی۔ ان کے گھر میں ضروری اشیاء کے علاوہ کوئی عیش و آرام کا سامان نہ تھا۔ ایک واقعہ ان کی سادگی کا گواہ ہے: جب دوستوں نے ان سے پانی کے مزید گلاس مانگے تو انہوں نے مسکراتے ہوئے جواب دیا: "ہماری ضرورت دو گلاس ہے، ایک ٹوٹ چکا اور دوسرا آپ کی خدمت میں حاضر ہے۔" ان کی گاڑی میں اکثر نوحے اور قرآن کی تلاوت کی آواز گونجتی تھی اور سفر کے دوران وہ زیادہ تر غور و فکر میں مصروف رہتے۔ ان کا لباس سفید قمیص اور سادہ ویسٹ کوٹ ہوتا تھا، جو ان کی سادگی کی علامت تھا۔ امام علیؑ کا فرمان ہے: "الزُّهدُ كَسْرُ شَهوَةِ النَّفْسِ."، یعنی زہد کا مطلب نفس کی خواہشات کو توڑنا ہے اور شہید صفوی نے اپنی زندگی میں اس تعلیم کو عملی جامہ پہنایا۔  

ملت کا درد اور جھنگ کی تحریک 
شہید علی ناصر صفوی نے جھنگ جیسے فرقہ واریت زدہ علاقے میں مظلوموں کے حق میں آواز بلند کی اور اسلامی تعلیمات کی روشنی میں ایک مزاحمتی تحریک کا آغاز کیا۔ وہ سمجھتے تھے کہ ملت کی بقا کے لیے جسمانی تحفظ کے ساتھ ساتھ فکری تربیت بھی ضروری ہے۔ ان کی تحریک نہ صرف ایک عملی جدوجہد تھی بلکہ ایک نظریاتی انقلاب کا آغاز بھی تھا۔ شہید صفوی نے علماء کی رہنمائی میں اپنے ساتھیوں کی تربیت کے لیے نشستوں کا اہتمام کیا، جس کا مقصد دین کی حقیقی تعلیمات کو فروغ دینا اور مظلوموں کو اپنے حقوق کے لیے بیدار کرنا تھا۔ وہ امام حسینؑ کے اس قول پر یقین رکھتے تھے: "هيهات منا الذلة."، یعنی "ذلت ہم سے کوسوں دور ہے۔

شہیدہ پروین بتول، استقامت کی علامت
شہید صفوی کی تحریک میں ان کی اہلیہ شہیدہ پروین بتول کا کردار ناقابل فراموش ہے۔ وہ ایک باہمت خاتون تھیں، جنہوں نے اپنی علمی، سماجی اور مزاحمتی خدمات سے خواتین کے لیے ایک مثال قائم کی۔ وہ نہ صرف اپنے شوہر کے شانہ بشانہ تھیں بلکہ خود بھی میدانِ عمل میں مظلوموں کی حمایت میں پیش پیش رہیں۔ شہیدہ بتول خواتین کو دینی تعلیمات، حجاب اور بچوں کی تربیت کے اصول سکھاتی تھیں۔ ان کی شہادت کے وقت، جب حملہ آوروں نے ان کے گھر پر گولیاں برسائیں، وہ اپنے حاملہ وجود کے ساتھ اپنے شوہر کے دفاع میں ڈٹی رہیں۔ ان کی قربانی ہمیں حضرت زینبؑ کی سیرت کی یاد دلاتی ہے، جنہوں نے کربلا کے بعد اپنے بھائی کے مشن کو جاری رکھا۔

شہید علی ناصر صفوی، فکری و عملی تربیت کا محور
شہید صفوی کی قیادت کا ایک اہم پہلو ان کی فکری و عملی تربیت تھی۔ ان کی تحریک کے اراکین کو عقائد، فقہ اور اسلامی تاریخ کے اصولوں سے روشناس کرایا جاتا تھا۔ وہ سمجھتے تھے کہ مزاحمت صرف طاقت سے ممکن نہیں بلکہ صحیح سوچ اور اعلیٰ کردار کے بغیر کوئی تحریک کامیاب نہیں ہوسکتی۔ ان کی نشستوں میں امام حسینؑ اور آئمہ معصومینؑ کی قربانیوں پر خاص زور دیا جاتا تھا، تاکہ نوجوانوں کو شہادت کی اہمیت اور مظلوموں کے حق میں کھڑے ہونے کا درس دیا جا سکے۔  

شہادت، قربانی کا اعلیٰ ترین مقام
25 نومبر 2000ء کو، شہید علی ناصر صفوی اور ان کی اہلیہ نے جامِ شہادت نوش کیا۔ ان کی شہادت ظلم کے خلاف ایک تحریک کا عنوان بنی اور آنے والی نسلوں کے لیے مشعلِ راہ بن گئی۔ ان کا خون مظلوموں کے حقوق کی جدوجہد کو ایک نئی روح عطا کر گیا۔ "الموت لنا عادة وكرامتنا من الله الشهادة."، یعنی "موت ہمارے لیے عادت اور شہادت ہماری کرامت ہے۔"

پاکستان کے دیگر شیعہ شہداء
پاکستان کی تاریخ ایسے شہداء سے مزین ہے، جنہوں نے ظلم کے خلاف قیام کیا۔ شہید عارف حسین الحسینی نے اتحاد بین المسلمین کی تحریک کو مضبوط بنایا، شہید سبط جعفر نے علمی اور فکری محاذ پر خدمات انجام دیں اور شہید علامہ حسن ترابی نے اپنی جرات مندانہ تقریروں سے ملت کو بیدار کیا۔ ان شہداء کی زندگی امام حسینؑ کے پیغام کی عملی تعبیر ہے۔

آج کی خواتین کے لیے سبق
شہیدہ پروین بتول کی قربانی آج کی خواتین کو یہ سبق دیتی ہے کہ اگر زینبی جذبہ موجود ہو تو مشکلات کو شکست دی جا سکتی ہے۔ ان کی زندگی حوصلہ اور استقامت کا ایسا نمونہ ہے، جو خواتین کو دین اور سماج کے لیے سرگرم کردار ادا کرنے کی ترغیب دیتا ہے۔

نتیجہ
شہید علی ناصر صفوی اور شہیدہ پروین بتول کی زندگیاں اسلام کی سربلندی اور مظلوموں کے دفاع کی روشن مثال ہیں۔ ان کی قربانیاں ہمیں یہ درس دیتی ہیں کہ اگر نیت خالص ہو اور مقصد اللہ کی رضا ہو تو راہیں خود بخود ہموار ہو جاتی ہیں۔ ان کی تحریک اور شہادت ہمیں یاد دلاتی ہے کہ سادگی، پرہیزگاری اور قربانی کے ذریعے ہم نہ صرف اپنی ملت کی حفاظت کرسکتے ہیں بلکہ ظلم کے خلاف ایک مضبوط دیوار بھی بن سکتے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 1175658
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش