0
Friday 1 Nov 2024 13:58

لبنان میں جنگ بندی کے امکانات

لبنان میں جنگ بندی کے امکانات
تحریر: ڈاکٹر راشد عباس نقوی

مقبوضہ علاقوں پر حزب اللہ کے زبردست حملوں کے بعد ایسا لگتا ہے کہ تل ابیب کے رہنماء بالآخر ہار مان لیں گے اور انہیں لبنانی مزاحمت کے ساتھ جنگ ​​بندی پر رضامند ہونا پڑے گا۔ ہم اس کے آثار امریکی نمائندوں کے خطے میں ہونے والے پے درپے دوروں سے محسوس کرسکتے ہیں۔ یوں تو صیہونی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو نے دعویٰ کیا تھا کہ وہ حزب اللہ کی تباہی تک لبنان میں جنگ جاری رکھیں گے، لیکن اس مہم جوئی کے ایک ماہ گزرنے کے بعد اب شمالی محاذ پر صہیونی فوج کی شکست کے آثار نظر آنے لگے ہیں۔ اس سلسلے میں، کہا جاتا ہے کہ نیتن یاہو، اپنے  بیانات سے پیچھے ہٹ رہے ہیں۔ منگل کے روز اسرائیلی اخبار "یدیعوت احرنوت" نے صہیونی حکام کا حوالہ دیتے ہوئے اعلان کیا کہ لبنان میں جنگ کو روکنے کے لیے مذاکرات ایک نئے مرحلے میں پہنچ چکے ہیں۔

ان صہیونی حکام نے دعویٰ کیا ہے کہ لبنانی حکام اور تل ابیب کے حکام کے درمیان جنگ بندی کے لیے بالواسطہ مذاکرات ہو رہے ہیں۔ ان صہیونی حکام کے مطابق امریکہ کے خصوصی ایلچی آموس ہاکسٹین نے بھی اپنے حالیہ دورہ لبنان کے دوران کچھ پیشرفت حاصل کی ہے اور وہ جنگ کے حوالے سے کسی حتمی معاہدے تک پہنچنے کے لیے جلد ہی دوبارہ بیروت اور مقبوضہ علاقوں کا دورہ کریں گے۔ اگرچہ حزب اللہ اور تل ابیب کے درمیان جنگ بندی کے معاہدے کے بارے میں بات کرنا ابھی قبل از وقت ہے، لیکن صہیونی فوج کو لبنان کے محاذ پر گذشتہ ماہ جس انتہائی مشکل میدانی صورت حال کا سامنا کرنا پڑا ہے، اس نے صیہونی کارروائیوں میں کامیابی کے امکانات کو تقریباً ختم کر دیا ہے۔

اپنے کمانڈروں اور رہنماؤں کے قتل کے ردعمل میں حزب اللہ نے اپنی کارروائیوں کا دائرہ مقبوضہ علاقوں تک بڑھا دیا ہے اور اب شمال سے صیہونی حکومت کا کوئی علاقہ ایسا نہیں ہے، جو حزب اللہ کے میزائل اور ڈرون حملوں سے محفوظ ہو۔ اطلاعات کے مطابق حزب اللہ کے میزائلوں کے خوف سے ہر روز کم از کم دس لاکھ صیہونی آبادکار کئی کئی گھنٹے پناہ گاہوں میں گزارتے ہیں۔ اس وقت مزاحمتی میزائل مقبوضہ زمین کے ان علاقوں تک بھی جا رہے پیں، جہاں بیس لاکھ سے زیادہ صیہونی رہتے ہیں۔ حزب اللہ نے الجلیل، حیفا اور تل ابیب میں اسرائیل کے کئی تزویراتی اور حساس مراکز کو نشانہ بنایا ہے، جس سے تل ابیب کے رہنماؤں میں سخت تشویش پائی جاتی ہے۔ اسی طرح تل ابیب کے ارد گرد موساد کے ہیڈ کوارٹر میں حزب اللہ کے میزائلوں کی آمد اسرائیل کی کمزوری کو ظاہر کرتی ہے۔

صیہونی حکومت کے دفاعی نظام کے ذریعے حزب اللہ کے میزائلوں اور ڈرونز کا تل ابیب تک پہنچنا، اس حکومت کے قائدین کے تصور سے بھی باہر تھا۔ یہئ وجہ ہے کہ وہ اس صورت حال سے نکلنے کا راستہ تلاش کر رہے ہیں، کیونکہ اب وہ آبادکاروں کی سلامتی کا دفاع نہیں کرسکتے۔ "THAD" کے نام سے مشہور امریکی دفاعی نظام سے بھی صہیونیوں کی مشکلات دور نہیں ہو رہیں۔ لبنان پر اسرائیلی فوج کے حملے سے پناہ گزینوں کو ان کے گھروں کو لوٹنا تھا، لیکن اب صورت حال برعکس ہوگئی ہے۔حزب اللہ نے 25 دیگر بستیوں کے مکینوں سے کہا ہے کہ وہ میزائلوں سے محفوظ رہنے کے لیے ان علاقوں کو خالی کر دیں۔ حزب اللہ نے گھات لگا کر اور دوبدو کی لڑائیوں میں قابض دشمن کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔ شمالی محاذ میں اسرائیلی فوج کو جتنا جانی نقصان ہوا ہے، اس کی مثال نہیں ملتی اور سرکاری اعداد و شمار کے مطابق گذشتہ ایک ماہ کے دوران 23 فوجی ہلاک اور درجنوں زخمی ہوچکے ہیں۔

اسرائیلی فوج کے سنسر شدہ میڈیا کے مطابق ہلاکتوں کی تعداد اس سے زیادہ ہے، جس کا اعلان کیا گیا۔ ہسپتالوں اور عبرانی میڈیا کی رپورٹس بھی اس معاملے کی تصدیق کرتی نظر آرہی ہیں۔ ستمبر میں تنازع کے آغاز کے بعد سے، لبنانی مزاحمت نے 28 مرکاوا ٹینک، 4 فوجی بلڈوزر، ایک بکتر بند گاڑی، ایک عملہ بردار جہاز، 450 ڈرون اور ایک ہرمیس 900 ڈرون کو تباہ کیا ہے۔ حالیہ ہفتوں میں حزب اللہ نے اپنے نئے ہتھیاروں کی رونمائی کرکے صیہونیوں کو زبردست دھچکا پہنچایا ہے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ شمالی محاذ پر جنگ جاری رہنے سے تل ابیب کے رہنماؤں پر ناخوشگوار نتائج برآمد ہوں گے۔ نیتن یاہو کا خیال تھا کہ حزب اللہ کے رہنماؤں کے قتل کے بعد شمالی علاقوں میں فوری امن برقرار ہو جائیگا۔ لیکن ان جنگجوؤں نے پے در پے حملہ کیا ہے اور پورے مقبوضہ علاقوں میں عدم تحفظ اور لاکھوں آباد کاروں کی پناہ گاہوں میں آمد سے قابضین کے لیے سکیورٹی ایک خواب بن کر رہ گئی ہے۔

اسرائیل کو بار بار ناکامی ہو رہی ہے، حالانکہ اس حکومت نے لبنان پر حملہ کرنے کے لیے اپنے تمام فوجی ہتھیار استعمال کیے ہیں۔ لبنان پر حملے میں 146ویں، 36ویں، 91ویں، 98ویں اور 210ویں ڈویژن سمیت پانچ آرمی ڈویژن موجود ہیں، جو اس حکومت کی تقریباً نصف فوج ہے۔ صیہونی فوج اور اس کے ہتھیاروں کی تعداد کاغذوں پر حزب اللہ سے کئی گنا زیادہ ہے، حزب اللہ نے میدان میں پہل کرتے ہوئے اور لڑائی کے  مناسب طریقے استعمال کرکے کھیل کے اصولوں کو اپنے حق میں بدل دیا ہے۔ لبنان پر صیہونی حکومت کا حملہ غزہ کی جنگ کے پہلے دنوں جیسا ہی تھا، تقریباً 1 ماہ تک شہری علاقوں پر اندھا دھند بمباری سے تقریباً 3000 افراد شہید اور ہزاروں زخمی ہوئے تھے۔ ان وحشیانہ حملوں کے اس حجم کے باوجود قابض فوج حزب اللہ کے خلاف کچھ خاص کامیابی حاصل نہیں کرسکی ہے اور جیسا کہ منگل کو لبنانی "یونس" نامی ویب سائٹ نے اعلان کیا ہے کہ اسرائیلی افواج زمینی محاذ پر اپنے محدود ٹھکانوں کو برقرار رکھنے کے قابل بھی نہیں رہی ہے اور انہیں پسپائی پر مجبور ہونا پڑا۔

حزب اللہ کے ہاتھوں شکست کی نفسیاتی جہتیں
حزب اللہ کے خلاف ہلاکتوں میں اضافے سے صیہونی فوجیوں کے حوصلے بہت پست ہوگئے ہیں اور جنگ سے واپس آنے والے فوجیوں کی صورتحال کے بارے میں سی این این کی گذشتہ ہفتے شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق بہت سے فوجی شدید ذہنی اور جذباتی مسائل کا شکار ہیں، یہاں تک کہ ان میں سے بہت سوں نے خودکشی کی کوشش کی ہے۔ خطرے کے سائرن کے بار بار بجنے اور پناہ گاہوں کی طرف بھاگنے کی وجہ سے معمولات زندگی مکمل طور پر درہم برہم ہوچکے ہیں۔ اس نفسیاتی دباؤ کو برقرار رکھنے کی حزب اللہ کی صلاحیت اس کی مجموعی حکمت عملی کا اہم حصہ ہے، کیونکہ یہ صورتحال جہاں عوامی حوصلے پست کرسکتی ہے، وہاں صہیونی کابینہ پر بالواسطہ دباؤ ڈال سکتی ہے۔ گذشتہ دنوں دسیوں ہزار آباد کاروں بالخصوص قیدیوں کے اہل خانہ نے نیتن یاہو کی حکومت کے خلاف اپنے مظاہروں میں شدت پیدا کرتے ہوئے اس صورت حال کو اپنی مخدوش صورت حال کا بنیادی سبب قرار دیا اور غزہ اور لبنان میں تنازعات کے خاتمے کا مطالبہ کیا۔

لبنان پر فضائی حملوں اور حزب اللہ کے کمانڈروں کے قتل کے پہلے دنوں میں طاقت کا توازن کسی حد تک نیتن یاہو کے حق میں ہوا، جس سے ان کی ملکی اور عوامی حمایت میں اضافہ ہوا، لیکن حالیہ دنوں میں مزاحمتی قوتوں کے خلاف بھاری جانی نقصان نیز حزب اللہ کے مقبوضہ علاقوں میں داغے جانے والے ڈرونز نے ایک بار پھر نیتن یاہو کی پوزیشن کو کمزور کر دیا ہے۔ اسرائیل کے سابق وزیراعظم ایہود اولمرٹ نے نیتن یاہو کی پالیسیوں پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ "اسرائیل کے اصل دشمن ایران، حزب اللہ یا حماس نہیں بلکہ نیتن یاہو اور ان جیسے انتہاء پسند صہیونی ہیں۔" ایہود اولمرٹ کے مطابق بدقسمتی سے ہم یہ دیکھتے ہیں کہ نیتن یاہو اپنی کابینہ میں انتہاء پسندوں پر بھروسہ کرتے ہیں اور ان کے اقدامات پر آنکھیں بند کر لیتے ہیں۔ صیہونی اپوزیشن کے رہنماء یائر لاپیڈ نے نیتن یاہو سے کہا ہے کہ تم  اسرائیل کی تاریخ کے سب سے کمزور وزیراعظم ہو اور جو شخص نصراللہ کے قتل کا کریڈٹ لینا چاہتا ہے، اسے غزہ میں قیدیوں کے قتل کی ذمہ داری بھی قبول کرنی چاہیئے۔ بہرحال اسرائیلی فوج کے چیف آف اسٹاف ہرزی حلوی نے جمعے کے روز لبنانی محاذ پر لڑائی ختم کرنے کے امکان کا اعلان کیا پے۔
خبر کا کوڈ : 1170187
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش