تحریر: سید رضا میر طاہر
فلسطین کی حمایت میں ہونے والے احتجاجی مظاہرے کے بعد ہارورڈ لاء کالج نے کم از کم ساٹھ طلباء کو لائبریری میں داخل ہونے سے روک دیا، جس کے ردعمل میں طلباء نے اپنے ردعمل کا اظہار کرنے کے لئے مظاہرے انجام دیئے۔ یونیورسٹی حکام کے مطابق یہ پابندی طلبہ کی ان احتجاجی مظاہروں میں شرکت کی سزا ہے، جس میں اسٹوڈنٹس نے غزہ پر صیہونی حکومت کے مسلسل حملوں کی مذمت کرتے ہوئے پلے کارڈ اٹھا کر اسرائیل مخالف مظاہرے کئے تھے۔ ہارورڈ یونیورسٹی کی طرف سے طلبہ کے خلاف کریک ڈاؤن کا مقصد اسرائیل مخالف مظاہروں کو محدود کرنے کی کوشش ہے۔ امریکی یونیورسٹیوں میں فلسطین کی حمایت میں مظاہرے ایسے عالم میں کیے جاتے ہیں کہ اس ملک کی رائے عامہ اسرائیل کی حمایت میں کوئی دلچسپی ظاہر نہیں کرتی۔ ہارورڈ یونیورسٹی نے حال ہی میں فلسطین کی حمایت میں مظاہرے منعقد کرنے پر 25 سے زائد فیکلٹی ممبران کو معطل کیا، جبکہ اس سے قبل 12 انڈرگریجویٹ طلباء کو معطل کیا گیا، یہ معطلی نومبر 2024ء تک جاری رہے گی۔
غزہ پٹی پر صیہونی حکومت کے حملے، فلسطینیوں کی نسل کشی اور غزہ جنگ کے دوران اس حکومت کی جانب سے بے مثال جرائم کا سلسلہ جاری ہے، جس کو اب تیرہ مہینے ہوچکے ہیں۔ اس نسل پرستی کے خلاف مظاہروں کے حوالے سے طلبہ کے احتجاج کی یہ سب سے بڑی لہر ہے۔ امریکہ میں طلباء کے یہ مظاہرے اور دھرنے غزہ میں اسرائیل کے جرائم بالخصوص نسل کشی کے ساتھ ساتھ بھوک کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کے خلاف تھے۔ طلباء کے ان مظاہروں میں خطے میں فوری جنگ بندی اور متاثرہ افراد کی امداد میں اضافے کے مطالبات سرفہرست تھے۔ امریکی حکومت نے ان مظاہروں میں حصہ لینے والے جن افراد کو سزا دینے کا فیصلہ کیا ہے، ان میں پروفیسرز اور یونیورسٹی کے منتظمین بھی شامل ہیں۔
امریکہ میں فلسطین کی حمایت میں طلبہ کا احتجاج اس ملک کے سیاسی اور سماجی نظام میں ایک نیا واقعہ ہے اور یہ احتجاج یورپی ممالک تک پھیل چکا ہے۔ امریکہ اپنے آپ کو انسانی حقوق، انسانی آزادیوں اور آزادی اظہار کے حق کا بڑا دعویدار اور چیمپین سمجھتا ہے، لیکن عملی طور پر امریکہ کے اندر اسرائیل کے خلاف اظہار رائے اور مظاہروں کے انعقاد پر پابندی عائد ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکی حکومت کی طرف سے آزادی اظہار کے معاملے کی اجازت صرف اسی صورت میں دی جاتی ہے، جب وہ واشنگٹن اور اس کے اتحادیوں بالخصوص صیہونی حکومت کی پالیسیوں کی حمایت میں ہو۔ ورنہ امریکہ میں افراد یا اداروں کے لیے اپنی رائے کے اظہار یا حکمرانوں کی پالیسیوں کے خلاف احتجاج کی زیادہ گنجائش نہیں ہے۔
اپریل 2024ء کے آخر میں، الجزیرہ نیٹ ورک نے امریکہ میں آزادی اظہار کی صورتحال کے بارے میں ایک دلچسپ رپورٹ نشر کی ہے۔ اس رپورٹ میں کولمبیا یونیورسٹی کے ان طلباء اور پروفیسروں کو شامل کیا گیا ہے، جنہوں نے غزہ جنگ اور اسرائیلی جرائم کی مذمت کے لیے منعقد ہونے والے مظاہروں اور احتجاجی اجتماعات میں شرکت کی تھی۔ رپورٹ کے مطابق امریکی حکومت نے صیہونی حکومت کے مخالفین اور فلسطینیوں کے حامیوں کو بلیک لسٹ کرکے ان پر تعلیم حاصل کرنے اور کام کرنے پر پابندی لگاتے ہوئے واضح کر دیا کہ کولمبیا یونیورسٹی کی انتظامیہ، وال اسٹریٹ اور اسلحہ ساز کمپنیوں کے اسرائیل کے ساتھ قریبی اقتصادی تعلقات ہیں۔
اس دباؤ اور پابندیوں کے باوجود امریکہ میں طلبہ تحریک نے فلسطینیوں کی حمایت اور صیہونی حکومت کے بڑے جرائم کی مذمت کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔ یہ ایک ایسا مسئلہ ہے، جسے صہیونی میڈیا بھی تسلیم کرنے پر مجبور ہے۔ اسی تناظر میں زیمان اسرائیل نیوز سائٹ نے اپنی ایک رپورٹ میں اعلان کیا ہے کہ کولمبیا یونیورسٹی میں اسرائیل کے خلاف پروپیگنڈے میں تیزی سے اضافہ کی وجہ سے ہم اسرائیل کے خلاف مسلح جدوجہد کی حمایت میں توسیع کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔اسی لئے یہ مسئلہ ہمیں یہ سوال اٹھانے پر مجبور کرتا ہے کہ یونیورسٹی حکام احتجاجی طلباء کے خلاف تعزیری اقدامات کریں گے یا نہیں۔؟
یہ میڈیا اپنی رپورٹ کے ایک اور حصے میں اس بات پر زور دیتا ہے کہ موسم خزاں کے آغاز سے، کولمبیا یونیورسٹی میں "نسل کشی مخالف" نامی تحریک (جو اسرائیل مخالف اتحاد ہے اور اس میں سو کے قریب مختلف طلبہ تنظیمیں شامل ہیں) نے اسرائیلی تشدد کے بارے میں تصاویر شائع کی ہیں۔ صہیونی میڈیا نے بتایا ہے کہ طلباء نے اس حوالے سے مختلف میٹنگیں کیں اور حال ہی میں مزاحمت کی حمایت میں ایک ورچوئل کانفرنس کا بھی انعقاد کیا ہے، جس کی وجہ سے چار طالب علموں کو معطل کرکے ہاسٹل سے نکال دیا گیا ہے۔ امریکہ میں صہیونی لابیوں کے قریبی عہدیداروں اور تنظیموں نے تل ابیب کے حکام کے ساتھ مل کر امریکہ میں طلباء کے مظاہروں اور احتجاج کو امریکہ کی نئی نسل کے فریب اور انحراف کا نتیجہ قرار دیتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ سکیورٹی فورسز مزاحمت کے حامیوں کے ساتھ آہنی ہاتھوں سے نمٹیں۔ بہرحال اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ امریکی طلباء کا ایک اہم حصہ اسرائیل مخالف مظاہروں کو جاری رکھنے اور فلسطینیوں بالخصوص غزہ کے مظلوموں کی حمایت کرنے پر یقین رکھتا ہے۔