اسلام ٹائمز۔ شیعہ علماء کونسل پاکستان کے سربراہ علامہ سید ساجد علی نقوی کا کہنا ہے کہ خاتم النبین، رحمت اللعالمین، سرور کائنات (ص) اتحاد و وحدت کا مرکز و محور ہیں اور قرآن حکیم کے ساتھ ساتھ رسول اکرمؐ نے اپنی سیرت، سنت اور احادیث کی شکل میں ایسا خزانہ امت مسلمہ کے لئے چھوڑا کہ جو عالم انسانیت کی مکمل رہنمائی کررہا ہے اور انسانیت کو ہر میدان میں عمل کا بہترین طریقہ اور بہترین سلیقہ سکھا رہا ہے، اگر امت مسلمہ بالخصوص اور عالم انسانیت بالعموم حضوراکرمؐ کی سیرت، سنت اور فرامین پر عمل کرے تو خطہ ارض سے تمام مشکلات کا خاتمہ ہوسکتا ہے، امت مسلمہ کی نجات کے لئے وصال نبویؐ کے بعد اہل بیت اطہارؑ نے امت کی تمام معاملات میں بہترین رہنمائی کی، عالم انسانیت کے انفرادی، اجتماعی مسائل کا حل اہل بیتؑ نے اپنے عمل و کردار سے پیش کیا اور خاتم النبینؐ کے بعد جانشین کے طور پر فرائص انجام دیئے۔
28 صفر المظفر خاتم المرسلینؐ کے یوم وصال اور فرزند رسول اکرم حضرت امام حسنؑ کے یوم شہادت کے موقع پر اپنے پیغام میں علامہ ساجد نقوی نے کہا کہ اگر ہم خواہشمند ہیں کہ سیرت رسول اکرمؐ کا عملی مشاہدہ کریں اور سنت نبویؐ کی عملی تعبیر و تشریح دیکھیں تو ہمیں سیرت امام حسنؑ کا گہرا مطالعہ کرنا ہوگا کیونکہ نبی اکرمؐ نے حضرت علیؑ اور سیدہ فاطمہ زہراؑ کے بعد حضرت امام حسنؑ کی تربیت اس نہج پر کی کہ حضرت امام حسنؑ ہر مرحلے، ہر میدان، ہر موڑ اور ہر انداز میں شبیہ پیغمبرؐ نظر آئے۔ علامہ ساجد نقوی نے کہا کہ رسول خداؐ نے حضرت امام حسنؑ کی شان و منزلت اور سخاوت و مرتبت کی نشاندہی فرما دی تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ جب حضرت امام حسنؑ کے دور میں فتنہ و فساد نے سر اٹھایا تو امام حسنؑ نے اپنے جد امجدؐ کی سیرت پر عمل کرتے ہوئے امن و آشتی کا قیام کیا اور اصولوں کی نگہبانی کی، اہل بیت اطہارؑ دین اسلام کی نگہبانی کا فریضہ ادا کرنا جانتے ہیں اور کسی صورت بھی اسلام کے حصے بخرے ہونا گوارہ نہیں کرتے۔ علامہ ساجد نقوی نے کہا کہ موجودہ پرفتن دور اور سنگین حالات میں ہمیں فروعی و جزوی اختلافات کو پس پشت ڈال کر سینکڑوں مشترکات کو سامنے رکھتے ہوئے پیغمبر اکرمؐ اور خاندان رسالتؐ کے اسوہ پر عمل پیرا ہوکر امن، محبت، رواداری، تحمل اور برداشت کا راستہ اختیار کرنا ہوگا اور علم و حلم، عقل و شعور، تدبر و تحمل اور اخوت و یگانگت کی راہ پر چل کر خداوند تعالیٰ اور خاتم الانبیاء کی خوشنودی حاصل کرنا ہوگی، صرف اسی صورت میں دنیوی و اخروی نجات ممکن ہے۔