تحریر: حسام رضائی
طوفان الاقصی آپریشن اور اس کے بعد اہل غزہ کے خلاف غاصب صیہونی رژیم کے انسان سوز مظالم شروع ہوئے ایک سال کا عرصہ بیت چکا ہے۔ غاصب صیہونی رژیم نے غزہ کے بعد لبنان میں بھی مجرمانہ اقدامات کا آغاز کر دیا ہےجبکہ امریکہ کی غیر مشروط حمایت اور مدد نے جرائم پیشہ صیہونی رژیم کو نسل کشی کے جنون میں زیادہ جری اور گستاخ کر دیا ہے۔ اس کے باوجود امریکی حکمران بظاہر سفارتکاری اور امن پسندی کا تاثر دے کر خود کو صیہونی مجرمانہ اقدامات سے دور رکھنے کی کوشش میں مصروف ہیں۔ امریکی حکام کی جانب سے امن پسندی کا تاثر دینے کی کوشش ایسے وقت انجام پا رہی ہے جب خود امریکہ اب تک غزہ میں جنگ بندی کی سب سے بڑی رکاوٹ ثابت ہوا ہے اور اس نے عملی طور پر خطے میں تناو کم ہونے نہیں دیا ہے۔
اسرائیل پر گہرا سیاسی اثرورسوخ ہونے کے ناطے اس میں کوئی شک نہیں کہ صرف اور صرف امریکہ ہی خطے میں صیہونی حکمرانوں کی قتل و غارت اور جنگی مشینری روکنے کی طاقت رکھتا ہے۔ لیکن واشنگٹن یہ کردار ادا کرنے سے کترا رہا ہے چونکہ "جدید نازی" ہونے کے ناطے صرف صیہونی حکمران ہیں جو خطے میں امریکہ کے استعماری اہداف و مقاصد آگے بڑھا سکتے ہیں اور امریکی حکمرانوں کی نظر میں ان کے دیرینہ منصوبے "گریٹر مڈل ایسٹ" کو عملی جامہ پہنانے کی واحد امید ہیں۔ تل ابیب کی جانب سے خطے میں استعماری اہداف حاصل کرنے کی کوشش اس بات کا باعث بنی ہے کہ امریکہ اور اس کے یورپی اتحادی وسیع پیمانے پر اسرائیل کو جدید ترین ہتھیار اور فوجی سازوسامان فراہم کرتے رہیں تاکہ یوں اسلامی مزاحمتی بلاک کے مقابلے میں اس جعلی رژیم کی سلامتی یقینی بنا سکیں۔
اب تک کی جنگ سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ تل ابیب اپنی سلامتی یقینی بنانے سے عاجز ہے اور وہ مجاہدین اسلام کی "ہزار خنجر" نامی حکمت عملی کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ لہذا ہم صیہونی رژیم کے ہر جارحانہ اور مجرمانہ اقدام میں کسی نہ کسی صورت میں امریکی سہولت کاری کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔ مثال کے طور پر اسرائیل نے امریکی ساختہ جنگی طیاروں اور بنکر بسٹر بموں کے ذریعے جنوبی لبنان پر حملہ کر کے حزب اللہ لبنان کے سابق سیکرٹری جنرل سید حسن نصراللہ اور ان کے ہمراہ ایرانی اور لبنانی فوجی کمانڈرز کو شہید کیا تھا۔
ایک سکے کے دو رخ
اس سب کے باوجود اور جیسا کہ بیان ہوا، صیہونی حکمرانوں کو جنگ کی شدت اور وسعت بڑھانے اور خطے کے ممالک کی علاقائی سالمیت اور خودمختاری کی خلاف ورزی کی ترغیب دلانے کے ساتھ ساتھ امریکی حکمران امن پسندی کے دعوے بھی کرتے ہیں اور خود کو سفارتکاری اور جنگ بندی کا حامی ظاہر کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
یہ طرز عمل واضح طور پر منافقانہ ہے اور اس میں رتی بھر سچائی نہیں ہے۔ درحقیقت، امریکی حکمران مذاکرات کے انعقاد پر زور دے کر ایک طرف عالمی رائے عامہ کو دھوکہ دیتے ہیں جبکہ دوسری طرف جرائم پیشہ صیہونی رژیم کے لیے مزید مجرمانہ اقدامات کے ارتکاب کے لیے وقت خریدتے ہیں۔ مغربی حکمرانوں کی اس قسم کی منافقت کی ایک مثال حماس کے سربراہ شہید اسماعیل ہنیہ کی ٹارگٹ کلنگ کے بعد انجام پانے والے واقعات ہیں۔ امریکی اور یورپی حکمرانوں نے ایران سے وعدہ کیا تھا کہ اگر وہ اسرائیل کے خلاف انتقامی کاروائی نہیں کرتا تو غزہ میں جنگ بندی ہو جائے گی۔ لیکن انہوں نے جنگ بندی کی بجائے غاصب صیہونی حکمرانوں کو سبز جھنڈی دکھائی اور یوں مزید جارحانہ اقدامات کے ذریعے شہید سید حسن نصراللہ سمیت اعلی سطحی شخصیات کی ٹارگٹ کلنگ انجام پائی۔ امریکی حکمرانوں نے ڈبل گیم شروع کر رکھی ہے۔
وہ ایک طرف جرائم پیشہ صیہونی رژیم کو پوری طرح مسلح کر رہے ہیں جبکہ دوسری طرف امن مذاکرات اور جنگ بندی کا واویلا مچاتے ہیں۔ رہبر معظم انقلاب کے خصوصی مشیر ڈاکٹر علی اکبر ولایتی نے برطانوی اخبار فائننشیل ٹائمز کو انٹرویو دیتے ہوئے اس سوال کے جواب میں کہ آیا امریکہ نے خطے میں تناو کم کرنے کے لیے ایران کو کوئی پیشکش کی ہے؟ کہا: "امریکہ کئی محاذوں پر کردار ادا کر رہا ہے۔ ایک طرف اسرائیل کو اسلحہ سے لیس کر رہا ہے اور عالمی اداروں میں اس کی حمایت کرتا ہے اور اس کے مجرمانہ اقدامات روکنے کے لیے کوئی اقدام انجام نہیں دیتا جبکہ دوسری طرف امریکی حکمران اسرائیل کے مطلوبہ بیانات دیتے ہیں اور ساتھ یہ دعوی بھی کرتے ہیں کہ وہ خطے میں تناو کم کرنے کے خواہاں ہیں۔ ہمیں امریکہ کی نیک نیتی پر کوئی یقین نہیں ہے، لہذا ایک طرف اسرائیل کی بھرپور مدد اور دوسری طرف صبر و تحمل کی دعوت، ایک سکے کے دو رخ ہیں۔
شدید حملوں سے دشمن کی غلط فہمیاں دور کرنا
خطے میں موجودہ بحران کا مقابلہ کرنے کا واحد راستہ اسلامی مزاحمت پر مبنی باوقار حکمت عملی پر عمل پیرا ہونا ہے۔ البتہ مناسب منصوبہ بندی اور جذباتی اقدامات سے پرہیز بھی ضروری ہے۔ اگر ہم ملت ایران کی طاقت اور صلاحیتوں کے بارے میں صیہونی دشمن کی غلط فہمیاں دور کرنا چاہتے ہیں تو غاصب صیہونی رژیم کے منحوس ڈھانچے پر کاری ضربیں لگانا ضروری ہیں۔ یوں نہ صرف اس کے غلط اندازوں کی اصلاح ہو جائے گی بلکہ اسلامی مزاحمتی بلاک کی طاقت میں بھی اضافہ ہو گا۔ ہماری ضرب ایسی ہونی چاہیے جو صیہونی حکمرانوں کی توقع سے کہیں زیادہ ہو۔ یہ امریکہ کی ڈبل گیم کا مقابلہ کرنے کا واحد راستہ ہے۔ دوسرے الفاظ میں، اگر ہم مذاکرات کا راستہ اختیار بھی کرنا چاہیں تب بھی صیہونی رژیم پر ایسی کاری ضرب لگانی ضروری ہے جو اسے دوبارہ جارحیت سے باز رکھے۔