رپورٹ: جاوید عباس رضوی
بھارت کے اپوزیشن اتحاد ’انڈین نیشنل ڈیولپمنٹ انکلوسیو الائنس‘ یعنی ’’انڈیا‘‘ کے ممبئی میں ہونے والے تیسرے اجلاس نے ملک کے سیاسی مستقبل کے حوالے سے بحث کی کئی نئی جہتیں کھول دی ہیں۔ 26 اپوزیشن جماعتوں کے لیڈران 2024ء میں پارلیمانی انتخابات سے قبل اتحاد کے لوگو سے لے کرکنوینر اور کمیٹیوں کے ناموں کے انتخاب تک کئی اہم مسائل پر بات چیت کے لئے ممبئی میں جمع ہوئے تھے۔ میٹنگ کا اختتام اس قرارداد کے ساتھ ہوا کہ جہاں تک ممکن ہو، آئندہ پارلیمانی انتخابات مل کر لڑے جائیں۔ نیز مستقبل میں یہ قرارداد جتنی درست ہوگی اتنی ہی ملکی سیاست میں نئی جان ڈالے گی۔ اجلاس کا جب آغاز ہوا تو ملک کے سیاسی میدان میں بڑا تجسس تھا کہ یہ اتحاد اپنے 70 دنوں میں ملکی سیاست کو کیا تبدیلی لانے والا ہے۔ سب سے زیادہ دلچسپی نشستوں کی تقسیم کا مسئلہ تھا، کیونکہ یہ وہ موضوع ہے جس پر اتحاد میں شامل جماعتوں کے درمیان تصادم کا سب سے زیادہ امکان ہے۔
اجلاس میں کوئی حتمی فیصلہ نہیں کیا گیا تاہم یہ دعویٰ ضرور کیا گیا ہے کہ اس کا عمل جلد شروع کر دیا جائے گا اور اسے باہمی ربط و تعاون کے جذبے سے جلد مکمل کیا جائے گا۔ فی الحال اس کی آخری تاریخ 30 ستمبر مقرر کی گئی ہے۔ اگرچہ ایسا ہوجائے گا، اس پر شک ہے۔ اس میں خاص طور پر کانگریس کا رول فیصلہ کن ہوگا۔ پانچ ریاستوں میں ہونے والے اسمبلی انتخابات کی وجہ سے کانگریس اس معاملہ میں کسی قسم کی جلد بازی نہیں دکھانا پسند کرے گی۔ کانگریس کے نقطہ نظر سے یہ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ان انتخابات کے نتائج آنے تک سیٹوں کا فیصلہ موخر کر دیا جائے کیونکہ اگر انتخابی نتائج اس کے حق میں آتے ہیں تو ڈویژن میں اس کا مزید سیٹوں کا دعویٰ بھی ہوجائے گا۔ مضبوط اور دوسرے اتحادیوں کو اس سے سوال کرنے کا موقع بھی نہیں ملے گا۔ تو اس لحاظ سے سیٹوں کی تقسیم کا معاملہ نومبر دسمبر تک ملتوی کیا جا سکتا ہے۔
تاہم اس کے لئے 14 ارکان پر مشتمل رابطہ کمیٹی تشکیل دی گئی ہے جو اتحاد کا کم سے کم مشترکہ پروگرام بنانے پر بھی کام کرے گی۔ اس رابطہ کمیٹی کے علاوہ اتحاد کی مہمات اور ریلیوں کی منصوبہ بندی، سوشل میڈیا کو سنبھالنے اور ڈیٹا کے انتظام کے لئے مزید چار کمیٹیاں بھی تشکیل دی گئی ہیں۔ رابطہ کمیٹی میں سینئر لیڈر کو کنوینر بنانے پر بھی بات ہوئی تاہم اس پر کوئی فیصلہ نہ ہوسکا۔ کنوینر کے لئے نتیش کمار اور ملکارجن کھرگے کے ناموں پر غور کیا جا رہا تھا، لیکن ایک ہی کنوینر ہو سکتا ہے اور اس کو لے کر کوئی تنازع نہیں ہونا چاہیئے، اس لئے اس پر کوئی حتمی فیصلہ فی الحال ملتوی کر دیا گیا ہے۔ دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ شرد پوار بھی این سی پی سے اس کمیٹی میں شامل ہیں۔ تو شاید مسئلہ یہ ہوگا کہ شرد پوار نتیش کمار یا ملکارجن کھرگے کی قیادت میں کام کرنے میں کتنے مطمئن ہوں گے۔
انڈیا اتحاد کے لئے اچھی بات یہ ہے کہ بھارت کے اہم ترین حزب اختلاف کے لیڈر شرد پوار نے اتحاد کے پیچھے اپنی پوری طاقت جھونک دی ہے اوراس مخمصے کو ختم کر دیا ہے جس کا وہ پچھلے کچھ دنوں سے اپنے سیاسی مستقبل کے حوالے سے سامنا کر رہے تھے۔ ایسے میں اتحاد میں شامل لیڈران بھی کسی بھی طرح شرد پوار کو ناراض کرکے دوبارہ اسی مخمصے میں پڑنے کی صورتحال پیدا نہیں کرنا چاہیں گے۔ شرد پوار کوئی عام لیڈر نہیں ہیں، وہ اس دسمبر میں 83 سال کے ہو جائیں گے اور وہ واحد لیڈر ہیں جو پارلیمانی سیٹوں کے لحاظ سے اتر پردیش کے بعد دوسری سب سے بڑی ریاست مہاراشٹر سے تعلق رکھتے ہیں۔ دیگر پارٹیوں کے ساتھ کانگریس بھی شرد پوار کی اس طاقت کا احترام کرتی ہے۔ شرد پوار کی تنقید کو پارٹی کی نو تشکیل شدہ کمٹی میں پرتھوی راج چوان جیسے مضبوط لیڈر کو جگہ نہ ملنے کی وجہ بھی سمجھا جا رہا ہے۔ ممبئی اجلاس میں اپوزیشن اتحاد نے اپنے نعرے کو ضرور حتمی شکل دے دی ہے۔ ’جڑے گا بھارت، جیتے گا انڈیا‘ کے اس نعرے میں بھارت اور انڈیا دونوں کو شامل کیا گیا ہے۔ ممبئی میں ہونے والی میٹنگ کے درمیان دو اور پارٹیاں اس اتحاد میں شامل ہوگئی ہیں اور اطلاعات ہیں کہ کم از کم نو پارٹیاں ابھی بھی قطار میں ہیں۔
نئے اتحاد میں بھی کانگریس کو کافی توجہ مل رہی ہے لیکن اگر دیکھا جائے تو کانگریس کو اتحاد میں رہنے کا کوئی سیدھا فائدہ ملتا نظر نہیں آرہا ہے۔ بی جے پی سے جن 190 سیٹوں پر اس کا سیدھے آمنے سامنے کا مقابلہ ہے وہاں 2019ء میں تیسری پارٹی کو کل پولنگ ووٹوں کا صرف چار فیصد ہی ووٹ حاصل ہوا تھا، جب کہ ان سیٹوں پر بی جے پی کی برتری تقریباً 15 فیصد تھی۔ یعنی اگر ان سیٹوں پر کوئی تیسری پارٹی نہیں بھی رہے تب بھی کانگریس کو کافی محنت کرنی پڑے گی۔ اس کے برعکس 185 سیٹوں پر جہاں بی جے پی علاقائی جماعتوں سے مقابلہ کر رہی تھی، وہاں بی جے پی سات فیصد سے آگے تھی۔ غور طلب ہے کہ اوسطاً تیسری پارٹی کو ان سیٹوں پر صرف سات فیصد ہی ووٹ ملے تھے اور ان میں سے 88 سیٹوں پر یہ تیسری پارٹی کانگریس تھی۔ یعنی کانگریس اپنے نیشنل رول کے ساتھ ساتھ اپنے ووٹوں کو اپوزیشن کے مشترکہ امیدوار کے حق میں منتقل کر کے اتحاد کی جیت میں بڑا رول ادا کر سکتی ہے۔ اب ایسے میں اتحاد کی کوششوں اور مودی حکومت کے اس سیاسی اقدام سے ملک کا سیاسی ماحول کافی دلچسپ ہوگیا ہے اور اگر یہ اتحاد انتخابات تک جاری رہا تو 2024ء کا سیاسی معرکہ یقیناً پہلے سے زیادہ دلچسپ ہوگا۔
ادھر بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت پر سخت تنقید کرتے ہوئے شیو سینا کے صدر ادھو ٹھاکرے نے اپنے ایک حالیہ مضمون میں کہا ہے کہ بی جے پی حال ہی میں قومی اپوزیشن جماعتوں کے اجلاس کی کامیابی سے ہل گیا ہے۔ ادھو ٹھاکرے نے زبردست تالیوں کے درمیان گرج کر کہا کہ وہ ’انڈیا‘ بلاک سے اتنے پریشان ہیں کہ انہوں نے ملک کا نام بدل کر بھارت رکھ دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نام بدلنے کے اس کھیل میں شامل نہیں ہوں گے، ہم اگلے پارلیمانی انتخابات میں حکمران جماعت اور ملک کے وزیر اعظم کو بدل دیں گے۔ 2024ء کے انتخابات میں بی جے پی اقتدار میں واپس نہیں آئے گی۔ انہوں نے کہا کہ ہم اگلے پارلیمانی انتخابات میں حکمران جماعت اور ملک کے وزیر اعظم کو بدل دیں گے۔ انہوں نے کہا کہ 2024ء کے انتخابات میں بی جے پی اقتدار میں واپس نہیں آئے گی۔ ایک بڑی عوامی ریلی سے خطاب کرتے ہوئے شیو سینا کے صدر نے کہا کہ ’انڈیا، بھارت یا ہندوستان‘ سبھی ہمارے نام ہیں اور ہم جو چاہیں استعمال کریں گے اور کوئی بھی اسے ہم پر مسلط نہیں کر سکتا ہے۔
شیوسینا کے صدر نے مزید کہا کہ 2024ء کے بعد ’مدر آف ڈیموکریسی‘ میں تبدیلی آئے گی اور بھارت کو نیا وزیراعظم ملے گا، جس کی جمہوریت سے محبت دکھاوے اور اقتدار کا مطلب کاروبار نہیں ہوگا۔ اھو ٹھاکرے نے بی جے پی پر حملہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ اقتدار پر قبضہ کرنے، سیاسی پارٹیوں کو توڑنے، سمیت دیگر جماعتوں کے لیڈروں کو پکڑنے کے لئے کسی بھی حد تک جائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ہم ملک کا نام نہیں بدلیں گے بلکہ وزیر اعظم بدلیں گے۔ درایں اثنا انڈین نیشنل کانگریس صدر ملکارجن کھڑگے نے مہنگائی، بے روزگاری اور بدعنوانی کے ایشو پر مودی حکومت پر شدید حملہ کیا ہے۔ کانگریس صدر نے پیر کے روز سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر لکھے اپنے پوسٹ میں کہا کہ مودی سچائی پر پردہ ڈالنے کی پرزور کوشش کر رہے ہیں، لیکن عوام مودی حکومت کے دھیان بھٹکانے والے ایشوز کی جگہ سچ سننا اور دیکھنا چاہتی ہے۔ انڈین نیشنل کانگریس کے صدر نے بدعنوانی کو لے کر بھی مودی حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ مودی حکومت کی بدتر حکمرانی میں بدعنوانی کا سیلاب آ گیا ہے، جس اب روکنا ہی ہوگا۔