اسلام ٹائمز۔ گروپ ایڈیٹر ایکسپریس ایاز خان کا کہنا ہے کہ مجھے تو یہ ڈیولپمنٹ لگ رہی ہے، حکومتی حلقے کسی حد تک پریشان بھی ہیں، اگر اس کو فیک نیوز نہ قرار دیا جائے، پیکا قانون مجھ پہ نہ لگے، اس کی وجہ یہ ہے کہ اس طرح کی چیزیں سمپل ہے کہ بلاوجہ نہیں ہوا کرتیں کہ اچانک آپ کو خیال آیا کہ آپ بہت تنقید کر رہے تھے، آپ نے کہا کہ نہیں چلو ایک خط لکھ کر دیکھ لیتے ہیں۔ ایکسپریس نیوز کے پروگرام ایکسپرٹس میں گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ یہ ایک سابق وزیراعظم کی طرف سے آرمی چیف کو لکھا گیا خط ہے، یہ یقیناً کچھ سوچ کر لکھا ہوگا یا انھیں کوئی مشورہ اس طرح کا دیا گیا ہوگا۔
تجزیہ کار فیصل حسین نے کہا کہ عمران خان کی یہ ایک مثبت سیاسی حکمت عملی ہے۔ انھوں نے خط لکھا ہے، خط لکھ کر انھوں نے ایک ٹینشن تناؤ اور کشیدگی ہے، اس کو کم کرنے کی کوشش کی ہے۔ اگر وہاں سے خط کا جواب بھی مثبت آتا ہے تو یہ اور بھی اچھی بات ہوگی، تناؤ ختم ہونے کا ایک راستہ نکلے گا۔ تجزیہ کار نوید حسین نے کہا کہ پاکستان کا مستقبل سیاسی مفاہمت میں ہے، لیکن یہاں پر ایشو یہ ہے کہ پی ٹی آئی جب بھی کوشش کرتی ہے کہ وہ ریچ آؤٹ کرے، طاقت اور اختیار کے حلقوں کی طرف تو عجیب سا خوف گورنمنٹ میں پھیل جاتا ہے اور میڈیا کے ذریعے وہ دوبارہ سے وہی بیانیہ لایا جاتا ہے۔
تجزیہ کار عامر الیاس رانا نے کہا کہ خط ڈپلومیسی ہو رہی ہے، اب ان خطوط کے خط بھی لگ چکے ہیں، کئی کے جواب آچکے ہیں اور برسرعام آچکے ہیں۔ کچھ دن پہلے عمران خان نے چیف جسٹس کو بھی خط لکھا تھا، اب انہوں نے آرمی چیف کو خط لکھ دیا ہے، وہ روزانہ ہی خط آرمی چیف کو دیتے ہیں، کبھی کوئی نام لیکر، کبھی کوئی نام لیکر، اب ریٹن بھی لکھ دیا۔ تجزیہ کار محمد الیاس نے کہا خط سے واضح ہوتا ہے کہ کوئی پیش رفت ہونے والی ہے یا بانی پی ٹی آئی کی طرف سے اپنے رابطے بڑھانے کے لیے اس طرح کے اقدامات کیے گئے ہیں، یہ ظاہر ہے، ایک اچھی بات ہے، اس طرح ہر پاکستانی کی سوچ ہونی چاہیئے کہ ملک کو استحکام دینے کیلیے کام کرنا چاہیئے بلکہ یہ ان کی طرف سے ایک میسج دیا گیا ہے، ان کے کارکنوں کو نہ صرف پاکستان بلکہ باہر بھی کہ پاکستان کیلیے اپنا رویہ سافٹ کریں۔