1
Friday 2 Aug 2024 14:57

کرم ایجنسی کے بنیادی مسائل

کرم ایجنسی کے بنیادی مسائل
تحریر: سید اسد عباس

کرم ایجنسی سے میرے بہت سے دوست ہیں، کئی دوستوں سے تو دہائیوں کی رفاقت ہے، تاہم آج تک مجھے کرم ایجنسی کے مسائل پوری طرح سمجھ نہیں آئے۔ جب بھی کرم ایجنسی میں کوئی واقع ہوتا ہے تو خبروں کا ایک تانتا بندھ جاتا ہے، جس میں غلط اور صحیح معلومات موجود ہوتی ہیں، جس کی بناء پر کوئی انسان یہ فیصلہ نہیں کر پاتا کہ اصل مسئلہ کیا ہے۔ اکثر ایسے بھی ہوتا ہے کہ خبروں کے ہمراہ تجزیات بھی سننے کو ملتے ہیں، جس سے خود کسی بھی معاملے کا تجزیہ کرنا خاصا مشکل ہو جاتا ہے۔ پاڑہ چنارہ میں ہونے والی گذشتہ دو تین لڑائیوں میں، میں نے کوشش کی کہ جنگ کے دونوں فریقوں سے معلومات حاصل کی جائیں۔ اس کے لیے انسان سوشل میڈیا پر ہی انحصار کرسکتا ہے، تاہم دوسری جانب بھی کچھ ویسی ہی صورتحال ہے، یعنی غلط اور صحیح معلومات کا تانتا بندھا ہوتا ہے۔ مقبل نے یہ کر دیا، مینگل نے یہ کر دیا، اتنے علاقوں پر قبضہ ہوگیا۔ ان واقعات میں چند شخصیات بھی سامنے آتی ہیں، جن کو فریقین کے کمانڈرز یا قائدین کے طور پر متعارف کروایا جاتا ہے۔ پھر مشر کی ایک اصطلاح سامنے آتی ہے، اب سمجھ نہیں آتی کہ ان قائدین اور مشران کا کسی بھی واقع میں کیا کردار ہوتا ہے۔

مجھے تمام جنگوں میں محسوس ہوا کہ اپر کرم کے باسی جن کی اکثریت شیعہ مسلک سے تعلق رکھتی ہے، ریاستی اداروں کے کردار کے حوالے سے ہمیشہ تشویش کا شکار رہتی ہے۔ اکثر دوستوں کو یہی کہتے سنا کہ ریاستی ادارے اپنا کام یعنی امن کا قیام اور شہریوں کو تحفظ فراہم کرنا خوش اسلوبی سے انجام نہیں دے رہے ہیں بلکہ اکثر تو یہ تشویش بھی سنی کہ ریاستی ادارے فریق مخالف کی بلواسطہ یا بلا واسطہ مدد کر رہے ہیں۔ آج سوشل میڈیا کے دور میں مختلف میڈیا چینلز پر ایسی ویڈیوز اور تصاویر شیئر کی جاتی ہیں، جس میں ریاستی اداروں کے اہلکاروں کو کسی فریق کی جانب سے لڑتے ہوئے یا ان کے ہتھیاروں کو استعمال کرتے ہوئے دکھایا جاتا ہے۔ ان ویڈیوز کی تصدیق یا تردید آسان کام نہیں ہے۔ اگر کوئی شخص فقط ان ویڈیوز کی معلومات پر انحصار کرے تو اسے یقین ہوگا کہ جو ویڈیو یا تصویر میں دکھایا جا رہا ہے، وہی حقیقت ہے۔

میری نظر میں اس تاثر کا عام ہونا تشویش ناک ہے، یقیناً اس سلسلے میں سوشل میڈیا پر آنے والی معلومات کا بھی کردار ہوسکتا ہے، تاہم اتنے بڑے پیمانے پر اس تاثر کا عام ہونا ریاستی اداروں کی ساکھ کے لیے مناسب چیز نہیں۔ یہی تاثرات بعد میں تجزیات اور نتائج کی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔ بہرحال آج بی بی سی اردو پر فرحت جاوید نامی صحافی کی تحریر مشاہدہ کی، جنھوں نے پاڑہ چنار کے مسائل کو منظم انداز سے بیان کیا ہے۔ فرحت جاوید لکھتے ہیں کہ کرم ایجنسی کا بڑا مسئلہ وہاں پر موجود زمینی تنازعات ہیں اور یہ تنازعات لینڈ ریکارڈ کی عدم دستیابی کے سبب ہیں۔فرحت جاوید کے مطابق کرم میں زمین کا تنازعہ قبائلی اور مسلکی تقسیم کی وجہ سے شدت اختیار کر جاتا ہے۔ زمین کی جنگ قبائلی یا مسلکی جھگڑے کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔ اس عنوان سے فرحت جاوید نے درج ذیل مقامات پر تنازعات کا حوالہ دیا:

