تحریر: تصور حسین شہزاد
ایران کے پاس ملکی وسائل سے تیار کردہ اپنا طویل فاصلے تک مار گرانے کی صلاحیت رکھنے والا دفاعی نظام "باور 373" موجود ہے۔ میزائل نظام باور 373 جدید ترقی یافتہ ٹیکنالوجی سے لیس ہے اور اس کی رینج 300 کلومیٹر ہے۔ جس کیساتھ روس سے لیا گیا دفاعی سسٹم بھی نصب کیا گیا تھا۔ یوں دونوں سسٹمز کی شاندار کارکردگی سامنے آئی اور اسرائیل کی جانب سے کیا گیا خوفناک اور بہت بڑا حملہ، زیرو بنا کر رکھ دیا گیا۔ نتین یاہو اور اسرائیلی آرمی چیف کے لٹکے ہوئے چہرے ایران کی فتح کی داستان سُنا رہے تھے، جبکہ ایرانی آرمی کے اعلیٰ حکام انتہائی خوش اور پُراعتماد دکھائی دیئے۔ اسرائیل نے ایران پر یقیناً ایک بڑا حملہ کیا، جس میں اب تک کی اطلاعات کے مطابق سو سے ایک سو بیس جنگی طیارے استعمال کئے گئے۔ ان طیاروں نے عراق میں موجود امریکی اڈوں سے فیولنگ کروائی اور اس کے بعد ایران کی طرف اُڑان بھری۔
اسرائیل نے دعویٰ کیا کہ اس نے ایک بڑا حملہ کیا ہے، حیرت ہے کہ اس بڑے حملے میں ایران کے صرف 4 فوجی جوان شہید ہوئے جبکہ ایک آدھ اڈے کو جزوی نقصان پہنچا۔ لیکن ایران کے دفاعی نظام نے اس حملے کو نہ صرف ناکام کر دیا بلکہ اسرائیل کو سُبکی کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ اسرائیلی حملے کے بعد تہران کے اطراف میں دھماکوں کی آوازیں سنی گئیں، مگر امام خمینیؒ ایئرپورٹ اور مہر آباد ایئرپورٹ محفوظ رہے اور وہاں ہونیوالے حملے ناکام بنا دیئے گئے۔ ایران کے تمام ٹی وی چینلز نے صبح لائیو دکھا دیا کہ ایران میں زندگی معمول کے مطابق ہے۔ اسرائیلی حملے کے وقت دھماکوں کی جو آوازیں سنائی دیں، ان کے بارے میں ایرانی ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ دھماکوں کی آوازیں ایران کے فضائی ڈیفنس سسٹم کی کامیاب سرگرمی کا نتیجہ تھیں۔
اسرائیل نے اس حملے میں جہاں جنگی طیارے استعمال کئے، وہاں ڈرونز بھی استعمال ہوئے، مگر تمام کے تمام ڈرونز کو ایرانی دفاعی سسٹم نے ایسے دبوچا، جیسے کوئی وہیل مچھلی کسی چھوٹی مچھلی کو نگل لیتی ہے۔ اسرائیل کے اس حملے میں پاسداران انقلاب کے کسی عسکری مرکز کو کوئی نقصان نہیں پہنچا۔ یہ حملہ ایسا ہی تھا، جسے انڈیا نے پاکستان کے علاقے بالا کوٹ میں حملہ کیا تھا اور دعویٰ کیا تھا کہ انڈیا نے پاکستان میں قائم دہشت گردی کی تربیت دینے والے بہت بڑے مرکز کو تباہ کر دیا ہے۔ دوسرے روز پاکستان نے ملکی و غیر ملکی صحافیوں کے وفد کو بالا کوٹ کا دورہ کروایا تھا اور صحافیوں نے بتایا کہ ایک کوا اور تین درخت جاں بحق ہوئے ہیں۔ اسرائیل کا حملہ بھی اسی بھارتی حملے کی طرز کا تھا، جسے بُری طرح ناکام بنا کر ایران نے اپنی قوت ظاہر کر دی۔
مبصرین کہتے ہیں کہ اس حملے کا مقصد فیس سیونگ تھا، نیتن یاہو نے اپنی ساکھ بچائی ہے، کیونکہ ایران کی جانب سے اسرائیل پر ہونیوالے خوفناک حملے کے بعد ضروری تھا کہ اسرائیل جوابی کارروائی کرے، بصورت دیگر دنیا یہ سمجھتی کہ اسرائیل کمزور ہوچکا ہے۔ اسرائیل کو حملے سے قبل برطانیہ اور فرانس نے مشورہ دیا تھا کہ ایران پر حملے کی حماقت نہ کرے، اگر اسرائیل نے حملہ کیا تو ایران بہت بڑا ملک ہے، اس کے کچھ حصے متاثر ہوں گے، جبکہ اسرائیل ایک چھوٹا ملک ہے اور ایران نے بھرپور جوابی کارروائی کر ڈالی تو اسرائیل صفحہ ہستی سے مٹ جائے گا۔ اس پر نیتن یاہو نے جواب میں کہا ہوگا کہ اس کے پاس بھاری ہتھیار ہیں اور ایران پر بڑا حملہ کرے گا، جس سے ایران جواب کی تاب نہ لا سکے گا۔ مگر ’’اُلٹی ہوگئیں سب تدبیریں‘‘ کی مصداق اسرائیل کی حماقت اس کے گلے پڑ گئی اور اب عالمی قوانین کی اس خلاف ورزی پر ایران فیصلہ کرچکا ہے کہ اسرائیل نے ایران کی خود مختاری پر حملہ کیا ہے، اس کا بھرپور قسم کا جواب دیا جائے گا۔
جوابی حملے کی تیاریاں کی جا رہی ہیں اور ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ "ایکس" پر ’’بسم اللہ الرحمان الرحیم‘‘ لکھ کر پیغام دیدیا ہے کہ ہم نے بسم اللہ پڑھ لی ہے۔ یعنی اب آغاز ہوچکا ہے۔ مبصرین یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ اس حملے کیساتھ ساتھ جھوٹ پر مبنی پروپیگنڈا اور پرانی ویڈیوز کو بھی استعمال کیا گیا، جس کا مقصد لبنان اور غزہ کے محاذوں پر اپنی شکست کو چھپانے کی کوشش تھی، مگر اسرائیل اس میں بھی بُری طرح ناکام ہوا۔ مبصرین کہتے ہیں کہ امریکہ نے اسرائیل کو فیس سیونگ کیلئے حملے کی اجازت تو دیدی، مگر اسے ایک محدود حملے کی اجازت دی، کیونکہ امریکہ نہیں چاہتا ہے کہ خطے میں جنگ کے امکانات کو تقویت ملے اور ایران اسرائیل کو صفحہ ہستی سے مٹا دے۔ کیونکہ اگر ایران اپنی پوری قوت سے حملہ کرتا ہے تو اس میں اسرائیل کی تباہی یقینی ہے۔
روسی تجزیہ کار کہتے ہیں کہ اسرائیل کے پاس ایران پر حملے کی قوت نہیں اور حالیہ حملہ صرف پروپیگنڈے کے پیش نظر کیا گیا۔ اس میں حملے کیساتھ ساتھ مغربی اور سوشل میڈیا کو استعمال کیا گیا، مگر اس میں بھی اسرائیل کو بُری طرح سُبکی کا سامنا کرنا پڑا۔ اسٹریٹیجک امور کے روسی تجزیہ کار رولانڈ بیجاموف کا کہنا ہے کہ ایران کے پاس اسرائیل کے حملے کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کیلئے کافی سازوسامان اور وسائل موجود تھے اور وہ اس حملے کے لئے پہلے سے تیار تھا، اس حملے سے ایران کو بڑے پیمانے پر کوئی نقصان نہیں پہنچا، جو اسرائیل کی کمزوری کی علامت ہے۔ رولانڈ بیجاموف نے کہا کہ اسرائیل کے حالیہ رویئے سے ثابت ہوتا ہے کہ اس کے پاس ایران جیسے خطے کے کسی بڑے ملک پر تباہ کن حملے کرنے کی طاقت نہیں۔
ادھر تل ابیب کی جنوبی لبنان میں زمینی کارروائیاں بھی بُری طرح ناکام رہیں، جس میں اسرائیلی فوجیوں کو شدید جانی نقصان اٹھانا پڑا۔ ایران اور خطے میں اس کے اتحادیوں نے اس صورتحال میں اسٹریٹیجک صبر کا مظاہرہ کیا، حالانکہ ان کے پاس اسرائیل پر مسلسل حملے کرنے کی بہت سی وجوہات اور ذرائع موجود تھے، لیکن ایران کی کامیاب حکمت عملی ہی اسرائیل کی ناکامی و تباہی کا سبب بن رہی ہے۔ اسرائیل کے حالیہ حملے سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسرائیل زیادہ تر میڈیا پروپیگنڈا کے ذریعے ہی اپنی ساکھ بچانے کی کوشش کر رہا تھا اور عملی طور پر اس کا کوئی اسٹریٹیجک اثر نہیں تھا۔