0
Sunday 7 Jul 2024 00:30

مسئلہ فلسطین کا حل اولین ترجیح

مسئلہ فلسطین کا حل اولین ترجیح
انٹرویو: معصومہ فروزان

عراق کے تجزیہ نگار اور سیاسی محقق "معید العلی" نے ایران میں صدارتی انتخابات کے عمل اور دو مختلف دھڑوں سے دو امیدواروں کے مقابلے اور ان دونوں امیدواروں کے درمیان ہونے والی بحث اور ڈیبیٹ کے بارے میں کہا ہے کہ جناب "مسعود پزشکیان" اور "سعید جلیلی" کے درمیان مباحثے بہت اچھے تھے، اس میں اعتبار اور معروضیت بھی واضح تھی اور اس میں دیانت بھی نظر آتی تھی، یعنی ہر امیدوار نے مختلف مسائل پر اپنے خیالات کا کھل کر اظہار کیا۔

انہوں نے مزید کہا: ان دو امیدواروں کے درمیان ہونے والے مباحثوں میں، جو اصول پرستوں اور اصلاح پسندوں کے دو دھاروں سے تھے، ہم نے دیکھا کہ انہوں نے اقتصاد، سلامتی، ملکی اور خارجہ پالیسی سمیت تمام مسائل پر گفتگو کی اور زیادہ اہم مسئلہ یہ ہے کہ برادرانہ ماحول میں یہ مباحثے انجام پائے۔ ان مباحثوں میں ایسا ماحول بنا کہ ہم نے دیکھا کہ جناب جلیلی اور ڈاکٹر پزشکیان کے درمیان ہونے والی آخری بحث میں دونوں امیدواروں نے ایک دوسرے کو گلے لگایا اور ہم نے دونوں امیدواروں کے درمیان برادرانہ جذبہ دیکھا اور یہ اس کے برعکس ہے، جو امریکہ میں ٹرمپ اور بائیڈن کے درمیان مباحثے  میں ہوا۔

یہ اس وقت ہوا، جب امریکہ جمہوریت کا دعویدار ہے اور اپنے آپ کو دنیا اور امریکہ میں آزادیوں اور جمہوریت کا محافظ ہونے کا دعویٰ کرتا ہے، لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ اس کے دو صدارتی امیدواروں کے درمیان، جو اس ملک کے بہترین امیدواروں میں سے ہیں، کس طرح ظاہر ہوا۔ ان کا یہ اقدام ان کی  سیاست کی پست سطح کو واضح کرتا ہے۔ اس طرح سے ہم کہہ سکتے ہیں کہ اسلامی جمہوریہ ایران کی صدارت کے لیے دونوں امیدواروں کے درمیان مباحثے بہت اچھے طریقے سے منعقد ہوئے، جس نے ان کی شخصیت اور نظریات کی گہرائی کو ظاہر کیا۔

دونوں امیدواروں کے درمیان بعض اختلافات کی موجودگی کو دیکھتے ہوئے انہوں نے جس انداز سے ان معاملات کو اٹھایا، وہ  بہت واضح اور شفاف تھے اور دونوں نے جس ایمانداری سے کام لیا، اس نے ایران میں ووٹ ڈالنے کے اہل لوگوں کو انتخابات میں حصہ لینے کی ترغیب دی  اور انہوں نے اپنے ہم خیال امیدوار کو ووٹ بھی دیا۔ انہوں نے اس کو ووٹ دیا، جو ان کے خیال میں ان کی آواز کی عکاسی کرے گا یا ان کو ساتھ لیکر چل سکتا ہے۔ یہ بحثیں سیاسی انتظامیہ کے مثبت پہلو کو ظاہر کرتی ہیں اور جمہوریت اور طاقت کے تبادلے کو سفارت کاری کے فریم ورک اور اسلامی جمہوریہ ایران کے انتخابات کے فریم ورک میں نافذ کرتی نظر آتی ہیں۔

اس بارے میں کہ امیدواروں نے مسئلہ فلسطین پر کیوں توجہ دی اور یہ ان کے لیے کیوں اہم تھا، عراق کے سیاسی امور کے ماہر نے کہا: میرا یقین ہے کہ مسئلہ فلسطین اسلامی جمہوریہ ایران اور اسلامی انقلاب کی ترجیحات میں سے ہے۔ وہ انقلاب جو 1979ء میں امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی قیادت میں برپا ہوا، اس نے اپنے نعروں کو عملی جامہ پہنایا۔ انہوں نے مزید کہا: مسئلہ فلسطین اسلامی جمہوریہ ایران کا بنیادی اور اہم محور ہے۔ اس کے باوجود کہ اس انقلاب کو شروع ہی سے سلامتی، اقتصادی اور سیاسی مسائل اور مصائب و چیلنجز کا سامنا تھا اور اسے ایم کے او یعنی منافقین جیسے ملکی دہشت گرد گروہوں کا سامنا تھا، لیکن ان تمام مسائل کے باوجود نیز بیرونی اور اندرونی دونوں طرح کے مسائل کے باوجود اس انقلاب نے مسئلہ فلسطین کو اپنا نصب العین بنایا۔

فلسطینی مزاحمت کے لیے اسلامی جمہوریہ ایران کی شاندار حمایت کا آج ہم فلسطین کی صورتحال اور صیہونی حکومت کے خلاف مزاحمت کی صورت میں مشاہدہ کر رہے ہیں۔ اسلامی انقلاب نے ہی اس مزاحمت کو مسلح مزاحمت میں تبدیل کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ "معید العلی" نے اس جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ آج یہ فلسطینی مزاحمت ہی تھی، جس نے حملہ کرکے طوفان الاقصیٰ آپریشن شروع کیا اور ایسے نتائج حاصل کیے، جو صیہونی حکومت کی فوج کی دہشت کے خاتمے کا باعث بنے۔ اب جبکہ اس مسئلے کو نو ماہ گزر چکے ہیں، فلسطینی مزاحمت بھرپور دفاع کر رہی ہے۔

اس کی یہ تمام فتوحات اور مزاحمتی و دفاعی کارروائیاں اسلامی جمہوریہ ایران کی مسلسل حمایت کا نتیجہ ہیں۔ ایران میں ہر وہ شخص جو اقتدار یا عہدہ کے لیے آگے بڑھتا ہے، خواہ وہ بنیاد پرست ہو یا اصلاح پسند، مسئلہ فلسطین کا حل اس کی ترجیح ہوتا ہے۔ کیونکہ مسئلہ فلسطین اسلامی انقلاب کی بنیادوں میں سے ایک ہے اور ایرانی عوام کی ایک بڑی تعداد کا یہ پختہ عقیدہ بھی ہے کہ مسئلہ فلسطین حل ہو۔ اس تناظر میں کسی ایسے شخص کا ایران کی صدارت میں آنا منطقی اور معقول نہیں ہے، جو مسئلہ فلسطین کے بارے میں انقلاب کے نظریئے، عقیدے اور نقطہ نظر کی مخالفت کرتا ہو، کیونکہ یہ ایک انسانی، اخلاقی اور مذہبی مسئلہ بھی ہے۔
خبر کا کوڈ : 1146396
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش