Tuesday 5 Nov 2024 19:02
تحریر: سید اسد عباس
آج یعنی 5 نومبر 2024ء کو پوری دنیا کے نگاہیں امریکہ میں ہونے والے صدارتی انتخابات پر مرکوز ہیں۔ امریکی صدارت کے لیے اصل مقابلہ ریپبلکن پارٹی سے تعلق رکھنے والے سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ڈیمو کریٹک پارٹی سے تعلق رکھنے والی موجودہ نائب صدر کملا ہیرس کے درمیان ہے۔ عالمی منظر نامے پر امریکی صدر ایک طاقتور شخصیت تصور کیا جاتا ہے۔ یہ منصب اپنے ساتھ بہت سی ذمہ داریاں لاتا ہے، اس لیے اس عہدے پر کسی ایسی شخصیت کا انتخاب ہونا چاہیئے، جو نہ صرف امریکی مفادات کا خیال رکھے بلکہ عالمی سطح پر امن کا داعی بھی ہو، نہایت اہم ہو جاتا ہے۔ آج امریکی یہ فیصلہ کرلیں گے کہ اُن کے اگلے صدر غیر روایتی رویئے کے حامل ڈونلڈ ٹرمپ ہوں گے یا کملا ہیرس۔
امریکہ کے صدارتی انتخاب کا طریقہ کار تھوڑا مختلف بلکہ یوں کہنا چاہیئے کہ پیچیدہ ہے۔ امریکی ووٹر براہِ راست اپنے صدر کا انتخاب نہیں کرتے بلکہ وہ اپنے ووٹ سے ریاستی نمائندوں کا انتخاب کرتے ہیں اور پھر یہ ریاستی نمائندے جنھیں "الیکٹورل کالج" کہا جاتا ہے، امریکی صدر کا انتخاب کرتا ہے۔ امریکی عوام جب ووٹ کاسٹ کرتے ہیں تو انہیں پولنگ کے دن ملنے والے بیلٹ پیپر پر صدارتی امیدوار کا نام نہیں لکھا ہوتا بلکہ الیکٹر برائے فلاں صدارتی امیدوار لکھا ہوتا ہے۔ الیکٹورل کالج کے ووٹوں کی کل تعداد 538 ہے۔ ہر ریاست کے لیے آبادی کے تناسب سے الیکٹورل ووٹ مختص کیے گئے ہیں۔ کسی امیدوار کے لیے امریکہ کا صدر منتخب ہونے کے لیے الیکٹورل کالج کے ووٹوں کی اکثریت حاصل کرنا، یا کم از کم 270 ووٹ حاصل کرنا لازم ہے۔
قطع نظر اس کے کہ عوام نے کس پارٹی کے امیدوار کے لیے ووٹ کاسٹ کیا ہے، "الیکٹورل کالج" کے ووٹ ہی یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ کس پارٹی کا امیدوار صدارت کے منصب پر فائز ہوگا۔ اس کی تازہ ترین مثال 2016ء کے امریکی انتخابات ہیں، جن میں ہیلری کلنٹن کو ٹرمپ کے مقابلے میں مجموعی طور پر زیادہ ووٹ ملے تھے، لیکن ڈونلڈ ٹرمپ الیکٹورل کالج کے 306 ووٹ حاصل کرکے صدر منتخب ہوگئے۔ ہیلری کلنٹن الیکٹورل کالج کے 227 ووٹ حاصل کرسکی تھیں۔ اس پیچیدہ انتخابی نظام سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ امریکہ میں صدارتی امیدوار کو کیسے کیسے پیچیدہ مراحل سے گزرنا پڑتا ہے۔ اسی لیے امریکی صدر، ایک طاقتور عہدہ ہوتا ہے۔ واضح رہے کہ امریکی صدر کے پاس کئی غیر معمولی اختیارات ہوتے ہیں، وہ دو ایوانوں کو خصوصی معاملات میں بائی پاس بھی کرسکتا ہے، لیکن عموماً اسے کوئی بل پاس کرنے کے لیے کانگریس اور سینیٹ کو ساتھ لے کر چلنا پڑتا ہے۔
خارجہ امور اور فوجی معاملات میں امریکی صدر کے اختیارات غیر محدود ہوتے ہیں، لیکن امریکہ میں صدر کی تبدیلی سے امریکی خارجہ پالیسیوں میں کوئی انقلابی تبدیلی رونماء نہیں ہوتی، خارجہ پالیسی اکثر ملکی مفاد کے تابع ہی رہتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ امریکا کے حالیہ انتخابات میں کون فتحیاب ہوگا۔ امریکی صدراتی عہدے کے حوالے سے ایک بات بہت دلچسپ ہے کہ یہاں آج تک کوئی خاتون صدر منتخب نہیں ہوئی ہے۔ امریکا میں ہونے والے سرویز کے مطابق کملا ہیرس کی پوزیشن ٹرمپ کے مقابل مضبوط تھی۔ اکثر جوتشیوں کا کہنا ہے کہ ممکن ہے کہ اس مرتبہ امریکا میں تاریخ کا ایک بڑا اپ سیٹ ہو، تاہم مجھے لگتا ہے کہ یہ انتخابات ٹرمپ ہی جیتے گا۔ جہاں تک میں نے امریکی سیاست پر گہری نظر رکھنے والے افراد کے دلائل سنے ہیں، ان سے یہی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ٹرمپ ہی اقتدار میں آنے والا ہے۔
