0
Monday 28 Oct 2024 17:22

عالم اسلام کا اسرائیل کی مذمت پر اتفاق

عالم اسلام کا اسرائیل کی مذمت پر اتفاق
تحریر: سید اسد عباس

26 اکتوبر 2024ء کو ہفتے کی صبح اسرائیل نے ایران میں تین شہروں میں بیس مقامات پر حملوں کو کوشش کی۔ یہ حملے تہران، خوزستان اور ایلام میں کیے گئے۔ اسرائیل کے فوجی ترجمان اور وزیراعظم نیتن یاہو کے مطابق تمام اہداف کا تعین انٹیلی جنس کی بنیاد پر کیا گیا اور ان فوجی اہداف کو نشانہ بنانے میں کامیابی ملی۔ ایران کی جانب سے کہا جا رہا ہے کہ اسرائیلی حملوں کو ایرانی ائیر ڈیفنس نے کامیابی سے ناکام بنایا ہے۔ ان حملوں کے نتیجے میں ایرانی ائیر ڈیفنس کے چار اہلکار شہید ہوئے۔ ہاں اسرائیل نے اس حملے کے فوراً بعد اعلان کیا کہ حملے ختم ہوچکے ہیں، یعنی "جنگ نہیں کرنی۔" اسرائیل نے تو یہ بھی کہا ہے کہ مزید حملے نہ کیے جائیں۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ ان حملوں سے پہلے اسرائیل میں رجز خوانی جاری تھی کہ ہم ایران کی ایٹمی تنصیبات، تیل کی تنصیبات اور اہم شخصیات کو بنائیں گے، تاہم ایسا کچھ نہ ہوا۔ یہ احتیاطی حملے عجیب و غریب حکایات کی غمازی کرتے ہیں۔

مختلف ممالک کی جانب سے ان حملوں کی مذمت کا سلسلہ جاری ہے۔ اب تک پاکستان، سعودی عرب، عراق، قطر، مصر، بحرین، اردن، متحدہ عرب امارات، ترکیہ، شام، عمان، ملائشیا، یمن، کویت، الجزائر، تیونس، افغانستان سمیت متعدد ملک اور متعدد مزاحمتی و و غیر مزاحمتی تنظیمیں اسرائیلی جارحیت کی مذمت کرچکی ہیں۔ عالمی قوانین کی خلاف ورزی، جارحیت، غنڈہ گردی اور اس قبیل کے الفاظ اب تو ہاتھ جوڑ کر مسلمانوں سے معافی مانگتے ہیں کہ ہمارا کیا قصور ہے کہ ہر خط، بیان، مراسلے اور قرارداد میں ہم کو گھسیٹ کر شامل کر دیا جاتا ہے۔ روسی وزارت خارجہ کی ترجمان نے عالمی برادری کو متنبہ کیا ہے کہ اسرائیل کی جانب سے ایران میں فوجی اہداف پر بمباری کے بعد ایران اور اسرائیل کے درمیان جاری تنازع کی شدت خطرناک حد تک بڑھنے کا خدشہ ہے اور یہ قابو سے باہر ہوسکتا ہے۔

ترجمان نے کہا کہ یہ ضروری ہے کہ ایران کو جوابی کارروائیوں کے لیے اکسانا بند کیا جائے اور بے قابو کشیدگی کے چنگل سے باہر نکلا جائے۔ روسی ترجمان نے کہا کہ ہم تمام فریقوں پر زور دیتے ہیں کہ وہ تحمل کا مظاہرہ کریں، تشدد کو ختم کریں اور واقعات کو تباہ کن منظر نامے میں تبدیل ہونے سے روکیں۔ خود صدر ولادی میر پیوٹن نے رواں ہفتے ابھرتے ہوئے ممالک کے گروپ برکس کے  ایک اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ دونوں علاقائی طاقتوں اسرائیل اور ایران کے درمیان تناؤ سے مشرق وسطیٰ میں بڑے پیمانے پر جنگ چھڑ جانے کا خطرہ ہے۔ وزیراعظم پاکستان شہباز شریف نے بھی ایران پر اسرائیلی حملوں کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان امن کے حصول کے لیے تہران اور اس کے دیگر ہمسایہ ممالک کے ساتھ کھڑا ہے۔ انھوں نے واضح کیا کہ اس طرح کے اقدامات نہ صرف علاقائی امن و استحکام کے لیے خطرہ ہیں بلکہ قومی خود مختاری اور بین الاقوامی قوانین کے اصولوں سے بھی متصادم ہیں۔

امریکہ، برطانیہ اور جرمنی نے اسرائیلی حملے کو یکم اکتوبر کے ایرانی میزائل حملوں کا جواب اور حق دفاع کے تحت جائز ٹھہراتے ہوئے ایران کو متنبہ کیا ہے کہ وہ جوابی کارروائی سے باز رہے، ورنہ حالات قابو سے باہر ہوسکتے ہیں۔ امریکا نے یقین دہانی کروائی ہے کہ وہ اسرائیل کا دفاع کرے گا۔ پاکستان میں تقریباً تیرہ معروف انگریزی و اردو اخبارات شائع ہوتے ہیں، ان تمام اخبارات کے مدیر صاحبان ایران پر اسرائیلی حملے کے حوالے سے پریشان ہیں۔ تقریباً سبھی نے اسرائیلی جارحیت کو بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی اور کھلی دہشت گردی قرار دیا۔ 27 اور 28 اکتوبر کی اشاعتوں میں مجھے کوئی ایسا اخبار دکھائی نہیں دیا، جس نے اس مسئلے پر اسرائیل کے اقدام کی مذمت نہ کی ہو۔

تقریباً سبھی اخبارات کے مدیروں اور لکھاریوں کو دکھائی دے رہا ہے کہ ایران اور اسرائیل کے مابین جاری کشیدگی مشرق وسطیٰ میں ایک عظیم جنگ کا پیش خیمہ ثابت ہوسکتی ہے۔ بعض کا کہنا ہے کہ اسرائیل غزہ، لبنان، یمن، عراق، ایران و شام کے بعد آگے بڑھے گا اور دیگر اسلامی ممالک پر بھی اپنا ہاتھ صاف کرے گا۔ روزنامہ اوصاف کے مدیر نے تو یہاں تک لکھ دیا کہ تمام مسلمان ممالک ایک ایک کرکے مرنے کے بجائے مل کر اسرائیلی آفت کا مقابلہ کریں۔ ہمارا میڈیا اور دانشور بہت اچھے طریقے سے جانتے ہیں کہ اسرائیل کو امریکا کی آشیر باد حاصل ہے اور اسرائیل یہ حملے امریکی مدد اور اجازت سے کر رہا ہے۔

اس آگاہی اور بے بسی کو دیکھ کر انسان کو حیرت ہوتی ہے۔ ہمارے دانشور، لکھاری، اخبار نویس، حکمران، سفارتکار سب حقیقتوں سے آگاہ ہیں، سب جانتے ہیں کہ اسرائیل کو امریکا، برطانیہ کی مدد حاصل ہے۔ سب جانتے ہیں کہ اسرائیل غنڈہ ہے، جارح ہے، خونی ہے قاتل ہے۔ سب کو معلوم ہے کہ اسرائیل کسی ایک ملک کا نہیں تمام مسلم امہ کا دشمن ہے اور باری باری سب کو ختم کرنے کے درپے ہے، اس کے باوجود اس کے خلاف مشترکہ طور پر کھڑے ہونے کی ان میں جرات نہیں ہے۔ سپریم لیڈر ایران سید علی خامنہ ای نے کل شہداء کی فیملی سے ملاقات میں کہا کہ سلامتی کا واحد راستہ طاقت کا حصول ہے، امکان ہے ایران اپنی نیوکلئیر ڈاکٹرائن میں تبدیلی لا کر اپنے دفاع کے لیے ایٹمی ہتھیار حاصل کرے گا۔ انھوں نے مزید کہا کہ اسرائیل کے حملوں کو بڑھا کر پیش کرنا اور کم کرکے پیش کرنا دونوں غلط ہیں۔ بڑھا کر تو ظاہر ہے اسرائیلی یا ان کے ہمنوا پیش کریں گے، تاہم کم کرکے کون پیش کر رہا ہے، یہ بھی سوچنے کی بات ہے۔

ایران میں فوجی سطح پر کوئی نقصان نہ ہوا ہو، تاہم اس کی فضائی، سرحدی، ملکی، ریاستی حریم کی خلاف ورزی ہوئی ہے اور یہ خلاف ورزیاں گذشتہ ایک برس میں بہت بڑھ چکی ہیں، جن کا سدباب نہایت دانشمندی سے کرنا ضروری ہے۔ اس موقع پر برکس ممالک، روس، چین اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔ اگر ایران اسرائیل کے ساتھ براہ راست جنگ پر مجبور ہو جاتا ہے تو برکس، شنگھائی تعاون تنظیم اور خطے کے دیگر ممالک اس جنگ کے اثرات سے نہیں بچ سکیں گے۔ مغرب تو شاید ارادہ کرچکا ہے کہ وہ مسئلہ فلسطین کو بہانہ بنا کر خطے میں کشیدگی کی فضا کو برقرار رکھے گا۔ دنیا میں تجارت، ترقی، پیشرفت کے خواہاں ممالک کو اپنی حیثیت کا استعمال کرنا چاہیئے، تاکہ مشرق وسطیٰ کسی نئی جنگ کا شکار نہ ہو۔ مسلمان ممالک مذمت کی پریکٹس جاری رکھیں، کیونکہ یہ سلسلہ تھمنے والا نہیں۔
خبر کا کوڈ : 1169287
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش