تحریر: ارشاد حسین ناصر
جب سے طوفان الاقصیٰ ہوا ہے، دنیا میں تبدیلیوں کا ایک نیا دور چل رہا ہے، یہ تبدیلیاں کئی جہتوں سے دیکھی جا سکتی ہیں، دنیا اک نئے رنگ میں داخل ہوچکی ہے، امت مسلمہ اور مقاومت اپنے جوبن پر ہیں۔ مقاومت نے امت مسلمہ کے منافقین کے چہروں سے بھی نقاب نوچے ہیں تو دنیا بھر کے نام نہاد انسانی حقوق و عالمی سطح پر عدل و انصاف کے نام نہاد اداروں، امن و سلامتی کے ضامنوں، خواتین و بچوں کے حقوق، شہری آزادیوں، اقتصادی و مالی سپورٹ کے عالمی نیٹ ورکس اور کسی بھی قسم کے متعصابانہ و جارحانہ رویوں کے خلاف کام کرنے والے اداروں کے چہرے بھی منافقت، تعصب اور جانبداری کا منہ بولتا ثبوت لیے دکھائی دے رہے ہیں۔ اگرچہ اسرائیل گذشتہ چھہتر برس سے یہی طریقہ اور انداز اختیار کیے ہوئے ہے، جو گذشتہ ایک برس سے طوفان الاقصیٰ کے بعد سے فلسطینیوں و لبنان و غزہ کے ساتھ رکھے ہوئے ہے، یعنی ظلم کی تمام حدود کو پار کر جانا اور کسی کا ایک لفظی مذمت بھی نہ کرنا۔
بچوں، بزرگوں، خواتین، حتی غیر مسلح پرامن لوگوں کی رہائشی بلڈنگز کو تہس نہس کرنا اسرائیل کا معمول رہا ہے۔ ہاں یہ ہے کہ طوفان الاقصیٰ کے بعد اس نے ایک سال میں جتنے جرائم کیے ہیں، ان کی مثال ماضی میں کم ملتی ہے۔ یہ سب ظلم اس نے اپنے قیدی شہریوں کو رہا کروانے کے نام پر کیا ہے۔ اسرائیل دنیا کی چند بڑی جدید فوج رکھتا ہے، جو امریکہ کی چھتری اور نیٹو ممالک کی پشت پناہی کے ساتھ بے غیرت مسلمان بالخصوص شیوخ عرب کی مددد سے قائم و دائم ہے، وگرنہ اس کے بارے سید مقاومت نے جو فرمایا تھا کہ یہ مکڑی کے جالے سے بھی کمزور ہے، ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے۔ جس ملک نے اپنے تمام ہمسایہ ممالک کی زمینوں پر قبضہ کیا ہو اور وہ اس سے چھڑوا نہ سکے ہوں، بلکہ اس کے ساتھ صلح کی پینگیں بڑھا کر اس کے جرائیم میں حصہ دار بن چکے ہوں، وہی اسرائیل ایک محدود علاقے کے مجاہدین کے گروہ حماس اور حزب اللہ لبنان سے لڑنے کی طاقت کھو چکا ہے، اس کی ناکامی واضح اور نوشتہ دیوار بن کر دیکھا جا رہا ہے۔
اسرائیل نے اپنی جدید ٹیکنالوجی کی بنیاد پر خائنین امت کے تعاون سے مقاومتی قیادتوں، جن کا تعلق غزہ سے ہے یا لبنان و شام و عراق سے، ان کو شہید کیا ہے۔ مقاومتی قیادتوں کی شہادتیں اگرچہ سب پر بہت گراں ہیں، جو کمانڈرز اور قائدین شہید ہوئے، ان کی عدم موجودگی اور رہنمائی کی کمی محسوس ہوگی اور ان سے عقیدت و محبت بہت دیر تک تڑپاتی رہے گی۔ ان کا مفقود ہونا البتہ مایوسیوں میں گرانے کی بجائے رگوں میں دوڑتے لہو کو اور گرما رہا ہے۔ جدوجہد کا راستہ اور منزل کی جانب اٹھے قدم پہلے سے تیز ہوچکے ہیں۔ وہ سید مقاومت ہوں یا سید ہاشم صفی الدین، وہ شہید ہنیہ ہوں یا شہید سنوار، وہ حزب اللہ لبنان و قدس فورس کے اہم ترین کمانڈرز ہوں یا اسلامک جہاد سے وابستہ جہادی میدان کے سرخیل، سب کی شہادتوں اور اسرائیل سے ٹکرانے اور مسلسل مزاحمتی کردار ادا کرنا ایک روشن راستہ کا کام کر رہا ہے۔
یہ راستہ قدس کی آزادی کا راستہ ہے، یہ راستہ اہل فلسطین کی گھروں کو واپسی کا راستہ ہے، یہ راستہ مظلوم و مجبور بنا دیئے گئے۔ در بہ در بھٹکنے والے لاکھوں فلسطینیوں کے چہروں پر پڑی مایوسی کو امید اور آس میں بدل دینے کا راستہ ہے، یہ راستہ ناکامیوں کے بت توڑ دینے اور کامیابیوں کے در وا کرنے کا راستہ ہے۔ کل تک جو در پردہ اور کھلے عام قاتلوں، دہشت گردوں اور غاصبوں سے تعلقات قائم کیے ہوئے تھے، جو اس غاصب و قابض کو تجارت کے نام پر آکسیجن فراہم کر رہے تھے، ان کے چہروں سے نقاب الٹ چکی ہے، سب دیکھے جا رہے ہیں۔
کیوں زبان خنجر قاتل کی ثنا کرتی ہے؟
ہم وہی کرتے ہیں جو خلق خدا کرتی ہے
اور
نکل کے جبر کے زندان سے جب چلی تاریخ
نقاب اٹھاتی گئی، قاتلوں کے چہروں کا
سب بے نقاب ہوچکے ہیں، جن کو ان منافقین سے امیدیں تھیں اور ان کے قصیدے پڑھتے تھے، وہ بھی انگشت بہ دندان ہیں، جو مذذاکرات و ملاقاتوں کے حامی تھے، غزہ و لبنان کے کم سن بچوں، بے گناہ گھروں میں مقیم، غیر مسلح عام عوام، مرد و زنان، پر کارپٹ بمباری اور آگ و خون کی بارش کے بعد اگر اس ناجائز وجود سے پیار کی پینگیں بڑھانے کی سوچ رکھتے ہیں تو انہیں خبر ہو کہ یہ امت کو مزید دھوکہ نہیں دے سکتے۔ یہ مزید منافقت نہیں کرسکتے، یہ پس پردہ حمایت و مدد سے اسے مزید مضبوط نہیں کرسکتے کہ اب ہر دن اس ناجائز وجود کیلئے بھاری گزر رہا ہے۔ مقاومت اپنے جوبن پر ہے اور بھرپور انداز میں حملے ہو رہے ہیں، جو بے گناہوں کو کارپٹ بمباری سے ہجرت پر مجبور کرتا تھا، اب اس کے شہر بھی خالی ہونگے، وہ جو دنیا بھر سے امن، شانتی، سکون کے نام پر اکٹھے کیے تھے، انہیں بھی موت بانٹی جا رہی ہے اور ان کے قبضہ کردہ گھر بھی شعلوں کی لپیٹ میں دیکھے جا سکتے ہیں۔
آج لبنان، عراق، غزہ و فلسطین، جمہوری اسلامی ایران، یمن، شام اور دنیا بھر کے غیرت مند ایک سوچ، ایک فکر، ایک مقصد اور ہدف رکھتے ہوئے متحد دیکھے جا سکتے ہیں، جبکہ اس اتحاد نے منافقین کو جتنا پریشان کر رکھا ہے، اس سے زیادہ ناجائز قابض اسرائیل اور اس کے سرپرستوں کیلئے اپنی ناکامیوں کو چھپانا اور شرمندگی سے بچانا ناممکن ہوچکا ہے۔ اسرائیل نے جمہوری اسلامی ایران کے تین شہروں بشمول دارالخلافہ تہران پر حملے کرکے جو خفت اٹھائی ہے، اس سے انہیں بھاگنے کا راستہ نہیں مل رہا۔ ایران کا اسرائیل پر حملہ اور ایران پر جوابی حملے سے اگر کسی کی طاقت، قوت، دفاع اور مضبوطی کا ڈنکا بجا ہے تو وہ جمہوری اسلامی ایران اور اس کی الہٰی قیادت ہے، جمہوری اسلامی ایران کا حملے کو کامیابی سے روکنا دنیا کو حیرت میں مبتلا کرچکا ہے۔ ممکن ہے کہ اس صورتحال کا فائدہ اٹھاتے ہوئے امریکہ و اسرائیل ان خائن عربوں کو اپنا اسلحہ بیچنے کی تدبیر کریں، جبکہ اسلحہ کے زور پر نہ تو اپنا دفاع کیا جاسکتا ہے اور نا دشمن کو ڈرایا جا سکتا ہے۔
دشمن سے لڑنے کیلئے، کامیابی کی کنجی جراتمند قیادت، شجاع لیڈر شپ اور غیرت و حمیت کا ہونا ضروری ہے۔ امریکہ و اسرائیل نے سب سے پہلے ان عرب خائنین سے غیرت و حمیت کو ختم کیا ہے، جن میں غیرت و حمیت ہے، وہ اب بھی کامیابیاں سمیٹ رہے ہیں۔ ایک طرف یمن کے پا برہنہ اور ستم رسیدہ دنیا سے کٹے ہوئے مجاہدین انصار اللہ ہیں، جن کے پاوں، جوتوں سے خالی، تن پھٹے پرانے نامکمل کپڑوں سے ڈھانپے ہیں، وہ دنیا کو ششدر و حیران کیے ہوئے ہیں۔ آج کے دور میں غیرت، جرات اور شجاعت کی مثال یمنی عرب ہیں، جو اپنی جرات و استقامت، شجاعت کی بنیاد پر امریکہ، سعودیہ اس کے اکتالیس ملکی اتحاد اور اسرائیل کے مقابل کامیابیاں سمیٹ کر محور مقاومت کی مضبوطی اور طاقت میں اضافہ کا باعث بنے ہیں۔۔ ان شاء اللہ فتح جلد محور مقاومت کے حصہ میں آئے گی اور اسرائیل کا ناجائز وجود جو آخری سانسیں لے رہا ہے، اپنے منطقی انجام سے دوچار ہوگا۔