تحریر: سید تنویر حیدر
گائے اللہ کی بڑی نعمت ہے۔ ہم بچپن میں اکثر یہ نظم گنگناتے تھے کہ ”رب کا شکر ادا کر بھائی، جس نے ہماری گائے بنائی“ یہ گائے ہی ہے، جو ہمیں روزانہ کی بنیاد پر غذایت سے بھرپور دودھ دیتی ہے اور جس سے ہم اپنی توانائی کی ضروریات کو پورا کرتے ہیں۔ گائے کا دودھ دوہنا بھی ایک فن ہے۔ اگر دودھ دوہتے وقت ذرا سی بےاحتیاطی ہو جائے یا گائے کو اس کا پروٹوکول نہ دیا جائے تو یہ بے ضرر گائے غصے میں آکر لات بھی مار سکتی ہے۔ گائے اگرچہ ایک شریف النفس چوپایہ ہے، لیکن اس کی بھی ایک عزت نفس ہوتی ہے۔ گائے کے دودھ دینے کے عمل کو اگر اس کی شرافت کی بجائے اس کی کمزوری یا بے وقوفی سمجھا جائے تو یہ اس کے خاندانی وقار پر حملہ ہوگا اور ”آ گائے مجھے مار“ والی بات ہوگی۔
آپ گائے کو محض چند نوالے چارا ڈال کر اور اسے لاٹھی دکھا کر ہمیشہ کے لیے اپنا نہیں بنا سکتے۔ یہ محاورہ بھینسوں پر صادق آتا ہے کہ ”جس کی لاٹھی اس کی بھینس“ ایک باعزت گائے کبھی یہ برداشت نہیں کرسکتی کہ آپ اس کا دودھ بھی نچوڑیں اور اس کی عزت نفس بھی پامال کریں۔ آخر کو وہ چار ٹانگیں اور ایک بڑا سا کلیجہ رکھنے والی گائے ہے، احساس مروت سے عاری پہیے سے چلنے والی کوئی مشین نہیں۔ بین الاقوامی تعلقات میں بھی کوئی طاقتور ملک جس کمزور ملک سے اپنے مفادات اٹھاتا ہے، اسے اپنی پالتو گائے ہی سمجھتا ہے، لیکن اگر اس گائے کے اندر اقبال کی بتائی ہوئی خودی پیدا ہو جائے تو پھر اس کی ایک لات سے پہاڑ بھی رائی رائی ہو جاتا ہے۔
تازہ ترین خبروں کے مطابق اس کا مظاہرہ سعودی عرب نے آخر کر دیا ہے۔ وہ امریکہ جو کل تک سعودی عرب کو، بقول سابق اور مبینہ طور پر اگلے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے، ایک دودھ دوہنے والی گائے سمجھتا تھا، اس نے اپنے خلاف امریکہ کے مسلسل توہین آمیز رویے سے دل برداشتہ ہوکر، آخرکار اچانک تائیکوانڈو کے کسی ماہر کی طرح ایک ایسی کِک دے ماری ہے، جس کے اثر سے امریکہ بہادر کو اس کے پرچم پر بنے تارے دگنے ہوکر نظر آنے لگے ہیں۔ ہوا یہ ہے کہ وہ سعودی عرب جس نے امریکہ کے اشارے پر ایران سے لڑنے کے لیے کسی وقت چالیس کے قریب ملکوں کا ایک فوجی اتحاد بنایا تھا، آج اسی ایران کے ساتھ مل کر مشترکہ جنگی مشقیں کر رہا ہے، گویا کل تک جن توپوں کا رخ ایران کی طرف تھا، آج ان کا رخ ایرانی توپوں کے رخ کے مطابق ہوگیا ہے۔