0
Wednesday 30 Oct 2024 12:22

فلسطینی بچوں کی صدا اور پنجاب یونیورسٹی میں میوزک کا شور

فلسطینی بچوں کی صدا اور پنجاب یونیورسٹی میں میوزک کا شور
تحریر: تصور حسین شہزاد

پنجاب یونیورسٹی کو پنجاب میں ایک تاریخی اہمیت حاصل ہے۔ اس مادرِ علمی کی تاریخ یہی رہی ہے کہ اس میں کبھی اخلاق باختہ، غیر قانونی، غیر اخلاقی اور غیر اسلامی سرگرمی کی اجازت نہیں دی گئی۔ یونیورسٹی کے ایس او پیز کے مطابق بھی اس ادارے میں کوئی مخلوط اجتماع نہیں ہوگا، کوئی میوزیکل کنسرٹ نہیں کروایا جا سکے گا۔ طالبات کے ہاسٹلز کے حوالے سے بھی ایس او پیز واضح ہیں کہ طالبات شام ساڑھے 7 بجے سے پہلے پہلے اپنے کمروں میں ہوں گی۔ شام ساڑھے 7 بجے کے بعد طالبات کے ہاسٹل بند کر دیئے جائیں گے، جو طالبات باہر رہ جائیں گی، وہ والدین سے ٹیلی فون پر بات کروائیں، باہر رہنے کی معقول وجہ بتائیں گی تو اندر جانے کی اجازت ملے گی، بصورت دیگر انہیں ہاسٹل میں داخل نہیں ہونے دیا جائے گا۔ یونیورسٹی کے مذکورہ ایس او پیز کی وجہ سے ہی والدین یونیورسٹی انتظامیہ پر اعتماد کرتے ہیں۔ اپنی بیٹیوں کو ہاسٹلز میں رہنے کی اجازت دیتے ہیں کہ یہاں ان کی بیٹیاں محفوظ ہیں۔ مگر افسوس کہ یونیورسٹی انتظامیہ نے گذشتہ روز اپنے ہی بنائے ہوئے ایس او پیز کی دھجیاں اُڑا دیں۔

سب سے پہلے تو ’’یونیورسٹی میں کوئی میوزیکل کنسرٹ نہیں ہوسکتا‘‘، کے قانون کو پامال کرتے ہوئے، پیپلز سٹوڈنٹس فیڈریشن کو پنجاب یونیورسٹی کے ایگزامی نیشن ہال میں میوزک کنسرٹ کروانے کی اجازت دیدی گئی۔ یہ میوزک کنسرٹ صرف طلبہ کیلئے ہوتا تو کسی حد تک قابل قبول تھا، مگر یونیورسٹی انتظامیہ نے اس قانون کو لتاڑتے ہوئے، نہ صرف ناچ گانے کی اجازت دی، بلکہ طالبات کو بھی مفت پاسز تقسیم کرکے انہیں بھی اس بے ہودہ تقریب میں نہ صرف شرکت کا موقع دیا گیا بلکہ انہیں ہاسٹلز سے پک اینڈ ڈراپ کی سہولت بھی فراہم کی گئی۔ یہ یونیورسٹی کی تاریخ میں شائد پہلی بار ہوا ہے کہ طلبہ و طالبات اسلامی و مشرقی اقدار کی دھجیاں اُڑاتے دکھائی دیئے۔ یقیناً اس ایونٹ کے انعقاد کے پیچھے پی ایس ایف نہیں ہوگی، پی ایس ایف کا نام استعمال کیا گیا ہوگا، کیونکہ پی ایس ایف کے بہت سے رہنماوں کیساتھ راقم کی بھی شناسائی ہے، وہ ایسے اقدامات کے ہمیشہ ناقد رہے ہیں۔

اس کے علاوہ گورنر پنجاب سردار سلیم حیدر نے چند روز قبل کہا تھا کہ یونیورسٹیز اور کالجز میں طالبات کو ہراساں کرنے کے واقعات نہیں ہونے چاہیئں، اس حوالے سے انہوں نے یونیورسٹیز کی انتظامیہ کو لکھا بھی تھا کہ یونیورسٹیز میں طالبات کیلئے محفوظ ماحول فراہم کیا جائے۔ ایک طرف گورنر پنجاب ایسے احکامات جاری کر رہے ہیں اور دوسری جانب مخلوط ناچ گانے کا اہتمام بھی اپنی خصوصی نگرانی میں کروا رہے ہیں۔ عینی شاہدین کے مطابق ہاسٹلز سے طالبات پولیس کی سکیورٹی میں میوزیکل کنسرٹ میں شرکت کیلئے گئیں۔ اس کنسرٹ سے قبل یونیورسٹی کا ماحول کافی کشیدہ تھا۔ ایک طالبہ ہاسٹل میں خودکشی کرچکی تھی، اس کی تحقیقات بھی مکمل نہیں کروائی گئیں۔ دوسری جاب طلبہ تنظیموں کے درمیان جھگڑے ہوچکے تھے۔ یونیورسٹی انتظامیہ نے ماحول خراب کرنیوالی تنظیموں کیخلاف کارروائی بھی شروع کر رکھی ہے اور متعدد طلبہ کیخلاف مقدمات بھی درج کروائے جا چکے ہیں۔

اس میں اسلامی جمعیت طلبہ سے توقع تھی کہ وہ ردعمل دیں گے۔ انہوں نے اپنے طور پر اسے روکنے کیلئے انتظامیہ سے شکایت بھی درج کروائی، مگر چونکہ جمعیت کے کارکنوں کیخلاف بھی مقدمات درج کروا کر انہیں دباو میں رکھا گیا کہ یونیورسٹی معاملات میں مداخلت کرو گے تو مقدمات کا سامنا کرنے کیلئے تیار ہو جائیں۔ یونیورسٹی میں پے درپے جھگڑوں کے ہونیوالے واقعات اور طلبہ کی گرفتاریاں، اس سازش کی کڑی دکھائی دیتی ہیں کہ یہ ایک منظم سازش کے تحت کیا گیا۔ جن سے یونیورسٹی انتظامیہ کو خدشہ تھا کہ ان کی جانب سے ردعمل آسکتا ہے، ان کیخلاف مقدمات درج کروا دیئے گئے اور اس ماحول میں جب طلبہ مقدمات کے خوف سے چھپتے پھر رہے تھے۔ عین اسی وقت یہ کنسرٹ کروا دیا گیا۔ اس میں پیپلز پارٹی کی قیادت اور خود گورنر پنجاب بھی جوابدہ ہیں۔

ایک طرف پوری امت مسلمہ سوگ میں ہے، فلسطین پر ہونیوالے اسرائیلی مظالم پر معصوم بچوں کی چیخ و پکار اور ان کی صداوں نے ماحول کو سوگوار بنا رکھا ہے۔ ہر غیرت مند مسلمان اداس اور افسردہ ہے۔ ایسے میں اسرائیلی مظالم سے آگاہی دینے کیلئے کسی مثبت سیمینار کی بجائے میوزیکل کنسرٹ کا انعقاد کروانا، فلسطینیوں کے زخموں پر نمک پاشی کے سوا کچھ نہیں، ہمیں سوچنا ہوگا کہ جب ہمارے نبی (ص) حکم دے رہے ہیں کہ ’’امت جسد واحد ہے‘‘ تو پھر ہم جسد واحد کے ایک حصے میں ہونیوالی شدید ترین تکلیف سے لاعلم کیوں ہیں؟ ہم جان بوجھ کر چشم پوشی کیوں کر رہے ہیں۔

یقیناً تعلیمی اداروں میں ایسے ایونٹ امریکہ کی ہدایات پر منعقد ہوتے ہیں۔ گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور میں بھی مئی میں ایک ایسا ہی میوزیکل کنسرٹ رکھا گیا، جس میں امریکی گلوکاروں نے پرفارم کرنا تھا، مگر یونیورسٹی کے غیرت مند طلبہ نے فلسطین کے پرچم لہرا کر کنسرٹ کو منسوخ کروا دیا تھا۔ طلبہ نے احتجاج کیا تھا اور موقف اختیار کیا تھا کہ فلسطین پر بارود کی بارش ہو رہی ہے اور ہم یہاں ناچ گانا کریں، یہ نہیں ہوسکتا اور یوں چند غیرت مند طلبہ کے احتجاج پر یونیورسٹی انتظامیہ نے وہ کنسرٹ منسوخ کر دیا تھا۔ پاکستان کی تعلیمی اداروں میں مخلوط اجتماعات دراصل امریکی ایجنڈا ہی ہے، جسے پیپلز پارٹی نے بلاول بھٹو کو اگلا وزیراعظم بنوانے کیلئے لے لیا ہے۔ امریکہ کی خوشنودی کیلئے ہی یہ کنسرٹ کروائے جا رہے ہیں۔

پنجاب یونیورسٹی کا یہ کنسرٹ ایک ٹیسٹ کیس تھا، اب دیگر تعلیمی اداروں میں بھی ایسے ہی بے ہودہ اور مخلوط اجتماعات کروائے جائیں گے۔ اگر غیرت مند قوم اور غیور جوانوں نے اپنا کردار ادا نہ کیا تو نوجوان نسل کو بے راہ روی کی جانب دھکیلنا، امریکہ کا اولین ہدف ہے اور نوجوانوں کو اس امریکی سازش کا ادراک کرتے ہوئے اس کا سدباب کرنا ہوگا۔ پنجاب یونیورسٹی کی انتظامیہ سے بھی جواب طلبی ہونی چاہیئے کہ اپنی سرپرستی میں طالبات کو ہاسٹلوں سے نکال کر ناچ گانے میں شرکت کیلئے کیوں مجبور کیا گیا۔؟
خبر کا کوڈ : 1169656
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش