ترتیب و تنظیم: علی واحدی
پولیٹیکو اخبار نے لکھا ہے کہ تل ابیب کے کچھ علاقے بالخصوص "پتخ تیکوا" اور "بئر السبع" (جو مقبوضہ فلسطین کے جنوب میں واقع ہیں) بجلی کی بندش کا شکار ہیں۔یہاں کے شہری ہر روز گھنٹوں بجلی سے محروم رہتے ہیں، جس کے نتیجے میں ٹرینوں کی آمدورفت بھی معطل رہتی ہے۔ اس مشکل پر قابو پانے کے لئے صیہونی حکومت بعض بنیادی آلات کی خریداری پر مجبور ہوگئی ہے۔ پولیٹیکو نے لکھا ہے کہ بجلی کی بندش سے قطع نظر، چاہے وہ بین الاقوامی ہیکر گروپوں کی کارروائی ہو یا حکومتی غلطیوں کا سلسلہ، اس صورت حال نے صیہونی حکومت کے قومی سلامتی کے اہلکاروں کی کمزوری کو ثابت کر دیا ہے۔ اس اخبار نے صیہونی حکومت کے قومی سلامتی کے سابق نائب مشیر "چک فریلیچ" کے حوالے سے لکھا ہے کہ لبنان کی سرحدوں پر کشیدگی میں اضافہ بجلی کے گرڈ پر منفی اثر ڈال رہا ہے۔
فریلیچ نے یہ بھی کہا ہے کہ اگر حزب اللہ نے کبھی بجلی گھروں اور توانائی کی دیگر تنصیبات پر حملہ کرنے کا فیصلہ کیا تو حکومت کے لیے ایک بہت بڑا مسئلہ بن جائے گا۔ حزب اللہ کے پاس کروز میزائل ہیں، جو شہری انفراسٹرکچر کو نشانہ بنا سکتے ہیں اور یہ بات یقینی ہے کہ صیہونی انتظامیہ بجلی اور کمپیوٹرائزڈ آلات کے بغیر کچھ بھی نہیں کرسکتی۔ اس اخبار کے مطابق حزب اللہ کے ساتھ تنازعات میں اضافہ کی وجہ سے تامر گیس فیلڈ کی عارضی بندش نے صورتحال کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔ یہ فیلڈ قدرتی گیس کے تین اہم ذخائر میں سے ایک ہے اور غزہ سے قربت اور اس کے اثرات کی وجہ سے اس پر دسترسی آسان نہیں۔ دوسری جانب "لیویتھن" نامی ایک بڑی گیس فیلڈ مقبوضہ فلسطین کی شمالی سرحدوں کے قریب واقع ہے، جو حزب اللہ کے راکٹ حملوں کے نشانے پر ہے۔
اخبار نے انکشاف کیا ہے کہ اسرائیل کی طرف سے دو محاذوں یعنی حزب اللہ اور حماس کا بیک وقت سامنا کرنے سے بچنے کی ایک وجہ یہ ہے کہ وہ ایک ہی وقت میں تمر اور لیویتھن گیس فیلڈز کو بند نہیں کرسکتا، کیونکہ اس کے پاس گیس کا کوئی دوسرا متبادل نہیں ہے۔ اسرائیلی پالیسی سازوں کے لیے خام تیل، پٹرول اور ڈیزل تک رسائی طویل عرصے سے ایک بڑا مسئلہ رہا ہے، اخبار نے 1967ء اور 1973ء کی علاقائی جنگوں جس میں عرب حکومتوں نے اسرائیل کو تیل کی سپلائی بند کردی تھی، کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ صیہونیوں کے لئے اس بحران کا خیال بھی انتہائی تکلیف دہ ہے۔ اسی تناظر میں امریکی اخبار نے لکھا ہے کہ اسرائیلی سکیورٹی سروسز نے اس مسئلے کے حل کے لئے افریقی حکومتوں کے ساتھ تیل کے لیے ہتھیاروں کے تبادلے کا ایک خفیہ پروگرام شروع کر دیا ہے۔
پولیٹیکو نے لکھا ہے کہ طوفان الاقصیٰ کے بعد، آذربائیجان سے اسرائیلی حکومت کی تیل کی درآمد متاثر ہوئی ہے۔ باکو اسلامی ممالک کے ساتھ اپنی یکجہتی کے لئے سخت دباؤ میں ہے۔ اس اخبار نے تیسرے خطرے کا بھی ذکر کیا ہے اور وہ بحیرہ احمر میں یمنیوں کی طرف سے سپلائی لائنوں کو نشانہ بنانا ہے۔ پولیٹیکو کے مطابق حماس کے سیاسی دفتر کے سربراہ اسماعیل ہنیہ کے قتل پر ایران کے ردعمل اور یہاں تک کہ تہران اور تل ابیب کے درمیان براہ راست تصادم کے خطرے کے پیش نظر اسرائیل کو توانائی کے انتہائی سخت بحران کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ اخبار پولیٹیکو نے بریلان یونیورسٹی کے پروفیسر ریٹیگ کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ "اسرائیلی شہری بجلی کی بندش کے عادی نہیں ہیں، اس لیے صرف دو دن تک بجلی کی بندش کا تصور اور خیال بھی ایک ڈراؤنا خواب ہے، جو ان کے لیے شدید خوف و ہراس کا باعث ہے۔