ایک معروف سیاسی تجزیہ کار کے مطابق ڈیموکریٹس کو آدھی شکست اسی دن ہوگئی تھی، جس دن بائیڈن الیکشن سے بھاگ گئے تھے۔ ڈیموکریٹس نے ری پبلکن کے ایک مضبوط امیدوار کے مقابل ایک ایسی خاتون کو میدان میں اتارا، جس کا بیک گراؤنڈ بھارتی ہے، جب امریکیوں نے اچھی بھلی گوری ہلیری کلنٹن کو مسترد کر دیا تھا تو کملا ہیرس کو کیسے ووٹ دیں گے؟ کیلیفورنیا جہاں سب سے زیادہ بے روزگاری اور بے گھر افراد ہیں، وہاں ڈیموکریٹس نے ہمیشہ مڈل کلاس کاروباری افراد کو تنگ کیا اور غریبوں پر ٹیکسوں کا بوجھ بڑھایا جبکہ ری پبلکن نے ہمیشہ ان طبقات کا خیال رکھا اور لوگوں کے لیے زیادہ نوکریاں پیدا کیں۔
ٹرمپ جنگوں کیخلاف ہے بلکہ اس نے الیکشن مہم میں متعدد مرتبہ کہا کہ وہ جنگوں کو چوبیس گھنٹوں میں ختم کروائے گا۔ اس سب سے بڑھ کر ٹرمپ کو صہیونی برادری خواہ وہ یہودی ہو یا عیسائی کی مکمل حمایت حاصل ہے۔ ٹرمپ ایک اوینجیلیکل مسیحی ہے، امریکا میں موجود تیس فیصد ووٹ، جو کہ اوینجیلیکلز کو حاصل ہے، با آسانی ٹرمپ کو مل جائے گا۔ آج ایران میں شائع ہونے والے تقریباً تمام اخبارات نے ٹرمپ اور کملا ہیرس کو ایک ہی سکے کے دو رخ قرار دیا۔ تہران ٹائمز نے تو اپنی سرخی ہی Harump بنا دی، یعنی کملا ہیرس اور ٹرمپ کو ملا کر انھوں نے نیا لفظ ہارمپ ایجاد کر دیا۔
آج یعنی 5 نومبر 2024ء کو پوری دنیا کے نگاہیں امریکہ میں ہونے والے صدارتی انتخابات پر مرکوز ہیں۔ امریکی صدارت کے لیے اصل مقابلہ ریپبلکن پارٹی سے تعلق رکھنے والے سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ڈیمو کریٹک پارٹی سے تعلق رکھنے والی موجودہ نائب صدر کملا ہیرس کے درمیان ہے۔ عالمی منظر نامے پر امریکی صدر ایک طاقتور شخصیت تصور کیا جاتا ہے۔ یہ منصب اپنے ساتھ بہت سی ذمہ داریاں لاتا ہے، اس لیے اس عہدے پر کسی ایسی شخصیت کا انتخاب ہونا چاہیئے، جو نہ صرف امریکی مفادات کا خیال رکھے بلکہ عالمی سطح پر امن کا داعی بھی ہو، نہایت اہم ہو جاتا ہے۔ آج امریکی یہ فیصلہ کرلیں گے کہ اُن کے اگلے صدر غیر روایتی رویئے کے حامل ڈونلڈ ٹرمپ ہوں گے یا کملا ہیرس۔
امریکہ کے صدارتی انتخاب کا طریقہ کار تھوڑا مختلف بلکہ یوں کہنا چاہیئے کہ پیچیدہ ہے۔ امریکی ووٹر براہِ راست اپنے صدر کا انتخاب نہیں کرتے بلکہ وہ اپنے ووٹ سے ریاستی نمائندوں کا انتخاب کرتے ہیں اور پھر یہ ریاستی نمائندے جنھیں "الیکٹورل کالج" کہا جاتا ہے، امریکی صدر کا انتخاب کرتا ہے۔ امریکی عوام جب ووٹ کاسٹ کرتے ہیں تو انہیں پولنگ کے دن ملنے والے بیلٹ پیپر پر صدارتی امیدوار کا نام نہیں لکھا ہوتا بلکہ الیکٹر برائے فلاں صدارتی امیدوار لکھا ہوتا ہے۔ الیکٹورل کالج کے ووٹوں کی کل تعداد 538 ہے۔ ہر ریاست کے لیے آبادی کے تناسب سے الیکٹورل ووٹ مختص کیے گئے ہیں۔ کسی امیدوار کے لیے امریکہ کا صدر منتخب ہونے کے لیے الیکٹورل کالج کے ووٹوں کی اکثریت حاصل کرنا، یا کم از کم 270 ووٹ حاصل کرنا لازم ہے۔
قطع نظر اس کے کہ عوام نے کس پارٹی کے امیدوار کے لیے ووٹ کاسٹ کیا ہے، "الیکٹورل کالج" کے ووٹ ہی یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ کس پارٹی کا امیدوار صدارت کے منصب پر فائز ہوگا۔ اس کی تازہ ترین مثال 2016ء کے امریکی انتخابات ہیں، جن میں ہیلری کلنٹن کو ٹرمپ کے مقابلے میں مجموعی طور پر زیادہ ووٹ ملے تھے، لیکن ڈونلڈ ٹرمپ الیکٹورل کالج کے 306 ووٹ حاصل کرکے صدر منتخب ہوگئے۔ ہیلری کلنٹن الیکٹورل کالج کے 227 ووٹ حاصل کرسکی تھیں۔ اس پیچیدہ انتخابی نظام سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ امریکہ میں صدارتی امیدوار کو کیسے کیسے پیچیدہ مراحل سے گزرنا پڑتا ہے۔ اسی لیے امریکی صدر، ایک طاقتور عہدہ ہوتا ہے۔ واضح رہے کہ امریکی صدر کے پاس کئی غیر معمولی اختیارات ہوتے ہیں، وہ دو ایوانوں کو خصوصی معاملات میں بائی پاس بھی کرسکتا ہے، لیکن عموماً اسے کوئی بل پاس کرنے کے لیے کانگریس اور سینیٹ کو ساتھ لے کر چلنا پڑتا ہے۔
خارجہ امور اور فوجی معاملات میں امریکی صدر کے اختیارات غیر محدود ہوتے ہیں، لیکن امریکہ میں صدر کی تبدیلی سے امریکی خارجہ پالیسیوں میں کوئی انقلابی تبدیلی رونماء نہیں ہوتی، خارجہ پالیسی اکثر ملکی مفاد کے تابع ہی رہتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ امریکا کے حالیہ انتخابات میں کون فتحیاب ہوگا۔ امریکی صدراتی عہدے کے حوالے سے ایک بات بہت دلچسپ ہے کہ یہاں آج تک کوئی خاتون صدر منتخب نہیں ہوئی ہے۔ امریکا میں ہونے والے سرویز کے مطابق کملا ہیرس کی پوزیشن ٹرمپ کے مقابل مضبوط تھی۔ اکثر جوتشیوں کا کہنا ہے کہ ممکن ہے کہ اس مرتبہ امریکا میں تاریخ کا ایک بڑا اپ سیٹ ہو، تاہم مجھے لگتا ہے کہ یہ انتخابات ٹرمپ ہی جیتے گا۔ جہاں تک میں نے امریکی سیاست پر گہری نظر رکھنے والے افراد کے دلائل سنے ہیں، ان سے یہی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ٹرمپ ہی اقتدار میں آنے والا ہے۔
ایک معروف سیاسی تجزیہ کار کے مطابق ڈیموکریٹس کو آدھی شکست اسی دن ہوگئی تھی، جس دن بائیڈن الیکشن سے بھاگ گئے تھے۔ ڈیموکریٹس نے ری پبلکن کے ایک مضبوط امیدوار کے مقابل ایک ایسی خاتون کو میدان میں اتارا، جس کا بیک گراؤنڈ بھارتی ہے، جب امریکیوں نے اچھی بھلی گوری ہلیری کلنٹن کو مسترد کر دیا تھا تو کملا ہیرس کو کیسے ووٹ دیں گے؟ کیلیفورنیا جہاں سب سے زیادہ بے روزگاری اور بے گھر افراد ہیں، وہاں ڈیموکریٹس نے ہمیشہ مڈل کلاس کاروباری افراد کو تنگ کیا اور غریبوں پر ٹیکسوں کا بوجھ بڑھایا جبکہ ری پبلکن نے ہمیشہ ان طبقات کا خیال رکھا اور لوگوں کے لیے زیادہ نوکریاں پیدا کیں۔
ٹرمپ جنگوں کیخلاف ہے بلکہ اس نے الیکشن مہم میں متعدد مرتبہ کہا کہ وہ جنگوں کو چوبیس گھنٹوں میں ختم کروائے گا۔ اس سب سے بڑھ کر ٹرمپ کو صہیونی برادری خواہ وہ یہودی ہو یا عیسائی کی مکمل حمایت حاصل ہے۔ ٹرمپ ایک اوینجیلیکل مسیحی ہے، امریکا میں موجود تیس فیصد ووٹ، جو کہ اوینجیلیکلز کو حاصل ہے، با آسانی ٹرمپ کو مل جائے گا۔ آج ایران میں شائع ہونے والے تقریباً تمام اخبارات نے ٹرمپ اور کملا ہیرس کو ایک ہی سکے کے دو رخ قرار دیا۔ تہران ٹائمز نے تو اپنی سرخی ہی Harump بنا دی، یعنی کملا ہیرس اور ٹرمپ کو ملا کر انھوں نے نیا لفظ ہارمپ ایجاد کر دیا۔
خبر کا کوڈ : 1170928
منتخب
23 Nov 2024
23 Nov 2024
23 Nov 2024
22 Nov 2024
22 Nov 2024