پیواڑ، گیدو اور تری منگل:
پیواڑ اور گیدو، تری منگل اپر کرم میں افغانستان کی سرحد کے ساتھ واقع دیہات ہیں۔ پیواڑ میں اہل تشیع کی اکثریت جبکہ گیدو اور تری منگل میں اہلسنت سے تعلق رکھنے والی آبادی ہے۔ یہاں متنازع زمین موجود ہے، جس پر ان دیہاتوں کے باسی دعویٰ کرتے ہیں اور بعض اوقات معاملہ فسادات تک پہنچ جاتا ہے۔

بوشہرہ، ملی خیل تنازع:
بوشہرہ اور ملی خیل بھی اپر کرم یعنی پاڑہ چنار میں واقع دو دیہات ہیں۔ یہاں حالیہ لڑائی دو افراد کے درمیان چند کنال زمین کے تنازعے پر شروع ہوئی، جو بعد میں پورے ضلع میں پھیل گئی اور درجنوں افراد کی ہلاکت کا باعث بنی۔ ان دونوں علاقوں میں مذہبی لحاظ سے آبادی مختلف فرقوں میں تقسیم ہے اور یہاں جس زمین پر جھگڑا ہے، اس کے دعویدار قبائل نہیں، بلکہ چند افراد ہیں، تاہم کسی بھی لڑائی کی صورت میں دونوں فریقین کا ساتھ ان کے قبائل دیتے ہیں، چاہے وہ ضلع بھر میں کہیں بھی آباد ہوں۔

مقبل، کنج علیزئی تنازع:
مقبل اور کنج علیزئی بھی اپر کرم میں افغانستان کی سرحد پر واقع دو دیہات ہیں، جہاں زمین کی ملکیت کا تنازع کئی دہائیوں سے موجود ہے۔ مقبل میں اہلسنت جبکہ کنج علی زئی میں اہل تشیع آباد ہیں اور اس زمین پر ہونے والا تنازع بھی پرتشدد واقعات پر ختم ہوتا ہے۔

بالیش خیل، پاڑہ چمکنی تنازع:
بالیش خیل اور پاڑہ چمکنی دیہاتوں کے درمیان بھی ہزاروں ایکڑ زمین کا تنازع ہے، جس پر ہونے والی لڑائی فرقہ وارانہ فسادات میں تبدیل ہوتی رہی ہے۔ بالیش خیل لوئر کرم اور پاڑہ چمکنی سینٹرل کرم میں واقع ہے۔ ان چاروں مقامات پر موجود زمین کے تنازعات کے باعث گذشتہ چند سال میں سب سے زیادہ فسادات برپا ہوئے ہیں اور درجنوں افراد کی جانیں گئیں۔

قوم بنگش، حمزہ خیل تنازع:
اسی طرح بنگش قوم جو کرم ضلع کے مختلف دیہاتوں میں پھیلی ہوئی ہے اور ترہ حمزہ خیل قوم جو لوئر دیر میں شورکو کے علاقے میں آباد ہے، ان کے درمیان زمینی تنازعے فسادات کا سبب بنتا ہیں۔ فرحت جاوید کے مطابق علاقے میں لینڈ کمیشن بن چکا ہے، تاکہ ان تنازعات کو حل کیا جائے، تاہم اہل علاقہ اس کمیشن کی کارکردگی اور پیشرفت سے مطمئن نہیں ہیں۔ کچھ عناصر اس کمیشن کی پیشرفت میں رکاوٹیں بھی ڈالتے ہیں۔ فرحت جاوید کی رپورٹ کے مطابق ڈپٹی کمشنر کرم جاوید اللہ محسود کا کہنا ہے کہ کمیشن اپنا کام کرچکا ہے، قبائلی عمائدین یعنی مشران سے بات کرنا باقی ہے۔ رپورٹ کے مطابق مسئلہ فقط زمینوں کا نہیں ہے۔ اکثر یہ مسئلہ بڑے تنازعات کا باعث بن جاتا ہے، لیکن اس علاقے میں فرقہ وارانہ فسادات کی بھی ایک تاریخ ہے۔

فرحت جاوید کے مطابق معلوم تاریخ میں کرم میں پہلی فرقہ وارانہ لڑائی 1938ء میں اس وقت ہوئی، جب غیر منقسم ہندوستان کے شہر لکھنو میں شیعہ سنی فسادات کا آغاز ہوا۔ یہاں دوسرا بڑا فرقہ وارانہ واقعہ 1966ء میں صدہ میں ایک ماتمی جلوس کے دوران ہوا۔ 1971ء میں جامع مسجد پاڑہ چنار کے مینار کی تعمیر تیسرے بڑے فرقہ وارانہ فسادات کی وجہ بنی، جبکہ 1977ء میں جامع مسجد پاڑہ چنار کے موذن پر قاتلانہ حملے کے بعد فسادات پھوٹ پڑے۔ پانچواں بڑا واقعہ 1982ء میں صدہ میں ہوا۔ 14 سال بعد 1996ء میں توہین مذہب کے الزامات کے بعد لڑائی شروع ہوئی اور پھر پاڑہ چنار ہائی سکول میں سنی طالب علموں کے قتل کے بعد بڑے پیمانے پر فسادات کا آغاز ہوا۔

2001ء میں افغانستان پر امریکی حملے کے بعد القاعدہ اور طالبان سمیت دیگر دہشتگرد تنظیموں سے تعلق رکھنے والے شدت پسندوں نے یہاں فرقہ واریت کی ایک نئی لہر کی بنیاد رکھی، جو اب تک ہونے والے تمام فسادات سے زیادہ طویل اور خونریز ثابت ہوئی۔ 2007ء میں ضلع کرم میں ملکی تاریخ کے شدید فرقہ وارانہ فسادات ہوئے، جس میں پہلی مرتبہ فریقین نے ایک دوسرے کے دیہات پر حملے کرکے سینکڑوں مکانات نذرِ آتش کیے جبکہ شیعہ، سنی آبادی کو اپنے ہی علاقوں سے بے دخل کیا گیا۔ اپریل 2007ء میں ربیع الاول کے جلوس پر پتھراؤ کا واقعہ فسادات کا باعث بنا اور پھر نومبر 2007ء میں ایک مبینہ قتل کے الزام کے نتیجے میں فرقہ وارانہ فسادات ہوئے۔ یہ فسادات اس قدر شدید تھے کہ ایک امتحانی ہال میں ڈیوٹی پر موجود اساتذہ کو قتل کرکے ان کی لاشوں کو جلایا گیا، جبکہ مسافر گاڑیاں روک کر سواریوں کو گولیاں مار کر ہلاک کیا گیا۔ اس سال لوگوں کی ایک بڑی تعداد نقل مکانی پر مجبور ہوئی۔

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق صرف چار سالوں میں یہاں 1600 سے زائد افراد ان فسادات میں ہلاک ہوئے، قبائلی عمائدین کے مطابق یہ تعداد کہیں زیادہ تھی۔ ان فسادات میں پانچ ہزار سے زائد افراد زخمی بھی ہوئے۔ ان فسادات کے باعث علاقے کی مرکزی ٹل پاڑہ چنار شاہراہ تقریباً چار سال تک عام ٹریفک کے لیے بند رہی اور سکیورٹی فورسز کی نگرانی میں جانے والے قافلے بھی شدت پسند حملوں سے محفوظ نہ رہے۔ پھر پشاور سے خصوصی پروازوں کا آغاز کیا گیا جبکہ بیشتر آبادی افغانستان کے پکتیا، گردیز، کابل، طورخم روڈ کا استعمال کرتے ہوئے پاکستان میں داخل ہوتی، لیکن افغانستان میں بھی ان پر حملوں کے باعث یہ ایک خطرناک راستہ بن گیا۔ اس دوران طالبان کی جانب سے ایک مسجد پر قبضے کی کوشش کی گئی۔ 2008ء میں حکومت اور سکیورٹی فورسز کی جانب سے طالبان کے خلاف ٹھوس اقدامات نہ کرنے کی وجہ سے پاڑہ چنار کے عمائدین نے قبائلی فوج قائم کی، جس نے طالبان کو شکست دی اور بگزئی گاؤں کا کنٹرول واپس سنبھال لیا، جو خطے میں طالبان کی مرکزی بیس تھا۔

فرحت جاوید کی رپورٹ کے مطابق "شدت پسند تنظیموں جن میں افغان اور پاکستانی طالبان اور القاعدہ شامل ہیں، انہوں نے خاص طور پر سرحد پر واقع دیہاتوں کا کنٹرول حاصل کرنے کی کوشش کی، کیونکہ یہ اسٹریٹجک اعتبار سے بلندی پر واقع علاقہ ہے اور افغانستان میں حملے آسان تھے۔ تاہم پاڑہ چنار کی عوام نے انھیں کامیاب نہیں ہونے دیا اور ایک طویل جنگ لڑی۔ وسطی کرم کا علاقہ جس میں صدہ شامل ہے، ایک مختصر مدت کے لیے شدت پسندوں کے کنٹرول میں ضرور رہا ہے۔ 2011ء میں فوج نے طالبان کے خلاف آپریشن شروع کیا اور فرقہ وارانہ فسادات پر قابو پانے کی کوشش کی، جس کے بعد ٹل پاڑہ چنار سڑک کھولی گئی، مگر یہاں طویل عرصے تک سکیورٹی فورسز کی بھاری نفری تعینات رہی اور درجنوں چیک پوسٹیں قائم کی گئیں۔

بعض تجزیات یا مبصر یہ بھی کہتے ہیں کہ اس خطے میں بدامنی یا جنگ کروانے کا مقصد یہاں کے شیعہ جوانوں کو انٹرنیشنل معاملات سے دور رکھنا اور انھیں علاقے میں انگیج کرنا ہے، جس میں عالمی طاقتیں بھی ملوث ہیں۔ شاید اس کی بڑی وجہ اس خطے کے نوجوانوں کا شام جا کر لڑنا ہو، ممکن ہے کہ شیعہ نشین علاقہ ہونے کی وجہ سے اس علاقے کو ایران کی پراکسی کے طور پر ٹریٹ کیا جاتا ہو۔ جہاں تک میرے علم میں ہے اور جیسا کہ فرحت جاوید کی رپورٹ بابت 2008ء طالبان، القاعدہ اور داعش کی لشکر کشی اور اس علاقے کے عوام کا وطن کی سرحدوں کا تحفظ کرنا ظاہر کرتا ہے کہ پاڑہ چنار اور کرم کے عوام پہلے پاکستانی ہیں۔ وہ پاکستان کو اپنا وطن سمجھتے ہیں اور اس کی سرحدوں کی حفاظت کو اپنا فریضہ سمجھتے ہیں۔ اس کے لیے اس خطے نے تقریباً پانچ برس قربانیاں دیں، سختیاں جھیلیں اور وطن کا ایک انچ بھی کسی شدت پسند کے ہاتھ نہیں آنے دیا۔

جہاں تک اس خطے کے نوجوانوں کا شام جا کر لڑنے کا سوال ہے تو یہ ان جوانوں کے ایمان کا تقاضا تھا۔ حضرت زینب سلام اللہ علیہا اور خاندان عصمت و طہارت کے مزارات جو اہل تشیع کے لیے مقدس مقامات ہیں، ان کا دفاع کرنا ہر شیعہ اپنی مذہبی ذمہ داری سمجھتا ہے۔ میرے علم میں ہے کہ اس خطے سے جانے والے اکثر جوان اسی جذبے کے ساتھ شام گئے۔ ایران نے اس دفاع کی کوشش میں فعال کردار ادا کیا، اگر ایران کی جگہ کوئی اور ملک بھی یہ دفاع انجام دے رہا ہوتا تو یہ نوجوان اسی جذبے سے وہاں جا کر لڑتے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت اور ریاستی ادارے پاڑہ چنار کے مسائل کو ترجیحی بنیادوں پر حل کریں، کیونکہ مغرب یا مشرق کی جانب سے ہونے والی کسی بھی جارحیت کے مقابلے میں کرم ایجنسی ہماری فرنٹ لائن ہے۔

اس دھرتی میں تعلیم کی شرح پورے پاکستان سے زیادہ ہے، افواج پاکستان، سول اداروں اور فلاحی کاموں میں اس خطے کے عوام پاکستان کے کسی دوسرے علاقے سے پیچھے نہیں ہیں۔ جیسا کہ ڈپٹی کمشنر کرم نے کہا کہ لینڈ کمیشن کا کام مکمل ہوچکا ہے، اسے مزید آگے بڑھانا چاہیئے، تاکہ کم از کم زمینی تنازعات کا خاتمہ ہو۔ فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے لیے حکومتی کوششوں کے ساتھ ساتھ ملی یکجہتی کونسل پاکستان کو بھی فعال کیا جانا چاہیئے، تاکہ اس خطے میں بین المسالک ہم آہنگی پیدا ہوسکے اور یہ زرخیز اور خوبصورت علاقہ ٹورازم انڈسٹری کے ذریعے ہماری معیشت میں اپنا کردار ادا کرسکے۔ خطے کے عوام کے حوالے سے بھی درست تجزیات کیے جانے چاہییں، چند نعروں، جھنڈوں، تصاویر اور سوشل میڈیا اکاونٹس کو دیکھ کر پورے خطے کو ایک خاص گروپ یا کیٹیگری میں ڈالنا دانشمندی نہیں ہے، جبکہ اس خطے کے عوام کی پاکستان سے محبت اور اس کے دفاع کے لیے کوششوں کی عملی تاریخ ہمارے سامنے موجود ہے۔
خبر کا کوڈ : 1151614
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش