1
Saturday 2 Nov 2024 18:53

حزب اللہ لبنان اور جنگ بندی کی پیشکش

حزب اللہ لبنان اور جنگ بندی کی پیشکش
تحریر: سید رضا صدرالحسینی
 
حالیہ چند دنوں میں خطے کے ذرائع ابلاغ پر چھایا ایک اہم ایشو لبنان میں جنگ بندی کا مسئلہ ہے۔ اس بارے میں چند نکات پر توجہ ضروری ہے۔ مثال کے طور پر اگر ان ذرائع ابلاغ کے طرز عمل پر غور کیا جائے تو دیکھیں گے کہ اس بارے میں شائع ہونے والی تمام خبریں اور تجزیے گویا ایک کنٹرول روم سے باہر آ رہے ہیں اور حقیقت یہ ہے کہ شائع شدہ مطالب کی اکثریت ابہامات کا شکار ہے۔ دوسرے الفاظ میں ان ذرائع ابلاغ نے جنگ بندی کا لفظ استعمال کر کے خطے میں اچھا خاصا ابہام پیدا کر دیا ہے۔ یوں، خطے کے میڈیا حلقوں میں ایک طرف غزہ اور لبنان میں غاصب صیہونی رژیم کے جارحانہ اقدامات کی شدت میں وسعت کی بات کی جا رہی ہے جبکہ دوسری طرف جنگ بندی کی پیشکش سامنے آنے اور غاصب صیہونی رژیم کی جانب سے یہ پیشکش قبول کر لیے جانے کی باتیں ہو رہی ہیں۔
 
دراصل یہ کہا جا رہا ہے کہ غاصب صیہونی رژیم نے جنگ بندی کی تمام شرائط مان لی ہیں اور ساتھ یہ بھی کہا ہے کہ وہ خود بھی جنگ بندی کی خواہاں ہے۔ لیکن ذرائع ابلاغ جس حقیقت کو درست انداز میں بیان نہیں کر رہے وہ یہ ہے کہ مدمقابل فریق، یعنی اسلامی مزاحمتی تنظیم حزب اللہ لبنان جنگ بندی کے لیے سامنے آنے والی پیشکش کے خدوخال واضح کرنے میں کوئی کردار ادا نہیں کر پائی جس کے باعث جنگ بندی کی شرائط کچھ یوں ہیں کہ کچھ طاقتوں نے جنگ کا آغاز کیا اور بڑی تعداد میں ممالک نے اس کی حمایت بھی کی اور اس دوران جنگ کی شدت بڑھنے سے تیل کی تجارت سے حاصل ہونے والی آمدن بھی بڑھتی گئی جبکہ ذرائع ابلاغ نے بھی اس اقدام کی حمایت کا اظہار کیا۔ مزید برآں، عالمی تنظیمیں اور ادارے بھی انہیں حق بجانب قرار دیتے ہیں جبکہ نامعلوم وجوہات کی بنا پر گاہے بگاہے جنگ شروع کرنے والے خود ہی جنگ بندی کی بات بھی کرتے رہتے ہیں۔
 
لہذا لبنان اور خطے کی موجودہ صورتحال بالکل ایسی ہی ہے جیسی اوپر بیان کی گئی ہے۔ غاصب صیہونی رژیم نے گذشتہ 14 ماہ کے دوران بدترین مجرمانہ اقدامات انجام دیے ہیں اور غزہ اور لبنان میں وسیع تعداد میں شہریوں کو جلاوطن کر دیا ہے اور آج جنگ بندی کی بات کرتی ہے اور یوں جنگ بندی کے مسئلے میں ابہام پیدا کیا جا رہا ہے۔ پس یوں معلوم ہوتا ہے کہ حزب اللہ لبنان کے اقدامات، خاص طور پر شہید سید حسن نصراللہ کی شہادت کے بعد انجام پانے والے اقدامات نے غاصب صہیونی رژیم کو انتہائی سخت حالات سے روبرو کر دیا ہے جبکہ امریکہ میں انتخابات کا عمل بھی ایک حساس مرحلے میں داخل ہو چکا ہے۔ لہذا جنگ اور مجرمانہ اقدامات شروع اور جاری رکھنے والا کنٹرول روم اس نتیجے پر پہنچا ہے کہ اس وقت جنگ بندی کی بات ہونی چاہیے۔
 
دوسری طرف حقیقت یہ ہے کہ حزب اللہ لبنان اور اسلامی مزاحمتی بلاک نے طوفان الاقصی آپریشن کے ابتدائی دنوں میں ہی جنگ بندی کی بات کی تھی اور شہید اسماعیل ہنیہ اور شہید سید حسن نصراللہ سمیت اسلامی مزاحمت کی تمام اہم شخصیات جنگ بندی کی خواہاں تھیں۔ لیکن اسرائیل کی غاصب صیہونی رژیم نے پوری بدمعاشی سے مجرمانہ اقدامات کے تسلسل پر مبنی ایجنڈے پر عمل کیا۔ لہذا جنگ بندی ایسی چیز ہے جو اسلامی مزاحمت کی قیادت کے لیے مطلوبہ امر ہے، لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ ایسی مبہم اور غیر واضح جنگ بندی کو ہر گز قبول نہیں کریں گے جس کا نتیجہ غاصب صیہونی رژیم کی برتری ثابت ہو جانے کی صورت میں ظاہر ہو۔ یقیناً لبنان کے کچھ اعلی سطحی سیاسی شخصیات بھی اس جال میں پھنس چکی ہیں اور وہ اپنے ذاتی مفادات کے پیش نظر ایسی باتیں کر رہی ہیں جو آخر میں لبنان کے قومی مفادات کے حق میں نہیں ہوں گی۔
 
البتہ جنگ بندی کے بارے میں حزب اللہ لبنان کا نقطہ نظر واضح کرنے کی بھی ضرورت ہے۔ یاد رہے حزب اللہ نے سفارتکاری اور مذاکرات کی ذمہ داری لبنان کی قومی اسمبلی کے اسپیکر نبیہ بری کو سونپ رکھی ہے جو طویل سیاسی اور سماجی فعالیت کا تجربہ رکھتے ہیں لیکن حتمی فیصلے کا اختیار حزب اللہ لبنان کے پاس ہی ہے۔ حزب اللہ لبنان کی جانب سے جنگ بندی کا خیر مقدم کرنے کی دو بنیادی وجوہات ہیں؛ ایک یہ کہ غاصب صیہونی رژیم کے خلاف فوجی کاروائیوں سے حزب اللہ لبنان کا مقصد اسے غزہ میں جنگ بندی پر مجبور کرنا تھا جہاں حماس نے جنگ بندی کے لیے جنگ کا مکمل خاتمہ اور غزہ سے اسرائیلی فوج کا مکمل انخلاء جیسی شرائط پیش کر رکھی ہیں۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ جنگ بندی سے متعلق مذاکرات میں حزب اللہ اپنی مرضی کی شرائط پیش کر سکتی ہے۔
 
حزب اللہ لبنان ان سات چیزوں پر زور دے رہی ہے:
1)۔ مذاکرات جنگ پوری طرح رک جانے کے بعد انجام پائیں گے،
2)۔ جنگ بندی میں لبنان کے ساتھ ساتھ غزہ بھی شامل ہو گا،
3)۔ اقوام متحدہ کی قرارداد 1701 کسی کمی بیشی کے بغیر قبول کی جائے گی،
4)۔ یونیفل کی افواج میں اضافہ صرف ایسے ممالک سے کیا جائے گا جو پہلے سے یونیفل کے رکن ہیں،
5)۔ جرمنی کی جانب سے غاصب صیہونی رژیم کی حمایت کے باعث یونیفل سے جرمنی کی رکنیت ختم ہونی چاہیے،
6)۔ جنوبی حصوں میں لبنان آرمی کی تعیناتی میں اضافہ ہو گا،
7)۔ دریائے لیتانی کے جنوب میں حزب اللہ کی موجودگی لبنان آرمی اور حزب اللہ کے درمیان معاہدے کی روشنی میں طے کی جائے گی۔
خبر کا کوڈ : 1170358
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش