0
Wednesday 24 Jul 2024 21:58

امریکہ جواب دو

امریکہ جواب دو
تحریر: سید رضا میر طاہر

ایمنسٹی انٹرنیشنل نے امریکہ کو غزہ جنگ میں صیہونی حکومت کو ہتھیار فراہم کرنے کے بارے میں خبردار کیا ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کے ڈائریکٹر پال اوبرائن نے منگل 23 جولائی کو ایک بیان جاری کرتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ امریکہ کو معلوم ہے کہ اسرائیل، امریکہ میں بنائے گئے ہتھیاروں کو (غزہ میں) جنگی جرائم کے لیے غیر قانونی طور پر استعمال کر رہا ہے اور اس کا مطلب یہ ہے کہ اسرائیل کو ہتھیاروں کی فراہمی کی وجہ سے واشنگٹن ان جرائم کا ساتھی ہے اور اسرائیل کے مظالم میں برابر کا شریک ہے۔ غزہ کی جنگ کو دس ماہ گزرنے اور صیہونی حکومت کے ہاتھوں غزہ کے مظلوم عوام کی نسل کشی کے حوالے سے متعدد شواہد موجود ہونے کے باوجود امریکہ اس حکومت کے اسٹریٹجک اتحادی کی حیثیت سے تل ابیب کو مسلح کرنے پر تاکید جاری رکھے ہوئے ہے۔

اب اس میں کوئی شک نہیں کہ امریکی حکومت غزہ کے مظلوم لوگوں کو مارنے کے لیے گولہ بارود اور بموں کی بڑی کھیپ صیہونی حکومت کو مسلسل بھیج رہی ہے۔ درحقیقت تل ابیب کے لیے وائٹ ہاؤس کی مسلسل حمایت صیہونی حکومت کے لیے ہمیشہ حوصلہ افزائی اور ہلہ شیری کا باعث رہی ہے، تاکہ وہ اپنے مجرمانہ اقدامات، خاص طور پر غزہ کے عوام کی نسل کشی کے لئے بھوک اور قحط جیسے ہتھیاروں کو استعمال کرے۔ بہت سے ممالک اور انسانی حقوق کی تنظیمیں جیسے ایمنسٹی انٹرنیشنل امریکہ سے مطالبہ کر رہی ہے کہ وہ غاصب اسرائیل کو گولہ بارود اور ہتھیار بھیجنا بند کردے، لیکن امریکہ اس سے باز نہیں آرہا ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کے بیان میں کہا گیا ہے کہ پوری دنیا کے ماہرین کو امریکی ہتھیاروں کے استعمال اور اسرائیل کی طرف سے لوگوں کے غیر قانونی قتل کے بارے میں کافی ثبوت ملے ہیں۔

اوبرائن نے وائٹ ہاؤس کو غزہ جنگ کے بارے میں اپنائی گئی پالیسیوں کے بارے میں خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسرائیل کو امریکی ہتھیاروں کی منتقلی کی وجہ سے امریکہ بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی میں ملوث ہو رہا ہے۔ امریکی ہتھیاروں سے غزہ میں مظلوموں کے قتل عام میں اضافہ کی وجہ سے یہ مطالبہ زور پکڑ رہا ہے کہ امریکہ صیہونی حکومت کو ہتھیاروں کی فروخت بند کردے۔ اس سلسلے میں مئی 2024ء کے اوائل میں امریکی کانگریس کے 88 ڈیموکریٹ نمائندوں نے امریکی صدر جو بائیڈن کو لکھے گئے خط میں اسرائیل کو جارحانہ ہتھیاروں کی فروخت پر پابندی لگانے کا مطالبہ کیا تھا۔ امریکی کانگریس کے نمائندوں کے خط میں بائیڈن کو مخاطب کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ: اسرائیل نے غزہ میں انسانی امداد بھیجنے کے راستے پر جو پابندیاں عائد کی ہیں، وہ ایک بے مثال انسانی تباہی کا باعث بنی ہیں، ان نمائندوں نے اپنے خط میں اس بات پر زور دیا ہے کہ وہ یقین رکھتے ہیں کہ غزہ میں انسانی امداد بھیجنے  کے حوالے سے صیہونی حکومت کی پابندیاں امریکی قانون کی خلاف ورزی ہے۔

مزے کی بات یہ ہے کہ امریکی کانگریس کے ان 88 نمائندوں کے ساتھ سینیٹر "کرس وان ہولن" اور امریکی سینیٹ کے متعدد اراکین بھی اسی موقف پر قائم ہیں۔ وان ہولن کا کہنا تھا کہ ہم امریکی حکومت کو اس وقت تک اسرائیل کو مزید جارحانہ ہتھیار بھیجنے سے روکنے کی کوشش کرتے رہیں گے، جب تک کہ اسرائیلی وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو امریکی خدشات کو دور کرنے کے لیے اپنی پالیسیوں میں تبدیلی نہیں کرتے۔ اس سے قبل امریکی کانگریس کے 40 ارکان نے، جن میں ایوان نمائندگان کی سابق اسپیکر نینسی پیلوسی بھی شامل ہیں، انہوں نے بائیڈن کو ایک خط میں صیہونی حکومت کو ہتھیاروں کی فروخت روکنے اور اس حکومت کے لیے واشنگٹن کی امداد کو مشروط کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔

ایک آزاد ورکنگ گروپ، جس میں امریکی محکمہ خارجہ کے سابق افسران اور بین الاقوامی قانون کے ماہرین شامل ہیں، انہوں نے مئی 2024ء کے وسط میں اعلان کیا تھا کہ غزہ کے لوگ امریکی گولہ بارود سے شہید ہوئے ہیں۔ گروپ کے مطابق، تقریباً 35,000 فلسطینی ہلاک ہوچکے ہیں، جن میں 14,000 بچے بھی شامل ہیں، جن میں زیادہ تر امریکی گولہ باری سے مارے گئے۔ ان درخواستوں کے باوجود بائیڈن حکومت اب بھی صیہونی حکومت کی ہمہ گیر حمایت پر مبنی اپنی موجودہ پالیسی کو جاری رکھنے پر اصرار کرتی ہے۔ اس حکومت کی جانب سے غزہ جنگ میں جنگ بندی کے لیے امریکہ کی درخواست سمیت عالمی برادری کے مطالبات کو ماننے سے انکار کے باوجود، بائیڈن حکومت اور اعلیٰ امریکی حکام نے تل ابیب کو صرف غیر موثر وارننگیں جاری کیں اور اس کے خلاف سیاسی اور مالی دباؤ یا کسی طرح کی طاقت کا استعمال نہیں کیا۔

امریکہ اسرائیل کو غزہ میں جنگ روکنے کے لیے مجبور نہیں کر رہا۔ حالانکہ امریکہ میں غزہ جنگ کے حوالے سے بائیڈن حکومت کی پالیسی اور نقطہ نظر پر اعتراضات عام معاشرے سے لے کر حکمرانی کی سطح تک شامل ہیں۔ غزہ کے عوام کی حمایت اور صیہونی حکومت کی ہمہ گیر حمایت میں بائیڈن حکومت کی پالیسیوں کے خلاف مظاہروں سمیت امریکی یونیورسٹیوں میں طلباء کے مختلف طبقوں کی طرف سے غیر معمولی اضافہ ہوا ہے۔ غزہ کے عوام کے خلاف اسرائیل کی جنگ کے خلاف مظاہروں کے آغاز کے بعد "غزہ کے ساتھ یکجہتی کی تحریک" کے نام سے ایک ملک گیر تحریک کولمبیا یونیورسٹی، نیویارک سے شروع ہوئی ہے اور یہ تحریک نہ صرف امریکی یونیورسٹیوں میں بلکہ یورپی ممالک کی مختلف یونیورسٹیوں میں بھی جاری ہے۔
خبر کا کوڈ : 1149969
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش