تحریر: احمد کاظم زادہ
صیہونی حکومت نے جن مقاصد کے لیے لبنان پر حملہ کیا تھا، ان سب میں اسے ناکامیوں کا سامنا ہے۔ اسرائیل نے لبنان کے ساتھ جنگ کا آغاز آباد کاروں کو ان کے گھروں کو واپسی کے واضح مقصد کے ساتھ کیا تھا جبکہ زمینی حقائق اس بات کے شاہد ہیں کہ نہ صرف نقل مکانی کرنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے بلکہ اسرائیل کو جنگ سے تھکے فوجیوں نیز بھاری جانی نقصان کا بھی سامنا ہے۔ حزب اللہ کی جانب سے مقبوضہ فلسطین کی پچیس شمالی بستیوں کو خالی کرنے کا حکم جاری کیے جانے کے بعد اس خطے میں صیہونیوں کی نقل مکانی کی ایک نئی لہر شروع ہوگئی ہے۔
لبنان میں شہری اہداف پر صیہونی فوج کے حملوں کے خلاف مزاحمت پیدا کرنے کے لیے، جن کے نتیجے میں اب تک 15 ہزار سے زائد افراد شہید و زخمی ہوچکے ہیں اور دس لاکھ سے زائد افراد بے گھر ہوچکے ہیں، حزب اللہ نے اپنے دائرہ کار میں اضافہ کیا ہے۔ اس وقت دس لاکھ مزید آباد کار حزب اللہ کے حملوں کی زد میں ہیں۔ حزب اللہ نے متعدد بیانات جاری کرکے صیہونیوں کو خبردار کیا ہے کہ ان کی بستیاں لبنان پر حملہ کرنے والے دشمن کے فوجیوں کا ٹھکانہ بن چکی ہیں، لہذا اب یہ بستیاں لبنان کی اسلامی مزاحمت کے فضائی اور میزائل یونٹوں کے لیے جائز فوجی اہداف ہیں۔
یہ بیانات چونکہ گولانی بریگیڈ اور بنجمن نیتن یاہو کے گھر کو نشانہ بنانے جیسے عملی اقدامات کے ساتھ تھے، اس لئے مقبوضہ علاقوں کی شمالی بستیوں سے نقل مکانی کرنے والوں کی لہر میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ قابض حکومت کے میڈیا اور ٹی وی چینلز بھی اس نقل مکانی کی تصدیق کرتے نظر آرہے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ نیتن یاہو کی طرف سے لبنان کے خلاف شروع کی گئی جنگ، خاص طور پر مقبوضہ فلسطین کی شمالی بستیوں کے بے گھر لوگوں کی واپسی اور حزب اللہ کو غیر مسلح کرنے کے حوالے سے، اپنے اہداف تک نہیں پہنچ سکی ہے، بلکہ اب تو جو آباد کار گلیل میں رہ گئے تھے، وہ بھی فرار ہو رہے ہیں۔
صیہونی فضائیہ کے سابق کمانڈر ایلان بیٹن نے اعتراف کیا ہے کہ حزب اللہ اب بھی اپنی اصل طاقت کو برقرار رکھے ہوئے ہے اور اس کے پاس ایسی میزائل طاقت ہے، جو نہ صرف شمالی اسرائیل بلکہ پورے خطے کو نشانہ بنا سکتی ہے۔ ڈرونز یا میزائلوں پر نصب کیمرون کی مدد سے حزب اللہ فوجی میڈیا میں اپنی کارروائیوں کو ریکارڈ کرنے میں کامیاب رہتی ہے، خاص طور پر جب وہ صیہونی حکومت کی افواج کو نشانہ بناتی ہے تو اس کی ریکارڈنگ میڈیا تک پہنچ جاتی ہے، جس سے خوف میں چنداں اضافہ ہوتا ہے۔ ایسی کارروائی کو سائبر اسپیس اور میڈیا کارکنان "کیمرہ کے ساتھ حزب اللہ کے میزائل" جیسی اصطلاح سے تعبیر کرتے ہیں۔
مقبوضہ فلسطین کے شمال اور مرکز کی طرف میزائلوں اور ڈرونز کی مسلسل فائرنگ اور جنوبی لبنان میں صیہونی فوج کی زمینی چالوں کے جواب میں حزب اللہ کی بہترین حکمت عملی نے صیہونی سیاست دانوں، ماہرین اور مبصرین کو اس بات پر آمادہ کیا ہے کہ وہ اس مسئلے کو سنجیدگی سے اٹھائیں اور موجودہ حالات کی سنگینی نیز مستقبل کے تاریک ہونے کی وجہ سے اپنی حکومت اور حزب اللہ کے درمیان جنگ کو روکنے کے لیے سنجیدہ اقدامات انجام دیں۔ دوسری جانب صہیونی فوج لبنان کے جنوبی محاذ پر عملی طور پر پھنس کر رہ گئی ہے اور کوئی دن ایسا نہیں گزرتا، جس دن اس کا جانی نقصان نہ ہوا ہو۔
غزہ میں جنگ کے نتیجے میں اسرائیلی فوج بری طرح تھک چکی ہے اور اس کے چاروں طرف حزب اللہ کے فوجی ہیں، جن کا دفاعی سرگرمیاں انجام دینے کا وسیع تجربہ ہے۔ غزہ کی جنگ کے جاری رہنے سے صیہونی حکومت میں اندرونی تقسیم اور اختلافات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ صہیونی فوج کے چیف آف اسٹاف ہرزی حلوی نے آج کہا کہ ہمیں بھاری اور دردناک جانی نقصان پہنچا ہے۔ عبرانی ذرائع ابلاغ نے رپورٹ کیا ہے کہ صیہونی حکومت کی فوج نے جنوبی لبنان میں زمینی کارروائی کے آغاز سے اب تک 594 فوجیوں کے زخمی ہونے کا اعلان کیا ہے۔ گذشتہ رات صیہونی حکومت کی اپوزیشن کے سربراہ یائر لاپیڈ نے کہا ہے کہ جنگ کے آغاز سے اب تک 11 ہزار فوجی زخمی اور 890 فوجی ہلاک ہوچکے ہیں۔
صہیونی فوج نے غزہ پٹی پر بھی جارحیت کے آغاز سے اب تک اپنے 5,150 فوجیوں کے زخمی ہونے کا اعتراف کیا ہے اور اعلان کیا ہے کہ ان میں سے 764 کے زخم شدید ہیں۔ ادھر صیہونی ریڈیو اور ٹیلی ویژن نے اس حکومت کی وزارت صحت کے اعدادوشمار کا حوالہ دیتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ جنگ کے اثرات کی وجہ سے تین لاکھ اسرائیلی ذہنی اور نفسیاتی علاج سے گزر رہے ہیں۔ اسرائیلی ذرائع کی رپورٹوں میں قابل غور بات یہ ہے کہ وہ فوجی ہلاکتوں کی تعداد کا اعلان کرنے سے گریز کرتے ہیں اور یہ خود اس بات کی نشاندہی ہے کہ اصل ہلاکتیں زیادہ ہیں۔
صیہونی حکومت نے اپنی زمینی کارروائیوں کے اعلیٰ اہداف کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ مقبوضہ علاقوں کے شمال میں بے گھر ہونے والے آباد کاروں کی واپسی، 5 کلومیٹر اندر جا کر جنوب لبنان کی سرحدی پٹی کا کنٹرول حاصل کرنا، مزاحمت کو غیر مسلح کرنا اور لیطانی دریا تک پہنچنا اسرائیل کا ابتدائی اقدام ہوگا۔ علاقائی امور کے مبصرین صیہونی فوج کی اپنے اعلان کردہ اہداف کو حاصل کرنے میں ناکامی کو دیکھتے ہوئے اس بات کے قائل ہیں کہ حزب اللہ نے صیہونی حکومت کو ایک ایسی جنگ کی دلدل میں پھنسا دیا ہے، جس سے نکلنے کا اس کے پاس کوئی راستہ نہیں ہے۔