Tuesday 5 Nov 2024 13:09
تحریر: ڈاکٹر صابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فائونڈیشن پاکستان
جب سے ہوش سنبھالا ہے، مظلوم فلسطینیوں کو غاصب صیہونی حکومت اسرائیل کے خلاف نبرد آزما ہی دیکھا ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ جب معصوم بچے بھی اسرائیلی ٹینکوں کے سامنے پتھروں کو ہاتھ میں لئے نکل آتے تھے۔ شاید مادی دنیا اور مغرب زدہ دنیا ان فلسطینیوں کو دیوانہ کہتی ہو، لیکن میں ہمیشہ سے ہی ان فلسطینیوں کے جذبہ اور شجاعت سے متاثر ہوتا رہا۔ دنیا بھر کے تمام منفی پراپیگنڈوں کے باوجود بھی ہمیشہ فلسطینی مزاحمت کے ساتھ رہا اور ان کے حق میں آواز اٹھانے کو اپنی اولین ذمہ داریوں میں قرار دیا۔ میں نے تاریخ میں پڑھا ہے کہ کس طرح برطانوی افواج نے صیہونیوں کو فلسطینی عوام کے خلاف مسلح کیا اور فلسطینی عوام کا قتل عام کیا گیا۔ میں نے یہ بھی پڑھ رکھا ہے کہ برطانیہ نے فلسطین سے نکلنے سے پہلے غاصب صیہونیوں کے لئے ناجائز ریاست کا قیام عمل میں لا کر دیا۔
برطانوی وزیر خارجہ بالفور کا سیاہ اعلامیہ بھی تاریخ کے اوراق پر پڑھ رکھا ہے۔ میں یہ بھی جانتا ہوں کہ 15 مئی یعنی یوم نکبہ کو کس طرح پچیس ہزار فلسطینیوں کو ایک دن میں قتل کیا اور پندرہ لاکھ فلسطینیوں کو ان کے اپنے گھروں سے نکال دیا گیا۔ جو آج تیسری اور چوتھی نسل تک جلا وطنی کی زندگی گزار رہے ہیں اور اپنے وطن اور گھر واپس آنا چاہتے ہیں۔ سنہ1967ء اور سنہ1973ء کی عرب اسرائیل جنگوں کی داستان بھی ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ امریکہ کی جانب سے غاصب صیہونی حکومت اسرائیل کو دی جانے والے اربوں ڈالروں کی سالانہ ملٹری امداد بھی ملتی ہے۔سنہ1969ء میں مسلمانوں کے قبلہ اول بیت المقدس یعنی مسجد اقصیٰ کو نذر آتش کئے جانے کا دلخراش واقعہ آج بھی سینہ پر درد بن کر موجود ہے۔ سنہ1978ء میں لبنان پر اسرائیلی فوجوں کی چڑھائی، پھر صابرا اور شاتیلا میں قتل عام جیسے واقعات ذہن سے اترتے ہی نہیں ہیں۔
اگر میں حالیہ واقعات میں خلاصہ کرنا چاہوں تو صرف اتنا کہہ سکتا ہوں کہ غاصب اسرائیل کے ساتھ امریکہ اور مغربی حکومتیں سب ساتھ کھڑی ہیں، یعنی اگر میں کہہ دوں کے پوری دنیا اسرائیل کے ساتھ ہے تو یہ بات غلط نہ ہوگی، لیکن پھر بھی اسرائیل فلسطین اور لبنان میں چھوٹے چھوٹے مزاحمتی گروہوں حماس اور حزب اللہ کے سامنے بے بس ہے اور شکست سے دوچار ہے۔ غاصب اسرائیل کی طاقت اور ہیبت کا اندازہ لگانے کے بعد اور اس کے مدد گاروں کی طاقت اور ہیبت کا اندازہ لگانے کے بعد اگر ہم دیکھیں تو اسرائیل کی جانب سے آئے روز ایسے اقدامات سامنے آتے ہیں کہ جو خود اس بات کی دلیل بن جاتے ہیں کہ غاصب صیہونی حکومت اسرائیل نابودی کے دہانے پر آن کھڑی ہوئی ہے۔ چاہے حماس اور حزب اللہ کی اعلیٰ قیادت کا قتل ہو یا پھر غزہ اور لبنان میں شہری اور نہتے لوگوں کا قتل عام اور نسل کشی ہو، یہ سب کچھ واضح ہے کہ اسرائیل کی بوکھلاہٹ اور پریشانی کو عیاں کرتا ہے۔
حال ہی میں اب امریکی اور مغربی پابندیوں کا نشانہ بننے والا ایک ملک ایران ہے کہ جہاں پر ایک ایسی پست ترین حرکت انجام دی گئی ہے، جس کے ذریعے یہ کوشش کی جا رہی ہے کہ ایران کے خلاف پراپیگنڈا کیا جائے اور اسے کمزور کیا جائے، کیونکہ ایران مسلسل فلسطینی مزاحمت کے محور کی حمایت اور مدد کرنے میں مصروف ہے۔ ایران نے اپنی خود مختاری کی حفاظت کرتے ہوئے اسرائیل پر دو مرتبہ حملہ بھی کیا ہے اور ایک مرتبہ اسرائیل کے بھرپور اور طاقتور حملہ کو ناکام بھی کیا ہے۔ اس ساری صورتحال میں اب امریکہ اور اسرائیل کیا کریں۔؟ اب امریکہ اور اسرائیل نے یہ کام انجام دیا ہے کہ تہران میں ایک خاتون جو کہ پہلے سے ہی نفسیاتی بیماریوں اور الجھنوں کا شکار ہے، اس کا استعمال کرتے ہوئے کھلی سڑک پر اس خاتون نے خود کو برہنہ کر لیا اور پھر امریکی و اسرائیلی ذرائع ابلاغ کی تو جیسے لاٹری نکل آئی ہو۔
وہ اس برہنہ پن کو خواتین کی آزادی سے تشبیہ دینے لگے اور مغربی ذرائع ابلاغ پر یہ پراپیگنڈا شروع کر دیا گیا کہ ایران میں خواتین آزادی چاہتی ہیں، حالانکہ ان کے اپنے مغربی ممالک کی خواتین جو ان کے مطابق آزاد ہیں، وہ بھی اس طرح کھلی سڑکوں پر خود کو آزادی کے نام پر برہنہ نہیں کرتی ہیں۔ اب یہ ساری صورتحال دیکھنے کے بعد جب میں فلسطین کی ایک سو سالہ تاریخ یعنی 1917ء سے اب تک غور کرتا ہوں تو یقین کیجئے کہ مجھے آج کے زمانہ میں امریکہ اور اسرائیل دنیا کی سب سے بے بس طاقتیں نظر آتی ہیں کہ جو جنگ کے میدان میں چھوٹے سے گروہوں کے سامنے ناکام ہوچکی ہیں اور اب خواتین کو برہنہ کرکے جہاں ایک طرف خواتین کی عزت کی پائمالی کی مرتکب ہو رہی ہیں، وہاں ساتھ ساتھ اپنی بے بسی اور ناتوانی کا اعتراف بھی کر رہے ہیں کہ ہم کس قدر بے بس ہوچکے ہیں کہ اب اس طرح کے نیچ اور اوچھے ہتھکنڈوں سے مزاحمت کے مرکز و محور کو روکیں گے۔
مزاحمت کے محور میں چاہے ایران ہو یا لبنان، حزب اللہ ہو یا حماس، انصاراللہ یمن ہو یا حشد الشعبی عراق ہوں یا اسی طرح جہاد اسلامی سمیت دوسرے گروہ ہوں، سب کے سب ایک بات پر متفق ہیں کہ دشمن چاہے کچھ بھی ہتھکنڈا استعمال کرے، لیکن ہم فلسطین اور غزہ کی حمایت سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ خلاصہ یہ ہے کہ وہ اسرائیل جو چند دنوں میں عرب افواج کو شکست دیتا تھا، وہ اسرائیل جو دنیا میں جدید ترین ٹیکنالوجی کا دم بھرتا ہے، لیکن چند ہزار جوانوں کے سامنے بے بس ہے۔ آج وہ اسرائیل اس قدر بے بس ہوچکا ہے کہ ایک برہنہ خاتون کی آڑ میں چھپ کر مزاحمت سے مقابلہ کرنے کی کوشش کر رہا اور ذلت و رسوائی کا شکار ہو رہا ہے۔ یعنی اسرائیل نابود ہو رہا اور ڈوب رہا ہے۔ مجھے غاصب صیہونی حکومت اسرائیل کی بے بسی پر رشک آرہا ہے۔
سیکرٹری جنرل فلسطین فائونڈیشن پاکستان
جب سے ہوش سنبھالا ہے، مظلوم فلسطینیوں کو غاصب صیہونی حکومت اسرائیل کے خلاف نبرد آزما ہی دیکھا ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ جب معصوم بچے بھی اسرائیلی ٹینکوں کے سامنے پتھروں کو ہاتھ میں لئے نکل آتے تھے۔ شاید مادی دنیا اور مغرب زدہ دنیا ان فلسطینیوں کو دیوانہ کہتی ہو، لیکن میں ہمیشہ سے ہی ان فلسطینیوں کے جذبہ اور شجاعت سے متاثر ہوتا رہا۔ دنیا بھر کے تمام منفی پراپیگنڈوں کے باوجود بھی ہمیشہ فلسطینی مزاحمت کے ساتھ رہا اور ان کے حق میں آواز اٹھانے کو اپنی اولین ذمہ داریوں میں قرار دیا۔ میں نے تاریخ میں پڑھا ہے کہ کس طرح برطانوی افواج نے صیہونیوں کو فلسطینی عوام کے خلاف مسلح کیا اور فلسطینی عوام کا قتل عام کیا گیا۔ میں نے یہ بھی پڑھ رکھا ہے کہ برطانیہ نے فلسطین سے نکلنے سے پہلے غاصب صیہونیوں کے لئے ناجائز ریاست کا قیام عمل میں لا کر دیا۔
برطانوی وزیر خارجہ بالفور کا سیاہ اعلامیہ بھی تاریخ کے اوراق پر پڑھ رکھا ہے۔ میں یہ بھی جانتا ہوں کہ 15 مئی یعنی یوم نکبہ کو کس طرح پچیس ہزار فلسطینیوں کو ایک دن میں قتل کیا اور پندرہ لاکھ فلسطینیوں کو ان کے اپنے گھروں سے نکال دیا گیا۔ جو آج تیسری اور چوتھی نسل تک جلا وطنی کی زندگی گزار رہے ہیں اور اپنے وطن اور گھر واپس آنا چاہتے ہیں۔ سنہ1967ء اور سنہ1973ء کی عرب اسرائیل جنگوں کی داستان بھی ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ امریکہ کی جانب سے غاصب صیہونی حکومت اسرائیل کو دی جانے والے اربوں ڈالروں کی سالانہ ملٹری امداد بھی ملتی ہے۔سنہ1969ء میں مسلمانوں کے قبلہ اول بیت المقدس یعنی مسجد اقصیٰ کو نذر آتش کئے جانے کا دلخراش واقعہ آج بھی سینہ پر درد بن کر موجود ہے۔ سنہ1978ء میں لبنان پر اسرائیلی فوجوں کی چڑھائی، پھر صابرا اور شاتیلا میں قتل عام جیسے واقعات ذہن سے اترتے ہی نہیں ہیں۔
اگر میں حالیہ واقعات میں خلاصہ کرنا چاہوں تو صرف اتنا کہہ سکتا ہوں کہ غاصب اسرائیل کے ساتھ امریکہ اور مغربی حکومتیں سب ساتھ کھڑی ہیں، یعنی اگر میں کہہ دوں کے پوری دنیا اسرائیل کے ساتھ ہے تو یہ بات غلط نہ ہوگی، لیکن پھر بھی اسرائیل فلسطین اور لبنان میں چھوٹے چھوٹے مزاحمتی گروہوں حماس اور حزب اللہ کے سامنے بے بس ہے اور شکست سے دوچار ہے۔ غاصب اسرائیل کی طاقت اور ہیبت کا اندازہ لگانے کے بعد اور اس کے مدد گاروں کی طاقت اور ہیبت کا اندازہ لگانے کے بعد اگر ہم دیکھیں تو اسرائیل کی جانب سے آئے روز ایسے اقدامات سامنے آتے ہیں کہ جو خود اس بات کی دلیل بن جاتے ہیں کہ غاصب صیہونی حکومت اسرائیل نابودی کے دہانے پر آن کھڑی ہوئی ہے۔ چاہے حماس اور حزب اللہ کی اعلیٰ قیادت کا قتل ہو یا پھر غزہ اور لبنان میں شہری اور نہتے لوگوں کا قتل عام اور نسل کشی ہو، یہ سب کچھ واضح ہے کہ اسرائیل کی بوکھلاہٹ اور پریشانی کو عیاں کرتا ہے۔
حال ہی میں اب امریکی اور مغربی پابندیوں کا نشانہ بننے والا ایک ملک ایران ہے کہ جہاں پر ایک ایسی پست ترین حرکت انجام دی گئی ہے، جس کے ذریعے یہ کوشش کی جا رہی ہے کہ ایران کے خلاف پراپیگنڈا کیا جائے اور اسے کمزور کیا جائے، کیونکہ ایران مسلسل فلسطینی مزاحمت کے محور کی حمایت اور مدد کرنے میں مصروف ہے۔ ایران نے اپنی خود مختاری کی حفاظت کرتے ہوئے اسرائیل پر دو مرتبہ حملہ بھی کیا ہے اور ایک مرتبہ اسرائیل کے بھرپور اور طاقتور حملہ کو ناکام بھی کیا ہے۔ اس ساری صورتحال میں اب امریکہ اور اسرائیل کیا کریں۔؟ اب امریکہ اور اسرائیل نے یہ کام انجام دیا ہے کہ تہران میں ایک خاتون جو کہ پہلے سے ہی نفسیاتی بیماریوں اور الجھنوں کا شکار ہے، اس کا استعمال کرتے ہوئے کھلی سڑک پر اس خاتون نے خود کو برہنہ کر لیا اور پھر امریکی و اسرائیلی ذرائع ابلاغ کی تو جیسے لاٹری نکل آئی ہو۔
وہ اس برہنہ پن کو خواتین کی آزادی سے تشبیہ دینے لگے اور مغربی ذرائع ابلاغ پر یہ پراپیگنڈا شروع کر دیا گیا کہ ایران میں خواتین آزادی چاہتی ہیں، حالانکہ ان کے اپنے مغربی ممالک کی خواتین جو ان کے مطابق آزاد ہیں، وہ بھی اس طرح کھلی سڑکوں پر خود کو آزادی کے نام پر برہنہ نہیں کرتی ہیں۔ اب یہ ساری صورتحال دیکھنے کے بعد جب میں فلسطین کی ایک سو سالہ تاریخ یعنی 1917ء سے اب تک غور کرتا ہوں تو یقین کیجئے کہ مجھے آج کے زمانہ میں امریکہ اور اسرائیل دنیا کی سب سے بے بس طاقتیں نظر آتی ہیں کہ جو جنگ کے میدان میں چھوٹے سے گروہوں کے سامنے ناکام ہوچکی ہیں اور اب خواتین کو برہنہ کرکے جہاں ایک طرف خواتین کی عزت کی پائمالی کی مرتکب ہو رہی ہیں، وہاں ساتھ ساتھ اپنی بے بسی اور ناتوانی کا اعتراف بھی کر رہے ہیں کہ ہم کس قدر بے بس ہوچکے ہیں کہ اب اس طرح کے نیچ اور اوچھے ہتھکنڈوں سے مزاحمت کے مرکز و محور کو روکیں گے۔
مزاحمت کے محور میں چاہے ایران ہو یا لبنان، حزب اللہ ہو یا حماس، انصاراللہ یمن ہو یا حشد الشعبی عراق ہوں یا اسی طرح جہاد اسلامی سمیت دوسرے گروہ ہوں، سب کے سب ایک بات پر متفق ہیں کہ دشمن چاہے کچھ بھی ہتھکنڈا استعمال کرے، لیکن ہم فلسطین اور غزہ کی حمایت سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ خلاصہ یہ ہے کہ وہ اسرائیل جو چند دنوں میں عرب افواج کو شکست دیتا تھا، وہ اسرائیل جو دنیا میں جدید ترین ٹیکنالوجی کا دم بھرتا ہے، لیکن چند ہزار جوانوں کے سامنے بے بس ہے۔ آج وہ اسرائیل اس قدر بے بس ہوچکا ہے کہ ایک برہنہ خاتون کی آڑ میں چھپ کر مزاحمت سے مقابلہ کرنے کی کوشش کر رہا اور ذلت و رسوائی کا شکار ہو رہا ہے۔ یعنی اسرائیل نابود ہو رہا اور ڈوب رہا ہے۔ مجھے غاصب صیہونی حکومت اسرائیل کی بے بسی پر رشک آرہا ہے۔
خبر کا کوڈ : 1170871
منتخب
23 Nov 2024
23 Nov 2024
23 Nov 2024
23 Nov 2024
22 Nov 2024
22 Nov 2024
آخری جملہ کہ "اسرائیل کی بے بسی پر رشک آرہا ہے"
رشک کسی کی اچھی خوبی یا بات پر آتا ہے، یعنی انسان اپنے لئے بھی اسے پسند کرتا ہے۔ اسلئے یہ ٹھیک ہوگا کہ مجاہدین نے جو حالت اسرائیل کی کر دی ہے، اس پر مجھے شرک آتا ہے۔ یا پھر اسرائیل کی بے بڑے پر فخر کرتا ہوں کہ مجاہدین نے اسے بے بس کیا ہوا ہے۔